Gadhi Mein Utarti Sham By Noorul Hasnain|گھڑ ھی میں اُ تر تی شام-نور الحسنین

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Gadhi Mein Utarti Sham By Noorul Hasnain|گھڑ ھی میں اُ تر تی شام-نور الحسنین


گھڑ ھی میں اُ تر تی شام-نور الحسنین
Gadhi Mein Utarti Sham By Noorul Hasnain
گھڑ ھی میں اُ تر تی شام-نور الحسنین

            کالے خان کا جواب سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔آج تک کبھی ایسا نہیں ہواتھا۔ اس نے ایک بار پھر کالے خان کی طرف دیکھا لیکن وہ اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا ۔اور اس کی انگلیاں نئے ٹر یکٹر کے اسٹرنگ سے کھیل رہی تھیں ۔وہ تیزی سے پلٹا ،لیکن اس کے قد موں کی رفتار بہت دھیمی تھی۔ جیسے اسے امید تھی کہ  کالے خان اسے پھر آواز دے گا۔

            وہ اسی طرح چلتا رہا، اور اس کے کانوں سے کوئی آواز ٹکرا ئی نہیں،اس کی آنکھوں کے سامنے لہلہا تی فصل تھی۔ اور وہ پگڈ نڈی پر دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہا تھا۔دور کھڑا بجو کا اسے منہ چڑھانے لگا۔ اس  نے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا یا اور چا ہتا تھا کہ اسے دے مارے تب ہی کسی نے کہا،" رحیمو………اسے مارنے سے پھائدہ……؟"

            اس کا ہاتھ رک گیا، اس نے حقارت سے بجو کا طرف دیکھا لیکن اس بار بجوکا وہاں نہیں تھا۔بلکہ اس کی جگہ وہ خود دانت اچکے کھڑا تھا۔

            "مارومارورک کیوں گئے؟ تم میں اور مجھ میں پھرک ہی کیا ہے؟ میں ایک جگہ کھڑا ہوں، اور تم چل پھر سکتے ہو۔یہی نا؟ مگر تمہا ری حیثیت کیا ہے۔؟ وہی بجو کا!"

            اور پھر اس کے کانوں میں گردان شروع ہو گئیبجوکا بجو کا بجوکا۔ بجوکاوہ بے تحا شہ بھا گنے لگا۔ آوازیں اس کا پیچھا کر نے لگیں۔ اس نے اپنی رفتار بڑھالی،آوازوں کا حصار اور تنگ ہو گیااور بھا گتا رہایہاں تک کہ سر جے راؤ کے کھیتوں میں داخل ہو گیا۔ دور بند ھارے کے نیچے ندی بہہ رہی تھی۔اور املی کے قد آوار پیڑ تلے فاطمہ خالہ آرام کررہی تھیںاس کا دل بے اختیار چاہا کہ اس کے پاس پہنچے اور ان کی کٹھڑی کو اٹھا کر ندی میں  پھینک دے۔ کیو نکہ وہ جب جب بھی اسے کھولتی ہیں پرانے قصّے ان کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں کیا کیا باندھ رکھا ہے اپنی گٹھڑی میں وہ ان کے پاس پہنچا اور چا ہتا تھا کہ جلدی سے وہاں سےت گذر جائے لیکن بوڑھی نے اسے دیکھ لیا، " رحیموارے چھوکرے کدھرسے آرہا ہے۔؟"

            وہ پلٹا اور بولا،" فاطمہ خالہ تمہاری گٹھڑی میں باندھنے جیسی کو ئی بات میرے پاس نہیں ہے!"

            بڑھیا نے برا سامنہ بنا یا اور گٹھڑی کو اپنی گو دمیں اٹھا لیا۔رحیموکے دماغ میں شرارت جاگی،اور اس نے بڑھیا کی گٹھڑی کو چھیننا چاہا دونوں میں چھیناچھپٹی شروع ہو گئی۔ بڑھیا اسے ڈانٹ بھی رہی تھی اور التجا بھی کر رہی تھیں کہ اسے چھوڑدےیہ کھل جائے گی تو سب کچھ بکھر جائے گالیکن وہ اسی طرح ستا تا رہا یہاں تک کہ اس میں سے ایک کارتو س نیچے گر پڑا۔اس نے گٹھڑی کو چھوڑ دیا۔اور کارتوس اٹھا لیا اور پوچھا " فاطمہ خالہ یہیہ کیاہے؟"

            "بندوق کی گولی ۔تیرے ما موں کریم الدین کی ہے۔"

            "کیا؟"اس کے کانوں میں تیتروں کی آواز یں گو نجنے لگیں کڑک ۔کا۔کاکا۔۔کڑککاکابڑے ماموں بندوقاس نے حیرت سے فاطمہ خالہ کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی ان کے پاس آلتی پا لتی مار کر بیٹھ گیا "خالہ یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟"

            "ہاںپہلے وہ اس طرح تیتر بیڑ کا دیوانہ نہیں تھابڑا شکاری تھا شیر کا شکاری تھاجب وہ کاندھے پر بندوق لٹکا کر گڑھی سے باہر نکلتا تھا، تو کسی کی مجال نہ ہوتی تھی اسے آنکھ اٹھا کر دیکھےبڑا با نکا جوان تھا تیرا ماموں!"

            بڑے ماموں کے بارے میں کہی جانے والی یہ باتیں اسے بہت اچھی لگ رہی تھیں،کیوں نکہ اسے توان کابس ایک ہی روپ معلوم تھا۔ وہ اور تیتر ان پرندوں کی خاطر انھوں نے سب سے نا طہ توڑلیاتھا۔اور لوگ انھیں محض اسی شوق کے با عث برا بھلا کہتے تھے۔

            "فا طمہ خالہ ۔میرے ما موں شیر کا شکار کر تے تھے ؟"

            " ارے وہ خود پہلے سچ مچ کا شیر تھا"بوڑھی کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو ئی لیکن جب اس نے رحیمو کو، شش پنج میں ڈو بتا ابھر تا دیکھا تو بولی ،" کیوں رےتجھے میری باتوں پر یقین نہیں آرہا ہے۔؟"

