اِنسان اور بزم ِقُدرت-علامہ اقبال
Insan aur
bazm-e-Qudrat by Allama Iqbal
صبح خورشیدِ ُدرَخشاں کو جو دیکھا میں
نے
بزمِ معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے
پر توِ مہر کے َدم سے ہے اُجالا تیرا
سیمِ سیال ہے پانی ترے دریاؤں کا
مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے
تیری محفل کو اسی شمع نے چپکایا ہے
ُگل و گُلزار ترے خُلد کی تصویریں ہیں
یہ سبھی سُورہ والشمس کی تفسیریں ہیں
سُرخ پوشاک ہے پھولوں کی ، درختوں کی
ہری
تیری محفل میں کوئی سبز، کوئی لال پری
ہے ترے خیمہ گردُوں کی طِلائی جھالر
بدلیاں لال سی آتی ہیں اُفق پر جو نظر
کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی
لالی
ئے گُلرنگ خمِ شام میں تُو نے ڈالی
رُتبہ تیرا ہے بڑا، شان بڑی ہے تیری
پردہ نور میں مستور ہے ہر شے تیری
صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا
زیر خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا
میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر
جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟
نور سے دُور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں
کیوں سیہ روز، سیہ بخت، سیہ کار ہوں میں؟
میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی
بام ِگردُوں سے وہ یا صحنِ زمیں سے آئی
ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبو
د باغباں ہے تری ہستی پے گلزارِ وجود
انجمن حُسن کی ہے تو ، تری تصویر ُہوں میں
عشق کا تُو ہے صحیفہ، تری تفسیر ہُوں میں
میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تُو نے
بار جو مجھ سے نہ اُٹھا وہ اُٹھایا تو
نے
نورِ خورشید کی محتاج ہے ہستی میری
اور بے منتِ خورشید چمک ہے تیری
ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گلستاں میرا
منزلِ عیش کی جا نام ہو زِنداں میرا
آہ اے رازِ عیاں کے نہ سمجھنے والے!
حلقہ دامِ تمنّا میں اُلجھنے والے
ناز زیبا تھا تجھے، تُو ہے مگر گرم ِنیاز
تُو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سِیہ روز رہے پھر نہ سَیہ کار رہے
0 Comments