موت کی آندھی- ابن صفی
Maut ki Aandhi By Ibn-e-Safi
1
عجیب حادثے
اس
وقت دلکشا ہوٹل کے عظیم الشان ہال میں بے شمار آدمی قہقہوں،مسکراہٹوں اور سر
گوشیوں کے طوفان میں بہہے جارہے تھے۔سردی اپنےشباب پر تھی حالا نکہ ابھی صرف سات
بجے تھے لیکن ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کافی رات گذر گئی ہو۔ہال کے اسٹیج پر ایک
مصری قاصہ تھرک رہی تھی۔ناچ کوئی خاص نہ تھا۔ یوں ہی معمولی سا۔ رقاصہ بھی کچھ زیادہ
حسین نہ تھی۔ وہ ابھی حال ہی میں اس شہر میں وارد ہوئی تھی۔ اُس نے دو ماہ کے لئے
دلکش والوں سے کنٹریکٹ کر لیا تھا۔ وہ رہتی بھی وہیں تھی۔ دو خوبصورت اور کافی بڑے
کمر ے اس نے کرائے پر لے رکھے تھے ۔ وہ ناچتی رہی آرکسٹرا کی
مغموم موسیقی سے معلوم ہورہاتھا کہ وہ کوئی المناک رقص ہے۔ بہر حال وہ اس طرف کے
لوگوں کے لئے قطعی نا قابل فہم تھا۔ ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ تو محض اس کے گداز جسم
کی نمائش میں دلچسپی لے رہے تھے ۔ رقاصہ خوبصورت تو نہ تھی لیکن جوان ضرور تھی۔ اس
کا کھلتا ہوا گندمی رنگ چند بے قرار بجلیوں پر چڑھا ہوا ایک غلاف معلوم ہوتا تھا
اور دوران رقص میں تو ایسا معلوم ہور ہا تھا جیسے یہ غلاف پھٹ جائے گا اور سارے
اسٹیج پر بجلیاں کوندنے لگیں گی۔ اس نے اس وقت ساٹن کی چمکدار اور ڈھیلی ڈھالی
شلوار پہن رکھی تھی ۔ جس کے پانئیچے ٹخنوں کے قریب پہونچ کر بالکل تنگ ہو گئے تھے۔
گلے میں ایک مختصرسی جیکٹ تھی جس پر چمکدار تاروں سے کشیدہ کاری کی گئی تھی ۔ جب
وہ دائر دینا کر گھومتی ہوئی رقص کرتی تو کئی ٹھنڈی سانسیں لے کر کرسیوں کی پشت سے
ٹک جاتے ۔
اس پورے مجمع میں
صرف ایک نو جوان بہت زیادہ پریشان نظر آر ہا تھا۔ اس نے جدید طرز کا ایک نفیس اور
قیمتی سوٹ پہن رکھا تھا لیکن اس کی بے اطمینانی اور بے چینی سے صاف ظاہر
ہورہاتھا کہ وہ اس قسم کے لباس کا عادی نہیں ہے۔ وہ اپنی ٹائی کی گرد کو بار بار
اس طرح چھونے لگتا تھا جیسے اس کی گردن میں درد ہورہاہو۔ وہ ایک چھوٹی سی میز پر
تنہا ہی بیٹھا تھا۔ سامنے بیر کی بوتل اور
ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔
رقاصہ نا چتے ناچتے
پردے کے پیچھے چلی گئی اور ہال تالیوں سے
گونج اٹھا۔ اس جوان نے اپنے ماتھے پر پسینے کی بوندیں پوچھیں اور کرسی کی پشت سے ٹیک
لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
کبھی کبھی وہ گھبرائی ہوئی نظروں سے اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی دیکھ لیتا
تھا۔ تھوڑی دیر بعد آرکسٹرا کی دھنیں پھر بجنے لگیں اور رقا صہ اس باراپنے ہاتھ میں خنجر لئےگھونگر دؤں
کی آواز فضا میں بکھیرتی ہوئی آسٹیج پر
سوار ہوئی۔ اس باراس کے رقص میں غم انگیز اضمحلال کے بجائے ایک وحشیانہ پھرتی اور موسیقی ی جنگلی پن تھا۔ طبلے
کی تھاپ پر اس کے سارے جسم میں ایک عجیب قسم کی جھلکے دار لرزش پیدا ہو جاتی تھی۔
ایسامعلوم ہورہا تھا۔ جسےوہ نا چ ناچ کر اپنے خیالی دشمنوں کے سینوں پر پوری قوت
سے وار کر رہی ہو۔
مضطرب جو ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور وہ میز پر
کہنیاں ٹیک کر آگے کی طرف جھک گیا۔ اس کے ماتھے پر پھرننھی ننھی بوندیں
پھوٹ آئی تھیں۔ وقت گذرتا جارہا تھا۔ ہال آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔ گیارہ بجے تک
بہت تھوڑے آدمی رہ گئے ۔ وہ نو جوان ابھی تک وہیں بیٹھا تھا۔
پھر رقص ختم ہو گیا۔
آرکسٹر!کی دھنیں خاموشیوں میں کھو گئیں ۔ رقاصہ اوپری منزل میں اپنے کمرے میں چلی
آئی۔ اس کے وہاں سے آنے کے بعد وہ نو جوان بھی لڑکھڑاتا ہواز ینے طے کر رہا تھا۔
اس کی یہ لڑ کھڑ ا ہٹ نشہ سے زیادہ
گھبراہٹ اور بے چینی کا نتیجہ تھی۔ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس پر خوف طاری ہے۔
رقاصہ جس کا نام حسینہ تھا اپنے کمرے میں آکر قد آدم آئینے
کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ تھوڑی دیر تک وہ خاموش کھڑی رہی پھر اُس نے میز کی دراز سے
ایک شیشی نکالی ، ایک گلاس میں پانی لیا اور شیشی سے کوئی سیال شئے پانی میں انڈیل
کر پی گئی۔چند لحوں کے بعد ایسا معلوم ہونے لگا جیسے اس کی آنکھیں نشے سے بوجھل
ہوئی جارہی ہوں۔ وہ پھر آئینے کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اُس نے اپنا جیکٹ اُتار پھینکا
بال بکھیر دئیے۔ وہ نیم عریاں حالت میں وحشیانہ قہقہے لگاری تھی۔ آئینے میں دیکھ دیکھ
کروہ بُرے منہ بناتی رہی۔ پھر اُس نے چند پیسے مٹھی میں دبا کر ہوا میں اچھالے اور
زمین پر دوزانوں بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگی۔ سب پٹ‘‘ وہ بڑبڑائی ایک بھی چت نہیں۔
تو ابھی وقت نہیں آیا۔ خیر میں انتظار کروں گی۔ وہ تھوڑی دیر تک بیٹھی جھومتی رہی
پھر اُس نے اپنی شلوار کے نیفے میں اڑ سا ہوا ایک سفید رومال نکالا اور اُسے بوسہ
دے کر کہنے لگی ۔ ’’اے مقدس امانت میں نے ابھی تک تیری حفاظت کی ہے۔ میں وادی نیل
کی بیٹی انتقام لے کر رہو گی وہ خون جو سمندر کی ریت پر بہایا گیا۔ وہ خون جس کا ایک
قطرہ میں بھی ہوں۔ وہ خون اپنا قصاص چاہتا ہے ‘‘۔ اس کی آواز رفتہ رفتہ درد ناک
ہوتی جارہی تھی۔ وہ خون مجھے پکار رہا ہے۔ خون ِناحق ....میں کتنا روئی تھی۔ میں
نے ذلت کی زندگی اختیار کی مجھے عصمت فروشی پر مجبور ہونا پڑا۔ کاش جلدی وہ موقع
آجاتا کہ میں آگ کے قریب اس مقدس امانت کو لے جاتی ۔ ہیہات ہیہات میری روح بیچین ہے۔ انتقام انتقام ....‘‘
وہ گھبرایا ہوا نو
جوان دبے پاؤس اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چمکتا ہوا خنجرتھا۔ وہ
اتنی آہستگی سے رقاصہ کے پیچھے پہونچ گیا کہ اسے خبر تک نہ ہوئی لیکن نوجوان پر
لرزہ طاری تھا اس نے ایک ہاتھ سے تو رقاصہ کا رومال چھینا اور دوسرے ہاتھ سے اس پر
خنجر کا وار کیا۔ رقاصہ چیخ کر پلٹی لیکن
وہ دوسرے لمحے میں کمرے کے باہر تھا۔
’’ میرا رومال ‘‘۔ رقاصہ چیخی وہ خوف زدہ نظروں سے سامنے
پڑے ہوئےخنجر کو دیکھ رہی تھی ۔ گھبراہٹ میں
اخیر کا وار غالی گیا تھا۔ وہ چند لمحوں تک سکتے کے عالم میں بیٹھی رہی پھر اچانک
چیختی ہوئی دروازے کی طرف جپھٹی تھوڑی دیر بعد وہ نیم برہنہ حالت میں پارے ہال میں
چیختی پھر رہی تھی ۔ ’’میر ار و مال میرار و مال ‘‘۔ لوگ کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر اس
کے گرداکٹھا ہونے لگے۔
’’شاید
کافی چڑھ گئی ہے ‘‘۔ ایک آدمی ہنس کر بولا ۔
’’ معلوم یہی ہوتا ہے۔ دوسرے نے کہا۔
دفتاًباہر فٹ پاتھ پر
پستول چلنے کی آواز سنائی دی اور پھر ایک چیخ ۔ لوگ رقاصہ کو چھوڑ کر اس کی طرف
متوجہ ہو گئے۔ فٹ پاتھ پر بھیڑ لگ گئی تھی۔ وہی نو جو ان جو رقاصہ کا رومال لے کر
بھاگا تھا خون میں لتھڑا پڑا تھا۔ رقاصہ بھی بھیڑ کو چیرتی ہوئی اس کے پاس پہونچ
گئی۔
’’یہی تھا یہی تھا۔ وہ چیخی۔ مگر میر ارو مال‘‘۔
’’اوہ
تم اسی حالت میں یہاں بھی چلی آئیں ‘‘۔ ہوٹل کے منجرنے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کرک کھینچتا ہوا
اندر لے جانے لگا۔ و ہ برابر چیخےجارہی تھی ۔ میر ار و مال۔ میر ار و ہال۔‘‘ مینجر
نے اسے اس کے کمرے میں لے جا کر بند کر دیا۔
ہا ہر فٹ پاتھ پر
بھیٹر بڑھتی جارہی تھی۔ زخمی نوجوان گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ گولی سینے پر لگی
تھی۔ قبل اس کے کہ اسے ہسپتال لیجانے کا انتظام کیا جا تازخمی نے دم تو ڑ دیا۔ سڑک
ڈیوٹی والے دو تین کانسٹبل لاش کے قریب سے بھیٹر ہٹانے لگے۔
تھوڑی دیر بعد پولیس آگئی۔ کو تو الی انچارج اسپکٹر جگدیش
کار سے اترالوگ لاش کے پاس سے ہٹ گئے ۔ راہ گیروں نے واقعات بتانے شروع کئے اور
پھر کسی نے نیم برہنہ رقاصہ کا حوالہ بھی دیا ۔ جگد لیش لاش کو دوسب انسپکٹروں کی حفاظت
میں چھوڑ کر ہوٹل کے مینجر کے پاس آیا۔
’’جی
ہاں ۔‘‘ بٹلر کا بیان ہے کہ وہ یہیں سے نکلا تھا ‘‘۔ ہوٹل کے منیجر نے جگدیش سے
کہا۔
’’ اور وہ عورت ۔ جگدیش نے پوچھا۔
’’ وشا ئد زیادہ پی گئی ہے‘‘مینجر نے کہا۔ ’’ میں نے اس کو
اس کمرے میں بند کر دیا ہے‘‘ ۔
’’ کیا اس سے پہلے بھی وہ کبھی اس حالت میں با ہر نکل آئی
تھی ۔ جگد یش نے پوچھا۔
’’کبھی نہیں مینجر نے جواب دیا۔
’’ہوں‘‘۔ جگدیش نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’میں اسے دیکھنا
چاہتا ہوں ‘‘۔
دہ مینجر کے ساتھ مصری رقاصہ کے کمرے میں پہونچا۔ وہ نیم
برہنگی کے عالم میں زمین پر چت پڑی تھی۔ گلبًا وہ بے ہوش ہو گئی تھی ۔ جگدیش نے جسم پر
چادر ڈال دی اور پھر اس کی نگاہیں کمرے کا جائزہ لینے لگیں۔ زمین پر کچھ پیسے پڑے
ہوئے تھے۔ قریب ہی ایک چمکدارخنجر اور ایک خالی شیشی پڑی تھی ۔ جگدیش نے شیشی کو
رومال سے پکڑ کر اٹھایا اور اسے اپنی ناک کے قریب لے گیا۔
’’برومائیڈ‘‘
۔ و ہ شیشی کا لیبل پڑھتا ہوا بولا ۔ ’’ تو اس نے برومائیڈ پیا ہے‘‘۔
’’پھر وہ مینجرکی طرف مخاطب ہو کر بولا۔
’’کیا
آپ جانتے تھے کہ یہ برومائیڈ استعمال کرتی تھی۔
’’بھلا
میں اس کے متعلق کیا جان سکتا تھا مینجر نے کہا۔
’’یہ یہاں کتنے دنوں سے مقیم ہے۔
’’ایک
ہفتہ سے‘‘۔
’’اس
دوران میں اس سے قبل بھی اس کا رویہ مشکوک نظر آیاتھا ۔ جگدیش نے کہا
’’اس
کے متعلق میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ، مینجر نے کہا۔
’’و ہ
آدمی کبھی اس کے ساتھ دکھائی دیا تھا جس کی لاش آپ بھی دیکھ چکے ہیں۔ جگدیش نے
پوچھا۔
’’مجھے
افسوس ہے کہ اس کے متعلق میری معلومات محدود ہیں ‘‘۔مینجر نے کہا۔ لیکن ٹھہریے میں اسویٹر کو بلاتا ہوں جو ان کمروں پر
مامور ہے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہویٹر آ گیا۔
’’تمہارا
نام ۔ جگدیش نے ویٹر کی طرف کڑی نظروں سے دیکھ کر پوچھا۔
’’نسیم‘‘۔
’’یہاں کب سے کام کرتے ہو۔ ؟‘‘
’’ تقریبًا ایک سال سے‘‘۔
’’تم نے اس آدمی کی لاش دیکھی ؟‘‘۔
جی ہاں۔
’’کیا
وہ یہاں کا مستقل گاہک تھا‘‘۔
’’جی نہیں، میں نے اُسے آج پہلے پہل یہاں دیکھا تھا‘‘۔
’’ یہ تم نے کیسے کہا۔ممکن ہے وہ اس سے پہلے بھی یہاں آیا
ہو‘‘ ۔ جگدیش نے کہا۔
’’ہو
سکتا ہے لیکن میں نے اُسے پہلے پہل دیکھا تھا۔
’’ یہ تم وثوق کے
ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو، یہ ایک بڑا ہوٹل ہے۔ دن بھر میں سینکڑوں آدمی یہاں آتے ہوں
گے کیا تم ان میں سے کسی کو ایک بار یہاں دیکھ کر پھر کسی موقع پر یہ کہہ سکتے ہو
کہ وہ یہاں اس سے پہلے بھی آچکا ہے۔
’’جی
نہیں... بہ ایک بہت مشکل کام ہے ‘‘۔ ویٹر نے کہا۔
’’پھر
آخر اس آدمی کے سلسلے میں تم اتنے وثوق کے ساتھ کیوں کہہ رہے ہو ۔ جگدیش نے پوچھا۔
’’صاحب
بات دراصل یہ ہے کہ میں عرصہ دراز سے ہوٹلوں میں ویٹری کر رہا ہوں ۔ میری اتنی عمر
آئی میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا جو بیر میں سوڈا ملا کر پیتا ہو۔
’’کیا مطلب؟‘‘ جگدیش نے چونک کر پوچھا۔
’’ وہ بیر میں سوڈا ملا کر پی رہا تھا اور اس
کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا جیسے اس نے زندگی میں پہلی بار کسی بڑے ہوٹل میں قدم
رکھا ہو‘‘۔ ویٹر نے کہا۔
’’اوہ ۔ جگدیش نے اس کی طرف متہرا نہ نظروں
سے دیکھا۔
’’میں ہی اس کی میز پر تھا ۔ ویٹر نے کہا۔’’
اس نے ہلا ہلا کر بیر اور سوڈے کا آرڈردیا تھا۔ انداز گفتگو سے بھی وہ کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں معلوم ہور ہا تھا ۔
’’ کیا تم نے اُسے کبھی اس کے ساتھ دیکھا تھا‘‘۔ جگدیش نے بیہوش رقاصہ کی طرف اشارہ کر کے
پوچھا۔
’’جی نہیں ‘‘۔
’’کبھی وہ یہاں اس کے کمرے میں بھی دکھائی دیا
تھا۔ ‘‘جی نہیں مجھے تو کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
