خمسہ بر غز لِ اصغؔر-نظیرؔ
اکبر آبادی
Khamsa Bar Gazal Asghar By Nazeer Akbarabadi
وہ رنگ کہیں لعلِ بد خشان
میں آیا
نیلم میں کہیں ،
گو ہرِ غلطان میں آیا
یاقوت میں، لماس میں ، مرجان میں آیا
جب حسنِ
ازل پردۂ امکان
میں آیا
بے رنگ
بہ ہررنگ ،ہر اک شان میں آیا
بُو ہو کے ہر اک
پھول کی پتّی میں
بسا ہے
مو تی میں ہو ا آب ، ستاروں میں ضیا ہے
تنہا نہ ہمارے ہی وہ
شہ رگ سے ملا ہے
نز دیک ہے وہ
سب سے ، جہاں اس سے بھرا ہے
جب چشم کُھلی
دل کی تو پہچان میں آیا
کیا قمری دِل سو ختہ کیا بلبل نالاں
کیا باغ ،چمن تختے
کا،کیا زیرِ خیاباں
سب مل کے یہی بات پکاریں
ہیں ہر اک آں
گل بھی وہی، سنبل
وہی، نر گس ،وہی ن ریحاں
اپنے ہی تما
شے کو گلستان میں آیا
کیا ارض وسما، حورو ملک ،دیو، پری ، جن
کیا وحشی وطائر ،نہیں
اک دم کوئی اُس بن
ہر رات یہی بات ،یہی ذکر ہے ہر چھن
اول وہی ، آخر
وہی ،ظاہر وہی ، باطن
مذکور یہی آیتِ
قرآن میں آیا
آکر کہیں دیتا ہے وہ
سینے میں لگا آ گ
اور حال کہیں کرتا ہے لا مُنہ کے اُپر
جھاگ
جو اُس کے شنا سا ہیں
یہی کہتے ہیں بے
لاگ
ہر راگ
میں بولا وہ ہر اک تان میں آیا
کیا چمپئی ،کیا
پستئی ،کیا اخضرو احمر
کیا سو سنی ، کیا
کشمشی ،کیا ابیض و اصفر
اب مثلِ نظیرؔ ،اس چمن دہر کے اندر
بے رنگ کے رنگوں
کو ذرا دیکھ لے اصغرؔ
سو طرح کے عالم
کے خیا بان میں آیا
0 Comments