خوجی کی بہادری- ر تن
ناتھ سرشاؔر
Khoji Ki Bhaaduri By Ratan Nath Sarshar
میا ں خوجی اورآزادکو لکھنؤآ ئےکافی دن ہو چکے تھے۔سرائےمیں قیام تھا۔ایک
رات عجیب واقعہ پیش آیا۔خوجی دن بھرکےتھکےہارےپلنگ پردراز ہو ئےتوذرایرمیں ان کی
آنکھ لگ گئی۔آپ جانیں کہ سرائےکےکھاٹ کھٹملوں کابسیرا۔پچھلےپہرہی سے کھٹملوں
نےمیاں خوجی کوبھنبھوڑناشروع کردیا۔بدن بھرکاخون جونک کی طرح پی لیا۔ایک طرف تھکن،دوسری
طرف نیندکاغلبہ اوراس پرکھٹملوں کی یورش۔میاں خوجی جِھلّااُٹھے۔چراغ روشن کیا۔دیکھاتوسیکڑوں کی تعدادمیں کھٹمل
بسترپررینگ رہےہیں۔میاں خوجی کاپارہ چڑھ گیااورلگےغصّےمیں چیخنےچلانے۔
’’ارے،لانامیری قَرَولی!ابھی ان کھٹملوں کوموت کےگھاٹ اُتارتاہوں۔اتنی قرولیاں
بھونکوں گاکہ چَھٹی کادودھ یادآجائے گا۔ارے،لاناتومیری قرولی !‘‘میاں خوجی یوں
دہاڑدہاڑکرچیخےتوتمام سرائےوالوں کی نیندحرام ہوگئی۔وہ یہ سمجھےکہ چورآگیا۔ہر طرف
’’لینا،پکڑنا،جانےنہ پائے‘‘کاشورمچ گیا۔ہڑبونگ کایہ عالَم کہ کوئی آنکھ
مَلتا،اندھیرےمیں ٹٹولتاہے۔کوئی کھاٹ کےنیچےسےاپناصندوق کھینچتاہے۔کوئی مارے ڈرکےآنکھیں
بندکیےدُبکاپڑاہے۔کوئی لاٹھی ہاتھ میں لیےچورکے چورکےپیچھے بھاگتاہے۔’’چورـچور،لیناپکڑنا،جانےنہ پائے‘‘۔
میاں خوجی
نےجو’’لینا،پکڑنا،جانےنہ پائے،جانے،جاگتےرہتا۔چورـچور‘‘کی آوازیں سنیں توخودبھی
غُل مچانےلگے۔’’خبر دار!جانےنہ پائے،لانامیر ی قرولی۔اے چور!گیدی۔ٹھہرےرہنا‘‘۔
اب میاں خوجی کویہ کون بتائےکہ یہ شگوفہ خودان کاہی چھوڑاہواہے۔نہ وہ سوتےنہ
کھٹمل کاٹتے،نہ وہ چیختےچلّاتےاورنہ کھٹمل کاچوربنتا۔بات کابتنگڑانھی نے بنایاتھا۔
اب میاں خوجی کی رگِ بہادری پھڑک اُٹھی۔ایک دم سےکنڈی کھول کرچورپرلپک پڑے۔جدھرسےزیادہ
آوازیں آرہی تھیں،تیزی سےبڑھے۔چاروں طرف اندھیراتھا۔کسی چیزسےٹکرائے،ٹھوکرکھائی
اوراڑااڑادھم،اوندھےمنہ زمین پرآرہے۔بدقسمتی سےوہاں کمھارکےبرتن ر کھےتھے۔ان پرجوگرےتو برتن چکناچورہوگئے۔
کمھارنے جودیکھاکہ کوئی برتنوں پرسےکوٗدکربھاگ رہاہےتواس نےبھی چیخناشروٗع
کردیا،’’چورـچور۔پکڑو،پکڑو۔
جانےنہ پائے۔‘‘
مسافر،بھٹیارے،حوالی موالی؛کوئی ڈنڈالیےہے،کوئی بیدگُھماتاہے،کوئی لکڑی ہلاتاہےاورمیاں خوجی ٹوٹےہوئےبرتنوں پربےدم پڑےآوازیں لگارہےہیں۔
بھٹیارےنےدیکھاکہ ایک آدمی پڑاہےتوسمجھاکہ یہی چورہے۔آگےبڑھ کرگلاپکڑا۔جھٹکےسےزمین
سےکھینچااورسیدھاکھڑاکردیااورزورزورسےچلّانے لگا،’’راےدوڑو۔چورپکڑلیا۔چورپکڑلیا‘‘۔
آنےوالوں نےخوجی کوچورسمجھ کرایسی خاطرتواضع کی،اتنےلات گھونسےرسیدکیےکہ میاں
کےانجرپنجرڈھیلےہوگئے۔جب لوگ مارمارکرتھک گئے تو مسافروں میں سےکسی نے