’’ہوں‘‘۔ جگدیش کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ اس
رقاصہ کے بارے میں تم کیا جانتے ہو ؟‘‘
و یٹر اس کی طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے و ہ اس کے سوال کو سمجھانہ
ہو۔
’’کیا تم ان کمروں کی دیکھ بھال پر مامور تھے‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’یہاں ان کمروں میں کوئی اس سے ملنے آتا
تھا۔
’’بہترے آتے تھے لیکن یہ کسی سے ملی نہیں تھی۔
’’اس کی کوئی ایسی حرکت جو تمہاری نظروں میں
مشکوک ہو ۔ جگدیش نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتےہوئے کہا۔
ویٹر کچھ سوچنے لگا ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کسی چیزکا
فیصلہ کرنے کے سلسلے میں ذہنی کشمش میں مبتلا ہو۔
’’حالانکہ
یہ ایک ویٹر کے لئے بہت ہی معیوب اور قابل اعتراض بات ہے ۔ وہ ندامت آمیز لہجے میں
بولا ۔ لیکن میں بعض اوقات اس کے کمرے میں..... ‘‘
و یٹر نے رُک کر مینجر کی طرف گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
’’کہو کہو.... رُک کیوں گئے مینجر بولا
’’ بہتر یہ ہے کہ آپ اسے تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرنے کا
موقع دیں ۔ جگدیش نے مینجر سے انگریزی میں کیا ممکن ہے کہ میں ابھی پھر آپ کو تکلیف
دوں۔ بہتر ہے مینجر نے کہا اور نیچے چلا گیا۔
ہاں ، اب کہو ۔ جگدیش نے ویٹر سے نرم لہجے میں کہا۔
’’مینجر صاحب کے سامنے میری زبان رُک گئی تھی اور یہ قدرتی بات ہے۔ بھلا میں یہ کیسے
کہہ سکتاتھا کہ میں کرایہ
داروں کے کمروں میں جھانکاکرتا ہوں ‘‘۔ ویٹر نے کہا
’’خیر خیر آگے کہوں۔‘‘جگدیش بے چینی سے بولا۔‘‘
’’بعض اوقات وہ ایسی حرکتیں کرتی تھی کہ میں اس کے کمرے میں جھا نکنے
پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اس کا دستور تھا کہ وہ روزرات کو ناچ کے بعد اپنے کمرے میں آکر کوئی چیز پیتی تھی
یا صرف شلوار پہنے آتی تھی۔ اس کے بعد وہ کچھ پیسے ہوا میں اچھال کر زمین پر بیٹھ جاتی تھی اور پھر ایک رومال نکال کر کچھ دیراُسے
چومتی چاٹتی رہتی تھی اور ساتھ ہی ساتھ کچھ بڑ بڑایاکرتی تھی۔ اکثر پاگللوں کی طرح قہقہ لگاکر اپنا جسم نوچنے لگتی تھی‘‘۔
’’کیا وہ اس حالت میں کبھی خنجر بھی نکالا کرتی تھی ۔ جگدیش نےپو
چھا۔
’’مجھے
کوئی ایسا موقعہ یاد نہیں ‘‘۔
’’ اچھا، اب تم جاسکتے ہو ۔ جگدیش نے ویٹرکہا اور پھر اپنے
قریب کھڑے ہوئے سب انسپکٹر سے کہا۔ ’’عجیب معالمہ ہے۔ رومال کا تذکرہ اس نے بھی کیا
ہے اور رومال چیختی ہوئی وہ بھی اپنے کمرے
سے نکل کر بھاگی تھی۔ تو کیا وہ در اصل اس کا رومال چھین کر بھاگا تھا۔ اول تو یہی
چیز مضحکہ خیز ہے کہ وہ بیرمیں سوڈاملا کر پی رہا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ اس کار و مال
چھین کر بھاگا اور پھر کسی نے اُسے قتل بھی کر دیا۔ بھئی میری تو کچھ سمجھ میں نہیں
آتا‘‘۔
’’معاملہ
واقعی عجیب ہے‘‘ ۔
اچھا تم یہیں کمرے
مین ٹھہروں’’یہاں کی کوئی چیز اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے اور اگر اس دوران میں یہ
ہوش میں آجائے تو اسے یہیں روکے رکھنا ۔ جگدیش سب انسپکٹر کو ہدایات لے کر نیچے
چلا گیا۔
سب انسپکٹر حیرت سے
کمرے میں پھیلی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا تھا پھر اس کی نگاہ بیہوش رقاصہ کے جوان
چہرے پر جم گئیں۔اسے محسوس ہوا جیسے برابر والے کمرے میں کوئی عورت چیخ رہی ہو۔ ’’مجھے چھوڑ دو۔ مجھے چھوڑ دو۔ ورنہ میں
زور سے چیخ دوں گی۔
پھر ایسا معلوم ہوا جیسے دو آدمی ہاتھا پائی کر رہے ہوں ۔
عورت کی آواز پھر سنائی دی لیکن دوسرے ہی لمحہ میں اس کی آواز اس طرح گھٹ کر رہ گئی
جیسے کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
سب انسپکٹر جھپٹ کر
کمرے میں سے باہر نکلا لیکن آواز کدھر سے آئی تھی یہ نہ معلوم ہو سکا۔ برابر والے
دونوں کمرے باہر سے متقفل تھے۔ وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ پورا برآمدہ سنسان تھا۔
کمروں کے رہنے والے شاید قتل کے حادثے کے متعلق معلومات بہم پہونچانے کے لئے نیچے
چلے گئے تھے۔ سب انسپکٹرلوٹنے ہی والا تھا کہ اسے ایک عورت کی تیز چیخ سنائی دی۔ یہ
آواز اسی رقاصہ کے کمرے سے آئی تھی۔ سب انسپکٹر دوڑتا ہوا کمرے میں آیا اور پھر اس
کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہی خنجرجسے وہ زمین پر چھوڑ کر گیا تھا۔ رقاصہ کے سینے میں
پیوست تھا اور وہ تڑپ رہی تھی۔ اس نے دو تین بار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرسب انسپکٹر کی طرف دیکھا اور پھر گرددن ایک طرف ڈال دی۔وہ مر چکی
تھی سب انسپکٹر دوڑتا ہوا نیچے گیا۔
انسپکٹر جگدیش
بوکھلا گیا۔وہ انسپکٹرپر برس پڑا۔ آخر وہ
اسے چھوڑ کر باہر گیا ہی کیوں تھا۔اُس نے
ہوٹل کے سارے دروازے بند کر دیئےا ور ایک ایک کونہ چھان مارا لیکن کوئی ایسا آدمی نہ مل سکا جسے شک کی
بنا پر گرفتار کیا جاسکتا ۔اوپر کے کمروں میں رقاصہ کے علاوہ کوئی دوسری عورت تھی
ہی نہیں پھر آواز کہاں سے آئی۔جگدیش کو اختلاف سا ہونے لگا۔
2
سَر
بنتھال
صبح کے
سات بجے تھے۔ سردی شدیدی تھی۔ اسپکٹر فریدی اپنے کمرے میں آتش دان کے پاس بیٹھا
اونگھ رہا تھا۔ پچھلی رات وہ سونے ہی جارہا تھا کہ اسے ٹیلیفون پر جگدیش کا پیغام
ملا اور پھر اس نے باقی رات دلکشا ہوٹل میں گذاری۔ اس کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ
جائے واردات پر وہ کسی خاص نتیجے پر نہ پہونچ سکا تھا۔ حالات کی پیچیدگی اور
انوکھے پن کی وجہ سے اس کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا۔ یہ چیز اس کے لئے بہت ہی عجیب
تھی کہ ایک رومال کے سلسلہ میں دو قتل ہو گئے اور پھر اس مصری رقاصہ کا عجیب و غریب
رویہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تفتیش کا رخ کدھر موڑے؟ کیسی حد درجہ دلچسپ
تھا۔ حمید ابھی تک گھر نہیں واپس آیا تھا۔ وہ رات ہی سے غائب تھا۔ ادھر کچھ دنوں
سے اس کا عجیب حال تھا۔ وہ کافی رات گئے گھر واپس آیا کرتا تا اور کبھی کبھی تو ایسا
بھی ہوتا کہ صبح ہی کو اس کی صورت دکھائی دیتی ۔ فریدی کا خیال تھا کہ شائد اس
دوران میں اس کی رگ معاشقہ پھر پھڑکنے لگی ہے۔ اس نے کئی بار اس سے آوارگی کی وجہ
پوچھی لیکن اس نے کوئی تشفی بخش جواب نہیں دیا۔
اس وقت فریدی سوچ رہا تھا کہ اگر حمید اس کے ساتھ ہوتا تو
کل رات ہی کسی نہ کسی طرح وہ معاملے کی تہہ تک ضرور
پہونچ
جاتا کیونکہ بعض اوقات اس کی احمقانہ حرکتیں اسے کسی صحیح نتیجے پرپہنچنے میں بہت
مداد یتی تھیں۔ وہ آتش دان کے سامنے بیٹا اونگھتا رہا۔ اس درمیان میں نوکر نے آکر
اس میں کچھ اور ایندھن ڈالا اور چلا گیا لیکن اُسے خبر تک نہ ہوئی۔ وہ صرف سوچ
رہاتھا اور اس سوچ نے اُسے اپنے گردو پیش کی فضا سے بالکل بے نیاز کر دیا تھا۔
دفتاً برآمدے میں قدموں کی آہٹ سنائی دی اور حمید مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
فریدی اب بھی اسی طرح اونگھ رہا تھا ۔ حمید اس کے قریب گیا اور جُھک کر اس کے چہرے
کی طرف دیکھنے لگا۔ فریدی نے آنکھیں کھول دیں اور حمید بوکھلا کر پیچھےہٹ گیا۔ فریدی
کی آنکھیں سرخ تھیں۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسےدودہکتے ہوئے انگارے ہوں۔
’’ادھر آؤ ‘‘۔ فریدی تحکمانہ لہجے میں بولا۔’’کرسی اِدھر کھینچ لاو‘‘۔
حمید کرسی کھینچ کر خاموشی سے اس کے قریب بیٹھ گیا۔
’’کہاں تھے؟‘‘
’’کچھ نہیں یوں ہی ذرد۔‘‘
’’یونہی ذرا کیا ۔ فریدی نے گھور کر کہا۔ ‘‘ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔
’’ کیا آج موڈ کچھ خراب ہے۔ ؟‘‘ حمید مسکرا کر بولا۔
’’ جو میں پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو ۔ فریدی نے کہا۔
’’اور
اگر میں جواب دینے سے صاف انکار کر دوں تو۔‘‘
’’ میں فضول بکو اس نہیں پسند کرتا ۔ فریدی نے جھنجھلا کر
کہا ۔
’’تو
اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے بھی عادی ہو جائے گا ۔ حمید نے سنجیدگی
سے کہا۔
’’فریدی
اسے گھورتا رہا۔
’’مجھے
افسوس ہے کہ میں رات آپ کے ساتھ نہ ہوا ۔ حمید نے کہا۔ ’’تو تمہیں اس کی اطلاع ہے
۔ فریدی نے کہا۔
’’ اچھی طرح ‘‘۔ حمید بولا ۔ ’’ کیا آپ نے آج کا اخبار ابھی تک نہیں
دیکھا“۔
’’نہیں
، ابھی نہیں۔
’’خبر
میں یہ بھی ہے کہ انسپکٹر فریدی اس کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
’’میں
تو عاجز آ گیا ہوں ان اخبار نویسوں سے “۔ فریدی نے کہا۔
’’ آپ کو یہ سنکر تعجب ہو گا کہ میں بھی رومال کے چکر میں پھنسا
ہوا ہوں ۔ حمید بولا۔
’’ کیا مطلب؟‘‘ فریدی نے چونک کر کہا۔ ’’تم رات تھے کہاں؟‘‘
’’ہائی
سرکل نائٹ کلب میں ‘‘ حمید نے جواب دیا۔ گرد و رومالوں کا چکر کیسا؟ فریدی نے
پوچھا۔
’’وہی
بتانے جارہا تھا ۔ حمید بولا ۔ ’’میں چاردن سے ایک ایسے آدمی کے پیچھے لگا ہوں جو
عورتوں کے رومال چرایا کرتا ہے آپ کو یہ
سنکر حیرت ہوگی کہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے لیکن وہ ایک معمولی چور یا جیب
کترے کی طرح فیشن ایبل عورتوں کے دستی رومال اڑا لیا کرتا ہے‘‘۔
’’آخر
وہ ہے کون؟ فریدی نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا۔
ایک معزز انگریز سر بنتھال ہیورتھ ‘‘۔
’’سر
بنتھال.... سر بنتھال ‘‘فریدی کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر دبی ہوئی بے چینی
کے آثار تھے۔
’’سربنتھال‘‘
۔ فریدی نے ایک بار پھر دہرایا اور حمید سے پلٹ کر بولا۔ ‘‘ تم نے کب اُسے رومال
چراتے دیکھا تھا۔
’’کہہ تو رہا ہوں کئی دنوں سے۔ اس نے کلب ہی میں درجنوں
صورتوں کے رو مال چرائےہوں گئے‘‘۔
اور تم پر اب اس کا
پیچھا کرتے رہے ۔ فریدی نے پوچھا۔ ی ایک قدرتی امر تھا کسی بڑے آدمی کو آتی ذلیل
حرکت کرتے دیکھ کر یقینًا حیرت ہوئی اور پھر رومال کی حیثیت ہی کیا۔ ایک خطاب یافتہ
امیر آدمی اگر ایسی حرکتیں کرنے لگے تو خواہ مخواہ اس کی وجہ دریافت کرنے کو دل
چاہے گا۔ لیکن مجھےافسوس ہے کہ میں اس کی وجہ دریافت نہ کر سکا۔
’’کل
رات بھی تم اس کے پیچھے تھے ۔ فریدی نے پو چھا۔
’’ہاں‘‘۔
’’کسی
وقت تک ؟‘‘
’’ود
بجے تک ‘‘ حمید بولا ۔ وہ تقریباً دو بجے کلب سے اٹھ کر گیا تھا۔
وہ اس وقت تک وہاں کرتا کیا رہا ۔ فریدی نے پوچھا۔
برج کھیل رہا تھا لیکن
کل رات کو اُس نے کسی کا رومال غائب نہیں کیا۔ حالانکہ اس کے بہت سے مواقع نصیب ہوئے۔
’’وہ
کلب میں کسی وقت سے تھا؟‘‘
’’نو
بجے سے‘‘۔
’’اور
اس دوران میں کہیں با ہر نہیں گیا۔
’’نہیں‘‘۔
فریدی کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ وہ منظر یا نہ انداز میں کمرے میں
ٹہل رہا تھا۔ ’’ تم جانتے ہو سر بنتھال کون ہے؟ ‘‘فریدی نے پلٹ کر حمید سے پوچھا۔
’’میں
صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایک خطاب یافتہ آدمی ہے اور بغرض سیاسی یہاں آیا ہے ۔ ‘‘حمید
نے کہا۔
’’ اُس نے مصری آثار قدیمہ پر ایک کتاب بھی لکھی ہے ‘‘۔ فریدی
نے کہا۔
’’لکھی
ہوگی ‘‘۔ حمید نے لا پرواہی سے کہا ۔’’ مجھے تو اس کی اس عجیب و غریب حرکت سے
دلچسپی ہے‘‘۔
’’اور وہ صیح النسل انگریز بھی نہیں ۔ وہ در اصل جرمن ہے۔
اسے اپنے نانا کا خطاب مع جائداد ورثے میں ملا ہے۔ اس کا نام انگریز تھا۔
’’ تو کیا وہ صحیح النسل نہ ہونے کی بناء پر رومال چراتا ہے
‘‘۔ حمید نے ہنس کر پو چھا۔
’’یہ بات اتنی اہم نہیں جتنی کہ اس کی مصری آثار قدیمہ والی کتاب‘‘۔
’’وہی ربط جو ایک مصری رقاصہ کے رومال اور اس رو مال چرانے
والے میں ہو سکتا ہے‘‘۔
فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ پھر کچھ سوچنے لگا تھا۔
رو مال کا واقعہ محض مضہکہ نہیں معلوم ہوتا ہے ۔ فریدی بولا۔