            رحیمو نے دیدے مٹکا ئے وہ پوری کو شش کے ساتھ یقین کی منزل تک پہنچتا، لیکن ٹھیک اسی وقت اس کے دماغ پر ما موں کا کوئی تیتر چونچ مارتا ،اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتیں ۔وہ یقین کر تا بھی تو کیسے۔؟ ساری زندگی  پیٹھ پر پھانچ (تیتروں کے  پکڑ نے کا جالا ) لادے ماموں کے ساتھ تیتروں کے شکار پر جانے والا رحیمو سخت تذ بذ ب کا شکار ہو گیا تھا۔

            "ارے ایک نہیںاس نے تو کئی شیر مارے تھے وہ زمانہ تیرے نانا کا تھا بہت بڑی کھیتی تھی،رو پیہ پیسہ تھا۔ کریم الدین نے جوا نی میں قدم رکھا تھا۔ ایک دن مچل گیا کہ بس بندوق دلا دوباپ نے سمجھا نا چا ہا تو وہ غصے سے بپھر گیا۔ گاؤں کے بڑے بڑے لوگ اسے سمجھا نے آئے ۔مگر وہ اپنی ضد پر آڑا رہا!"

            "میرا ماموں  ضدی بھی تھا۔؟"

            "ہاںبڑا ضدی تھا۔ گاؤں کے سر پنچ بدری سیٹھ اوپیند رراؤ و کیل اور نہ جانے کو ن کون اسے سمجھا نے آئے تھے!"

            "اتنے بڑے بڑے لوگ ہمارے گڑھی میں آتے تھے؟"اس کی آنکھیں پھر حیرت سے پھیل گئی۔فاطمہ خالہ کی زبان اسی طرح چل رہی تھی۔لیکن وہ وہاں پر ہوتے ہوئے بھی کہیں اور تھا۔

            بھیر وباکے مندر کے ایک طرف گھسڑی لوگ اترے تھے ۔ اور دوسری طرف پھا نس پار دیوں کی جوان عورتیں ننگ دھڑنگ نہانے دھونے میں مگن تھیں ۔پھٹے پرانے کپڑوں سے بنے ہوئے خیموں کے باہر چو لھے گرم تھے۔ بوڑھی عورتیں کھانا پکا رہی تھی ‘ان کے سامنے نو عمر بچے جر من کی رکا بیاں بجارہے تھے۔ دونوں قبیلوں کے درمیان بچی ہوئی زمین پر بڑے ما موں ، گھسڑی اور پھا نس پاردیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ پنجرے کھلے ہوئے تھے، اور تیتروں کے درمیان ز بردست لڑائی جاری تھی۔ پنجروں کے دوسرے حصوں میں قیدان کی مادائیں لڑ تے ہوئے تیتروں کی ڈھا رس بندھا رہی تھی کڑککا کا کاکڑککا کا کاکڑک کاکاکااور ان آوازوں میں کبھی کھبار بازیگروں کی آوازیں بھی ابھر جا تیں۔

            "واہ میاں شیرو!

            کڑک ۔کاکاکاکڑک کا کا کا۔

            "چھوڑنا مت پھٹے"

            کڑک کا کا کا۔کڑک کا کا کا۔

            "راجو پیچھو سے ہٹنے کا نہیں۔اور جور لگا کےراجو"

            کڑک کا کا کاکڑک کاکاکا۔

            "ارے راجہ جیسے پر ندے کبھی میرے شیرو کے مقابل ٹھہر ے بھی؟"

            "چل شیرو"

            کڑک کاکاکاکڑک کاکاکا۔

            "اور جب اس کے بندوق کی گولی چلی ، شیرو میں ڈھیر ہو گیا !"

            "ایسا نہیں ہو سکتا فاطمہ خلہ"رحیمو اپنے آپ میں واپس آگیا تھا۔

            "ما موں کا شیرو کبھی ڈھیر نہیں ہو سکتا"

            "ما موں کا شیرو؟" فاطمہ خلہ نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا،

"ارے چھو کرے کیسے کیسے خطر ناک شیروں کا شکار کیا تھا اس نے !"

            ’’میں تو ان کے تیتر ‘ شیروں کی بات کر رہا تھا ……!‘‘ رحیمو اپنے آپ میں شرمیدگی  سی محسوس کر نے لگا۔

"خدا غارت کرے ان تیتروں کوان کا  شوق تو اسے اس وقت ہوا جب  پولیس ایکشن میں اس کی بندوق چھین لی گئی تھی۔اور بندوق کیا چھینی گئی۔گڑھی رئیسوں سے خالی ہوگئی۔اور ان کی جگہ پہنچے یہ حرام زادے، گھسڑی، گونڈ، پھا نس پاردی، کیکاڑی اور نہ جانے کون کون مگر معلوم ایک بارتو!"

            "بس رہنے دو خالہ !" اس نے بات کاٹی اور بندوق کی گولی واپس کرتے ہوئے بولا" اسے پھر سے اپنی گھٹٹری میں رکھ لوکڑک کا کاکا۔کڑک کاکاکا۔"

            "پاگل ہو گیا کیا؟"

            "کڑک کاکاکا۔کڑک کاکاکا!" وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔

            "مگر سن تو سہی!"

            اس نے بھا گتے  بھا گتے انکار میں گردن ہلائی ۔ دائیں بائیں لہلہا تی فصلوں سے شڑ شڑ  شڑ کی آوازیں  ابھرر ہیں تھیں۔ وہ بھا گتے بھاگتے ندی کے دوسرے کنارے کی طرف نکل گیا۔ اس کی سانس پھولنے لگی، سیندھی کے اونچے اونچے درختوں کے اس طرف گّنے کے کھیت تھے۔ اس کی نتھنوں میں  گڑکی مٹھا س مہکنے لگی۔اس نے نضریں اٹھائیں دھویں کے بادل ہواؤں کے دوش پر تھر ک رہے تھے۔اور لوگ نعرے لگا رہے تھےبولو نوں گیر مہاراج کی جئے۔

            " گڑ کی تا زہ کڑھائی شاید"اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور پھر وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر گڑکی سو ندھی خوشبوکی طرف بڑھنے لگا۔

            "آؤرحیمو کھاؤ بیٹا باپ کا مال ہے!"

