موت -نظیرؔ اکبر آبادی
Maut By Nazeer Akbarabadi
دنیا کے بیچ ،یارو سب
زیست کا مزا ہے
جیتوں کے واسطے ہی یہ
ٹھا ٹھ سب ٹھٹھا ہے
جب مر گئے تو آخر پھر
عمر ،خاک پاہے
نہ باپ ہے ،نہ بیٹا
،نہ یار آشنا ہے
ڈرتی ہے روح ،یارواور جی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
جیتوں کے دل کو ہردم
کیا عیش پے بہ پے ہے
گل زار ،نا چ ،سیریں
،ساقی ،صراحی ،مے ہے
جب مرگئے تو ہرگز مے
ہے،نہ کو ئی شے ہے
اِس مرگ کے ستم کو کیا کیا کہوں میں،ہَے ہَے
ڈرتی ہے روح ،یارواور جی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
ہے دم کی بات جو تھے مالک یہ اپنے گھر کے
جب مرگئے تو ہر گز گھر
کے رہے نہ درکے
یوں مٹ گئے کہ گویا
تھے نقش رہ گذر کے
پو چھا نہ پھر کسی
نے،یہ تھے میاں کدھر کے
ڈرتی ہے روح ،یارواورجی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو مرنا
بُری بلاہے
مر نے کے بعد ،کوئی
الفت نہ پھر جتاوے
نے بیٹا پاس آوے ،نے
بھا ئی مُنہ لگاوے
جو دیکھے اُ ن کی صورت
،دہشت سے بھاگ جاوے
اس مرگ کی جفائیں
کیاکیا کوئی سناوے
ڈرتی ہے روح ،یارواور
جی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
پیتے تھے دودھ شربت
اورچا بتے تھے میوا
مرتے ہی پھر کچھ اُن کا
سکّہ رہانہ تھیوا
بچّے یتیم ہو گئے ،بی
بی کہا ئی بیوا
اس مرگ نے اکھا ڑا کس
کس بدن کا لیوا
ڈرتی ہے روح ،یارواورجی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
جب روح تن سے نکلی
،آنا نہیں یہاں پھر
کاہے کو دیکھنے ہیں یہ باغ
و بوستاں پھر
ہاتھی پہ چڑھ کے یاں
پھر ،گھو ڑے پہ چڑھ کے واں پھر
جب مرگئے تو لوگو یہ
عشرتیں کہاں پھر
ڈرتی ہے روح ،یارواور
جی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
گھر ہو بہشت جن
کا اور بھر رہی ہو دولت
اسباب عشرتوں کےمحبوب
خوب صورت
پھر مرتے وقت اُن کو کیوں کرنہ ہووے حسرت
کیا سخت بے بسی ہے ،کیا
سخت ہے مصیبت
ڈرتی ہے روح ،یارواور جی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
کھانے کو اُن کے نعمت
سوسو طرح کی آتی
اور وہ پاویں ٹکڑا
دیکھو ٹک اُن کی چھاتی
کو ڑی کی جھو نپڑی بھی
چوڑی نہیں ہے جاتی
لیکن نظیرؔ ،سب
کچھ یہ موت ہے چھڑا تی
ڈرتی ہے روح ،یارواور
جی بھی کا نپتا ہے
مرنے کا نام مت لو
مرنا بُری بلاہے
0 Comments