’’فریدی نے اس نئی اطلاع پر کسی قسم کی حیرت کا اظہار نہیں
کیا اس کا انداز و تو اُس نے ویٹر کے بیان ہی سے لگا لیا تھا کہ مقتول
ایک اناڑی آدمی تھا اور خاص مقصد کے لئے استعمال کیا گیا تھا اس مقصد کے حصول پر
اسے اس لئے قتل کر دیا گیا کہ کہیں اصل مجرم کا راز فاش نہ ہو جائے۔ حسینہ کا قتل
بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا تھا۔ اُسے تو دراصل اس رومال نے الجھار کھا
تھا جس کی وجہ سے دو جانیں چلی گئیں۔ آخر وہ رومال کیسا تھا؟
فریدی دن بھراسی گتھی کو سلجھانے میں مشغول رہا۔
شام کو تقریبًا سات
بجے وہ حمید کو لے کر گھر سے نکلا اور نو بجے تک دونوں اِدھر اُدھر گھومتے رہے پھر
انہوں نے ہائی
سرکل نائٹ کلب کا رخ کیا۔ اس کلب میں زیادہ تراونچے طبقے کے
لوگ آتے تھے۔ ان میں سرکاری افسروں سے لے کرتا جر تک ہوا کرتے تھے ۔ اس میں قانون
کے دو محافظ بھی آکر داد عیش دیا کرتے تھے جو پرائی عورتوں پرڈاکہ ڈالنے کو قانون
شکنی کہتے تھے۔ شہر کے اونچے گھرانوں کی عورتیں یہاں آکر رنگ رلیاں منایا کرتی تھیں۔
یہاں دنیا کا ہر بُرا کام ہوتا تھا لیکن قانون کی اجازت سے۔
فریدی اور حمید ایک خالی میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ ویٹر ان کے
پاس آیا۔ فریدی نے اسے کچھ کھانے پینے کی چیزوں اور تاش کے چیزوں کا آرڈر دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ
دونوں بیٹھے فلش کھیل رہے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ایک جوان جوڑا بھی آکر ان کے
کھیل میں شریک ہو گیا۔ گیارہ بج گئے لیکن سر بنتھال کا کہیں پتہ نہ تھا۔ فریدی کی
اکتاہٹ بڑھتی گئی ۔ آخر کار اس نے کھیل ختم کر دیا۔ وہ در اصل کسی طرح اس نوجوان
جوڑے سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔ کھیل کے انتقام پر وہ دونوں اُٹھ کر ایک دوسری میز
پر چلے گئے اور فریدی سگا رسلگا کر کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔ حمید اٹھ کر تمباکو نوشی
کے کمرے اور دوسرے ملحقہ کمروں کے چکر لگانے لگا جب وہ واپس آیا تو فریدی اپنی جگہ
پر نہیں تھا۔ حمید بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ ’’ آپ کے ساتھی کہہ گئے ہیں کہ
آپ ان کا انتظار نہ کریں۔ ایک ویٹر نے آکر تحمید سے کہا اور حمید جھّلااُٹھا ۔ آخر
اس کا مطلب ۔ اب وہ احمقوں کی طرح چپ چاپ گھر لوٹ جائے اور وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں
اسے پیدل ہی گھر نہ واپس جانا پڑے۔ بھلا فریدی نے کار کیوں چھوڑی ہوگی۔ آخر اس نے یہی
فیصلہ کیا کہ وہ گھر جائے گا ہی نہیں۔
وہ پھر ایک میز پر
جا کر فلش پر جم گیا۔ حالانکہ وہ کبھی فلش کھیلتا نہیں تھا لیکن وقت گذاری کے لئے
بھی کچھ ہونا چاہئے۔ آخر وہ گھربھی جا کر کیا کرتا۔ ادھر کچھ دنوں سے رات میں
جاگنے کی عادت بھی پڑگئی تھی۔ تقریباً بارہ بجے سر بنتھال کلب میں داخل ہوا۔ اس نے
سیاہ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور سر پر نیلی فلٹ ہیٹ تھی۔
سر
بنتھال متوسط قد کا ایک قومی المیہ آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی
ہوگی۔ اس کے ساتھ ایک انگریز اور بھی تھا۔ دونوں ایک خالی میز کے قریب بیٹھ گئے۔
سر بنتھال نے چاروں طرف ایک اچنتی ہی نظر ڈالی اور پاس کھڑے ہوئےویٹر سے کچھ کہنے
لگا۔ حمید سنبھل کر بیٹھ گیا۔
چندلمھوں
کے بعد ویٹر ایک کشتی میں شراب کی بوتل اور دوگلاس لے آیا۔ دونوں نے گلاس بھرے اور
انہیں ہولےہولےتین بار ٹکرانے کے بعد منہ سے لگالیا۔
دونوں شراب پیتے رہے۔ آہستہ آہستہ وہ کچھ باتیں
بھی کرتے جارہے تھے۔
بوتل
خالی ہو جانے کے بعد سر بنتھال نے کاونٹر پر جا کر قیمت ادا کی اور پھر دونوں
لڑکھڑاتے ہوئے باہر جانے کے لئے آگے بڑھے۔ اس دوران میں حمید اپنی میز سے اُٹھ کر
دوسری طرف جا چکا تھا۔ جیسے ہی وہ باہر نکلے وہ سائے کی طرح ان کے پیچھے لگ گیا۔حمید
سمجھا تھا کہ شائد وہ کارلائے ہوں گے لیکن اس کا خیال غلط نکلاکیونکہ وہ پیدل
جارہے تھے۔ سر بنتھال کے ساتھی کی حالت نشے کی وجہ سے دگر گوں ہورہی تھی ۔ سر بنتھال
نے اسےسہارا دے رکھاتھا۔ اگروہ ایسانہ کرتا تو شایداس کا ساتھی ایک قدم بھی آگے نہ
چل سکتا۔ اس کا ساتھی کچھ عجب شکل وصورت کا آدمی تھا۔ وہ تھاتو انگریز لیکن اس کی دڑھی بالکل ہندوستانی سار و س میں تھی تھی اور بد وضع ہے
اس پر بھی اپنی نہ ہی وہ جدید کے لئے اس کی لازمی خاص طور پر معمہ بنی ہوئی تھی۔
اس نے بہتیرے انگریزوں کو لازمی رکھے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی ڈاڑھی کی
طرف سے اتنالا پرواہ نہیں نظر آیا تھا۔
حمید ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ جب تک وہ لوگ شارع عام پر چلتے
رہے حمید کو دنوں کا سامنا کرنا پڑا کیو نکہ سڑک کے کنارے لگے ہوئے بجلی کے کھمبے
اسے بہت زیادہ متحاط رہنے پر مجبور کر رہے
تھے۔ اچانک ایک ایک جگہ ان لوگوں نے سڑک چھوڑی اور بائیں طرف مڑ گئے۔ یہ ایک پتلی کی
تاریک گلی تھی۔ اور یہ اونچی اونچی عمارتیں تھیں۔ یہاں اتنی تاریکی تھی کہ آگے
جانے والے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ حمید صرف قدموں کی چاپ سن رہا تھا۔ وہ قدموں کی
آہٹ کا تعاقب کر رہا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔
کچھی کے انتقام پر تاروں کی چھاؤس میں اُسے صرف ایک آدمی دکھائی دیا۔ سر بنتھال لیکن
اس کا دوسرا ساتھی وہ کہاں رہ گیا ؟ سربنتھا ل نے اسے کہاں چھوڑ ا حمید کوئی فیصلہ
نہ کر سکا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئے لیکن وہ غیر ارادی طور پر سربنتھال کا تعاقب کرتا ہی رہا۔ اب وہ پھر ایک سڑک پر چل
رہا تھا۔ یہاں کوئی ایسی جگہ بھی نہ تھی کہ جس کے سہارے وہ چپ کر تعاقب کر سکا۔
بجلی کے کھمبوں کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اس لئے وہ قصد اسر اتصال سے کافی
فاصلے پر چل رہا تھا۔ داتا ایک کار اس کے قریب سے گذری اور سر اتھال کے قریب پیونچ
کر رک گئی۔ سر پنتھال اس پر بیٹھ گیا اور کار پھر چل پڑی۔ سڑک پر پھر سناٹا چھا گیا۔
حمید چند لمحے کھڑا سوچتا رہا۔ پھر اسی تاریک گلی میں داخل ہو گیا جہاں سے وہ سر بنتھال
اور اس کے ساتھی کا پیچھا کرتا ہوا گذرا تھا۔ اس نے جیب سے ایک چھوٹی سی ٹارچ نکالی
اور اس کی روشنی میں راستہ دیکھتا ہوا چلنے لگا۔ ابھی اُس نے آدھی ہی گلی طے
کی تھی اسے رک جانا پڑا۔ اُس کی ٹارچ کی
روشنی ایک اوندھے پڑے ہوئے آدمی کے گرد ائر و بنارہی تھی۔ حمید جھپٹ کر اس کے قریب
پہونچا۔ اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا۔ کیا سر بنتھال نے اُسے یہاں ڈال دیا ؟
وہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگا اور دوسرے ہی لمحے میں اُس کے منہ سے حیرت کی
چیخ نکل گئی۔ یہ سربنتھال کا ساتھی نہیں
بلکہ کوئی اور انگریز تھا۔ اس کے سرسے تاز ہ تاز ہ خون بہہ رہا تھا۔ ایسا معلوم
ہوتا تھا جیسے وہ سر میں گہری چوٹ کھانے کے بعد بیہوش ہو گیا ہو۔
حمید اِدھر اُدھر روشنی ڈالنے لگا۔ اس علاقہ میں زیادہ تر
تجارت پیشہ انگریز اور پارسی رہتے تھے۔ تمام دروازے بند تھے۔ سوائے ایک مکان کے جس
کے سامنے دو انگریز پڑا تھا۔ حمید نے دروازے کے اندر روشنی ڈالی ۔ ایک جگہ سوئچ
بورڈ لگا ہوا نظر آیا جس میں گھنٹی لگی ہوئی تھی۔ حمید نے اندر جا کر گھنٹی کا بٹن
دبایا اور اندر کہیں دور گھنٹی بجنے کی آواز آئی ۔ حمید کو تقریباً پندرہ منٹ تک
کھڑے رہ کر تھوڑی تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد کئی بار گھنٹی بجانی پڑی اور پھر قدموں
کی آہٹ سنائی دی۔ اندر کے کمرے میں کسی نے بجلی جلائی اور دروازہ کھلا حمید کے
سامنے دروازے میں ایک متوسط عمر کی انگریز عورت شب خوابی کا لبادہ پہنے کھڑی تھی۔کیا
بات ہے؟ اس نے ایک ہندوستانی کو اتنی رات گئے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر حیرت سے پو
چھا۔
تمہارے مکان کے سامنے ایک زخمی آدمی بیہوش پڑا ہے ۔ حمید نے
اس سے کہا۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں۔ وہ جھلا کر بولی۔
بات یہ ہے کہ وہ بھی ایک انگریز معلوم ہوتا ہے ۔ حمید نے
آہستہ سے کہا۔
اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں ؟ وہ آگے بڑھ کر حیرت سے بولی۔
حمید نے ٹارچ کی روشنی بیہوش آدمی پر ڈالی اور عورت چیخ پڑی۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔ ٹیوی
اسے کیا ہوا ۔ وہ اُس پر جھپٹی۔
’’ کیا تم اسے پہچانتی ہو؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔ پہنچانا کیسا عورت چیخ
کر بولی۔ یہ میرا شوہر ہے مگر یہاں کہاں ؟
’’کیوں؟ کیا اسے کہیں اور ہونا چاہئے تھا ۔ حمید نے پوچھا۔ تو تم میری
مدد کرو۔ ہم اسے اندر لے جائیں گئے ۔ عورت نے ملتجیانہ انداز میں حمید سے کہا۔
دونوں اُسے اُٹھا کر اندر لے آئے۔ حمید نے اُسے ایک صوفے پر ڈال دیا۔
عورت اسے ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگی۔
’’ تم نے میرے سوال
کا جواب نہیں دیا ۔ حمید نے پوچھا۔
’’میں
بہت پریشان ہوں ۔ عورت بولی ۔ فی الحال کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ تمہارا بہت
بہت شکریہ کہ تم نے مجھے جگانے اور اُسے یہاں لانے کی تکلیف گوارہ کی‘‘۔
اس کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اب وہاں حمید
کی موجودگی پسند نہیں کرتی۔
’’بادام
مجھے افسوس ہے کہ میں اس کے متعلق ضروری معلومات بہم پہونچائے بغیر واپس نہیں
جاسکتا۔ حمید نے کہا۔
’’کیوں ؟‘‘ وہ تیز لہجے میں بولی۔
’’کیونکہ
اس قسم کے واقعات کی اطلاع پولیس کو دینا میرا فرض ہے۔
’’مگر
میں اسے ضروری نہیں بجھتی ! ‘‘وہ عورت گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’ تعجب کی بات ہے کہ تمہارا شوہر اتنے پر اسرار طریقے سے
زخمی ہو گیا اور تم اس کی اطلاع پولیس کو دینا ضروری نہیں
سمجھتیں۔
’’تمہیں
اس سے کیا ۔ وہ تیز لہجے میں بولی۔ پھر سنبھل کر کہنے لگی ۔ ’’ میرا دماغ اس وقت
ٹھیک نہیں۔ مجھے تم سے ایسے لہجہ میں گفتگو نہ کرنی چاہئے۔ میں پولیس کو اس کی
اطلاع دینا اس لئے ضروری نہیں سمجھتی کہ.....‘‘
’’ہاں
ہاں ، کہو‘‘۔ حمید بولا۔
’’ہو
سکتا ہے کہ یہ اند ھیرے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا ہو اور سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے
بیہوشی آگئی ہو‘‘۔ عورت بولی۔
تم یہں ٹھہرہ میں برانڈی لے کر آتی ہوں ، عورت نے کہا اور
کمرے سے چلی گئی۔
حمید ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ دفتًاایک خیال اس کے ذہن میں پیدا
ہو اور اس کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ جسم کے سارےرویئں میں کھڑے ہوئے معلوم ہوئے ۔ وہ اٹھ کر تیزی سے
کھڑکی کے قریب آیا۔ دوسری طرف چھجاتھا۔ وہ پھرمڑا اس طرف جانا خطرے سے خالی نہیں
تھا۔ وہ سوچنے لگا کمرے کے باہر کی قدموں کی آوازیں سنائی دیں اور حمید لوہے کی مسہری
کے بیچے گھس گیا جس کے چاروں طرف چادر لگ رہی تھی۔
’’ا رے کہاں گیا ‘‘۔ عورت کی آواز سنائی دی۔
’’نکل گیا کوئی مرد بولا۔
’’اوہ ...میں پیچھے کا دروازو کھلا چھوڑ آئی
تھی۔
’’وہ ضرور کوئی چور تھا۔ مرد اس طرح چیخ کر بولاجیسے آس پاس کے کمروں تک اپنی آواز
پہونچانا چاہتا ہوں۔
’’یہ
دونوں تندرست اور قد آور تھے۔ ان میں سے ایک کوئی ملٹری آفیسر معلوم ہوتا تھا۔ وہ
اتنی رات گئے تک اپنی فوجی وردی ہی میں تھا۔ اس نے دوسرے آدمی کی طرف گھور کر دیکھا
اور وہ کمرے سے چلا گیا۔
’’ٹیوی نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔ اس نے بیہوش انگریز کی طرف
