جُدائی -نظیرؔاکبرآبادی
Judaai By Nazeer Akbarabadi
جہاں میں نام تو سنتے
تھے ہم جدائی کا
ولے نہ دیکھا تھا
دردوالم جدائی کا
دیافلک نے ہمیں بھی یہ،سَم
جدائی کا
بُرا ہے مرگ سے
ایک ایک پل جدائی
کا
غضب ہے، قہر ہے، یارو ستم جُدائی کا
خدا کسی کو نہ
دکھلا ئے غم جُدائی کا
گھڑی گھڑی میں
تڑپ کر اُٹھے ہے دل سے آہ
جگر کے ٹکڑے
نکلتے ہیں اشک کے ہم راہ
جو کوئی شکل مری
دیکھتا ہے اب واللہ
یہی کہے ہے وہ ،سینے
سے سرد بھر کر آہ
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
مچے نہ کیوں
کے مرے دل میں داداور بے
داد
کہ تھے جو عیش و طرب ،سب
وہ ہو گئے بر باد
نہ جی کو چین ،نہ
آنکھوں کو سکھ نہ دل ہے شاد
بھلا میں کس سے اب
اِس ظلم کی کروں فریاد
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
کبھی تو یار کے
آنے کی راہ تکتا ہوں
گلی میں اُس کی
کبھی جاکے سر پٹکتاہوں
کبھی دوانا ہو، جنگل میں جا بھٹکتا ہوں
نکلتی جان نہیں اور
پڑا سسکتا ہوں
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
پھروں ہوں دشت و بیاباں میں رات دن غم ناک
جلاتا آہ کے شعلے سے
سب خس و خا شاک
خراب حال، جگر
خستہ ،اور گریباں چاک
یہ جس پہ آن پڑے
غم، وہ کیا جیسے پھرخاک
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
مری جو چشم سے دن رات
آنسو بہتے ہیں
توجاں و دل مرے کیاکیا
عذاب سہتے ہیں
جو آشنا ہیں
مرے مجھ کو دیکھ رہتے ہیں
سب اپنے حیف سے
مل مل کے ہاتھ کہتے ہیں
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
کبھی چمن کوجو
گھبرا کے ہوں نکل جا تا
تو واں بھی ہاے
ذرا دل
نہیں ہے ٹھہراتا
جدھر کو جاؤں ،اُدھر غم
جگر کو ہے کھاتا
عجب خرابی
ہے ، کچھ ہاے بن نہیں
آتا
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
جوکو ئی ہجر میں روتا تھا عا شق ِ محروم
میں ہنس کے کہتا
تھا دل میں ،عبث یہ ہے مغموم
مچی جو مجھ پہ بھی
آکر فراق کی یہ دھوم
وہ اُس کا درد ،مجھے ہاے اب ہوا معلوم
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
جو کو ئی پو چھے
ہے کیا تجھ پہ غم پڑا ایسا
کہ جس سبب سے تو پھرتا
ہے اِس قدر شیدا
میں اُس کو جس
گھڑی دیتا ہوں اپنا حال سنا
توبھرکے آنکھوں
میں آنسو ،یہی وہ ہے کہتا
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
نہ بھوک لگتی ہے نہ
نیند مُنہ دکھاتی ہے
جو دن پیے ہےلہو رات مجھ کو
کھا تی ہے
نہ دل لگی ،نہ کو ئی
چیز مجھ کو بھا تی ہے
کلیجا ٹو ٹے ہے اور چھا تی
اُمڈی آتی ہے
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
جو مجھ پہ آن
پڑا دن سیاہ ،مت پو چھو
ہو اہوں ہجر میں ایسا
تباہ مت پو چھو
سو اے مرگ نہیں
اب نباہ،مت پو چھو
جو ظلم مجھ پہ
گزرتا ہے ،آہ مت پو چھو
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
جُدائی ہاے محبّت
کی،کیا بُری ہے شے
کہ دل نہ بزم میں بہلے
، نہ خو ش لگے ہے مَے
نظیرؔ ،ہجر کے
اب غم میں رو یئے تاکے
بہت بُرا ہےیہ
عاشق کے حق میں دُکھ
ہَے ہَے
غضب ہے ،قہر ہے ،یارو
ستم جدائی کا
خدا کسی کو نہ دکھلائے غم جدائی کا
0 Comments