کورا برتن -نظیؔر اکبرآبادی
Kora Bartan By Nazeer Akbarabadi
کورے برتن ،ہیں
کیاری گلشن کی
جن سے کِھلتی ہے ہر
کلی تن کی
بوند پانی کی اُن میں
جب کھنکی
کیا وہ پیاری صدا ہے سَن سَن کی
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
پانی کی آپ اب بڑی ہے
ذات
قطرہ قطرہ ہے جس کا آبِ حیات
کو رے برتن
میں جب کہ آیا ہات
پھرتو آبِ حیات بھی ہے
مات
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
کو رے کوزوں
کو دیکھ عالم میں
کوزے مصری
کےبھرگئے غم میں
یوں وہ رِستے ہیں آب
کے نم میں
جیسے ڈوبے ہوں پھول شبنم میں
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
وہ جو کورا سفید جَھجرّ ہے
جس کی جاگیر
مُلکِ جھجرّ ہے
بیل بو ٹے سے اِس
جھمک پرہے
تاش ،کم خواب
،یا مشجّر ہے
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
جس صراحی میں سرد
پانی ہے
موتی کی آب، پانی پا
نی ہے
زندگی کی یہی
نشانی ہے
دوستو ،یہ بھی بات پانی ہے
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
جتنے نذرو نیاز کرتے ہیں
اور جو پیروں سے اپنے ڈرتے ہیں
جب کہ لا پھو ل پان دھرتے
ہیں
وہ بھی کوری ہی ٹھلیاں بھرتے ہیں
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
خاک سے جب کہ
اُن کو گڑھتے ہیں
بندگی سے یہ
اپنی بڑھتے ہیں
کو روں پر پھول ،ہار چڑھتے
ہیں
حو ر و غلماں درود پڑھتے
ہیں
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
کوروں پر جو نظیرؔ ،جوبن ہے
جو جرے میں کہاں
وہ کھن کھن ہے
جس گھڑ و نچی پہ کورا
با سن ہے
وہ گھڑ و نچی نہیں ہے ،گلشن
ہے
تازگی جی کی
،اور تری تن کی
واہ ،کیا بات
کورے برتن کی
0 Comments