اشارہ کرکے عورت سے کہا۔ مگر وہ اس وقت باہر کہاں گیا تھا۔ عورت بولی۔ میں سمجھی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں سور ہا ہو
گا۔
’’تمہیں یہ سب سمجھنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔ ملٹری آفیسر بولا۔
’’لیکن و ہ آدمی کہاں گیا ؟ عورت نے کہا۔
’’نکل گیا ملٹری آفیسر نے کیا۔ ’’ میرا خیال ہے کہ وہ تم سے ہمدرونی
بنا کر کچھ رو پید اینٹھنا چاہتا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ وہ پولیس کا آدی ہے۔
’’تم ان مشرقیوں کو نہیں جانتیں ملٹری آفیسر نے کہا۔ مگر .........مگر.........۔
ٹیوی کو زخمی کس نے کیا۔ ؟
’’ تم آخر بتاتے کیوں نہیں عورت بولی ۔ یہ سب
کیا ہورہا ہے‘‘۔
’’تمہیں ان باتوں سے غرض نہ ہونی چاہئے ۔
’’ تم لوگ کوئی خطر ناک کام کر رہے ہو ۔ عورت جھلا کربولی ۔
’’اوہ ۔۔۔۔تم غلط سمجھیں ۔‘‘ ملٹری آفیسر نرم
لہجے میں بولا ۔ ’’ تم جانتی ہو کہ یہاں کے کئی دیسی تاجر ٹیوی کے دشمن ہورہے ہیں
۔
’’لیکن
وہ اس وقت کہاں گیا تھا اور تم لوگ اس وقت تک کیوں جاگ رہے ہو۔ تم نے اپنا لباس کیوں
نہیں تبدیل کیا ۔ تم نے بھی یہ کیوں کہا تھا کہ ٹیوی نے احتیاط سے کام نہیں لیا ۔
عورت ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئی۔
’’ تم بھی بعض اوقات بہت مضحکہ خیز ہو جاتی ہو ۔ ملٹری آفیسرہنس
کر بولا۔
اور پھر و ہ تینوں کمرے سے باہر چلے گئے۔ صورت سسکیاں لے لے
کر رو رہی تھی۔
حمید مسہری کے نیچے
پڑا سوچ رہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئے ۔ یہاں سے نکل بھاگنا ضروری تھا۔ خطرے کی
بُواُس نے پہلے ہی سونگ لی تھی اور پھر اُن لوگوں کی گفتگو سے اس نے اچھی طرح
اندازہ لگالیا تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جو قانون کی نظروں میں جرم ہے۔
ابھی حمید یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ملٹری آفیسر نے کمرے میں آکر عورت سے کہا۔
’’ٹیوی تمہیں
آفس میں بلارہا ہے‘‘۔
عورت اُٹھ کر اس کے ساتھ چلی گئی۔
حمید نے انداز ہ لگالیا کہ وہ ابھی جلد ہی اس کمرے میں واپس
نہ آسکیں گے کیونکہ شاید دو ٹیوی کی بیوی کو اپنی عجیب حرکات کا الٹا سیدھا مطلب
سمجھا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔ و ہ مسہری کے نیچے سے نکلا اور میز پر
رکھا ہوابجلی کالیمپ بجھا دیا۔ پھر وہ سوچنے
لگا کہ اگر نیچے روشنی ہوئی تو اس کا پکڑ لیا جانا یقینی ہے معلوم نہیں وہ کمرہ
کدھر ہو جسے وہ لوگ آفس کہہ رہے تھے ۔ حمید چندلمحے کمرا کدھرپھر اس نے جیب سے ایک
اکنی نکالی، لیمپ سے بلب نکالا اور ہولڈر میں اکنی رکھی پھر اس پر سے بلب لگا کر
سویچ آن کر دیا۔ پوری عمارت تاریک ہوگئی۔ حمید کمرے سے نکل کر تیزی سے زینے کی طرف
بڑھا۔
’’ شاید فیوز اُڑ
گیا کسی نے کہا۔
اور حمید دوسرے لمحے میں گلی میں تھا۔
3
گونگا
بولتا ہے
سردی
بہت شدت سے بڑرہی تھی۔ حمید گلی سے نکل کر سید ھابائی سرکل نائٹ کلب کی طرف ہو لیا۔
اس نے گھڑی دیکھی۔ تین بج رہے تھے۔ کلب پہونچتے پہونچتے اُسے ایسا محسوس ہونے لگا
جیسے اس کے جسم کے کھُلے ہوئے حصے بالکل سُن ہو گئے ہوں۔
کلب میں اب کچھ بے رونقی سی آگئی تھی۔ زیادہ تر لوگ جاچکے تھے۔ کچھ میزوں
پر صرف وہی لوگ نظر آ رہے تھے جو بہت لمبا کھیل کھیلتے تھے یا پھر وہ جو اپنے
پچھلے خسارے پورے کر رہے تھے۔ حمید ایک خالی میز کے قریب بیٹھ گیا اور کافی منگائی۔
اس کا ذہن تیزی سے سوچ رہاتھا۔ وہ لوگ کون تھے اور انکا پُر
اسرار رویہ۔ کیا اس کا تعلق کسی اہم واقعے سے ہو سکتا ہے؟‘‘ اور پھر اچانک اسے سربنتھال
یاد آ گیا۔ آخر اس کا ساتھی کہاں گیا۔ اسے زمین نگل گئی یا آسمان ؟‘‘ اس گلی میں
کوئی اور راستہ بھی تو نہیں تھا۔
کافی ختم کر چکنے کے بعد اس نے سوچا کہ اب گھر چلنا چاہئے ۔
اس وقت ٹیکیسی تو ملنے سے رہی۔ پیدل ہی جانا پڑے گا اور یہ خون منجمد کر دینے والی
سردی۔ اس نے اپنے اوور کوٹ کے کالر کھڑے کئے اور فلٹ ہیٹ کا گوشہ چہرے پر جھکاتا ہوا کلب سے باہر آیا۔ گھر پہونچ کر دیکھا تو فریدی
نہیں تھا۔ شاید وہ سور ہا تھا یا وہاں تھاہی نہیں
نیند سے حمید کی آنکھیں بوجھل ہوئی جارہی تھیں ۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا
اور کپڑے، اتارکر مسہری میں گھس گیا۔
اور پھر اسی وقت اس کی آنکھ کُھلی جب فریدی نے اسے جھنجھوڑ
جھنجھوڑ کر جگایا۔
’’ارے صاحب کون سی آفت آگئی۔ وہ لحاف سے منہ نکال کر میز پر
رکھی ہوئی ٹائم پیس کی طرف دیکھتا ہو بولا
۔
’’ابھی نوہی تو
بجے ہیں‘‘۔
اور
اس نے پھر لحاف اوڑھ لیا۔ فریدی نے لحاف کھینچ کر الگ کر دیا۔
’’لاحول ولا قوۃ‘‘ حمید اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ تم کہاں تھے
؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’جہاں سے ابھی آپ نے اٹھایا ہے‘‘۔
’’
میں پوچھتا ہوں رات تم کہاں رہے ؟‘‘
’’اس
کے لئے مجھے سوچنا پڑے گا۔ حمید نے کہا اور کمرے سے نکل کر غسل خانہ میں چلا گیا۔
فریدی لائبریری کی طرف گھوم گیا۔ وہ خیالات میں ڈوبا ہوا تھا۔
حمید ناشتہ کرنے کے بعد پائپ پیتا ہوا ٹیلیفون کے قریب آیا۔
فریدی کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھا۔ حمید ریسیوراٹھا کر بولنے لگا ۔ ’’ہیلو....
کو توالی ...ذرا جگدیش صاحب کو فون پربُلا دیجئے .....ہیلوجگدیش... میں حمید بول
رہا ہوں۔ کل رات یا آج صبح کسی انگریز نے کوئی رپورٹ تو نہیں درج کرائی.... اوہ....
کیا نام بتا یا تم نے راشرٹیوی ...ہاں ...کیا... ہاں ...بہت خوب... اچھا ...شکر یہ
...نہیں کوئی خاص بات نہیں۔ شام کو آ رہے ہو۔ اچھا سعید نے ریسیور رکھ دیا۔ اس
دوران میں فریدی اسے گھور گھور کر دیکھتا رہا۔
’’کوئی
نئی حماقت؟‘‘ فریدی نے طنز آمیز انداز میں مسکرا کر پو چھا۔
’’جی نہیں ۔ حمید
نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔ ’’ میں ایک خاص کیس کی تحقیقات کر رہا ہوں‘‘۔
’’بہت اچھے‘‘۔
’’ تو گویا آپ
مذاق سمجھتے ہیں۔
’’جی نہیں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ سر بنتھال کا تعاقب
کرتے کرتے ایک دوسرے معاملہ میں ٹانگ اڑا بیٹھے۔
’’جی!‘‘ حمید نے
چونک کر کہا۔ ’’ آپ کو کیا معلوم‘‘۔
’’
خیر اسے چھوڑو! اس مکان کا نمبر کیا تھا ۔ فریدی نے پو چھا۔
’’پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟‘‘
’’بکو اس چھوڑو،
جو میں پوچھتا ہوں اس کا جواب دو‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’میں اس نئے معاملے کے متعلق جاننا چاہتا ہوں جس کی تم تحقیقات
کر رہے ہو‘‘۔
’’آپ کو شاید نہیں معلوم کہ میں نے اپنا طریقہ کار بدل دیا ہے
۔ حمید نے فریدی کے لہجےکی نقل کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھاجی‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’خیر جانے دو۔ مجھے کیا ۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’شاید
تم ابھی فون پر جگدیش سے باتیں کر رہے تھے۔ کیا جگدیش نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ ٹیوی
کے یہاں ایک بدمعاش بھی گیا تھا جو بعد میں ان کے یہاں کی لائٹ فیوز کر کے نکل بھاگا
اور اس کا حُلیہ ....اُس نے بھی درج کرادیا ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ تم اس وقت
تک گھر سے باہر نہ نکلنا جب تک تمہارے چہرے پر کافی گھنی ڈاڑھی نہ نکل آئے ۔
حمید خاموشی سے فریدی
کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کی حالت اس وقت کسی ایسے بچے کی ہی ہورہی تھی جسے کسی غلطی پر
ٹوک دیا گیا ہو۔
’’تمار
اطریقہ کارواقعی بہت دلچسپ ہے ۔ فریدی ہنس
کر بالا۔
حمید نے کوئی جواب دینے کے بجائے جھینپ کر ایک کتاب اٹھالی۔
’’ہاں اب کہہ چلو ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’چند
لمحوں کی ہچکچاہٹ کے بعد حمید نے رات کے سارے واقعات دہرادئیے۔
’’لیکن
آپ کو اس کا علم کیسے ہوا؟‘‘ حمید نے پو چھا۔
’’کچھ
تو میں پہلے ہی سے جانتا تھا بقیہ باتیں تم نے بتائیں اور انجام کی اطلاع جگدیش سے
ملی۔ اس نے آج صبح مجھےٹیوی کے متعلق فون کیا تھا ‘‘۔ فریدی نے کہا ۔
’’پہلے
آپ جو کچھ جانتے تھے وہ کس طرح آپ کو معلوم ہوا ۔ حمید نے منظر ہانہ انداز میں
پوچھا۔ ’’ابھی بتاؤں گا‘‘۔ فریدی نے کہا۔ تمہاری داستان کا یہ حصہ لچسپ ہے کہ ٹیوی
کے مکان میں کوئی وردی پہن کرسویا تھا اور اس پر ٹیوی کی بیوی کو حیرت تھی‘‘۔
’’بس یہیں
سے میرے شکوک اور زیاد دبڑھ گئے تھے ، حمید نے کہا۔
’’بہر حال فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ’’اس سے
تم کسی نتیجے پر پہونچے ہو‘‘۔
’’سمجھ میں نہیں آتا کہ کس نتیجے پر پہونچوں میں سر بنتھال
اور اس کے عجیب الخلقت ساتھی کا تعاقب کر رہا تھا۔ دونوں ایک گلی میں داخل ہوئے۔ میں
دونوں کے قدموں کی آواز سنتار ہا اور جب سر بنتھال گلی کے دوسرے سرے پر پہو نچا تو
وہ بالکل تنہا تھا۔ اگر ایک سیکینڈ کے لئے بھی اس کے قدم رُکے ہوتے تو میں یہ کہتا
کہ اس نے وہیں کہیں اسے ڈال دیا ہوگا یا کسی کے حوالے کر دیا ہوگا۔‘‘
’’اور
واپسی میں تم نے ٹیوی کوگلی میں پڑاد دیکھا ۔ فرید نے کہا۔
’’اور
اس لئے میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یوں ہی سربنتھال کے ساتھ تھا۔ اس کی سادھوؤں جیسی ڈاڑھی سے میں نے پہلے ہی انداز لگالیا تھا کہ وہ
نقلی ہے۔
’’اچھا
تو تم یہ سمجھ رہے ہو کہ سربنتھا ل نے اسے شراب پلائی اورگلی میں لیجاکراس کی ڈاڑھی
نوچ پھر زخمی کر کےو ہیں ڈال دیا ۔ فریدی مسکرا کر بولا ۔
’’پھر
اس کے علاوہ اور سمجھاہی کیا جاسکتا ہے‘‘۔
’’ فرض کرو اگر ایسا ہی ہے تو تم اس حرکت کو کیا معنی پہناؤ
گے‘‘۔
’’حمید خاموش ہو گیا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
بظاہر یہ حرکت قطعی بے معنی معلوم ہوتی ہے ۔ حمید نے کہا۔
’’مگر
یہ کہ میں غیب دان نہیں ہوں حمیدجھلا کر بولا۔
فریدی ہنسنےلگا۔
خیر ۔ فریدی اٹھتا ہوا بولا۔ ’’ میںسمجھتا ہوں۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں تہہ خانے کی سیڑھیاں طے کر رہے تھے۔ اور
پھر وہ لمحہ بھی عجیب تھا جب حمید کے منہ سے حیرت کی چیخ نکل گئی۔ سربنتھال کا عجب الخلقت ساتھی فریدی کے تہہ خانے میں بیٹا آنکھیں
پھاڑ پھاڑ کردیکھ رہا تھا۔ یہاں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ فریدی نے اس سے
انگریزی میں کہا۔ تمہیں اس گھنی ڈاڑھی کی
وجہ سےگرمی لگ رہی ہو گی ۔ اسے اب اپنے چہرے سے ہٹا ہی دو تو بہتر ہے‘‘۔ حمید اس کے چہرے پر فریدی
کے الفاظ کار عمل دیکھ رہاتھا۔ سر بنتھال کا ساتھی اس طرح فرید کی طرف دیکھنے لگا
جیسےاس نے کچھ سناہی نہ ہو۔
’’میرے
خیال سے یہ گونگا ہے ۔ فریدی نے حمید کی طرف مُڑکر انگریزی میں کہا۔
’’ ہو سکتا ہے ۔ حمید بولا۔
’’ٹھہیر
وامیں اس کی ڈاڑھی الگ کئے دیتا ہوں ۔ فریدی نے کہا اور آگے بڑھ کر اس کی ڈاڑھی
نوچ لی۔ وہ خوفزدہ نظر آنے لگا لیکن زبان سے کچھ نہ بولا۔ اس کے چہرے سے مصنوعی
ڈاڑھی الگ ہو چکی تھی۔
فریدی اُس کے قریب بیٹھ گیا اور حمید کو بھی بیٹھنے کا
اشارہ کیا۔ پھر فریدی نے ایسی گفتگو چھیڑ دی جس کا ان معاملات سے کوئی تعلق ہی نہ
تھا۔ حمید کو حیرت ہورہی تھی۔ آخر اس سے فریدی کا کیا مطلب ہے۔
’’ارے خدا تمہیں غارت کرے ۔‘‘سر بنتھال کے ساتھی نے یک بیک
اُچھل کر عربی زبان میں کہا۔
’’تو پھر تم نے اپنے متعلق پولیس کو کیوں اطلاع نہیں دی‘‘۔
’’ تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب؟‘‘ وہ جھلا کر بولا ۔
’’مطلب
یہ کہ میں یہاں کے محکمہ سراغرسانی کا انسپکٹر ہوں‘‘۔
سر بنتھال کا ساتھی
حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ تمہارا نام ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’فضيل....