            اس نے گرم گرم کڑھا ئی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا یا۔

            "گدھے کی اولاد" زمیندار کی گرج  دار آواز سنائی دی" پتہ نہیں کیسے پہنچ جاتے ہیں یہ لوگکیوں رےتمہارے کانوں میں کوئی اذان دیتا ہے کیا؟"

            اس نے گردن اٹھا ئی اور اس کے ذہن نے کہابجوکا

            "اب سوچ کیا رہا ہے۔؟ اگیا تو کھالے !"

            اس نے جلدی سے گرم گرم کڑ کا ایک لنڈا بنا یا اور اسے فوراً منہ میں ڈال دیا، زبان پر تڑا خہ بیٹھا ،لیکن گڑ کی مٹھاس سے اسے عجیب سامزہ محسوس ہوا اور پھر وہ جلدی جلدی ہاتھ چلا نے لگا۔

            "رحیمو وہ تیرا تیتر باز ما موں کبھی گڑھی سے باہر بھی نکلتا ہے۔؟"

رحیمو کو اپنے  بڑے ماموں کے بارے میں کہے ہو ئے یہ الفاظ بہت گرا ں گذرے۔اس کی طبعت بے اختیار چاہی کہ بو ڑھے زمیندار کو کرارا جواب دے دے ۔اس نے ادھر ادھر پھیلے ہوئے وسیع کھیت کی طرف دیکھافاطمہ خالہ جھو ٹی ہوبڑے ما موں کی بندوق کی گولی سے  کوئی شیر ڈھیر نہیں ہوا ۔ورنہ میرے ہی ما موں کی جائیداد پر نا جائزغبضہ کرنے والا بھیڑیا کبھی اس طرح  کھلے عام دند ناتا نہ پھر تاوہ زہر کا گھونٹ پی کر چب چاپ وہاں سے اٹھ گیا۔

            "کیوں رے گدھے کی اولادپیٹ بھر گیا؟"

            رحیمو پانی کے کنویں  کی طرف قدم اُٹھا نے لگا۔ اور بوڑھا زمیندار اپنے کسی مزدورسے کہہ رہا تھا،"ان لوگوں کا پیٹ تو بھر جاتا ہےمگر نیت ؟"

            اس نے پلٹ کر دیکھا وہ گڑکی بھیلیوں کے انبار پر ہاتھ رکھے اگلی کڑھا وکے چڑھانے کا حکم دے رہا تھا۔ اور اس کی زبان وہی مغلظات بک رہی تھی۔رحیموں نے کنویں کے اندر جھا نک کر دیکھا۔پانی ساکت تھا۔ اور اس اپنی شبیہ اسے منہ چڑھا رہی تھیگدھے کی اولاد پانی اور گڑھی کی طرف بھاگ

            وہ پھر ایک بار کچی پکی پگڈ نڈ یوں پر قدم اٹھا نے لگا۔اب اس کے ذہن میں ایک ہی سوال  تھا کہ وہ بڑے ما  مو ں کو کیا جواب دے۔ وہی بات جو کالے خان نے کہی تھی یا پھر ما موں کے اطمینان کے کمبل کو اسی طرح عزت ڈھکا رہنے دےیہی تو ما موں کا سب سے بڑا غرور تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ لوگ اب بھی انھیں بنا بندوق اور گو لیوں کے بڑا شکاری  سمجھتے ہیں۔ان کی بات کوئی ٹال نہیں سکتا۔لیکن ما موں کو کون سمجھا ئے کہ اب انسا نوں کے چہروں پر ایسی آ نکھیں آ گئی ہیں جو گڑھی  کے باہر کھڑے رہ کر بھی اندر کا حل دیکھ لیتی ہیںوہ بو جھل قدموں سے چل رہا تھا۔

            گڑھی کے بوہر کنویں پر محلے کی عورتیں لٹکی ہوئی پانی کھینچ رہی تھیں ۔اور چرخی عروج زوال کی دھن بجاتے بجاتےاب بے سری ہو چکی تھی۔ وہ جو نہی گڑھی میں داخل ہووا بڑے ماموں کو چار پائی پر آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا پایا۔سامنے کی دیوار پر لٹکے ہوئے پنجرے میں بند تیتروں کا جو ڑا انھیں ٹکٹکی باندھے گھورہاتھا ۔اس کی آہٹ پاتے ہی انھوں نے شور مچا نا شروع کر دیا۔

            ماموں اٹھ بیٹھے،پلٹ کر دیکھا، تور حیمو کھڑا تھا۔اس کے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر انھوں نے کوئی سوال نہیں کیا۔لیکن تیتروں کے بھڑکنے پر وہ غصہ ضرور ہوئے اور اسے ڈانٹتے ہوئے بولے،" کم بخت ہزار مرتبہ تجھ سے کہا ہے کہ تیتروں کے سامنے ایک دم مت آیا کر ۔ مگر تیری سمجھ میں نہیں آتا"

            "ما موں  گھسڑی کے تیتر سے اپنا یہی پٹھا لڑے گا کیا؟"

            ما موں کی نظریں بے اختیار گڑھی کی دیواروں کا جائزہ لینے لگیں ۔مٹی کی اونچی اونچی دیواروں پر اب صرف کھونٹیاں ہی رہ گئی تھیں۔ان کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی،"ہاںیہی ایک جوڑا تو رہ گیا ہے اب میرے پاس!"

            "ما موں اس کے تیترو کو میں دیکھ کر آرہا ہوںاپنا پٹھا تو ان کے سامنے بالکل بچہ نظر آتا ہے"

            "ہاںمیں نے بھی دیکھا ہےما موں کی نظریں زمین پر گڑ گئیں بہت تگڑے پر ندے ہیں اس کے پاس!"

            "گھسڑی کے سارے ہی تیتر جھا پی نسل کے ہیں اور اپنا کنستری ہے۔ کوئی جو ڑ نہیں ہے ما موں بس چو نچ ملاتے ہی بدک کراڑجائےگا۔اپنا پٹھا!"

            ما موں نے قہر آلو دہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔تو وہ گھبرا گیا۔اور ڈرتے ڈرتے بولا" ایسا وہ بولتا تھا ما موں وہ شر فو کا بچہ با غبان کی  اولاد!"

