Mausame Garma Aur Ahetiyati Tadabir|موسم گرما اور احتیاطی تدابیر

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Mausame Garma Aur Ahetiyati Tadabir|موسم گرما اور احتیاطی تدابیر

 

موسم گرما اور احتیاطی تدابیر
Mausame Garma Aur Ahetiyati Tadabir
موسم گرما اور احتیاطی تدابیر

 Summer and Precautions in Urdu

جون کا مہینہ یہ دھوپ اور تپتی ہواؤں کا مہینہ ہوتاہے۔ زندگی گھر کے اندر اور سائے والی جگہ پر تو اچھی لگتی ہے لیکن باہر نکلتے ہی ’’قیامت کی گرمی‘‘ اور ’’دوزخ کے حالات ‘‘جیسے الفاظ منہ سے نکلتے ہیں۔ اس کے باوجود گھر سے باہر نکلنا اور کام کاج پر جانا اور ضروری کام کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اس شدید موسم میں رہن سہن کے بنیادی اصول ہر ایک کو معلوم ہونے چاہئیں۔ ہمارے جسم کا اندرونی نظام قدرت نے ایسا بنایا ہے کہ یہ ایک مخصوص درجہ حرارت پر کام کرتا ہے۔ یہ مستقل درجہ حرارت ابتدائے حیات کی نمائندگی کرنے والے پودوں اور جانوروں میں اس اعلی درجے کا نہیں پایا جاتا جس قدر یہ ارتقاء یافتہ جانداروں میں ملتا ہے۔ جسم انسانی کے درجہ حرارت کے ایک مستقل درجہ پر ہونے کے متعلق سب سے پہلے ایک فرانسیسی فزیالوجسٹ کلاڈ بر نا ر ڈنے اشارہ کیا تھا اور ایہ انیسویں صدی کے تقریب وسط کی بات ہے۔ جسم کے اندرونی درجہ حرارت کے ایک ہی درجہ پر رہنے کی ضرورت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں جسم کی ساخت اور اس کے افعال کی بنیادی باتوں سے آگاہی ہو۔

 ہمارے جسم کے تمام اعضاء چھوٹے چھوٹے خوردبینی خلیوں سے مل کر بنے ہیں۔ ان اعضاء کے افعال ان کے خلیوں کے افعال کی بناء پر انجام پاتے ہیں۔ اعضاء اگر فیکٹری ہیں تو یہ خلئے ان میں کام کرنے والے ور کر ۔ یعنی جگر کے افعال جگر کا ہر خلیہ سرانجام دیتا ہے اور دماغ کے افعال اس کے تمام خلیے ۔ یہی معاملہ دیگر اعضاء کا ہے۔ ان خلیوں کے تمام افعال ان کے اندر موجود اجزاء کے کیمیائی رد عمل تب واقع ہوتے ہیں جب ان خلیوں کے اندر موجود مادے ( اینزائم ) اپنی صحیح حالت میں ہوں۔ یہ نیز ائم درجہ حرارت میں کمی یا زیادتی سے بہت جلد متاثر ہوتے اور اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے ناکارہ ہونے سے خلیے کا وہ فعل بند ہو جاتا ہے اور خلیے کا کام بند ہونے سے اس عضو کا کام معطل (جیسے ورکرز ہڑتال پر چلے جائیں تو پورہ  فیکٹری کا کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ) جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارا واسطہ ہر قسم کے موسم سے پڑتا ہے۔ اپنے ملک میں اگر ہمیں تمام موسم میسر ہیں تو اللہ نے ہمیں اس کائنات پر گھومنے کے وسائل بھی دیئے جن سے ہم ایک ہی دن میں برفیلے علاقوں کو چھوڑ کر تپتی دھوپ والے ممالک میں جاپہنچتے ہیں۔ بیرونی موسم اور درجہ حرارت میں اس انقلابی تبدیلی کے باوجود اندرونی طور پر ہمیں کوئی زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ جبکہ یہ ہم پہلے جان چکے کہ ہمارا اندرونی نظام درجہ حرارت میں بہت زیادہ تبدیلی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