محمد فضيل‘‘۔
’’تم نے ایک بہت بڑا جرم کیا ہے ۔ فریدی نے
کہا۔
’’میں
نے ؟ وہ متہرانہ انداز میں بولا ۔
’’ہاں
تم نے تمہیں اپنے متعلق پولیس کو ضرور مطلع کرنا چاہئے تھا ‘‘۔
مجھے سربنتھال نے
روک دیا تھا۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ اُسے ڈر تھا کہ کہیں میں بھی قتل کر دیا جاؤں گا۔
’’آخر
اس ڈر کی وجہ ؟‘‘فریدی نے پوچھا۔
اس لئے کہ اب اپنے خاندان میں صرف میں ہی باقی رہ گیا ہوں‘‘۔
’’میں
تمہارا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
’’میرے علاوہ میرے خاندان کا ایک ایک فردقتل
کیا جا چکا ہے‘‘۔
’’آخر
کیوں ؟‘‘ کوئی وجہ؟‘‘
’’وجہ
تو مجھے بھی آج تک نہیں معلوم ہوسکی۔ پہلے میرا باپ قتل ہوا۔ پھر ابھائی پھر بہن
اور شاید اب میری باری ہے ۔ میں اس رو مال کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جس کیلئے
تمہاری بہن قتل کی گئی۔
’’وہ رو
مال میرے باپ نے اپنے قتل سے ایک روز قبل میرے بڑے بھائی کو دیا تھا ۔
’’آخر
و ہ رومال تھا کیسا ؟‘‘
’’معمولی
جیسے کہ سب رو مال ہوتے ہیں‘‘۔
’’ تمہارے باپ کے قاتلوں کا کچھ پتہ چلا تھا۔
نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ کسی آدمی کا کام نہیں تھا۔
’’یعنی‘‘۔
’’نہیں وہ لا پتہ ہو چکی تھی ۔
’’تم یقین
کے ساتھ کر سکتے ہو کہ سر ابنتھال نے اُسے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔
’’مجھے
یقین ہے کہ وہ اسے نہیں پہچانتا تھا۔
’’کل کے علاوہ اور کبھی
نہیں۔
’’کیا
تمہیں اپنےحا فظے پر بھر وسہ ہے ‘‘۔
’’قطعی‘‘۔
’’تمہیں
اس بات پر کس طرح یقین آگیا تھا کہ سر بنتھال تمہارے باپ کا دوست تھا‘‘۔
’’مجھے
یہ سر بنتھال ہی کی زبانی معلوم ہوا تھا۔
کبھی تمہارے باپ نے اس کا تذکرہ کیا تھا ۔
’’کبھی نہیں۔
’’ہوں
۔ فریدی کچھ سوچنے لگا ۔
’’لیکن
میں کس طرح یقین کر لوں ۔ وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ میں سچ مچ کی ایک سرکاری جاسوس ہوں اور تمہاری بہن کے
قتل کے سلسلے میں تحقیقات کر رہا ہوں اور تمہاری حفاظت بھی میرے ہی ذمےآپڑی ہے۔
فضیل خاموشی سے زمین کی طرف دیکھنے لگا۔
’’مجھے
یہاں کب تک رہنا پڑےگا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد فریدی سے پوچھا۔
زیادہ دن نہیں ۔ فریدی نے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ میں جلد ہی اپنے مقصد میں کامیاب
ہو جاؤں گا ۔
تھوڑی دیر کے لئے پھر خاموشی گئی۔ حمید کے چہرے سے اضطراب ظاہرہورہا
تھا۔
’’ سر بنتھال نے کل رات تمہیں اتنی زیادہ کیوں
پلا دی تھی ۔ فریدی نے اچانک ہی چھا۔
’’ یہ میں نہیں
جانتا فضیل نے کہا۔
’’تمہارا بھیس اُس نے بدلا تھا۔‘‘
’’ہاں‘‘۔
’’کیاتمہیں سر بنتھال پر اعتماد ہے؟‘‘
’’ آخر اس کی وجہ۔
’’میں
نے بتایا کہ وہ میرے باپ کا دوست ہے ‘‘۔
لیکن تمہارے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ۔ فریدی نے کہا۔
’’پھر
خواہ مخواہ اسے خود کو ان کا دوست کا ہر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
’’ ممکن ہے کہ اس رومال کو حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا ہوا ۔
فریدی نے کہا۔
’’فضیل
کچھ سوچنے لگا۔
’’یہ سب کچھ میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ وہ
تھوڑی دیر بعد اکتائے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’ بہر حال یہ تو مجھے دیکھتا ہے ۔ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’" تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ حمید اور فرید ی
تہہ خانے سے واپس آگئے۔
4
حمید کا رقیب
’’یکا یک یہ گونگا بول کیسے پڑا تھا۔ حمید نے فریدی سے پوچھا۔
’’
میں نے اُس کے پیے نچھا دیا تھا ۔ فریدی نے جواب دیا۔
’’ کمال کیا آپ
نے اگر آپ ایسا نہ کرتے تو شاید وہ گونگاہی بنا رہتا ۔ حمید نے کہا۔ ’’ شاید آپ
لوگ عربی میں گفتگوںکررہے تھے۔
’’اور اگر تم اس گفتگو کا ماحصل سن لوتو اُچھل ہی پڑو گے ۔ فریدی
مسکرا کر بولا۔
’’کچھ بتا یئےبھی تو
حمید بے صبری سے بولا۔
فریدی
نے مختصر الفاظ میں اسے اپنی اور فضیل کی مختصر کا مطلب بتایا۔
تو
کیا یہ واقعہ آپ کو کسی خاص راستے کی طرف لے جائے گا ۔ حمید نے کام پوچھا۔
راستے کی طرف نہیں البتہ یہ ایک پگڈنڈی کی طرف
اشارہ ضرور کرتا ہے اور وہ پگڈنڈی ایک تیرہ
و تار جنگل کی طرف جاتی ہے جہاں پہونچ کر راستے کا تعین خود ہمیں کرنا پڑے گا۔
’’غالبًا! آپ کا اشارہ سر بنتھال کی طرف ہے ۔
حمید
نے کہا۔ تمہارا خیال درست ہے ۔ فریدی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’علی فضیل کا قتل کسی ایسی جگہ ہوا تھا جس کے متعلق مقامی
باشندوں کا خیال ہے کہ وہ بید ارروح کا مسکن ہے۔ محمد فضیل کا بیان بھی اس کی طرف
اشارہ کرتا ہے۔ مجھے اس مقام کا نام یاد نہیں رہا لیکن اتنا یاد ہے کہ یہ واقعہ
مصر کے کسی ساحلی دیہی علاقے میں پیش آیا تھا لیکن سر بنتھال کی شخصیت کا اس واقعے
سے کیا تعلق ہوسکتا ہے تم نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کئی دنوں تک فیشن ایبل نوجوان
عورتوں کے رو مال چرا تارہا۔ اس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ وہ حسینہ کونہیں پہچنتاتھا
‘‘۔
فریدی
خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر آہستہ سے بولا۔
’’سر
بنتھال محمد فضیل کو بھی ٹھکانے لگادینا چاہتا تھالیکن آخر کیوں ؟اور وہ رومال کیسا
ہے جس کے لئے تین قتل ہو گئے ؟‘‘
’’اوہ.....!‘‘
فریدی نے کہا اور اس کی پلکیں بھینچ گئیں
اور پھر وہ میز پرایک زوردار گوئٹے مارکر کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی
بجی ۔ فریدی نے ریسیور اٹھا لیا۔
’’ہیلو...
ہاں میں بول رہا ہوں ...فریدی... ہاں ...ہاں کیا کہا ...اور ٹیوی جہاں جاتا ہے اسے
جانے دو لیکن ان دونوں پر کڑی نظر رکھنا بہت اچھا‘‘۔
فرید
ی ریسیور رکھ کرحمید کی طرف بڑھا۔
’’
لو بھئی ان دونوں میں سے ایک تو خود بخود مصیبت میں پھنس گیا ۔ فریدی نے کہا۔
’’ کیا مطلب ۔ ؟
‘‘حمید چونک کر بولا۔
کیپٹین
خاور!‘‘
کیپٹین
خاور ایک انگریز ملٹری آفیسر کے ساتھ ٹیوی کے مکان سےنکلتا دیکھا گیا ہے۔ میں اس
سے پہلے بھی دو ایک بارا سے سر بنتھال کے ساتھ دیکھ چکا ہوں کیپٹن خاور اور شہباز
۔ شہباز اور حمید حمید اور فریدی۔ خدا کی قسم سر بنتھال نے بڑا بھیانک جال بچھایا
ہے ۔
’’تو آپ کا مطلب
ہے کہ سر بنتھال نے ہم لوگوں پر نظر رکھنے کے لئے یہ چال چلی ہے حمید نے بیساختہ کہا۔
’’
میں ہی سمجھنےپر مجبور ہوں۔ اس نے اس واردات سے پہلے ہی ہم لوگوں کا انتظام کر لیا
ہے۔
حمید
کچھ سوچنے لگا۔۔
شہناز
کو تم خاور کے ساتھ کب سے دیکھ رہے ہو ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’دو
تین دنوں سے حمید نے کہا۔ وہ دونوں کل رات بھی ہائی سرکل کلب میں آئے تھے۔ شہناز
نے شاید مجھے نہیں دیکھا تھا یا پھر نظر انداز کر گئی۔
فریدی
کچھ سوچنے لگا پھر آہستہ سے بولا۔
کیا سر بنتھال، حسینہ کے قتل اور رومال کے حصول
کے علاوہ بھی یہاں کوئی اور حرکت کرنے والا تھا؟‘‘
’’کیوں‘‘
’’اگر اس نے خاور کو حسینہ کے قتل سے پہلے ہی شہناز کے پیچھے
لگا دیاتھا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ حسینہ کو پہچانتا تھا؟‘‘
اور
اگر ایسا تھا تو وہ پھر اور وں کے رومال کیوں چراتا رہا۔
فریدی
پھر خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حمید سے بولا۔
’’ تم آج شہناز
سے ملو‘‘۔
’’میں ہرگز نہ ملوں گا‘‘۔
’’کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو ۔ میر اخیال شاذونا در ہی غلط نکلتا ہے‘‘۔
میں
اس سے مل کر کروں گا کیا‘‘
محض
یہ مارک کرتا ہے کہ میراعمال کہاں تک صحیح ہے ۔ فریدی نے کہا۔ اور ہاں خود سے ی نہ
ہ ظہر ہونے دیا کر تم نوادر کو اس کے ساتھ دیکھ چکے ہو۔
’’لیکن کیا وہ
ہمیں دھوکا دے گی ۔ حمید نے بیتابی سے کہا۔
’’ نا
دانستہ طور پر وہ ہمیں ضرور دھوکا دے سکتی ہے۔
’’یعنی‘‘
’’تمہارے ذریعہ‘‘
’’میں پھر نہیں سمجھا‘‘۔
’’کہنے
کا مطلب یہ ہے کہ شہناز کو کسی اہم معاملے کے متعلق کچھ نہ بتانا۔ ’’ ہو سکتا ہے
کہ وہ باتوں ہی باتوں میں کچھ اُگل دے۔
’’میں
نے بھی اس سے کوئی ایسی بات نہیں کی حمید نے کہا ۔ ’’اور اب تو اس کا کوئی سوال ہی
نہیں رہ گیا۔ خیر یہ ایک اچھی بات ہے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’تم اس وقت تک کام کے آدمی
نہیں ہو سکتے جب تک کہ جنسی بہار گی میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ اگر شہناز ایسی نہیں بھی
ہیں تو تم یہ سوچنے کی عادت ڈالو کہ تمہیں دھوکا دے رہی ہے۔ اس طرح ایک قسم کی
جھلاہٹ میں مبتلا ہو جاؤ گے اور یہ جھلا ہٹ تمہیں خطر پسندی کی طرف لے جائے گی۔
پھر جہاں تم اس حد تک پہونچےسارا کام بن جائے گا۔ کیاسمجھے!‘‘
حمید کوئی جواب دیئے بغیر اٹھ گیا لیکن اس کے انداز میں ناگواری کا شائبہ تک نہ تھا۔
5
تہہ خانے میں دھما کہ
حمید کے جانے کے بعد فریدی نے فون پر کسی کو کچھ ہدایات دیں اور
کپڑے تبدیل کر کے باہر چلا گیا۔ اس کی کار شہر کی بارونق سڑکوں پر دوڑتی پھر رہی
تھی اور خود وہ خیالات میں کھویا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کار آفس کی طرف
گھمادی۔
ا