            رحیمو ما موں کے غصے سے وا قف تھا۔ اس نے ہمت کر ے ان کی آنکھوں میں جھا نکا، تو اسے محسوس ہوا جیسے ابھی سے تیتروں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی ہے۔ اورپٹھا جوش میں اپنی آنکھوں کو گول گول کھما رہا ہے۔ ڈرکے مارے اس نے اپنی نظریں نیچی کر لیں۔ ما موں نے زور سے اپنے ہی ہاتھ پر گھو نسا مارا اور وہ وہاں سے بھا گ نکلا ۔کیو نکہ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ ما مو ں کے ے غصے کے آگے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔

            وہ گڑ ھی سے باہر نکلا اور گاؤں کی گلیوں میں بے مقصد گھو منے لگا۔اس کے دماغ میں اب بھی فاطمہ خا لہ کی باتیں، گھسڑی کے تیتر کالے خان کے الفاظ اور بوڑھے زمیندار کی گر کیاں  گردش کر رہی تھی۔اس کا دل بے اختیار چا ہاکہ کسی طرح ما موں کی بندوق حاصل کر لے اور پل بھر میں سارا نقشہ ہی بدل ڈالےلیکن پھر کہیں سے اس کےذہین میں بجو کا کا آکر کھڑا ہو گیا۔اور اس نے اپنے خیالات کے جھٹک دیا۔

            "اے رحیمو۔ادھرآاس نے آواز کی طرف پلٹ کر دیکھا کاشی ناتھ حجام پیڑ کے نیچے اپنی ڈھو پٹی کھولے بیٹھا تھا،" کیوں رےبہت دنوں سے بال نہیں کٹوایاجر اآئینہ کتنی بڑھ گئیں  ہیں تیری ببر یاں"

            اس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔واقعی اس کے بال ٹوپی سے بوہر لٹک رہے تھے،"بنائیں گے مہاراج بنا ئیں گے"

            "ابے گدھے کی اولادتو کیا بال کٹوائے گا۔؟"

            اس نے نظریں سامنے کیں،زمیندار کا پو تا خور شیداس کی طرف آرہا تھا۔

            "بیٹے بال کٹوانے لگتے ہیں پیسے!"

            رحیمو کو خو رشید کا یہ طنز بہت برالگا۔اس کادل چاہا کہ اس کا گلا گھونٹ دے۔ لیکن اس کے اونچے پورے قد کو دیکھ کر وہ بے بس ہو گیا ۔ مگر بندوق کی گولی کی طرح اس کی زبان سے نکلا۔" معلوم ہے میرے کوما موں کی وجہ سے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔"

            "کیا بولا ؟ ذراپھر سے بول۔"خورشید نے قہقہ لگا یا،" سن رہا ہے ناتو کاشی ناتھیہ گدھے کی اولاد اس تیتر باز پر ناز کر رہا ہے۔ جس نے اپنی اولاد کے لئے بھی کبھی کچھ نہیں کیاابے ہوش کے ناخن لےکہاں اس کے پیچھے اپنی زندگی بر باد کر رہاہےکون ہے اب اس کے پاس؟"

            "نہیں ہے تو نہیں ہےمیں تو ہوںتیرے کو کیا معلوم وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں"رحیموکی  آنکھو ں میں اس کا پورابچپن اور ما موں کی محبت کے ان کہے کتنے ہی جذ بے ایک ساتھ گذر گئے۔اسے سچ مچ اپنے ما موں پر فخر سا ہو نے لگا۔

            "ابے گدھے کے بچےمعلوم ہے کتنی محبت ہے تجھ سے اسے؟ باپ نے تیری ماں کو نکال دیا تھا۔ اور اس نے مرنے  سے یہلے تجھے گڑھی میں چھوڑ دیاتھا۔اور تیرے ما موں نے تجھے ایسا ہی پال لیا جیسے وہ تیتر پالتاہے۔سمجھا ۔؟ ارے اگر  اسے  تجھ سے محبت ہوتی تو کیا وہ تجھے بھی پڑھا لکھا کر کام آدمی نہیں بنا تا۔؟مگر اسے تو دلچسپی تھی تو اپنے تیتروں سے اور آج بھی اسے محبت ہے تو اپنے ہی تیتروں سے۔ ورنہ سوچ تیرے ماموں کو اس کے بیٹے اس طرح گڑھی  میں کیلا چھوڑ کر شہر بسا تے؟"

رحیموں کیآنکھوں میں آنسو آگئے۔لیکن س کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کس بات پر رورہا ہے۔اپنی پرورش  پر یا اپنے ما موں کی تنہا ئی پر یا اپنے ماموں زاد بھا ئیوں کی بے رخی پر اسنے ڈبڈ بائی آنکھوں سے کاشی ناتھ کی طرف دیکھا۔جس کے سامنے خورشید بال بنا نے بیٹھ چکا تھا۔

            "ابے روتا کیوں ہے؟جااور جا کر اپنے ماموں  سے پو چھ لےاور سن ان سے یہ بھی کہد  ینا کہ ما موں میرے سر کے بال بہت بڑھ گئے ہیں۔ان کا کیا  کروں۔؟" کاشی ناتھ نے ایک ہاتھ سے خورشید کی گردن  جھکا ئی ۔اور دوسرے ہاتھ سے استر ا چلا نے لگا۔

            رحیمووہاں سے پھرایک بار سیدھا گڑھی کی طرف بڑھا۔اسے اپنے وجود سے نفرت سی ہونے لگی۔ساری زندگی لو گوں کی گالیا ں کھانے والے رحیموکو پہلی بار اپنے حقیر ہونے کا احساس شدت سے ہونے لگا،اسے اپنے باپ پر بھی بے  حد غصہ آیا ،لیکن اسے تو اس کا چہرہ تک یاد  نہیں رہاتھا،ہاں البتہ آباد گڑھی کے ڈھیر سارے برتن مانجنے والے اور اسے جھو ٹن کھلانے والے ماں کے ہاتھ یاد آگئے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔

            جس وقت وہ گڑھی میں داخل ہوا ،قندیل کی روشنی پھیل چکی تھی۔تیتروں کے پنجرے پر غلاف چڑھ چکا تھا۔ اور ما موں مصلا بچھائے خدا کے حضور حھکے ہوئے تھے۔ وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اس کی نظریں کبھی تیتروں کے پنجرے پر ٹھہر تیں،اور کبھی ما موں کی طرف اٹھ جاتیں اور کبھی وہ چھپ کو گھورنے لگتا۔

            نماز سے فارغ ہو  کر ما موں نے رحیموں کی طرف دیکھا۔تو اس نے نظریں جھکالیں،ما موں کو اس کی سعادت مندی پر بڑا پیار آیا۔وہ اس کے قریب پہنچے اور پوچھا،"کیا بات ہے رحیمو!با با تیری طبعیت تو ٹھیک ہے!"        

