جلتے پروں سے اُڑان-ساجد رشید
Jalte Paron Se Udaan By Sajid Rasheed
مندرجہ ذیل ’’جلتے پروں سے اُڑان‘‘ ساجد رشید کا لکھا افسانہ مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کے جماعت دہم اردو زبان اوّل کے نصاب میں شامل ہے۔
ریشم جیسے ملائم اور دھنک جیسے رنگین پروں سے سر نکال کر
پرندے نے جب اپنے بازوؤں کو پھٹپھٹا یا تو ان پر ٹھرے اوس کے ننھے قطرے مشرق کی
بھوری پہاڑیوں سے جھانکتے سورج کی کرنوں سے دمک اُٹھے،جیسے پگھلے سونے کا فوارا
پھوٹ پڑا ہو۔اس نے اپنی سرخ چونچ کھول کر فرحت بخش ہوا سینے میں بھری اور بڑی
تازگی محسوس کی۔پھر سر جھٹک کر آس پاس دیکھا۔سب کچھ وہی تھا اور کتنا دلکش!
سورج کی نارنجی کرنوں سے تمتماتی
بھوری پہاڑیاں ،پہاڑیوں کے پیروں کو دھوتی گہرے نیلے پانیوں والی ندی،دوسری جانب
ندی میں گرتا دودھ جیسا جھرنا ،کنارے پر بکھرا امخمل سا سبزہ اور ان پر جھلملاتی
اوس کی بوندیں، خود رو پودوں پر منڈلاتی خوش رنگ تتلیاں ،چھوٹے چھوٹے پتنگے،دائیں
طرف تازہ سبز پتوں سے ڈھکا گھنا جنگل،پیڑوں کی لچکدار مضبوط شاخوں پر پھدکتی چڑیاں
اور ان کی چہکار،سرمٔی نرم مٹی پر رینگتی چیونٹیاں،معصوم آنکھوں والے ہرنوں کا
جھنڈ… سب کچھ وہی تھا اور کتنا دلکش!
چڑیوں کی چہکار ،جھرنے کی جھر جھر
،ہوا کے بہاؤ پر بہتی ندی کی کلکلاہٹ،سوکھے پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ،ندی کے کنارے صبح
کی پہلی دھوپ سیکتے مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ،پیڑوں کے تنوں پر چڑھتی اُترتی گہلریوں کی
چِکچِکا ہٹ،سفید جھنگروں کی سیٹیاں اور ہم آغوش ہوتی لچکیلی شاخوں کی سرسراہٹ۔ان
آوازوں کی نغمگی سے سارا عالم گونج رہا تھا…… سب کچھ وہی تھا اور کتنا
دلکش!
پرندے نے سینہ پھلا کر آسمان کو دیکھا: بے داغ آسمان آج بھی
اتنا ہی نیلا اور چمکدار تھا جتنا کل تھا۔اس نے تنکوں سے بنے اپنے خوبصورت گھونسلے
پر الوداعی نظر ڈالی اور دانے دُنکے کی تلاش میں پر پھڑ پھڑاتا اُڑگیا۔اُڑا اور
اُڑتا گیا: اوپر ……اوپر……بہت اوپر……۔
ٹھیک پرندے کے سر پر آکر سورج نے اسے معمول کے مطابق ایک
سبزہ زار میں اُترنے پر مجبور کر دیا۔دور تک سبزہ تھا اور اس قدر دانے بکھرے پڑے
تھے کہ پرندے کو ہمیشہ کی طرح آج بھی سوچنا پڑا…… ''کہاں سے شروع کیا جاۓ؟''
دانا چگتے چگتے وہ سیر ہوگیا۔اب اس نے دیکھا کہ اس کا سا یہ
قدموں تلے نہیں ہے بلکہ کچھ لمبا ہو گیا ہے۔اس نے مٹی میں چونچ رگڑ کر قریب کی ندی
سے ٹھنڈا پانی پیا اور پھر ایک بار ہوا کو چیرتا فضا میں اُڑتا چلا گیا۔دانوں سے
بھاری پیٹ کو ہلکا کرنے کے لیے یہ اس کا معمول تھا۔اسے ہر اُڑان پر یوں محسوس ہوتا
جیسے وہ بس ابھی چمکتے نیلے آسمان کو چوم لے گا۔اس نے آسمان کو چومنے کی یہ خواہش
اسے اوپر ہی اوپر لیے چلی جاتی۔ آسمان ابھی بہت دور تھا اور پروں میں تھکن رینگنے
لگی تھی۔ اس نے آسمان کو چھونے کا فیصلہ ہمیشہ کی طرح کل پر ٹالا اور نیچے اُترنے
لگا۔
پرندے نے جب سر کو خم کرکے نیچے پھیلی یویٔ دنیا کو دیکھنا
چاہا تو اچانک اس کی پرواز تھم گئ۔اس کا ننھا سا دل دھک سے رہ گیا۔ نیچے سارے میں
سیاہی مائل دھند پھیلی ہوئ تھی۔ایسی دھند کہ پیڑ پودے،ندی نالے،پہاڑ،جھرنے اور
میدان جانے کہا کھو گۓتھے!کیا وہ سویرے کی دھند ہے؟لیکن سویرا ابھی کیسے چلا آیا؟اور