بھی وہ اپنی میز پر بیٹھنے نہیں پایا تھا کہ سپر نٹنڈنٹ کے چیر اسی نے صاحب کا
سلام دیا۔
فریدی اس کے کمرے میں پہونچا سپر نٹنڈنٹ کچھ مضطرب سا نظر
آرہاتھا۔ فریدی کو دیکھتے ہی اس نے اسےبیٹھنےکا اشارہ کیا۔
’’ تمہارے اسٹنٹ
کی وجہ سے حملے کی بڑی بدنامی ہورہی ہے ۔ سپر نٹنڈنٹ نے کہا۔
’’میں آپ کا
مطلب نہیں سمجھا۔
’’وہ ٹیوی کے مکان میں کیوں گھسا تھا ؟‘‘
’’میں نے بھیجا تھا ۔ فریدی نے کہا۔
’’کوئی اسے بیوقوف بنا کر اپنا کام نکال رہا ہے۔
’’حمید نے معنی
خیز انداز میں سر ہلا کر کہا۔
’’مگر
تمہاری پوزیشن اس سے خطرے میں پڑ جائے گی ۔ فریدی نے کہا۔
’’کیوں ؟ خاور تمہیں بدنام کرتا پھر رہا ہے۔ اگر وہ مارا گیا
تو لامحالہ تمہارا نام ضرور لیا جائے گا ۔ فریدی نے کہا۔
’’مگر شہناز تو
اس کی تردید کردے گی ۔ حمید نے جلدی سے کہا۔ا ور اگر اسے غائب کر دیا گیاتو فریدی
نے کہا۔
’’ہشت فریدی
مسکرا کر بولا۔ ’’ میں ایسا نہیں سمجھتا۔
حمید
نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا تھا۔
واقعی
میری پوزیشن خطرے میں پڑگئی ہے ۔ حمید نے تھوڑی دیر بعد کہا ’’ کیوں نہ شہناز کو کہیں
ہٹادیا جائے۔
’’ناممکن فریدی
نے کہا۔ میں نے اپنا ایک خیال ظاہر کیا
ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ صحیح کہاں تک ہے۔
ہو
سکتا ہے کہ میرا خیال غلط ہو۔
آپ
کا خیال کبھی غلط نہیں ثابت ہوا کرتا حمید
نے منظر باند انداز میں کہا۔
’’
میں اس کا دعوی نہیں کرتا۔ فریدی نے کہا۔ ’’ خیر چھوڑوان باتوں کو۔ آج رات کو میں
سر بنتھال کے لئے کچھ کرنا ہے۔
’’جو کہئے وہ کیا
جائے ‘‘۔حمید بولا۔
’’سر بنتھال کے
گھر کی تلاشی لینا ضروری ہے ۔ فریدی نے کہا۔
لیکن
اس نے گھر میں کوئی ایسی چیز چھوڑی ہی کیوں ہوگی سعید نے کہا۔ مجھے اس رومال کی
جستجو نہیں ہے‘‘۔ فریدی بولا۔
کوئی
ایسی چیز جس سے اسے قانونی شکنجے میں جکڑ سکوں۔
’’تو وہ رومال کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔
رد
مال فریدی نے کہہ ’’ عجیب آدمی ہو۔ کیا تم مقتول کا رومال پہنچاتے ہو۔
’’نہیں‘‘۔
فریدی
جواب دینے کے بجائے جھک کر کمرے کا فرش دیکھنے لگا۔
اوہ
۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلاا اور پھر وہ سیدھا کھڑا ہو کر حمید کی طرف دیکھنے
لگا۔
مجھ سےبڑا احمق آج تک نہ پیدا ہوا ہو گا ۔ فریدی
نے کہا۔ حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ استفہامیہ نظروں سے فریدی کی طرف دیکھ ر ہا
تھا۔
آؤ
چلیں ۔ فریدی نے کہا۔
دونوں
تہہ جانے سے چلے آئے ۔
اس
کا غذ پر کیا لکھا ہے ۔ حمید نے پو چھا۔
فریدی
پڑھ کر اسےسمجھانے لگا۔
’’محترم سراغرساں‘‘
تم خواہ مخواہ بیچ میں آپٹکے میں تو سر بنتھال کو ایک
شاندار سبق دینے جارہاتھا۔ ہروہ شخص جو اس رو مال کا راز جاننے کی کوشش کرے گا اس
کا یہی حشر ہوگا۔ میں نے محض اس لئے تمہیں کوئی گز ند نہیں پہو نچایا کہ تم بھی سربنتھال کے پیچھے پڑے ہوئے
ہو۔ اس رومال کو اپنے پاس رکھنے والے کی سزا موت ہے اور اس کا راز جانے کی کوشش
کرنے والے کو بھی تھوڑی بہت سزادی جاتی ہے۔ تمہارے لئے فی الحال صدمہ کافی ہے کہ
تم دھوکا کھا گئے ۔ سر بنتھال کو اس سے زیادہ بھگتنا پڑے گا۔ دیکھ لودھواں بن کر
تمہارے تہ خانے سے جا رہا ہوں۔ خیر تھوڑی ہی ہسٹری اس رومال کی بھی سن لو۔ علی فضیل
نے وہ ر و مال ایک پرانے مقبرے سے کھود کر
نکالا تھا۔ دو ہزار سال پرانے مقبرے سے فرعون سوئم کی بینی لامیا کے متقیرے ہے۔
فرعون کی دو بیٹی جوز ہریلے سانچوں کے منہ میں اپنی زبان ڈالتی تھی۔ فرعون کی وہ بیٹی
جس کا سارا جسم سانپ چاہتے تھے اور جب علی فضیل نے اس کا رد مال کھود نکا لاتو ایک
بہت بڑا اژدھا اس کے پیچھے لگ گیا اور ایک دن اس نے اسے چیر کر پھینک دیا جیسے کوئی
شیر یر بچہ کسی ننھی سی چڑ یا کی ٹانگیں نوچ ڈالتا ہے۔ یہ رومال مصر قدیم کے بعض
اہم رازوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کے پیچھےپڑنے والے کی سزا موت ہے۔ خوفناک رو
میں اس کی محافظ ہیں۔ فریدی خاموش ہو گیا۔
حمید سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
لغویت
اور بکو اس فرید ی خلا میں گھورتا ہوا
بڑبڑایا۔
میں
کی ضعیف اعتقاد نہیں مگر حمید کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
تہہ خانے سے دھواں بن کر نکل جانے والی کوئی بد
روح تھی ۔ فریدی نے طنزیہ انداز میں حمید کا جملہ پورا کر دیا۔ پھر اس کے علاوہ
اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔ حمید نے کہا۔
روحیں نقلی ڈاڑھیاں نہیں لگا تیں۔ روحیں کسی
مزدور کو سوٹ پہنا کر اسے پستول کی گولی کا نشانہ نہیں بناتیں۔
’’مگر
...مگر...دھواں‘‘۔حمید ہکلایا۔
’’ایک چھوٹا ساٹائم بم
جو اس نے کہیں چھپارکھا تھا ۔
وہ خود کہاں گیا ؟‘‘۔ ہم لوگوں کی عدم موجودگی میں تہہ خانے
سے نکل گیا اور ٹائم بم ڈالتا گیااور وقت معینہ پربم پھٹ گیا۔ چونکہوہ ایک جگہ میں پھٹا تھا اس لئے دھماکے کے بجائے صرف
ہلکی ی گونج اور گھر گھر اہٹ سنائی دی۔ بم زیادہ طاقتور نہیں تھاورنہ کمرے کا فرش بیٹھ جاتا۔
تو اس کا مطلب یہ
ہوا کہ سر بنتھال کے علاوہ کوئی اور بھی اس رومال میں دلچسپی ہی نہیں لے، رہا ہے جبکہ اس رومال پر قابض بھی
ہے سعید نے کہا۔
’’ یہ ایک نیا پیدا ہو گیا ہے‘‘۔ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا
۔ لیکن سربنتھال کی پوزیشن میرے ذہن میں صاف نہیں
’’میرا خیال ہے
کہ اس نے اس مقصد کے تحت اس آدمی کو ٹیوی کے حوالے کیا تھا کہ اس سے وہ ر و مال
زبر دستی حاصل کرے حمید بولا۔
یہ
تو ظاہری بات ہے ۔ فریدی بولا ۔ لیکن میں
اس سے مطمئن نہیں اس لئے کہ تمہارے بیان کے مطابق اس رات کو سر بنتھال نے کسی کا
رو مال غائب نہیں کیا تھا جس رات وہ ر و مال حسینہ سے چھینا گیا۔
حمیدہ کچھ سوچنے لگا۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ کیا ۔ ممکن
نہیں۔ وہ بولا ۔ وہ مز دور سر بنتھال کا آدی رہا ہو جو رو مال چھین کر بھاگا تھا
اور پھر اسے کسی دوسرے آدمی نے بلا کر کے رومال اس سے حاصل کر لیا ہو۔ اس طرح سر بنتھال
اپنی کوششوں کے باوجود بھی محروم ہو گیا ہو ۔
’’یہ
بھی ہو سکتا ہے۔ فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر چند لمحے خاموش رہ کر بولا۔
لیکن تمہیں یہ بھی جاننا پڑے گاکہ سر بنتھال ہم لوگوں سے بے خبر نہیں تھا۔
’’ کیوں‘‘
’’
اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اتنے موٹے شکار کو دوسروں پر چھوڑ کر خود وہاں سے چلا نہ
جاتا۔ اس کی آنکھوں میں دیے ہوئے جوش کی جھلکیاں نظر آنے لگیں اور وہ اٹھ کر کھڑا
ہو گیا۔
’’لیکن ٹھہر و ‘‘
اس نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔ ٹیوی اس وقت وہاں کیا کر رہاتھا۔ تو اس کا مطلب یہ
ہے وہ ایک سوچی سمجھی ہوئی اسکیم تھی۔ اور حمید ہم لوگ بالکل گدھے ہیں۔ پرلے سرے
کے احمق لیکن اتنا یاد رکھو کہ کیپٹن خاور چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔
’’معلوم نہیں آپ
کیا کہہ رہے ہیں ۔ حمید اکتا کر بولا ۔ ’’سر
بنتھال سے آپ کیپٹن خاور پر آگئے۔
’’ ٹھہرو ۔ فریدی نے ٹیلی فون کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ اس نے
ریسیور اٹھا کر ڈائل گھماتے ہوئے کہا۔ انکوائری مصری سفارت خانہ شرف العزیز نہیں ہیں۔
ان کے بنگلے کا فون نمبر کیا ہے۔ اور اچھا شکریہ مریدی نے ڈس کنکٹ کر کے دوبارہ
نمبر ملائے ۔ ہیلو کیا شرف اعزیز ہیں۔ میں انسپکٹر فریدی بول رہا ہوں.... وعلیکم
السلام ...میں تھوڑی سی تکلیف دینا چاہتا ہوں۔ اس دوران میں کسی نے مصر جانے کے
لئے ویزا کی درخواست تو نہیں دی.... ہوں....
ہوں ....اور کوئی.... ذرا ٹھہرو میں نوٹ کروں گا کیا نام بتایا تھا ہاں.... اچھا
اچھا ...اور... اور بہت خوب اچھا شکر یہ کل ہم لوگ دل کشا میں چائے بھی پیئں گے
اور کھانا بھی کھا ئیں گے ۔ بہت دنوں سے تم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میڈ موز ئیل ثریا
فروزان کو بھی میری طرف سے کہہ دینا۔ اچھا ....والسلام‘‘۔ فریدی ریسیور رکھ کرمڑاں۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’ اور سنا تم نے ۔ وہ حمیدسے بولا ۔ سر بنتھال مصر جارہا ہے۔ اُس نے مصری سفارتخانے
میں ویزا کے لئےدرخواست دی ہے۔ دی ہو گی ’’ حمید جھلا کر بولا مجھے تو کیپٹن خاور کی ہونے والی موت کا غم
کھائے جا رہا ہے۔
کیوں
؟ فریدی نے مسکرا کر کہا۔’’ اپنے رقیب سے اتنی محبت کرتے ہو ۔
محبت نہیں بلکہ خواہ مخواہ کی پھانسی سے ڈرتا
ہوں حمید نے اکتا کر کہا۔ کس جنجال میں پھنس گیا‘‘۔
ڈ
رو نہیں پیارے تم خواہ مخواہ کیوں مرے جارے ہو۔ یہ سب مجھ پر چھوڑ کر اپنے کام میں
لگ جاؤ ؟‘‘
’’کام اب کیا
کام ہے ؟‘‘
’’شہناز کو کہیں
غائب کر دو ۔ فریدی نے کہا۔
’’غائب کہاں
کردوں۔ نہیں لا کر تہہ خانے میں ‘‘۔
’’جی
نہیں فریدی نے کہا۔ تہہ خانے کا راز افشاء
ہو چکا ہے۔
’’پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
حمید
کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔ فریدی نے ریسیور اٹھالیا۔ ۔
’’ہیلو...
فریدی بول رہا ہے... اوہ آپ ...جی ...کیا ...ہاں ہاں... حمید اس وقت میرے پاس
موجود ہے ...اوہ... تو میر امیال صحیح نکلا...خیر خیر یہ ثابت کرنا میرا کام ہے...