            ما موں کے محبت بھرے الفاظ سن کر اس کے صبر کا دامن تار تار ہو گیا اور وہ بے اختیار ما موں سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا،" ماموںکیا یہ سچ ہے کہ تم نے مجھے کسی تیتر کی طرح پا لا ہے؟ ماموں کیا تم کو مجھ  سے کو ئی محبت نہیں ہے؟ما موںمیں تمہارے لئے بوجھ ہوں۔؟"وہ سولات کیے جارہاتھا اور کریم الدین اسے اپنے سینے سے چمٹا ئے اس کی پیٹھ پر شفقت سے اور محبت سے ہاتھ پھیر رہے تھے۔ جب اس کے سارے ہی سوالا ت ختم ہو گئے۔ توا نہوں نے اسے اپنے سے علیحدہ کیا وہ اب بھی ہچکیاں لے رہا تھا۔

            "پگلےیہ سب تجھ سے کس نے کہاہے؟" ما موں کے لہجے میں اب بھی وہی شفقت تھی،"توتو میری بہن کی نشانی ہے، بھلا مجھے تجھ سے کیسے محبت نہیں ہو سکتی؟ کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ میں اپنے تیترو پر کیسی جان نچھاور کر تا ہوں ؟ ارے دیوانے ان کی خاطر تو یں نے ساری دنیاکو چھوڑدیا ہےاورتو ؟"

            رحیموکے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اور اس کا دل بے اختیار چا ہا کہ وہ بھی تیتر کی طرح چلائےکڑک کا کا کاکڑک کا کاکاہاں میں تیتر ہوں،اپنے ما موں کا تیتر کڑک کاکاکاکڑک کاکاکا۔

            دوسرے دن صبح ہی صبح کریم الدین بھیرو با  کے مندر کے پاس پہنچ گئے۔ان کے ساتھ رحیموبھی تھا۔اس کی پیٹھ پر پھانج بندھی ہوئی تھی۔ گھسڑیوں نے جوانہیں دیکھا تو پلک جھپکتےمیں سب کے سب مندر کی سیڑھیوں کے سامنے جمع ہو گئے،کریم الدین ایک اونچی سیڑھی پر بیٹھ گئے۔ان کے پیچھے رحیمو ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑاتھا۔ سگریٹااور بیڑیوں دھواں فضا  ءمیں پھیل رہاتھا۔بوڑھے گھسڑی نے کریم الدین کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی اور وہ سب کچھ پڑھ لیا جواس کی تجر بہ کار آنکھیں پڑھ سکتی تھیں۔اس نے اپنی بیڑی کو پیروں تلے مسلتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے "میں کاجی صاحب سے چھما مانگتا ہوں،ان کے پٹھے کی برا بری ہمارا کوئی تیتر نہیں کر سکتا۔اس واسطے اس بار کوئی بازی نہیں لگےگی!"

            اس کا یہ اعلان سنتے ہی اس کے ساتھیوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔اور ان کی بیڑیوں سے بے حساب دھواں نکلنےلگا۔ رحیموکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔اس نے اپنے ما موں کو وہاں سے فوراً اٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ لیکن کریم الدین اپنی جگہ سے اٹھے نہیں۔ انھوں نے اپنے اطراف اٹھنے والی سر گو شیوں کو بھی سنا،اور پھر نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے،" بنا بازی لگائے آج تک یہاں سے کوئی بھی گو نڈ، بھیل،پھانس  پاردی، گھسڑی یامسان جو گی نہیں گزرا۔یہ اس گاؤں کی اب ریت بن چکی ہے۔ مہاراج تیتروں میں مقا بلہ ضرور ہو گا۔"

            بوڑھے گھسڑی کا چہرہ ایک دم اتر گیا۔

            "دادامیں کاجی صا حب کے پھٹے کو دیکھ کر آرہا ہوں۔اسی میں کوئی دم نہیں ہے!"ایک نو جوان نے اپنے سر دار کے کانوں میں سر گوشی کی۔

            "وکھت وکھت کی بات  رہتی ہے سردارآج کاجی صاحب کا پٹھا ہمارے تیتروں کو نیچا نہیں دکھا سکتا!" دوسرا نو جوان قدرے زور سے بولا۔

            " کاجی صاحب کے گاؤں کی ریت ہے تو مکابلہ ہوگا"

            "ہاں ہاں ۔جرور ہوگا"

            بوڑھا گھسڑی ساری باتیں سن رہاتھا۔

            "داداتم کوئی بڑی شرط لگا لو کاجی صاحب سے !"

            "آج بھگوان کے آشروداسے جتنے کا اوسر ملا ہے۔ پھر ڈر کاہے کا۔؟"

            بوڑھا شیش و پنچ میں مبتلا تھا۔ مو قع ملنے پر ساری زندگی باری ہو ئی بازیوں کا بدلہ لینا بہت آسان ہے۔لیکن کسی عزت دار کے آبرو کا پانی اتر تے دیکھنا برابری کے دشمن کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہےلیکن  ہم لوگ کیا بیں۔؟ سدا کے بے آبرو نیچ گوار، ہاتھ پھیلا نے والےبازی جیت کر بھی کیا پائیں گے۔؟ وہی پیسہ؟ جو ہماری عورتیں ویسے بھی کما لیتی ہے

            اس نے اپنے سا تھیوں کے حو صلوں کو نظرو انداز کرتے ہوئے پھر ہاتھ جوڑے" کاجی صاحبریت ہے تو بازی لگ جائے گیپن ہمیشہ ہی بازی بارنے والے تیتروں کو ایک بار اور ہار تا ہوا دیکھ کر آپ کو کیا ملے گا۔؟"