پھر سویرے کی دھند تو بڑی خوش گوار ہوتی ہے۔وہ ایسی کثیف اور مٹ میلی تو نہیں ہوتی
اور پھر اس میں خنکی بھی تو ہوتی ہے…… تو پھر یہ کیا ہے؟……دھواں اس کی آنکھوں میں
جلن پیدا کرنے لگاتھا۔پروں پر اپنے چھوٹے سے جسم کا توازن بر قرار رکھتے ہوۓ جب
وہ دھویں کے کثیف بادل میں اُترا تو اس کے سینے میں چنگاریاں اُتر گیٔں۔پھیپھڑوں
میں دھواں پتھر ہو گیا اور حلق میں چیونٹیاں کانٹنے لگیں۔سینے میں اُمنڈتے دھویں
کی اذیت اور اُکھڑتی سانس سے گھبراکر اس نے بے اختیار چونچ کھول دی۔مگر تکلیف سے
نجات تو کیا ملتی،سینے کی جلن اور بڑھ گئ۔بالآخر وہ دھویں کی کثیف چادر کو چیر کر
نیچے کھولے میں چلا آیا،یہاں گھٹن کم تھی۔
پرندا تھک کر چور ہو چکا تھا۔سینے میں درد ریت کی ذرّے کی
طرح چبھ رہا تھا۔بازو ایسے شل ہو رہے تھے جیسے انھیں جاڑا مار گیا ہو۔وہ اب کسی
پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر سستانا چاہتا تھا ۔اس نے تھکن سے بوجھل آنکھوں سے نیچے
دیکھا اور اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھلتی چلی گیٔں۔اس کے وجود میں ننھا سادل جیسے
اپنی ڈھڑکن بھول گیا۔اسے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھوں پر پر یقین ہی نہیں آیا۔اس
نے بازوؤں کو جلدی جلدی حرکت دی اور کچھ اور نیچے اُتر آیا۔مگر منظر نہیں بدلا
،کچھ اور واضح ہو گیا۔''یہ سب کیا ہے؟'' اس نے سوچا اور سوچ کر تڑپ اُٹھا ۔آنکھوں
نے جو کچھ بھی دیکھا ،وہ پرندے کے لیے حیرت انگیز تھا۔سورج کے ڈھیر ہونے تک سارا
عالم کیسے بدل گیا؟ کہاں ہے وہ پیڑ،پودے،سبززار؟کہاں ہے وہ ندیاں ،نالے ،جھرنے؟کہا
ہے وہ غار،ٹلے،پہاڑ؟کہا ہیں وہ ہرن ،وہ چیونٹیاں ،وہ مینڈک؟آخر یہ سب کہاں گۓ؟
جنگلوں،پہاڑوں اور ندیوں کی جگہ اب آسمان سے سر ٹکراتی،سیسہ
پلائ عمارتیں کھڑی تھیں۔سینکڑوں ایکڑ میں پھلی اسلحہ ساز فیکٹریاں تھیں۔بڑے بڑے
رڈار تھے۔دیو پیکر ایٹمی تجربہ گاہیں تھیں۔سینہ تانے ٹی وی ٹاور کھڑے تھے۔بڑی بڑی
دورنینیں تھیں۔ برقی تاروں ایک جال تھا اور ایک کنارے پر ترتیب سے بنی ایٹمی
بھٹیاں تھیں جن کی کشادہ چمنیاں دھواں اور زہر اُگل رہی تھیں۔اسلہ ساز فیکٹریوں اور
ایٹمی بھٹوں سے گاڑھاں کالا دھواں ہاتھیوں کی طرح جھومتا ہوا نکلتا اور فضا میں
چادر کی طرف تن جاتا۔کل کا نیلا شفاف آسمان اب یوں دِکھایٔ دے رہا تھا جیسے اس پر کالی کالی گرد
جم گئ ہو۔آسمان پر رینگتی اس سیاہی سے خوفزدہ ہو کر پرندہ اپنے گھونسلے میں اُتر
نے کے لیے بے چین ہو گیا۔ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ سورج بجھنے کے بعد اپنے
کھونسلے کو لوٹا ہو۔یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اندھیرے میں گھِر کر رہ گیا تھا۔
تھکن سے ٹوٹتے ہوۓ پنکھوں سے پرندے کچھ اور نیچےآیا تو فضا
میں دوڑتے مواصلسلاتی پیغامات اس کے پروں سے اُلجھ اُلجھ کر پرواز میں رکاواٹیں
پیدا کرنے لگے۔تھکن اس کے بازوؤں میں سوئیں کی طرح چبھ رہی تھی اور اس کو اپنا
وجود نا قابِل برداشت بوجھ محسوس ہو نے لگا تھا۔اس نے پھولتی سانسوں کے درمیان سر
کو خم کرکے اندھیرے میں ڈوبتے لوہے،سیمنت اور کنکریٹ کے پہاڑوں کو دیکھا۔کوئی
پیڑ،کوئی شاخ،کوئی سبز پتا؟ کہیں کچھ بھی نہیں!اُف ،یہ میں کس جہان میں آپھنسا!