آپ مطمئن ر ہیں... اس کی یا میری ملازمت پر ذرہ برابر بھی آنچ نہیں آسکتی خیر خیر
فریدی
ریسیور رکھ کر مڑا۔ وہ قدرے متفکر نظر آرہا تھا۔
’’کون تھا ؟‘‘
حمید نے پوچھا۔
’’ہمارے سپر نٹنڈنٹ صاحب فریدی نے تلخ لہجے میں کہا ۔ شہناز غائب
ہوگئی ہے۔ اس کے خالہ زاد بھائی کیپٹن خاور نے مشکوک لوگوں میں تمہارا اور میرا
نام بھی لکھ دیا ہے ۔ مگر وہ تو کہتی تھی کہ وہ اس کا کوئی بھی نہیں ہے ۔ حمید نے
کہا ۔
’’پولیس کو اس
سے کیا غرض اس نے پولیس کو تو اس قسم کا کوئی بیان نہیں دیا ۔
’’یہ تو بہت برا
ہوا ‘‘ حمید نے کہا۔
6
کار میں لاش
رات تاریک اور انتہائی سر دتھی۔ ستارے اس طرح کپکپا رہے تھے جیسے
وہ برف کے طوفان میں پھنس کر آخری جد و جہد کرر ہے ہوں۔ چاروں طرف ایک لامتناہی سناّ
ٹاچھایا ہواتھا۔ کبھی کبھی جھینگروں کی جھا ئیں جھا ئیں ‘‘اچانک ُرک جاتی اور ایسا
معلوم ہونے لگتا جیسے سناٹے کا تسلسل ٹوٹ گیا ہو ۔
سرکلر روڈ جوشہر میں
روشنی کی بوچھاروں میں ڈوبی ہوئی تھی شہر کے باہر کے ویر ان حصے میں آکر تاریکی کی
آغوش میں سوگئی تھی اور اس وقت قدموں کی آہٹیں بھی اس کے سینے میں دھڑکنیں نہیں پیدا
کر رہی تھیں۔ اس کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے درخت اور کہیں کہیں گھنی جھاڑیاں تھیں۔
اس کے سیاہ سینے پر روشنی کی لمبی لمبی لکیریں نظر آنے لگیں اور دورکسی کار کی ہیڈ لائٹس دکھائی
دیں۔ کار تیزی سے آرہی تھی۔ پیپل کے پرانے درخت کے قریب آکر اس کی رفتار کم ہو گئی
اور پھر کچھ دور چلنے کے بعد رُک ہی گئی لیکن مشین نہیں بند کی گئی۔ ان کی ملی جلی
آواز فضا میں منتشر ہو رہی تھی ۔ ہیڈ لائنس بجھادی گئیں۔ کسی نے کھڑکی سے سر نکال کر پیپل
کے درخت کی طرف دیکھا ، وہاں ایک تار یک سایہ متحرک نظر آر ہا تھا۔
’’جبار خان‘‘۔ کا روالے نے آہستہ سے آواز دی۔ قریب آؤ۔‘‘سایہ
آہستہ آہستہ کار کی طرف بڑھنے لگا۔ ساتھ میں کاروالے کا ہاتھ جیب میں گیا۔ اس نے
پستول نکال کر اس کی نال کار کی کھڑکی پر رکھ دی لیکن کار کی طرف بڑھنے وا لاسایہ شاید اس سے بے خبر تھا۔ وہ کار سے ڈیڑھ
فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔ کاروالے نے پستول مضبوطی سے پکڑ لیا۔ لیکن دوسرے ہی
لمحے میں کار کی دوسری کھڑکی سے ایک ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھا۔ کاروالے کو اس کی
خبر تک نہ ہوئی۔
’’ خبر دار‘‘۔ پیچھے سے آواز آئی۔ اپنا پستول سڑک پر گرادو‘‘۔
کار والے کی گردن میں ٹھنڈے لوہے کا ننھاسا وائر ہ چھبنے
لگا۔
’’پستول سڑک پر گرا۔ پیچھے سے پھر آواز آئی ہے۔ ’’اور اگر
تم نے ذارہ بر ابر بھی جنبش کی تو کھوپڑی اڑ جائے گی‘‘۔ کا روالے کا پستول سڑک پر
آ گرا۔ اس کے سامنے کھڑا ہوا آدمی خاموش کھڑا تھا۔
’’کیپٹن خاور نیچے اتر آؤ۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ تم کون ہو؟۔
کاروالے نے کہا۔
’’انسیکٹر فریدی
۔ سامنے کھڑے ہوئے آدمی نے کہا۔ شہناز کہاں ہے؟ ‘‘پیچھے سے سرجنٹ حمید نے پوچھا۔
اس کے پستول کی نال کا روالے کی گردن میں چھبی جارہی تھی۔ میں نہیں جانتا کار والے
نے کہا۔
’’نیچےاتر آؤ۔
فریدی نے کہا اور کار کا دروازہ کھول دیا ۔
کار کے انجن کی آواز سناٹے میں گونج رہی تھی۔ کا روالے نے ایک
پیر پائیدان پر رکھ دیا ایسا معلوم ہوا جیسے وہ نیچےاتر رہا ہو لیکن اندھیرے میں
فریدی یہ نہ دیکھ سکا کہ کار والے کا ہاتھ گئیر پر رینگ رہا ہے۔ فریدی کو اپنی بنیادی
غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مشین بند کرنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ کار
ایک جھٹکے کے ساتھ چل پڑی۔ سرجنٹ حمید دوسری طرف بڑک کے کنارے لڑھک گیا اور فریدی
کھڑا ہاتھ ملتا رہ گیا۔ حمید نے پے در پے فائر کرنے شروع کر دیئے لیکن کار گولیوں
کی دسترس سے دور جا چکی تھی ۔
’’ کیوں فضول کارتوس خراب کر رہے ہو!‘‘ فریدی جھلا کر بولا
۔ ’’تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ ہاتھ بڑھا کر انجمن بند کر دیتے۔
کیپٹن
خاور کا نام سنتے ہی شہنار کی فکر جو پڑ گئی تھی۔
شاید میرے سر میں چوٹ آگئی ہے ۔ حمید جھنیپ کر
بولا ۔
’’معلوم نہیں آپ
اس وقت کسی موڈمیں ہیں ۔ حمیدہنس کر بولا
۔ شاید اس وقت کی ناکامی نے آپ کے ذہن پر بڑا
اثرڈالاہے۔ یعنی میرا دماغ خراب ہو گیا ہے
۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میں یہ نہیں
کہتا۔ اگر وہ سر بنتھال تھا تو شاید وہ جس نے اسے شراب پلائی تھی اس کا ہمزدہواتھا
۔
’’محض یہی کہ میری
توجہ اپنی طرف سے ہٹاکر یہاں سے نکل جائے۔ اگر وہ اس رومال کے حصول کے لئے کوشش کر
رہا تھا تو پھر مصر جانے کے لئے ویزاکی
درخواست کیوں دی تھی۔ اس سے تو یہیں ثابت ہوتا ہے کہ وہ رو مال اس کے پاس ہے۔ شاید
اسے اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ تم اس کی حرکتوں کو بغور دیکھ رہے ہو۔ لہذا اس نے
ہمیں بے قوف بنانے کے لئے یہ پلان بنایا۔ حیرت ہوتی ہے اس کی ذہانت پر میرے پن چبھانے
پر وہ اس طرح عربی میں چیخا تھا جیسے اس کے لئے پہلے سے تیار ہ ہو۔ کتنا مصنوعی
نفسیاتی رد عمل تھا۔ اس وقت میں اپنی اس تدبیر پر خودی جھوم جھوم اٹھاتھا لیکن آج
اپنے سے زیادہ احمق کسی اور کو سمجھ نہیں سکتا اور اس کے باوجود بھی مشکوک تھا۔
’’تو کیا اس وقت آپ نے اس کا انداز ہ لگایا تھا کہ سر بنتھال تھا۔
حمید نےپو چھا۔
’’ ہر گز نہیں میں مشکوک ضرور تھا لیکن اس وقت اس کا وہم
وگمان بھی نہیں تھا کہ وہ خود سر ل ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھی یہ بات میرے
حلق سے نہیں اترتی ’’ حمید نے کہا۔
’’ خیر دیکھا جائیگا ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ اس راز سے بھی کبھی
نہ کبھی پردہ اٹھے گا۔ میں تم سے یہ کب کہتا ہوں کہ بے چوں وچر ہر بات پر ایمان لے آیا کرو۔
دونوں تقریباً چار بجے گھر پہونچے ۔ ڈرائنگ روم میں سناٹا
تھا۔
’’ لو بھئی کوئی دوسری چوٹ‘‘۔ فریدی بوکھلا کر بولا۔ ’’آخر یہ
لوگ کہاں گئے کیا ان احمقوں نے اسے حوالات پہونچا دیا‘‘۔
’’نوکروں کو جگا کر پو چھئے ۔ حمید بولا۔
’’ ٹھہرو فریدی فون کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ اس نے ریسیور اٹھایا۔ ہیلو کو توالی ...ڈیوٹی پر کون
ہے ، ذرا جگدیش کو بلاؤ فریدی نے ریسیور میز
پر ڈال دیا۔ اور حمید کی طرف دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے ریسیو اٹھایا۔ ہیلوجگدیش...
فریدی بول رہا ہے ...کیا ...چوٹ ...کیسی چوٹ ...گھاس تو نہیں
کھاگئے... ارے ...چہرہ خون میں ڈوبا ہوا تھا ...تمہیں کب عقل آئے گی سب ستیا ناس
کر دیا تم نے لا حول ولا قوۃ میں نے تمہیں بلا کر غلطی کی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ
نہیں کچھ نہ کچھ عقل آگئی ہوگی۔ خیر آئندہ احتیاط برتوں گا ۔ فریدی نے ایک جھٹکے
کے ساتھ ریسیور رکھ دیا اور بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ غصے سے اس کا چہرہ سرخ
ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار رک کر میز پر ایک زور دار مکا مارا اور پلٹ کر حمید کو
گھور نےلگا۔
’’ کیا ہوا حمید نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’ قلت فریدی زخمی بھیٹر یے کی طرح غرایا ۔ ’’جبار کو وہ لوگ نکال
لے گئے۔
’’نکال لے گئے ؟ ‘‘حمید نے متحیرانہ انداز میں پو چھا۔
’’ہاں ، جگدش کو دھوکا دیا گیا لیکن اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے
۔
فریدی نے صوفے پر گر کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ جگد یش کس طرح دھوکا کھا گیا ۔ حمید نے کہا۔
’’ جب میں دھوکے کھا رہا ہوں تو جگدیش کی کیا حقیقت ہے ۔ فریدی نےبُر
اسامنہ بنایا۔
’’آخر ہوا کیا ؟‘‘
’’جگدیش کا بیان ہے کہ تین بجے کے قریب تم خون میں نہائے ہوئے
ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے‘‘۔
’’ میں ‘‘حمیداُ چھل کر بولا۔
’’ہاں۔ تمہارا چہرہ خون میں ڈوبا ہوا تھا۔
حمید گھبرا کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا لیکن پھر اپنی
حماقت کا احساس ہوتے ہی ہاتھ نیچےگرادیا۔
’’ تم نے اس سے کہا کہ فریدی صاحب جبار کو بلا رہے ہیں۔ تم اتنی
جلدی میں تھے کہ تم نے جگدیش کو یہ بھی نہ بتایا کہ تم خون میں کیوں نہائے ہوئے
ہو۔
’’مگر میں تو ‘‘.....
’’میرے
ساتھ تھے‘‘ ۔ فریدی طنزیہ انداز میں بولا ۔ " تم اتنے احمق کیوں ہوتے جارہے
ہو۔ میں یہ کب کہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نہیں تھے۔ اس گروہ کا کوئی آدمی تمہاری
شکل میں آیا اور جبار کو لے اڑا۔ مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔
’’اب کیا کیا جائے ۔ حمید بے بسی سے بولا۔
’’سوچنا پڑے گا....سوچنا پڑے گا ۔ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ ’’میں
نے آج تک ایسا مجرم نہیں دیکھا جو دلیر بھی
ہو
اور کھل کر سامنے بھی نہ آتا ہو‘‘ ۔
’’کیوں نہ سر بنتھال کو گرفتار کر لیا جائے ‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’کیا احمقوں کی سی باتیں کر رہے ہو‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔ اس کے خلاف
ثبوت کہاں سے مہیا کریں گے۔ یہ تو اُسی
وقت
ہوسکتا تھا اب ہم کیپٹن خاور کو گرفتار کر
لیتے۔
’’جاؤ جا کر سور ہو۔ فریدی نے کہاابھی بہت کچھ کرنا ہے ۔
’’ اب نیند نہیں آئے گی ۔ حمید نے کہا۔
فریدی خاموش ہو گیا۔
’’اچھا اس آتشدان میں کوئلے ہی ڈال دو۔ فریدی نے کہا اور آنکھیں
بند کر کے کچھ سوچنے لگا ۔
حمید نے اٹھ کر آتشدان میں کوئلے سلگا دیے۔
فریدی جو صوفے پر بیٹھا
اونگھ رہا تھا کھڑا ہو گیا۔
تھوڑی دوڑ دھوپ کی ہمت کر سکو گے ۔ فریدی نے حمید سے پوچھا۔
ابھی اس وقت حمید اپنے چہرے پر کاہلی کے آثار پیدا کرتا ہوا
بولا۔
اور نہیں تو کیا ایک سال کے بعد فریدی نے کہا اور اپنا اوور
کوٹ پہنے لگا۔
حمید بھی طوعاور کر اٹھا ۔ آج وہ کافی تھک گیا تھا۔ تھکن کا
یہ عالم تھا کہ اُسے بولنے میں بھی کاہلی بھی محسوس ہورہی تھی۔ گھڑی ساڑھے پانچ بجارہی
تھی۔ وہ دونوں بر آمدے سے نکل کر پا ئیں باغ میں آئے ۔ فریدی گیراج کھول کر اپنی کار
با ہر نکال ہی رہا تھا کہ ایک کا ر احاطے کے پھاٹک پر آکر رکی۔ پھر کوئی پھاٹک کو
پکڑ کر بلانے لگا۔
’’کون ہے ؟‘‘ حمید چیخا۔
’’پھاٹک کھولو‘‘۔
’’اوہ آپ حمید پھاٹک کی طرف بڑھتا ہوا بولا اور فریدی سے مخاطب ہو
کر بولا۔ سپر ٹنڈنٹ صاحب ‘‘۔
حمیدے پھاٹک کھول دیا۔ سپر نٹنڈنٹ اندرا گیا۔ فریدی بھی گیراج
سے باہر نکل آیا۔
’’تم لوگ کہاں سے آرہے ۔ سپر نٹنڈنٹ نے پوچھا۔
’’ہم لوگ کہیں جارہے ہیں ۔ فریدی مسکرا کر بولا۔ مگر اب نہ جائیں
گے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ نے غریب خانے پر قدم رنجہ فرمایا۔ اندر تشریف لے چلئے‘‘۔
’’نہیں !‘‘ سپر ٹنڈنٹ نے طنز یہ انداز میں کہا۔ ’’ میں یہ بتانے کے
لئے آیا ہوں کہ کیپٹن خاور سرکلر روڈ کے موڑ پراپنی
ٹوٹی
ہوئی کار میں مردہ پایا گیا ہے۔ اُس کے ذاہنی کنپٹی پر گولی لگی ہے۔
’’اوہ!‘‘ حمیدا ُچھل کر بولا ۔ اس کی نظریں بے اختیار فریدی کی طرف
اُٹھ گئیں۔
’’تو میر اخیال سچ نکلا۔ سپر ٹنڈٹ نے کڑے لہجے میں کہا۔
’’ اگر آپ اپنے خیال سے مطلع فرما ئیں تو اپنی خوش نصیبی
سمجھوں گا ‘‘۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’ حمید اس خبر کو سنکر گھبرا کیوں گیا ۔ سپر نٹنڈنٹ نے تلخ
لہجے میں کہا۔
’’یا وحشت ‘‘حمید مسکرا بولا۔
تھوڑی دیر بعد فریدی اور حمید بھی جائے وقوع پر پہونچ گئے ۔
سرکلر روڈ کے چورا ہے پر مڑتے وقت کیپٹن خاور کی کار ایک تناور درخت سے ٹکرا کر اُلٹ
گئی تھی بمشکل تمام اس کی لاش اس کے اندر سے نکالی جاسکی تھی دو تین سب انسپکٹر
اور محکمہ سراغرسانی کا سپرٹنڈنٹ لاش کے گرد کھڑے تھے۔ فریدی اور حمید کے پہونچتے
ہی سپر ٹنڈنٹ نے برا سامنہ بنایا۔
’’میں نہیں سمجھتاکہ تم لوگوں کی دخل اندازی ضروری ہے‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ
نے کہا۔
فریدی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سول پولیس
والوں کے سامنے بات بڑھے اور سپر ٹنڈنٹ صاحب اس میں اپنی تو ہین محسوس کریں۔
