دُنیا کےمکرودغا
–نظیرؔاکبرآبادی
Duniya ke Makr wo Dagha By Nazeer Akbarabadi
کیا کیا فریب کہیے دُنیا کی فطرتوں کا
مکرو دغا و دُرزدی
،ہے کام اکثروں کا
جب دو ست مل کے لوٹیں
اسباب مشفقوں کا
پھر کس زباں
سےشکوہ اب کیجئےدشمنوں کا
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
گر دِن کو ہے
اُچکّا ،تو چور رات میں ہے
نٹ کھٹ کی کچھ نہ پو چھو ،ہر بات بات میں ہے
اِس کی بغل میں گُپتی
،تبیع اس کے ہاتھ میں ہے
وہ اِس کی فکر میں
ہے، یہ اُس کی گھات میں ہے
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
عیّار اور چھچھورا
،نِت اپنے کارمیں ہے
اور صبح خیز یا
بھی اپنی
بہار میں ہے
قزّاق جس کا مکاں
پر فکرِ
سوار میں ہے
پیا دہ غریب
اُس جا پھر کس شمار میں ہے
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
اِ س راہ میں جو
آیااَسوار ،گَہ کے گھوڑا
ٹھگ سے بچا ،تو آگے
قزّاق نے نہ چھوڑا
سو یاسرا میں
جاکے ،تو چور نے جھنجھوڑا
تیغار ہانہ بھالا ،گھوڑا رہانہ کوڑا
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
نادان کو پلا کر
اک بھنگ کا پیا لا
کپڑے بغل میں مارے ،اور لے لیا دو شالا
دا نا ملا، تواُس
میں گھو لا دھتورا کالا
ہو تے ہی
غا فل ،اُس کو پھا نسی
میں کھینچ ڈالا
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
پیسے ،رو پے ،اشر فی یاسیم ،زر کا پترا
بھر جیب گھر میں لادے ، ہے کون ایسا چَترا
میدان،
چوک،کھاٹی،یہ فن ہے وہ دھنترا
کترے ہے جیب ،چڑھ کر
ہا تھی پہ، جیب کترا
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
چڑیا نےدیکھ غا فل
،کیڑااُدھر گھسیٹا
کوّے نے وقت
پاکر ،چڑیاکا گھر گھسیٹا
چیلوں نے مار پنجے،کوّے کا سر گھسیٹا
جوجس کےہاتھ
آیا ،وہ اُس نےدھر گھسیٹا
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
صیّاد چا ہتا ہے،ہو
صید کا گزارا
اور صید چاہے ،دانا
کھا کر ، کرے کنارا
قا بو چڑھا، تو اُس کا دانہ وہ کھا ،سدھارا
اور کچھ بھی چال
چوکا ،تو ووہیں جال مارا
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
نکلا ہے شیر گھر سے
گیڈر کا گو شت کھانے
گیڈر کی دُھن ،لگاوے
خود شیر کو ٹھکانے
کیا کیا کرے ہیں با
ہم مکر و دغا ،بہانے
یاں وہ بچا نظیرؔ اب، جس کو رکھا خدانے
ہشیاریارِ جانی
،یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ
چو کی، اور مال دو ستوں
کا
0 Comments