            "دیکھو مہاراجیاتو تم غلط اندازہ لگا رہے ہو یا پھر کریم الدین کی عزت سے کھیلنا چاہتے ہو۔؟"

            بوڑھاپیروں پر گر گیا،"مائی باپآپ کی عزت ہمارا آدرش ہے مگر" بوڑھا اپنا جملہ مکمل نہ کر سکا، کریم الدین کو محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے آسمان  سے زمین پر پھینک دیا ہو،کیا اس کی عزت کامعیاراب اتنا گھٹ گیاہے کہ معمولی دوکوڑی کے لوگ بھی اس پر ترس کھانے لگیں۔؟ وہ غصے سے اٹھ کرکھڑ ہوگیا ۔ اور پورےطمطراق کے ساتھ دھاڑا،" مہاراجبازی ضرور لگے لگی،اور سن لو، اگر تمہارا تیتر جیت گیا تو تم کو اختیار ہو گا کہ مجھ سے جو چا ہو وہ مانگ لو ،اور اگر میرا تیتر جیت گیا تو بدلے میں تم سے کچھ نہیں لیا جائے گایہ بازی اگلے جمعہ کو میری گڑھی کے پٹا نگن میں ہوگی!"

            بوڑھے گھسڑی نے پھر ایک بار ہاتھ جوڑے،اور کریم الدین معہ اپنے بھا نجے کے وہاں سے رخصت ہو گیا۔

            مقا بلہ آرائی کے لئے پوراایک ہفتہ باقی تھا۔کریم الدین نے اپنے پٹھے کو ہر طرح سے تیار کرنا شروع کر دیا۔ وہ اسے بڑی پا بندی سے دیمک کھلانے جنگل لے جاتے، مٹی میں جی بھر کر گھولن کر واتے،اس کی خوراک پر پورا دھیان   دیتے۔ پھا نچ لگا کر جنگلی  تیتر وں کا شکار  کر تے ،اور اس دوران سیٹیاں بجا بجا کر دیکھتے کہ ان کا پٹھا جنگلی تیتروں سے کس طرح مقابلہ کر رہا ہے۔ وہ اسے ہر طرح سے تیار کر رہے تھے ۔لیکن ساتھ ہی انھو ں ایک خوف بھی تھا کہ پٹھا ذات کا کنستری مقابل جھا پی دو  غلی نسل کا مضبوط اور قد آوار ہے ۔اگر میرا پٹھا ہار گیا تو؟ برسوں کی جیت کی تاریخ داغ دار ہو جائے گی۔گاؤ ں والے الگ انگیاں اٹھا ئیں گے۔ کبھی کبھی  ان کادل کہتا کہ اس بازی کو خوبصورتی سے ٹال دیا جائے۔لیکن یہ بات ان کے آن بان کے خلاف تھی۔

            ایسے ہی ایک روڑ وہ چار پائی پا لیٹے خاموش سے اپنے پٹھے کا جا ئزہ لے رہے تھے۔ قریب ہی رحیمو بیٹھا پھا نج کے جا لے درست کر رہا تھا۔ اس نے ایک نگاہ اپنے ما موں پر ڈالی اور پھر گو یا ہوا،" ما موں کل جمعہ ہے نا؟"

            "ہوں!" کریم الدین اس کی طرف بنا دیکھے ہنکا ری بھری۔

            "کل اپنے پٹا نگن میں پوار گاؤں جمع ہو گا اور اپنے پٹھے کا امتحان ہوگا!"

            "ہوں!" ما موں کی آواز کہیں دور سے آرہی تھی۔

            "ماموںسنا ہے کہ قیامت بھی جمعہ کے دن ہی آئے گی۔؟"

            "ہوں"

            "اور ماموں کر بلا بھی جمعہ کو ہی ہوئی تھی نا؟"

            "ہوں"

            "ماموںمجھے  بڑا ڈر لگ رہا ہے مقابل دوغلی نسل کاہے!"

            "چپ رہ کم بخت!" کریم الدین نے اسے ڈانٹا،" اب میرے پاس ہے ہی کیا جس کے لئے تو ڈررہا ہے؟ارے اس گاؤں میں جس دوست پر مجھے پورا بھروسہ تھاوہوہ کالے خان بھی تو اب بدل گیا ہے۔گلے اب کچھ نہیں ہے ہمارے پاسنہ اعتما د اور ناہی  اطمینانارے میرا جہاں تو اسی وقت لٹ گیا تھا ،جب میری بندوق مجھ سے چھین لی  گئی تھیمیری بساط پر بچھی ہوئی یہ بازیاں تو محض دھو کاہیں۔ اس سے اب کیسا ڈر نااور سن ویسے بھی یہ مقابلہ میری زندگی کا آخری مقا بلہ ہو گا۔اور اگر ا س میں  اپنا  پٹھا جیت جاتا ہے تو میں اسے آزاد کردوں گااور اس کے بعد پھر کوئی تیتر نہیں پالوں گا سمجھا؟"ما موں کا گلا بھر آیا، انھوں نے رحیمو ں کی طرف دیکھا تو ان کے کانوں میں آواز گو نجیکڑک کاکاکاکڑک کاکاکاکاانھوں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں،دو موٹے موٹے آنسوؤں کے قطرے ان کے گالوں پر لڑھک آئے۔"رحیمو! کل تو بھی تیتر کے ساتھ ساتھ اپنے اپ کو آزاد سمجھ، بہت خدمت کی ہے تونے میں تیرا بھی احسان مند ہوںمگر اب جلے جانامیرے پاس کچھ نہیں ہےتو بھی چلے جانا"

            رحیمونے اپنے بے بس ماموں کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں میں اندھیر ی سی آگئی۔وہ بولا،" ماموں پٹھے کو تو پنکھ ہیں۔ وہ آزاد ہو کر بھی جی سکتا ہے۔دانہ دنکا چک نے کے لئے ابھی بہت کچھ ہے۔مگر میں کیا کروں گا ماموں۔؟ کہاں جاؤں گا؟مجھے تو پنکھ بھی نہیں ہیں؟"

            "وہ میں نہیں جانتابس یہ میرا آخری فیصلہ ہے!" کریم الدین نے فیصلہ کن انداز میں کہا،اور پھر وہاں سے چپ چاپ نکل گئے۔رحیموں نے پنجرے میں بند پٹھے کی طرف دیکھا، دونوں کی نظریں ٹکرا ئیں اور پھر آپ جھک گئیں۔