کہا،’’اےٹھہرو،ٹھہرو۔یہ تووہی خوجی ہےجوپا نچ سات روزسےاس سرائےمیں ڈیراجمائےہے۔‘‘
فوراًچراغ جلایاگیا۔لوگوں نے دیکھاتوپہچاناکہ یہ تووہی تیرھویں صدی
کابالشِتیاخوجی ہے۔سب نے ایک زبان ہوکرکمھارسے کہا،’’چھوڑدے۔چھوڑدے۔چور نہیں
ہے،خوجی ہے۔‘‘
اللہ اللہ کرکے میاں خوجی کی جان بچی۔جیسے ہی کمھارنےانھیں چھوڑا،ان کی رگِ
حمیت پھڑک اُٹھی۔زمین پربیٹھ گئے۔کہنے لگے،’’ابے کمھارگید ی،ہٹتاہے یاماروقرو لی۔‘‘
یارلوگو ں نے جب خوجی کی حالت غیرد یکھی توکسی نےسرسہلایا،کسی نےسہارادیااور
میاں خوجی ذراسی دیرمیں گردجھاڑکر اُٹھ کھڑےہوئے۔
ادھر آزادکوخبرملی کہ خوجی چوری کرتےپکڑےگئےہیں۔کسی مسا فرکی ٹوپی چرالی
تھی۔کسی نےآزادکو بتایاکہ کمھارکی ہنڈیاچُرانے گئےتھے ۔جاگ پڑگئی۔پکڑے گئے۔بے
بھاؤکی پڑی۔غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
آزادکوبہت صد مہ ہواکہ ان کاساتھی اور چوری میں گرفتارہو۔مگریہ بات ان کے دل
کونہیں لگتی تھی۔وہ توبس فقر ہ بازی جانتاہے،شیخی بگھارتاہے۔بھلاچوری چکاری بھی
کرتاتوکمھارکی ہنڈیوں کی؟
آزاداکوغصّہ آگیا۔جلدی سےچارپائی سےاُترےاورلکڑی ہاتھ میں لی کہ جوبولےگااس
کومزہ چکھادو گااورخوجی کی مزاج پُرسی کوچلے۔
ابھی آزاداپنی
کوٹھری سےباہرنکلےہی تھےکہ ان کےکان میں آوازآئی۔
’’ہت تیرےگیدی کی!بڑاآزادبناپھرتاہے۔ایسےآزادبہت دیکھےہیں۔چارچائی
پرپڑےخرخرکیاکیےاورہماری خبر نہ لی۔‘‘یہ سن کرآزادمسکرائے۔دوقدم چلےہوں گےکہ
دیکھاخوجی جھوٗمتاجھامتاچلاآتاہےاوربڑبڑاتاجاتاہے۔
’’نہ ہوئی قرولی ورنہ
اس وقت کمھارکی لاش پھڑکتی ہوتی۔‘‘
خوجی لڑکھڑاتا،جھوٗمتاجھامیاآزادکی کوٹھری تک چلا آیا۔جب قریب پہنچاتو
آزادنے کہا،’’خیرہم کوتوپیچھےگا لیاں دینا۔اب یہ بتاؤکہ ہاتھ پیرتونہیں ٹوٗٹے؟‘‘
’’ہاتھ پاؤں۔‘‘خوجی بولا،’’ہو نہہ۔یہ لوہےکی سلاخیں ہیں۔پچاس آدمی
گھیرےہوئےتھے۔پورےپچاس۔وہ وہ ہاتھ دِکھائےکہ سب دنگ رہ گئے۔چٹکیوں میں گھیراتوڑ،لوگوں
کوبکھیرکررکھ دیا۔نہ ہوئی قرولی ورنہ چا رپانچ لاشیں پھڑک رہی ہو تیں۔‘‘
آزادمزاج داں تھے ۔مسکر اکر کہا،’’وہ کیسے؟‘‘
خوجی نے فو راہاتھ پھینک کر کہا،’’واللہ!میں اس وقت پھلجھڑی بناہواتھا۔بس
کیفیت یہ تھی کہ دس آدمی اِس کندھے تو دس آدمی اُس کندھے۔میں جوپھر اتوکسی کو
انٹی دی،وہ دھم سےزمین پرگرا۔کسی کوکمرپرلادکر مارا،کھٹ سےچھپّرکھٹ کی پٹّی پر۔دوچارتو
میر ے رعب میں آکر ہی گرپڑے۔دس بارہ کی ہڈی پسلی ایک کردی۔جومیرےسا منےآیا،اسے
نیچادِکھایا۔ اوروہ کمھا رگیدی تو ساری
عمر یادر کھے گاکہ کس سے واسطہ پڑاتھا۔
آزادنے بہت غورسےیہ سب کچھ سنااور کہا،’’درست فرمایا۔ آپ سے یہی تو قّع تھی۔
بہادرایساہی کر تے ہیں۔‘‘
0 Comments