اسرارِ قدرت-نظیرؔ اکبر
آبادی
Israr-e- Qudrat By Nazeer Akbarabadi
جہاں میں کیا
کیا خرد کے اپنی ہر اک بجا تا ہے شاد یانے
کو ئی حکیم اور کو ئی
مہند س،کو ئی ہو پنڈت ،کتھا بکھا نے
کوئی ہے عا قل ،کو ئی
ہے فا ضل ،کو ئی نجو می لگا کہا نے
جو چا ہو، کو ئی یہ بھید کھو لے، یہ سب ہیں حیلے ،یہ سب بہانے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
ہَوا کے اوپر یہ آسماں
کا بے چو بہ خیمہ
جو تن رہا ہے
نہ اِس کی میخیں
،نہ ہیں طنا بیں ،نہ
اِس کی چو بیِں ،اَدھر کھڑا ہے
اِدھر ہے چاند
اور اُدھر ہے سورج ،اِدھر
ستارہ ،اُدھر ہو اہے
کسی کو مطلق خبر
نہیں ہےکہ کب
بنا ہے ، اور کاہے کا ہے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
فلک تو کہنے
کو دور ہے گا، زمیں
کا اب جو یہ بسترا ہے
کھڑے ہیں لاکھوں پہا ڑ جس پر، فلک
سے سر جس کا جا لگا
ہزا روں کا اک بچھونا ،یہ
پانی او پر جو بچھ رہا ہے
بہت حکیموں نے
خاک چھا نی ،کو ئی نہ سمجھا ،یہ بھید کیا
ہے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
زمیں سے لے
کر جو آسماں تک بھری ہےلا کھوں طرح کی خلقت
کہیں ہے ہا تھی ،کہیں
ہے چیو نٹی ،کہیں ہے رائی ،کہیں
ہے پر بت
یہ جتنے جلو ے دکھا رہی
ہے خدا کی صنعت ،خدا کی حکمت
جو چا ہے کھولے یہ بھیدا س کے
،کسی کو اِتنی نہیں ہے قدرت
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
کو ئی جو پو چھے کسی
سے جاکر ،یہ مُلک کیا ہے ،اور کب بنا ہے
جو جا نتا ہو تو کچھ تو بتاوے ،نہ جا نے
،سو کیا کہے کہ کیا ہے
ارسطو ،لقمان ،اور
فلا طو ں،ہر ایک سر کو پٹک گیا ہے
یہ وہ طلسمات ہے کہ جس کی نہ ابتدا ہے، نہ انتہا ہے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
کو ئی ہے ہنستا ،کو ئی
ہے روتا ،کہیں ہے شادی ،غمی کہیں
ہے
کہیں تر قّی ،کہیں
تنزّل ،کہیں گماں ،اور کہیں یقیں ہے
کو ئی گھسٹتا
زمیں کے اوپر ،کو ئی خو شی سے فلک نشیں
ہے
یہ بھیدا پناوہ آپ جانے، کسی کو ہر گز خبر
نہیں ہے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
عجب طرح کی
یہ رنگیں چَو پڑ غر ض
بچھا ئی ہے اب خدا نے
کو ئی ہے
پُھٹکل ،کسی کا جُگ ہے، پھرے
ہیں نَردیں بھی خانے خا نے
جو پا نسا پھینکے
بنا بنا کر،اور دالو کتنے ہی دل
میں ٹھا نے
جو چا ہتا ہو ا ٹھا رہ
آویں ،تو اُس کو پڑتے ہیں تین کا
نے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
عجب یہ شطرنج کا سا نقا بچھا ہے دن اور رات اِس جا
جو مات چا ہے کر
ے کسی کو ، نہ آوے بُرد اُس کو ہاتھ
اِس جا
ہزا روں منصو بے
باندھے دل میں ،بنا وے چا لوں کی گھا ت اِ س جا
نہیں ہے اک چار چو ک قا ئم ،سبھوں کی بازی
ہے مات اِس جا
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
عجب طرح کی ورق بنے ہیں،کو ئی مکّدر ،کو ئی صفا ہے
کسی کے سر پر تا جِ شا ہی ،کسی پہ شمشیرِ
پُر جفا ہے
کو ئی امیر
اور کو ئی وزیر اور کو ئی
فقیری میں دل خفا ہے
سبھوں کو اِس جا خلال آیا، یہ حق کی قدرت
کا گنجفاہے
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
یہ کون جا نے
کہ کل کیا کیا اور آج مالک
وہ کیا کرے گا
کسے بگا ڑے ،کسے سنوارے ،کسے لُنڈھاوے ،کسے بھر ے گا
کسی کے گھر کون ہو وے پیدا، کسی کے گھر کون سا مرے گا
کسی کو ہر گز
خبر نہیں ہے کہ کیا کیا ہے، اور
کیا کرے گا
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
عجب طرح کایہ جال ہے گا، کمند کہیے ،ویا
کمندا
نہ چھو ٹے چیو نٹی ،نہ چھو ٹے ہاتھی ،نہ کو ئی وحشی،نہ کو ئی
پرندا
سبھوں کی گردن پھنسی
ہے اس میں کسی کا ٹو ٹا نہ ایک
پھندا
نظیرؔ ،اتنی مجال
کس کی ،کہاں خدا ،اور کہاں یہ بندا
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ، کڑو ڑوں پنڈت ، ہزاروں سیا نے
جو خوب دیکھا تو
یار آخر ،خدا کی با تیں ،خدا ہی جا نے
0 Comments