            جمعہ کا اعلان پہلےدرختوں پر بیٹھے ہوئے آزاد پر ندوں نے چہچہا کر کیا۔پھر موذن کی آواز گونجی،اور پھر پٹھے نے چلا نا شروع کر دیا،ماموں نے تسبیح کے دانوں کو جیب میں رکھا ۔اور دالان میں ٹہلنے لگے۔پٹا نگن میں رحیمو مصروف تھا، ماموں نے پٹھے کو آٹے کی گولیاں کھلا نا شروع کیا" پٹھے عزت کی خاطر غیرت مند اپنی جان تک دے دیتے ہیں!"بے اختیار ماموں کی زبان سے نکلا اور پٹھے نے زور سے چلا کر حامی بھریسچ ہےسچ ہےسچ ہے

            "ما موں پٹا نگن تیار ہو گیا"

            " تونے ساری تیاری یاں کر لیں نا۔؟ ٹھیک ہےمیں آتا ہوںتو وہیں رہ "

            ماموں پھر ایک با اپنے پٹھے کی طرف رجوع ہوئے۔

            لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا پٹا نگن بھر گیا۔سارے ہی تیتر باز گھسڑی پھا نس پاردی،گونڈ،کیکاڑی،بھیل تھیلوں کے فرش پر بیٹھے تھے۔ رحیمو پٹھے کا پنجرہ اٹھا کر لا یا۔ اور اسے مقابل کے پنجرے کے سامنے،رکھ دیا۔ مادائیں چسکنے لگیں۔اور تیتر پہلوانوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر سینے پھلا رہے تھے۔ گردنیں اونچی کر رہے تھے۔اور عجیب سی آوازیں نکال رہے تھے۔

            بوڑھا گھسڑی اپنے جھا پی کے پنجرے کے پاس بیٹھا کریم الدین کا انتظار کر رہا تھا۔رحیمو دل میں دعا ئیں مانگ رہاتھا۔اور مقا بل کے تیتر باز چھوٹے سے پٹھے کو دیکھ کر اندر اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔

            اچا نک مجمع کو چیرتے ہوئے کریم  الدین پٹا نگن میں داخل ہوئے۔بوڑھے گھسڑی نے انھیں دیکھ کر اپنے ہاتھ جوڑے۔رحیموں کی آنکھیں پلک مارنا بھول گئیں کریم الدین تیزی سے اپنے پٹھے کے پنجرے کے قریب پہنچے۔چاروں طرف نظریں دوڑ ائیں۔اور پھر آہستہ سے بیٹھ گئے۔جیب میں سے اپنی سیٹی نکالی۔اپنے پٹھے کی طرف دیکھا۔اور آہستہ سے کہا،" پٹھےتمہاری یہ جیت تمہاری آزادی کا پر وانہ ثابت ہو گئی!" پٹھا زور سے چلا یا، اور پھر پورے جوش وجلال کے ساتھ پنجرے میں ٹہلنے لگا۔ پھر انھوں نے مقابل کے جھا پی کو دیکھا،جس کے چپ کبرے پر غصے سے پھولے ہوئے تھے۔دونوں بازیگروں کے ہاتھ آہستہ آہستہ پیجروں کے دروازوں کی طرف بڑھے۔مادائیں چیخنے لگیں۔اور پھر دروازے کھل گئےدونوں تیتر اپنی اپنی جو نچیں آگے کئے ایک دوسرے کی طرف بڑے مادائیں زور سے چلائیں۔کڑک کاکاکاکڑک کاکاکااور دونوں تیترایک دوسرے سے گتم گتھا ہو گئے۔

            "شا باش پٹھے"

            کڑک کاکاکاکڑک کاکاکا۔

            "منا جورلگا کے۔آری سے ہاں"

            کڑک کاکاکاکڑک کاکاکا۔

            "واہ پٹھے واہ!"

            کڑک کاکاکاکڑ کاکاکا۔

            پٹھے نے اچھل کر جھا پی کی گردن کے پر پکڑ لئے اور اسے رگید تا ہواایک کونے کی طرف بڑھا۔رحیمو کی آنکھیں حیرت سے پھیل گیں۔کریم الدین کے چہرے پرمسکرا ہٹ پھیل گئی۔سارا مجمع سانس روکے اس بے جوڑ مقابلے کو دیکھ رہا تھا کہ اچا نک  جھا پی کی مادہ پورے جاش کے ساتھ چیخیکڑک کاکاکاکڑک کاکاکا

            اور دوسرے ہی لمحے جھا پی نے اپنی گردن چھڑالی،اور پٹھے کو اپنے دونوں پیروں تلے دبا لیا،اور چونچ سے اسکے سر کے پر نوچنے لگا۔ گھمسان کا رن پڑا تھا ۔تیتروں کی چو نچیں اور پیروں کی آریاں ایس چل رہی تھیں۔جیسے سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلوار یں چلتی ہیں۔پٹا نگن کڑک کاکاکاکڑک کاکاکاکی آوازوں سے گونج رہاتھاپٹھے کو جھا پی کا مقابلہ سخت دشوار ہو گیا تھا۔ کریم الدین کی آنکھوں میں اندھیری سی چھا گئی تھی۔ان کے دل بے اختیار وہاں سے اٹھ جانے کو کہہ رہاتھا، اور رحیمو دل ہی میں یا علی مدد کی صدائیں لگا رہاتھا۔

            اچانک پٹھےنے جھا پی کے کوٹھے پر ایسی چونچ ماری کہ خون کی دھار لگ گئی۔

اور جھا پی بلبلا کر ایک طرف بھا گا۔ پٹھا اس پر جھپٹ پڑااور اس کے سر اور گردن کے پر ہوا میں منتشر ہونے لگے۔جھا پی  بری طرح  بھاگ رہا تھا ۔اور پٹھا برابر اس پر حملے پر حملہ کئے جا رہا تھا ۔یہاں تک کہ جھاپی نے نے اڑان بھری اور قریب کے درخت کی ایک ٹہنی پر بیٹھ گیا۔پٹھے نے گردن اٹھا کر بھا گے ہوئے مقابل کی طرف دیکھا۔اور وہ بھی بس اڑان بھرنے ہی والا تھا کہ کریم الدین نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیا۔ اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر نے لگے۔پورا مجمع مبارک سلامت کے شور میں ڈوب گیا۔رحیمو خوشی سے ناچنے لگے۔اور کریم الدین کی آنکھیں     بھیگ گئیں۔بوڑھا گھسڑی ہاتھ باندھے کھڑاتھا۔ کریم الدین نے اس کی طرف فا تحا نہ انداز میں  دیکھا۔ تو وہ بولا" مالک یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہم آپ کے بندے ہیں ۔بولوہمارے لئے کیا حکم ہے۔؟"

            "حکم۔؟"کریم الدین نے خوشی سے قہقہ لگا یا،" تم اب اس گاؤں سے جب بھی چا ہو، جا سکتےہواب تم پر کوئی پا بندی نہیں!"

