ماهِ نَو-علامہ اقبال
Mah-e- Nau By Allama Iqbal
ٹُوٹ کر خورشید کی کَشتی ہوئی غرقابِ
نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے رُوئے آبِ نیل
طشتِ گردُوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خونِ
ناب
نشتر ِقُدرت نے کیا کھولی ہے فصدِ
آفتاب
چرغ نے بالی چُرا لی ہے عُروس ِشام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیمِ خام
کی
قافلہ تیرا رواں بے منت بانگِ درا
گوشِ انساں سُن نہیں سکتا تری آوازِ
پا
ہے وطن تیرا کدھر، کس دیس کو جاتا ہے
تُو
ساتھ اے سیّارہ ثابت نما لے چل مجھے
خارِحسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل
مجھے
نور کا طالب ہوں، گھبراتا ہوں اس بستی
میں میں
طفلکِ سیماب پا ہوں مکتبِ ہستی میں َمیں
0 Comments