کیا میری پرواز اتنی اونچی تھی کہ میں اپنی حدود سے باہر نکل آیا؟مجھے لوٹنا
ہوگا۔مگر بازوؤں سے اُتھتی ٹیس اس کے ارادے پر بجلی بن کر گری۔
اب تو بس چند ہی لمحوں کی پرواز کی سکت ہے مجھ میں،اس کے
بعد تو مجھے کہیں اُتر نا ہی ہوگا۔
مگر کہاں؟
اس نے نیچے دیکھا۔ہر طرف وہی بدلا ہوا منظر۔
ٹی وی ٹاور تھا جو غیر مرئی مناظر کو منتشر کر رہا
تھا……یہاں بھی نہیں!
بڑے بڑے نیون سائن بورڈ ٹنگے ہوۓ تھے……یہاں بھی نہیں!
سیمنٹ کنکریٹ کے اسکائی اسکر پیر منہ چڑارہے تھے……یہاں بھی
نہیں!
اسلہ ساز فیکٹریوں کی چمنیاں دھواں اُگل رہی تھیں……یہاں بھی
نہیں!
کائنات کے سارے اسرار سے واقف دیو پیکر دوربینیں تھیں……یہاں
بھی نہیں؟
آگ اور زہر اُگلتی بڑی بڑی ایٹمی بھتیاں تھیں……نہیں،یہاں
بھی نہیں!
تب کہاں؟سوچ کر وہ لرزگیا۔
کیا میں واپس لوٹ سکوں گا،اُن ندیوں،پہاڑوں اور جنگلوں کو
جہاں سے میں اُڑا تھا؟کیا اب میں اپنے نرم نرم گھونسلے میں اُتر سکوں گا؟
کیا اب کبھی نیلے آسمان کی وسعت میں تیرتے ہوۓ میں نظروں
کی آخری سر حد تک پھیلے گھاس کے میدان کا نظارہ کر سکوں گا؟
میری پیاس بجھانے کو کیا وہ ٹھنڈا پانی مل سکے گا؟
گھنے درختوں کی چھایا میں سستاتے کسی ہرن کی پیتھ پر بیٹھ
کر کیا میں اس کی گردن کو گد گدا سکوں گا؟
کیا نم مٹی میں اپنے پنجوں کے نشان دیکھ سکوں گا؟
سوالات میں خوف میں ڈھل کر پرندے کو بد حواس کردیا۔کسی پیڑ
کی زندہ شاخ کو پانے کے لیے اس نے زناٹے سے ایک غوطہ لگایا اور ایک دیو پیکر عمارت
کی کھڑکی کے مضبوط شیشے سے جا ٹکرایا ۔پھر تو وہ کسی ڈوبتے جہاز کی طرح گارھے کالے
دھویں میں گھری عمارتوں کی نہ جانے کتنی کھڑکیوں سے سر ٹکراتا پھرا مگر اسے واپسی
کا راستہ نہ ملا ۔اب اس کے حواس جواب دے چکے تھے۔وہ تھکن اور خوف سے کانپتے جسم کو
سنبھال نہ سکا اور ایک ایٹمی بھٹی کے منہ پر اپنا توازون کھو بیٹھا۔زہر نے پھیپڑوں
میںکانٹے بوۓ اور شعلوں نے اس کے پروں کو چاٹ لیااور گرد آلود تاریک آسمان پر دور
تک ایک روشن لکیر پھیلتی چلی گئ۔جب آگ پروں کو جلاتی اس کے دل تک پہنچی تب پرندے
نے تڑپ کر نیچے اُگے لوہے۔آگ اور دھوے کے جنگل پرآخری نگاہ ڈال کر سوچا،"کیا
یہ میری آخری پرواز ہے؟کیا اس سفاک ٹھوس زمین میں سے کوئی بیج اپنی ننھی سبز باہوں
سےسیمنٹ کنکریٹ کے پہاڑوں کو چیر کر تناوردرخت بننے کے لیے سر نہیں نکالے
گا……؟"
وہ سارے ماہرینِ فلکیات جن کی آنکھیں بڑی بڑی دوربینوںمیں
گڑیرہتی ہے اور جو کائنات میں نمودار ہونے والے ایک ایک ستارے کی خبر اکھتے ہیں،وہ
عین اپنے سرپرایک پرندے کی وجود کے خاک ہو کر فضا میں بکھرنے کے حادثے سے لاعلم ہی
رہے۔
0 Comments