ہزاروں سال لمبی رات۔رتن سنگھHazaron Saal Lanbi
Raat By Ratan Singh
مندرجہ ذیل کہانی رتن سنگھ کی لکھی ہے۔ یہ کہانی مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کے جماعت ہفتم اردو زبا ن اول اردو کے نصاب میں شامل ہے۔
سننے والے اس کی بات بڑے انہماک سے سن
رہے تھے۔سنانے والا ان سب کے بیچ لیٹا ہوا،بالکل اوٹ پٹانگ باتیں کر رہا تھا۔بات
کرتے کرتے وہ خود ہی بہک جاتا جیسے راہ چلتا مسافر اپنی راہ سے بھٹک کر کسی غلط
راستے پر چلنے لگے۔ایک بات ادھوری ہی چھوڑ کر وہ کسی دوسری بات کا سر اپکڑ لیتا۔اس
طرح رات بہت دھیرےدھیرے سرک رہی تھی۔
وہ سب کے سب ریلوے اسٹیشن کی طرف جانے
والے راستے کی ایک دکان کے برآمدے میں آکر رات کاٹنے کے لیے لیٹ گۓتھے۔تھوڑی دیر
بعد جب ان میں سب سے بوڑھے آدمی نے گلا صاف کرتے ہوۓ کسی راجاکی بات شروع کی تو
اس برآمدے میں لیٹے ہوۓ سب کے سب آدمی ہنکاری بھرنے لگے،''ہوں،پھر کیا ہوا،بابا؟
بس پھر کیا تھا بات چل نکلی _____''ایک بادشاہ تھا۔ اس کی سات رانیاں تھیں۔ساتوں رانیوں کے لیے
بادشاہ نے الگ الگ محل بنواۓ۔ایک لڑکی کا،دوسرا اینٹ گارے گا،تیسرا سنگِ مرمر
کا،چوتھا تانبے کا،پانچواں چاندی کا، چھٹا سونے کااورساتویں میں ہیرے جواہرات جڑے
ہوۓتھے!''
''ہاں ٹھیک۔''کسی نے ہنکاری بھری۔
''اتنا سب کچھ تھا لیکن بادشاہ کے
یہاں اولاد نہیں تھی اس لیے وہ بہت دُکھی تھا۔بادشاہ کو آخری کسی نے راۓدی کہ
فلاں جنگل میں ایک پیڑ ہے،اس پر سات پھل لگے ہیں۔اگر بادشاہ یہ پھل اپنی رانیوں کو
کھلاۓ تو سب کی اولاد ہو جاۓگی۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس پیڑ تک پہنچنا بڑا مشکل
تھا۔راستے میں سات دریا پڑتے تھے اور سات دیوؤں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔پیڑ کے
گرد سات سانپوں کا زبردست پہرا تھا لیکن بادشاہ بھی اپنی دھن کا پکا تھا۔وہ اپنا
لاؤلشکر لے کر چل پڑا۔''
بات ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ بوڑھے
کو کھانسی کا دورہ پڑا۔جب اس کی سانس درست ہوئی تو بوڑھا بہک گیا۔اس نے ایک دوسری
بات چلا دی۔
''بڑی پرانی بات ہے۔ کسی کاری گر نے
ایسا ڈنڈا بنایا جس کے اندر ایک آدمی بیٹھ سکتا تھا۔اس طرح وہ ڈنڈا آدمیوں کی طرح
ہی بولتا تھا،چلتا تھااور کھاتا پیتا تھا۔''
''ہوں،ہوں۔'' قریب قریب سب نے مل کر
ہنکاری بھری۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ رکشوں اور تانگوں
کا ریلا شور مچاتا ہوا سڑک پر سے گزرنے لگا۔شاید اسٹیشن پر کوئی مسافر گاڑی رُکی
تھی۔ اس لیے بوڑھا تھوڑی دیر رُکا۔پھر اس نے ایک مچھلی کی بات شروع ردی۔''مچھلی
اتنی بڑی تھی کہ اس کی پیٹھ پر با قایدہ ایک شہر بسا ہوا تھا۔ جس پر نہ معلوم کتنے
ہی مکان بنے ہوۓتھے،کتنے ہی کھیت تھے۔سمندر میں جس طرف یہ مچھلی جاتی ،اس طرف یہ
بسا بسا یا شہر چلا جاتا۔''
''ہوں،بالکل ٹھیک۔''سب نے ہنکاری
بھری۔
اس طرح رات نہایت آہستہ آہستہ سرک رہی
تھی۔بوڑھا باتیں کیے جا رہا تھااور وہ سب کے سب بڑے غور سے سن رہے تھے۔پھر کسی بات
کو ادھوری ہی چھوڑ کر بوڑھے نے ایک نئی بات شروع کی۔
''ہزوروں سال پہلے کی بات ہے،ایک
بادشاہ نے آدھی دنیا فتح کرلی۔''
''پھر''
''پھر اسی خوشی میں بادشاہ نے ایک بہت
بڑی دعوت کی۔''
''پھر……پھر''
''پھر کیا ،اتنا کھانا بنایا گیا کہ
بادشاہ کے شہر کے سارے کے سارے مکانوں میں کھانا بنا کر رکھا گیا۔''
''پھر۔پھر۔پھر۔''
بوڑھے نے کہنا شروع کیا،''سب سے پہلے
بادشاہ اور اس کے رشتے داروں نے کھانا کھایا۔''
''تھیک''
''پھر بادشاہ کے سیکڑوں امیروں اور
وزیروں نے کھانا کھایا۔''
''تھیک''
''پھر بادشاہ کے ہزاروں فوجیوں اور
چُنے ہوۓ شہریوں نے کھانا کھایا۔''
''ٹھیک''
''اتنے لوگوں کے کھانا کھاتے کھاتےرات
ہوگئی۔''
''ٹھیک''
''اور سب کے بعدرات کے وقت لاکھوں
غریب ،غربااور فقیروں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔''
''بالکل جھوٹ……بالکل جھوٹ''اس برآمدے
میں لیٹے ہوۓ سبھی آدمی احتجاجا اُٹھ کھڑے ہوۓ اور ان میں سے ایک آدمی
بولا،''بوڑھے!تجھے جھوٹی باتیں کرتے شرم نہیں آتی۔اگر ہم نے رات کو پیٹ بھر کر
کھانا کھایا ہوتا تو اس وقت چین کی نیند سو رہے ہوتے۔رات بھر تمھاری یہ بکواس کون
سنتا؟''
''ارے بھائی!ناراض کیوں ہوتے
ہو۔''بوڑھے نے سہمی ہوئی آواز میں کہا،''میں بھی تمھاری طرح بھوکا ہوں۔اگر مجھے ہی
نیندآرہی ہوتی تو بھلا یہ باتیں کرنے کے لیے میں جاگتا ہوتا؟میں بھی ……تو سو
جاتا۔''
0 Comments