Faqeeron ki sada By Nazeer Akbarabadi|فقیروں کی صدا-نظیرؔ اکبر آبادی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Faqeeron ki sada By Nazeer Akbarabadi|فقیروں کی صدا-نظیرؔ اکبر آبادی

 

فقیروں کی صدا-نظیرؔ اکبر آبادی
Faqeeron Ki Sada By Nazeer Akbarabadi

(بُخل کی بُرائیاں)

Faqeeron Ki Sada By Nazeer Akbarabadi

 

زر کی  جو محبّت تجھے پڑجاوے گی بابا !

دُکھ اِس میں  تری روح  بہت پا وے گی بابا !

ہر کھا نے کو، ہر پینے  کو تر سا وے گی بابا!

دولت جو ترے یاں ہی نہ کام آوے  گی بابا!

 

پھر کیا تجھے  اللہ سے ملوا دے گی بابا!

 

دو لت جو ترے پاس ہے، رکھ  یادتو یہ  بات

کھا تو بھی  ،اور اللہ کی کرراہ میں خیرات

دینے سے  رہے  اُس کے ،ترا اونچا سدا یات

اور یاں بھی تری گُزری  گی سو عیش  سے اوقات

 

اور واں بھی تجھے  سیر یہ  دکھلا وے گی بابا!

 

داتاکی تو مشکل کوئی اٹکی نہیں رہتی

چڑھتی ہے پہاڑوں کے اُپر نا و سخی کی

اور تونے بخیلی  سے اگر جمع اُسے کی

تو یاد یہ رکھ بات کہ جب  آوے گی سختی

 

خُشکی  میں تری ناویہ  ڈبُوا وے گی بابا!

 

دولت جو ترے گھر میں یہ  اب پُھو لے ہے جو ں پھول

مردود بھی یہ  کرتی  ہے، اور کرتی  ہے مقبول

جو چا ہے ترے  ساتھ چلے یاں  سے یہ مجہول

زنہار،خبر دار ہو، اِس بات  پہ مت بھول

 

یہ خندی تر ساتھ  نہیں جاوے گی بابا!

 

اس سے یہی  بہتر ہے تو ہی آپ اسے کھا جا

بیٹوں  کو، رفیقوں کو، عزیزوں کو کھلا جا

سب رو بہ  رو اپنے اسے عشرت میں اُڑاجا

پھر شوق سے ہنستا ہوا جنّت کو چلا جا

 

ورنہ تجھے  پھر دُکھ میں یہ ،پھنسوا وے گی بابا!

 

گر آوے  گا حکم کوئی ظا لم  تو مری جان

اور تیری سنے گا  وہ بخیلی کی سی گُزران

جب کھینچ بلاوے گا لگا کر کوئی طو فان

تو جی سے جسے  دوست سمجھتا ہے یہ ہر آن

 

یہ دوست ہی دشمن  تری  ہو جاوے گی بابا!

 

اور جو کبھی حاکم  نے نہ پو چھا  ترا احوال

تو چُور چُرا لیو ے  گا، یا ڈا کا کوئی  ڈال

گا ڑے گاز میں  بیچ ،تو پھر  ہووے گا یہ  حال

قسمت سے تری  جب  کبھی آجاوے  گی بھو نچال

 

پھر نتیجے ہی نتیجے یہ سرک جاوے گی بابا!

 

یہ تو نہ کسی  پاس رہی ہے،نہ رہے گی

جو اور  سے کرتی رہی ،وہ تجھ سے کرے گی

کچھ شک نہیں  اس میں ،جو بڑھی  ہے سو گھٹے گی

جب تک تو جیے  گا، یہ تجھے  چین نہ دے گی

 

اور مرتے  ہو ئے پھر یہ  غضب لاوے گی بابا!

 

جب موت کا ہو وے گا تجھے  آن کے  دھڑکا

اور نز ع تری ،آن کے دم دیوے  گی بھڑ کا

جب اُس میں  تو اَٹکے  گا،نہ دم نکلے گا پھڑکا

کُپّو ں میں  روپے ڈال  کے جب ،دیو یں  گے کھڑکا

 

تب تن  سے تری جان نکل جاوے گی  بابا !

 

تو لاکھ  اگر مال  کے صندوق بھرے گا

ہے یہ تو یقیں  آخر ش اک دن تو مرے گا

پھر بعد  ترے ،اُس پہ جو کوئی  ہاتھ  دھرے گا

وہ ناچ  مزہ دیکھے گا اور عیش کرے گا

 

اور روح  تری  قبر میں  گھبراوے گی بابا !

 

اُس کے تو وہاں  ڈھو لک و مرد نگ بجے گی

اور رُوح  تری قبر میں  حسر ت سے جلے گی

وہ کھا وے گا اور تیرے  تئیں  آگ لگے گی

تا حشر  تری  روح  کو پھر  کل نہ پڑے گی

 

ایسا ہی  تجھے  گُور  میں  تڑ پاوے  گی بابا!

 

جوں جوں  وہ ترے مال سے عشرت  میں  پلے گا

تو قبر میں رہ رہ کفِ افسوس ملے گا

جو چا ہے  کوئی  بولے ،تو پھر  بس نہ چلے گا

بے بس پڑا  قبر  میں، حسرت سے جلے گا

 

دن رات  تری چھا تی  کو کُٹواوے گی بابا !

 

جاوے گا تری گور کی جانب  جو وہ ناگاہ

سا قّی وصراحّی  وپری  زاد کے ہم راہ

رو نا مجھے آتا ہے ترے  حال پہ واللہ

جب دیکھے گا سو عیش  میں تو اُس  کے تئیں  آہ!

 

کیا کیا  تری  چھا تی پہ یہ لہراوے گی بابا !

 

گر ہوش  ہے تجھ میں ،تو بخیلی  کا نہ کر کام

اِس کا م کا آخر کو بُرا ہو تا  ہے انجام

تھو کے  گا کوئی کہ کے، کو ئی  دیوے گا دُشنام

زنہارنہ لے گا کوئی  اُٹھ  صبح  ترا نام

 

پیزا ریں ترے نام پہ لگوا وے  گی بابا!

 

کہتا  ہے نظیرؔ اب جو یہ باتیں تجھے  ہر آن

گرمرد ہے عا قل، تو اِسے جھو ٹ تو مت جان

ٹک غور سے کر  گنج  پہ قاروں  کے ذرا دھیان

جیسا ہی اُسے  اِس نےکیا  خوب پر یشان

 

ویسا ہی مزہ تجھ کو بھی دکھلا وے  گی بابا!

 

Post a Comment

0 Comments