            اور پھر سارے ہی لوگ پٹھے کی شجا عت کی داد دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئے۔

            کریم الدین کے ہاتھوں میں اب بھی پٹھا اسی طرح مو جود تھا۔ جب انھوں نے اپنی خو شیوں پر قابو پا یا تو انھیں احساس ہوا کہ پٹھے کی سانس ابھی تک اسی طرح چل رہی ہے۔ انھوں نے اسے پھر ایک بار چوم لیا اور نظریں سامنے کیں تو دیکھا رحیمو پنجرہ اٹھائے آہستہ آہستہ ان  کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ اسے اسی طرح دیکھتے رہے۔ان کے کانوں میں ان کے اپنے کہے ہو ئے الفاظ گو نج رہے تھے۔انھو ں نے بے بسی سے پٹھے کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔زندگی میں یہی تو وہ پر ندے ہیں جنھوں نے ان کے ساری دکھوں کا زہر خود پیا تھا۔ ان کی خا طر اپنی جان کی بازی لگا نے والے یہ بے زبان پر ندےجانے کتنی  تعداد میں ان کے ہاتھوں میں آئے اور پھر کبھی جنگل کی کھلی آزادی انھیں نصیب نہ ہوئی لیکن آج؟

            "ما موں!" پنجرے کو ان طرف بڑھا تے ہوئے رحیمو کی گلو گیر آواز ابھری پیجرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔پٹھا ان کے ہاتھوں میں مچلنے لگا" بس کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے۔ پٹھے! تھوڑا صبر کرلے !" انھوں نے آہستہ سے اسے پنجرے کے دروازے کے سامنے چھوڑ دیا پٹھے نے ایک لمحہ رک کر  ان  کی  طرف دیکھا اور پھر چپ چاپ پنجرے کے اندر چلا گیامالک یہ تو  ہو نا ہی تھاہم آپ کے بندے ہیںاب بولو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟

            کڑک کاکاکاکڑک کاکاکاپٹھے کی خا موشی پر شاید اس کی مادہ احتجاج کرنے لگی تھی۔ماموں نے سختی سے پنجرے کا دروازہ بند کیا اور پنجرے کو اپنے ہاتھو ں میں اٹھا لیا اور پھر رحیموکی طرف دیکھا،" رحیمومیں انھیں آزاد  کرنے جنگل جا رہا  ہوںبڑے کمرے میں محراب کے اندر میں نے کچھ روئپے رکھے ہیں۔وہ لے لےاور تو بھی یہاں سے چلا جامیرا تجھ سے بھی یہی وعدہ تھا!"

            رحیمو نے تڑپ کر ما موں کی طرف دیکھا ،اس کی آنکھوں میں آنسوؤں تھے۔اور اس سے پہلے کہ وہ سوالات کا سلسلہ شروع کرتا۔کریم الدین وہاں سے پوری قوت کے ساتھ باہر نکل گئے۔

            پنجرہ کھلا ہواتھا۔اور دونوں پر ندے لمبی اڑان بھر چکے تھے۔ کریم الدین نے بڑی بے بسی سے انھیں جاتے ہوئے دیکھا تھا، ان کی آنکھوں سے آنسوؤں رواں تھے وفا داریوں کی ایک تا ریخ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی تھی۔

            وہ یو نہی بے مقصد جنگل میں ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔گذرے ہوئے ماہ وسال ایک ایک کر کے ان کی آنکھوں کے سامنے گر دیش کر نے لگے۔زندگی کی بے شمار کھٹی میٹھی کہا نیاں انھیں یاد آنے لگیں۔پہلی بارا نھیں شدت سے احساس ہوا کہ اب وہ با لکل تنہا ہوگئے ہیں۔ جس شوق میں انھوں نے پناہ لی تھی۔اس کی دیوا نگی میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔ آخر اس کا انجام بھی کیا ہوا۔؟ وہ بالکل اکیلے ہی تو رہ گئے تھے۔ انھیں بچھڑا ہواایک ایک ساتھی یاد آنے لگا۔ بیوی بچے یاد آنے لگے ۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اور واپسی کے سارے ہی دروازے ان پر بند ہو چکے تھے۔ گڑھی کی طرف جانے کی ان میں ہمت نہ تھی۔لیکن کب تک بھٹکتے ۔جب سورج نے بھی اپنی آنکھیں موند لیں تو وہ نا چار گھڑھی کی طرف بڑھے۔

            گڑھی کے باہر کنواں اداس تھا۔ اور اس کی چرنی خاموش تھی۔ عجیب ہو کا عالم تھا۔وہ گردن جھکا ئے گڑھی میں داخل ہوئے اور جو ہی اپنی چار پائی کے قریب پہنچے۔ان کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔قندیل کی مدھم روشنی میں انھو نے دیکھا رحیموان کی چار پائی پر بیٹھا ہے اور اس کے کند ھوں پر پٹھا اور اس کی مادہ موجود ہے۔

            کریم الدین نے بڑی محبت سے ان پر ندوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور بے اختیار چوپ لیا۔ رحیمو کے آنسوؤں بھرے چہرے پر مسکرا ہٹ کھیل رہی تھی۔

            وہ چار پائی سے نیچے اتراور بے اختیار ماموں سے لپیٹ گیا۔                                                                                                                                                                                                                                              


Post a Comment

0 Comments