دُنیا کےعیش
وعشرت-نظیرؔاکبرآبادی
Duniya ki Ayesh wo Ishrat by Nazeer Akbarabadi
کہا یہ دل نے
مجھے ،دیکھ کر شبِ مہتاب
کہ میں ہوں اِس
شبِ مہتاب میں بہت بے تاب
جو آج کچھ بھی
مرے پاس سیم وزر ہو تا
تو کیا ہی عیش کے کرتا
میں اِس گھڑی اسباب
بلاکے مطرب ور
قّا ص چند بادلہ
پوش
بچھا کے فرشِ مکّلف
،سفید،آئنہ تاب
جو چیزیں بزمِ طرب کی
ہیں ،سب مہیّا کر
خو شی سے
بیٹھتا محفل میں جو ں گُلِ شاداب
اِدھر سُرور
دکھاتی بہارِ رقص و سرود
اُدھر سے عیش بڑھا
تے صداے چنگ ورباب
بر ستے عیش و نشاط اس طرح سے کرکے ہجوم
کہ جیسے برسے
ہےجھڑ باندھ باندھ جوشِ سخاب
یہ سن کے ، میں نے
کہا دل کو، ایسی محفل تو
پچاس ،ساٹھ رو پے میں
بھی ہوسکے ہے شتاب
کچھ ایسی بات نہیں ،یہ تو ہے ابھی
موجود
پر،ایک بات میں پو چھوں ،جو اُس کادے تو جواب
ہو ئے ہیں وہ
جو جم و کیقبا دو کیکا ؤس
کب اُ ن کی دولت وحشمت کا ہو سکے ہے حساب
انھوں نے کھو کے کڑوڑوں رو پے ، یہ
دیکھی سیر
پھر آخر ش نہ وہ حشمت رہی ،نہ وہ اسباب
صراحی رہ گئی حسرت سے
خونِ دل پی کر
پیا لہ رہ گیا
حیرت سے کرکے چشم ،پُر آب
تو بس اِسی
میں تو عبرت پذیر ہو ا ے دل
کہ عیش و عشرتِ دنیا
،خیال ہےیا خواب
تو جِس کو زیست سمجھتاہے،وہ ہے شعلۂ خس
تو جس کو عیش ہےگنتا
،سووہ ہے نقش برآب
نہیں وہ چا ندنی
،ہو جس کے بعد تاریکی
نہیں وہ عیش کہ ہو جس کے بعد رنج و عذاب
ضیا ے نو رِ
عبادت سے اپنا خا نہ ٔ دل
کر ایسا جیسا کہ
ہے آفتابِ علم تاب
فروغِ طاعت و تقوا
کراس قدر پیدا
کہ جس سے تیری
شبِ گور ہو تجلّی یاب
0 Comments