جھڑی-نظیرؔ اکبر آبادی
Jhadii By Nazeer Akbarabadi
رات لگی تھی واہ واہ ،کیا ہی بہار کی
جھڑی
مو سمِ خوش بہار تھا
،ابرو ہَوا کی دھوم تھی
شمع وچراغ وگل
بدن، بارہ دری تھی باغ کی
یار بغل میں
غنچہ لب،
رات اندھیری جُھک رہی
مِنہ کے مزے،ہَوا
کےغل ،مے کے نشے گھڑی گھڑی
اِس میں کہیں سے،ہے ستم،ایسی اک آپَوَن
چلی
ابر کُھلا ،ہوا
گھٹی ،بوندیں تھمیں ،سحر ہوئی
پہلو سے یار
اُٹھ گیا،سب وہ بہار بہ گئی
شب کو ہوئیں اہااہا،زور مزوں کی مستیاں
بجلی کی شکلیں ہنستیاں،بوندیں پڑی بر
ستیاں
سبز دلوں کی بستیاں جنبس خوشی کی ستیاں
دونوں میں عیش مستیاں ،دونوں میں مے پرستیاں
دھوم جیوں میں بستیاں ،،چُلہیں پڑی اکستیاں
اس میں فلک نے یک بہ یک لو ٹیں دلوں کی بستیاں
ابر کُھلا ،ہوا
گھٹی ،بوندیں تھمیں ،سحر ہوئی
پہلو سے یار
اُٹھ گیا،سب وہ بہار بہ گئی
برسے تھیں کیا ہی جھوم جھوم رات
گھٹائیں کا لیاں
کوئلیں بو لیں
کا لیاں ،بہ چلے نالے ،نالیاں
بجلیوں کی اُجالیاں، بارہ دری کی
جا لیاں
عیش کی جھو میں ڈا لیاں ،با نہیں
گلوں میں ڈالیاں
چلتی تھیں مے کی پیا لیاں ،مُنہ پہ نشوں کی
لا لیاں
اس میں فلک
نےدوڑ کر سب وہ ہوائیں گھا لیاں
ابر کُھلا ،ہوا
گھٹی ،بوندیں تھمیں ،سحر ہوئی
پہلو سے یار
اُٹھ گیا،سب وہ بہار بہ گئی
چار
طرف سے ابر کی واہ اُٹھی تھی کیا
گھٹا
بجلی کی جگمگا ہٹیں ،رعد رہا تھا گڑ گڑا
برسے
تھا مِنہ بھی جھوم جھوم ،چھا جو ں
اُمنڈ اُمند پڑا
جھو نکے ہو کے چل رہے ،یار بغل میں لو ٹتا
ہم بھی ہوا کی لہریں،پیتے تھے مے بڑھا بڑھا
دیکھ ہمیں اِس عیش میں،سینہ فلک کا پھٹ گیا
ابر کُھلا ،ہوا
گھٹی ،بوندیں تھمیں ،سحر ہوئی
پہلو سے یار
اُٹھ گیا،سب وہ بہار بہ گئی
زور مزوں سےرات کو،برسے تھا مِنہ
جھمک جھمک
بو ندیں پڑیں ٹپک ٹپک ،پانی
پڑے جھپک جھپک
جام رہے چھلک چھلک ،شیشے رہے بھبک بھبک
یار
بغل میں با نمک
،عیش و طرب تھے بے دھڑک
ہم
بھی نشو ں میں خوب چھک
،لُوٹتے تھے بہک بہک
کیا ہی سماں تھا
عیش کا ،اِتنے
میں آہ یک بہ یک
ابر کُھلا ،ہوا
گھٹی ،بوندیں تھمیں ،سحر ہوئی
پہلو سے یار
اُٹھ گیا،سب وہ بہار بہ گئی
کیا ہی مزہ تھا واہ واہ ،ابر وہوا کا یارو ،کل
بر سے تھا مِنہ
سنبھل سنبھل ،آگے رہی تھی
شمع جل
عیش و نشاط
بر محل ،بارہ دری کا تھا محل
شوخ سے بھر رہی بغل
،دل میں قرار، جی میں کل
پیتے
تھے مَے مچل مچل ،لیتے تھے
بوسے پل بہ پل
اس
میں نظیرؔؔ ،یک بہ یک ،آکے
یہ میچ گئے خلل
ابر کُھلا ،ہوا
گھٹی ،بوندیں تھمیں ،سحر ہوئی
پہلو سے یار
اُٹھ گیا،سب وہ بہار بہ گئی
0 Comments