 وجہ یہ ہے کہ جسم کے اندر نمبر پر کنٹرول کا ایک نظام کام کرتا ہے جو اس ٹمیپر یچر کو ایک حد سے آگے جانے نہیں دیتا۔ گرمی میں جب ماحول کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے تو جسم اس زیادہ حرارت کو اپنے اندر داخل نہیں ہونے دیتا بلکہ اپنے اندر پیدا ہونے والی فالتو توانائی کو بھی خارج کرنا چاہتا ہے۔ یوں ہمیں پسینہ آتا ہے تاکہ جسم کی بیرونی سطح گیلی ہو اور اس کے ذریعے فالتو حرارت بیرونی ماحول کو منتقل ہو جائے اس کے علاوہ دماغی احکامات کے زیر اثر ہم ہلکے کپڑے پہنتے ہیں، بار بار نہاتے ہیں، پانی اور دیگر مشروبات زیادہ استعمال کرتے ہیں، سائے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، پنکھے اور ایر کنڈیشن وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ ان سب کے استعمال کا صحیح طریقہ کیا ہے اور یہ تدابیر اختیار نہ کرنے سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

گرمیوں میں صحت مند رہنے کےبنیادی اصول
تیز دھوپ سے بچیں:

 

گرمیوں کے موسم میں تیز دھوپ میں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے باہر نکلنا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ تیز دھوپ میں ہوا بھی کافی گرم ہو کر ُلو کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور اس کی زد میں آنے والی تمام اشیا حتی کہ زمین بھی تپ جاتی ہے۔ ایسے میں ننگے سر اور کھلا بدن باہر نکلنے سے جسم کی اندرونی گرمی باہر نکل نہیں پاتی الٹا باہر کی گرمی جسم کے اندر داخل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ دماغ کو گرمی لگنے سے اس میں موجود ’’ٹمپریچر کنٹرول سنٹر ‘‘جو عام طور پر جسم کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں دیتا نا کارہ ہو جاتا ہے کیوں جسم کا درجہ حرارت ماحول کے مطابق بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔اس لیے شدید گرمی میں سر پر ہیٹ ، ٹوپی یا کپڑا لے کر باہر نکلنا حتی الامکان دھوپ سے ہٹ کر چلنا ، اور پانی پیتے رہنا وغیرہ جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرناضروری ہے۔

 ایر کنڈیشنز استعمال کرنے گرمی سے ایک دم سردی میں اور تیز ایر کنڈیشنڈ جگہ سے ایک دم گرمی میں جانے سے پر ہیز کرنا چاہیے۔

 

پانی اور مشروبات زیادہ استعمال کریں:

گرمی میں ہمارے جسم کا درجہ حرارت نارمل رکھنے کے لیے ہماری جلد مستقل طور پر گیلی رہتی ہے۔ یہ پسینے کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کے ساتھ جسم کی گرمی بھی خارج ہوتی رہتی ہے۔ یوں ہمارے جسم کا درجہ حرارت تو ایک جگہ قائم رہتا ہے لیکن پانی اور نمکیات کی جسم میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں پیاس لگتی ہے اور ہم کبھی کم اور کبھی زیادہ پانی پی لیتے ہیں لیکن نمکیات کو عمو ناً بھول جاتے ہیں۔ اس موسم میں ہمیں زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے اور درمیان میں ایسے مشروبات جن میں نمک اور کچھ چینی ( مثلاًلسی، سکنجبین ، سکواش وغیرہ) شامل ہوں وہ بھی ضرور استعمال کرنے چاہئیں۔ نمک استعمال کرنے سے ضائع شدہ نمک جسم میں واپس آتا رہتا ہے اور کمزوری کا احساس نہیں ہوتا جس کی شکایت اس بات کا اہتمام نہ کرنے والوں میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ چینی اس لیے ضروری ہے کہ اس کی موجودگی میں نمکیات کو جسم میں اچھی طرح جذب ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن بلڈ پریشر اور ذیا بیطس کے مریضوں کو اس سلسلے میں پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر لینا چاہیے تا کہ ان کی تکلیف کے درجہ کے حساب سے چینی اور نمکیات کے استعمال کا فیصلہ کیا جائے۔

 

پھل اور سبزیاں زیادہ کھا ئیں:

پھل اور سبزیاں ویسے تو ہر موسم میں زیادہ استعمال کرنے چاہئیں لیکن گرمیوں میں تو اس کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ہمارا جسم 80 فیصد سے زیادہ پانی پرمشتمل ہے اورقدرتی طور پر پائی جانے والی غذاؤں میں یہ دونوں چیزیں عموماً اتناہی پانی اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اس طرح پانی بہت زیادہ نہ پینے کی صورت میں بھی پانی تقریباً مطلوبہ مقدار ہمارے جسم کے اندر چلی جاتی ہے۔ اس موسم میں اپنے اندر پانی کی خاصی مقدار ر کھنے والی کافی سبزیاں مثلاً کدو، ٹنڈے کھیرا، ککڑی حلوہ کدو اور پھلوں میں تربوز خربوزہ، گرما، آلو بخارا، آڑو اور انگور وغیرہ موجود ہوتے ہیں ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔ پروٹینز یعنی گوشت اور انڈے وغیرہ کا استعمال اس موسم میں گھٹا دینا بہتر ہوتا ہے کیونکہ پروٹیز کا فالتو مادہ’’یوریا‘‘جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے اور نارمل حالات میں اسے گردوں کے راستے پیشاب میں فوراً خارج کر دیا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گرمیوں میں پیشاب کی مقدار کم ہو جاتی ہے یوں یوریا کے جسم سے پوری طرح خارج ہونے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ اگر چہ انسانی جسم میں اس تبدیلی کا تدارک کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور گرمیوں میں بھی یور یا پوری طرح سے خارج ہوجاتا ہے لیکن احتیاط بہرحال بہترہے۔

 

سہولت کے مطابق نہانے کا اہتمام رکھیں:

 

جسم انسان کے مختلف افعال کے نتیجہ میں ہر وقت حرارت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ سردیوں میں اس حرارت کو بچا کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہم گرم کپڑے پہنتے ہیں۔ گرمیوں میں ہم اس سے نجات پانا چاہتے ہیں تا کہ اندرونی  ٹمپر یچر بڑھنے نہ پائے ۔ اس لیے یہ حرارت ہماری جلد، پیشاب اور سانس کے ذریعے خارج ہونا چاہتی ہے۔ حرارت کی منتقلی کا اصول ہے کہ یہ زیادہ گرم چیزوں سے کم گرم کومنتقل ہوتی ہے۔ اگر ہماری جلد ٹھنڈی ہو گی تو اندرونی گرمی اس کو منتقل ہو سکے گی۔ یوں جلد کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سائے میں رہنے ، پنکھے کے آگے بیٹھنے میسر ہوتو ایر کنڈیشنز استعمال کرنے کے علاوہ ایک آسان اور سستا کام نہانا ہے۔ اس سے ہماری جلد گیلی ہوکر ٹھنڈی رہتی ہے اور اندرونی فالتو گرمی اس سے بیرونی ماحول کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔

 

ایر کنڈیشنڈ اور زندگی:

 

ایر کنڈیشن ایک نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ دور ِجدید کا طرز تعمیر جس میں اینٹوں، سیمنٹ ،سریوں اور دیگر دھاتوں کا استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ سب بیرونی ماحول کی گرمی کو عمارت کے اندر منتقل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر چھتیں بہت نیچی رکھی جاتی ہیں تا کہ عمیر کا خرچہ کم ہو، یہ بھی اندرونی ماحول کے گرم رہنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل عمارتوں کو ایر کنڈیشن کر کے نکالا جاتا ہے جس سے اندرونی ماحول ٹھنڈا ہو جاتا ہے لیکن اس کے عوض اور کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بیرونی ماحول کا انتہائی شدید گرم اور آلودہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو عمارتوں کے اندر رہتے ہیں انہیں بھی کبھی باہر تو نکلنا ہوتا ہے اور وہ جومستقلا ًباہر ہی رہتے ہیں ان کے لیے تو یہ عذاب مفت کا بھی اور مستقل بھی ہے۔

یہی معاملہ ایر کنڈیشن گاڑیوں کا ہے۔ پھر جو عمارتیں سنٹرل ایر کنڈیشنڈ ہیں ان میں ہوا کی نالیاں (Ducts) وقت گذرنے کے ساتھ مٹی اور جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے ان عمارتوں میں رہنے اور کام کرنے والوں میں مختلف مسائل خاص طور پر سانس کی بیماریاں عام ہونے لگتی ہیں۔ ان سب کاحل یہ ہے کہ ایسا طرز تعمیر اختیار کیا جائے جس میں قدرتی طور پر ہوا کی آمد ورفت اور ٹھنڈا ر ہنے کے امکانات زیادہ ہوں اور مصنوعی طریقوں پر انحصار کم ہو اور جہاں ایر کنڈیشنز استعمال کیا جائے وہاں تھر موسٹیٹ کے ذریعے ٹھنڈک کو کم سے کم رکھا جائے تا کہ توانائی بھی بچے اور آلودگی بھی کم سے کم ہو۔ فل اے سی لگا نااور پھر لحاف اوڑھ کر سونا کوئی عقلمندی نہیں۔

 

Post a Comment

0 Comments