لیکن یہ واقعہ سول پولیس والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا
کہ کیپٹن خاور گولی لگنے کی وجہ سے مرایا کا رالٹنے کی وجہ سے۔ سپر ٹنڈنٹ نے اپنے خیال کا اظہار شروع کیا۔ اس نے فریدی
اور حمید پر ایک اچٹتی ہی نگاہ ڈالی اور کہنے لگا۔ ’’ جس وقت یہ یہاں کا رموز رہا
تھا کسی نے اس پر گولی چلائی اور کار درخت سے ٹکرا کر اُلٹ گئی۔
فریدی کے ہوٹوں پر
طنز آمیز مسکراہٹ پھسلنے لگی لیکن وہ کچھ بولانہیں۔
تھوڑی دیر بعد سول پولیس والے لاش وہاں سے اٹھالےگئے سپر ٹنڈنٹ
وہیں رہ گیا۔
’’اب فرمائیے آپ لوگ سپر ٹنڈنٹ طنز یہ لہجے میں بولا۔
’’میں آپ سے متفق نہیں ہوں ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’بھلا آپ لوگ کیوں متفق ہونےلگے ‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ معنی خیز انداز میں
سر ہلا کر بولا۔
’’آپ غلط لائنوں پر سوچ رہے ہیں فریدی نے کہا۔
مسٹر فریدی خود کوعقلمند
سمجھنے ولا عمومًا بیوقوف ہوتا ہے‘‘۔
’’بہت
عرصے سے یہی سوچ رہا ہوں ۔ فریدی مسکرا کر
بولا ۔ رات تم دونوں کہاں تھے سپر نٹنڈنٹ نے پو چھا۔
’’کیپٹن
خاور کے تعاقب میں‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ کیا مطلب سپر نٹنڈنٹ پولیس بولا۔
’’مطلب ہم لوگ فی الحال اپنے ہی تک محدود رکھنا چاہتے ہیں کہ فریدی
نے کہا۔
تم اس جرم کو اپنی
مصنوعی دلیری کے پردے میں نہیں چھپاسکتے۔ تم لوگوں کے خلاف کیپٹن خاور کی رپورٹ
محفوظ ہے۔
اور اس غریب کو ملک
الموت نے اپنی حفاظت میں لے لیا ۔ فریدی ہنس کر بولا۔
تم پھر میر مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے ہو ‘‘۔ سپر ٹنڈنٹ گرج
کربولا۔
’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’میں آج ہی
شہر بھر کے بدمعاشوں سے آپ کے خلاف
لا
تعد ادرپورٹیں لکھوا سکتا ہوں‘‘۔
7
دو دو باتیں
سر بنتھال
اپنے بنگلے میں موجود نہیں تھا۔ فریدی اور حمید ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اس کا
انتظار کرنے لگے۔ سر بنتھال کے نوکروں نے انہیں ٹالنا چاہا لیکن وہ اس میں کامیاب
نہ ہو سکے۔ حمید کو بھی حیرت ہورہی تھی کہ آخر فریدی سر بنتھال کی عدم موجودگی میں
اس کے گھر میں بیٹھ کر کیا کرے گا‘‘۔
ڈرائنگ روم عمدہ فرنیچر اور اعلی تصویر سے مزین تھا۔ ان میں
زیادہ تر نامور مصوروں کے شاہکار تھے۔ فرش پر ایران اور کشمیر کے بیش قیمت قالین
تھے۔ فریدی یہاں کی ہر ایک چیز کا غائر جائزہ لے رہا تھا۔وہ چونک پڑا۔
’’حمید ذرا پلٹ کر دیکھنا کیا پیچھے روشندان میں بلی ہے ۔ فریدی نے
کہا حمید مڑ کر دیکھنے لگا اور پھر اسے ہنسی آگئی۔
’’کمال کیا آپ نے۔ وہ ہنس کر بولا ۔ ’’ کیا آپ کی گردن میں بھی
آنکھیں ہیں آپ تو سامنے دیکھ رہے تھے پھر آپ کو بلی کیسے نظر آگئی ؟ ‘‘
’’صرف بلی ہی نہیں دکھائی دی بلکہ اس کا خاصا ثبوت مل گیا
کہ اس رات سر بنتھال اس سے بے خبر نہیں تھا کہ میں اس کا پیچھا کر رہا ہوں‘‘۔
’’ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ‘‘حمید نے کہا۔ بھلا بتاؤ چھت کے قریب
آئینے کیوں لگائے گئے ہیں اور پھر ہر روشندان کے سامنے ایک آئینہ ہے۔ اس کاکیا
مطلب ہو سکتا ہے‘‘۔
حمید نے اب خیال کیا۔
واقعی ہر روشندان کے سامنے چھت کے قریب ایک ایک آئینہ نصب تھا۔
’’ہاں ہے تو بے تکی چیز۔
’’بے تکی نہیں کار آمد کہو‘‘۔
’’ کیوں؟‘‘
’’اس رات میں نے چھت پر چڑھ کر انہیں روشندانوں میں سے کسی ایک سے
جھانک کر اس کمرے میں دیکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی آئینے میں میری صورت ضرور
دکھائی دی ہوگی۔ سربنتھال اپنے ساتھی کے
ساتھ یہیں موجود تھا۔ میں نےان دونوں کو بولتے سنا تھا۔ ان کی صورتیں نہیں دکھائی
دی تھیں۔
’’آپ کا یہ خیال غلط بھی ہوسکتا ہے ۔ حمید نے کہا۔
’’ہو سکتا ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔ ’’ لیکن اس کے علاوہ ان آئینوں
کا کوئی اور مقصد ہو بھی نہیں سکتا‘‘۔
حمید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ فریدی بھی خاموش ہو کر کچھ
سوچنے لگا ۔
’’ اتفاقاً ڈرائنگ روم سے ایک نو کر گذر کر دوسرے کمرے میں
جانے لگا۔ فریدی نے اسے بلا کر پانی مانگا۔ جب وہ پانی لے کر واپس آیا تو فریدی نے
ایک طویل انگڑائی لی اور پانی کا گلاس ہاتھ میں لے کر تعریفی نظروں سے ڈرائنگ روم
کا جائزہ لینے لگا۔
’’ آج کل ایسے آئینے یہاں نہیں ملتے۔ فریدی نے کہا۔
’’نو کرنے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’میں نے پہلے بھی انہیں یہاں نہیں دیکھا کیا یہ ابھی حال ہی میں یہاں
لگائے گئے ہیں ۔ فریدی نے پو چھا۔
جی ہاں نوکر نے کہا اور گلاس لے کر چلا گیا۔ کیوں بھئی اب کیا کہتے ہو۔ فریدی مسکرا کر بولا۔
مان گیا۔
دیکھیں وہ کب آتا ہے۔
میرے خیال سے تو چلئے۔
نہیں ہمیں یہیں بیٹھنا ہے ۔ فریدی نے کہا اور سامنے والی
تصویر پر نظریں گاڑ دیں۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا ۔ دفعتًا بر آمدے میں قدموں کی آہٹ
سنائی دی اور سر بنتھال ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ فریدی اور حمید کو دیکھ کر وہ بیساختہ
بولا۔
اوہ تمہیں میرا انتطار کرنا پڑا۔ مگر کیوں؟ تم نے نوکروں سے
کہہ کر ٹیلیفون بنا کیوں نہیں دیا۔ رات سےبگڑا پڑا ہے۔ اچھا میرے ساتھ آؤ۔ فریدی
مسکر اکر اُٹھا۔ وہ اور حمید سر بنتھال کے ساتھ چلنے لگے۔ متعدد کمروں سے گذرتے
ہوئے وہ
لائبریری میں آئے۔ سر بنتھال نے میز پر رکھے ہوئے فون کی طرف اشارہ کیا اور
خود ایک الماری کھول کر کتا میں دیکھنے لگا۔
’’یہ ٹیلیفون بارہ بجے رات کے بعد تو نہیں خراب ہوا۔ فریدی نے
پوچھا۔
’’سر بنتھال چونک کر اس کی طرف مڑا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تم نے اس دوران میں کیپٹن خاور کے ساتھ کوئی لڑکی دیکھی تھی ۔ حمید نے پوچھا۔
’’جہنم میں گیا کیپٹن خاور میں کچھ نہیں جانتا ۔ سر بنتھال نے بے چینی
سے کہا۔
’’ا ور وہ لڑکی‘‘۔
’’اوہ ....‘‘سربنتھال کا
تان کر غراتا ہوا اٹھنے لگا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔
’’تم پر....حمید کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ فرید ی کمرے میں داخل
ہوا۔ سربنتھال استفہامیہ نظروں سے اس کی
طرف دیکھنے لگا۔
’’ہم‘‘۔ فریدی ایک جھٹکے کےساتھ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔’’علی فضیل
کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘
میں کچھ نہیں ....کچھ
نہیں جانتا‘‘ ۔ سر بنتھال کی آواز بھر آگئی اور وہ خوفزدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے
لگا۔
’’بہت اچھے !‘‘فریدی مسکرا کر بولا۔ ایکٹنگ اچھی کر لیتے ہو‘‘۔
’’کیا مطلب !‘‘سر بنتھال غصے سے بولا۔
’’ میں علی فضیل کے بارے میں کچھ جاننا چاہتا ہوں‘‘۔ فریدی
نے کہا۔
’’کون علی فضیل!‘‘
’’مصری سراغرساں !‘‘
’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
’’تم رات جس لمبی ڈاڑھی والے کو کلب میں شراب پلا رہے تھے وہ کون
تھا ؟‘‘
’’ اوہ سربنتھال چونک کر بولا۔’’ وہ...وہ...‘‘
’’ٹھیک ٹھیک بتاؤ‘‘۔
’’پادری جبرالڈ‘‘۔
’’اور تم یہ جانتے تھے کہ وہ سچ مچ پادری جیرالڈ ہے‘‘۔
سربنتھال پھر چونک
پڑا۔ وہ حیرت زدہ نظروں سے فریدی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ تم یہ کیوں کو چھورہے ہو؟ ‘‘سر بنتھال نے پوچھا۔
’’میں تم سے سوالات کر رہا ہوں ۔ فریدی خشک لہجے میں بولا ۔’’ میرے
سوال کا جواب دو‘‘۔
’’ہاں، مجھے شبہ تھا کہ وہ جیرالڈ نہیں ہے‘‘۔
’’پھر تم اسے اپنے ساتھ لئے کیوں پھرتے رہے
’’ محض یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ دراصل کون ہے‘‘۔
’’اسی لئے تم اُسے ٹیوی کے حوالے کر کے خود وہاں سے چلدیئے‘‘۔
سر بنتھال پھر چونک پڑا۔ وہ فریدی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’تم سب کچھ جانتے ہو۔ اوہ... اوہ ‘‘سربنتھال اٹھ کر بیچینی سے ٹہلنےلگا۔
فریدی بغور اس کا جائزہ لیتا رہا۔
’’ہاں، میں اسے ٹیوی کے حوالے کر کے چلا گیا تھا - سربنتھال نے
اچانک مڑ کر کہا۔ ’’ کوئی میرا تعاقب کررہا تھا‘‘۔
’’میں نہیں جانتا ‘‘۔سر
بنتھال نے کہا۔ ممکن ہے تم ہی رہے ہو‘‘ ۔
’’پادری جیرالڈ حقیقتًا کون ہے‘‘۔
’’میرا دوست لیکن مجھے حیرت تھی کہ وہ یک بیک یہاں کیسے پہونچ گیا۔
’’وہ
کہاں رہتا ہے؟‘‘۔
’’سوئز کے علاقے میں‘‘۔
اوہ تو اس کاتعلق بھی مصری سے ہے ۔ حمید بیساختہ بولا۔
’’علی فضیل کے لڑ کے محمد فضیل کو جانتے ہو‘‘ ۔ فریدی نے پو چھا۔
’’ غلط بکو س علی فضیل کا کوئی بیٹا نہیں سر بنتھال چیخ کر بولا ۔
’’مگر تم تو علی فضیل کو جانتے ہی نہیں تھے۔ اب اس کے خاندان بھر
سے واقف نظر آرہے ہو ۔
’’اوہ ...اوہ ‘‘۔سربنتھال بے بسی سے صوفے پر گر گیا لیکن وہ تھوڑی
ہی دیر بعد سنبھل گیا۔
’’میں کہتا ہوں تم لوگ یہاں سے نکل جاؤ ۔ وہ چیخ کر بولا ۔
’’ لیکن یہ مت بھولو کہ علی فضیل کی لڑکی ایک رومال کے لئے
دلکشا میں قتل کر دی گئی تھی۔ فریدی سر بنتھال
کو
گھورتا ہوا بولا ۔
’’کر دی گئی ہوگی ‘‘ سربنتھال نے لاپروائی سے کہا۔
’’تو تم اسے جانتے تھے‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
’’تم نے پولیس کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دی ؟“۔
’میری مرضی‘‘۔
’’ تم جانتے ہو کہ یہ جُرم ہے‘‘۔
’’ہوگا‘‘۔
’’میں تمہیں شہبے میں گرفتار کر سکتا ہوں‘‘۔
’’کون تم !‘‘سر بنتھال حقارت آمیز لہجے میں بولا ۔
’’ہاں،میں‘‘۔
’’میں ایک غیر ملکی ہوں۔ تم براہ راست ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن میں
براہ راست تمہاری ہڈیاں ضرور توڑ سکتا ہوں ۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ تم برطانیہ
کے ایک معزز اور خطاب یافتہ شہری کی توہین کر رہے ہو ۔ سر بنتھال چیخ کر بولا۔
تمہاری حکومت کو اس کے لئے جواب دہ ہونا پڑے گا‘‘۔
’’حکومت جواب دے گی ۔ تم بے فکر رہو‘‘۔
’’نکل جاؤں یہاں سے نکلو۔ سربنتھا تیزی سے اُٹھ کر دروازے کی طرف
اشارہ کرتا ہوا بولا ۔
8
سربنتھال کی لاش
فریدی پر
پھر خاموشی کا دورہ پڑ گیا۔ شہنازحمید اور مقصود سر گوشیاں کرتے رہے۔ فریدی کبھی
اٹھ کر ٹہلنے لگتا اور کبھی بیٹھ جاتا۔ اس نے کئی بار تہہ خانے کا ڈھکن بنانے کی
کوشش کی مگرنا کام رہا۔
’’آخر اس نے ہمیں کیوں اس چوہے دان میں بند کر دیا ۔ حمید نے پو
چھا۔
’’تا کہ من مانی حرکتیں کر سکے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ ہمارے خلاف کیپٹین
خاور کی رپورٹ کو تقویت دینے کے لئے۔ ہمارے اس طرح غائب ہو جانے پر آفیسروں کا شیبہ
بھی یقین میں بدل جائے گا اور وہ کپٹین خاور کے صیح قاتل کا پیچھا چھوڑ کر ہماری تلاش
شروع کردیں گے۔
’’کیا کیپٹن خاور کی کوئی رپورٹ آپ لوگوں کے خلاف تھی۔ شہناز نے
پوچھا۔
ہاں ، اس کا تعلق
ہماری ذات سے تھا۔ اس نے یہ رپورٹ کی تھی کہ تم اس کی خالہ زاد بہن اور منگیتر ہو
اور ہم لوگ تمہیں پریشان کرتے ہیں۔ فریدی نے کہا۔
’’اُف میرے خدا۔ اس کتے نے میری نادانستگی میں کیا کیا کرڈالا ۔ شہناز
دنت پیسں کر بولی۔
’’تم اس کے ساتھ رہتی ہی کیوں تھیں حمید جھلا کر بولا۔
’’ پھر تم نے بکو اس کی۔ فریدی نے حمید کوگھور کر دیکھا۔
’’بھلا میں کیا کر سکتی تھی۔
’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے ۔ فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔
پھر خاموشی چھا گئی۔
فریدی اٹھ کر زینوں کی طرف چلا گیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک
بار پولیس اس کی تلاش میں وہاں بھی ضرور آئے گی۔ وہ اوپر کے آخری ذینےپر بیٹھ گیا۔
گھڑی نے چھ بجائے اور وہ مایوس ہو کر لوٹ
آیا۔ تہہ خانے میں بالکل اندھیرا چھا گیا۔ فریدی نے دیا سلائی جلائی۔ طاق پر ایک موم
بتی رکھی تھی۔ اس نے اسے روشن کر دیا۔ رات بھی ہوگئی ۔ حمید مایوسی سے بولا۔
اور
صبح بھی ہو جائے گی ۔ فریدی مسکرا کر بولا ۔
’’ آپ کو تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔
’’اب یہاں اس حالت میں مذاق کے علاوہ اور چارہ بھی کیا رہ جاتا ہے۔
فریدی نے کہا۔
پریشانی کس بات کی ۔ فریدی نے کہا۔ ’’یہاں فرش پر سونے میں
تھوڑی تکلیف ضرور ہوگی اور شاید حمید کو بھوک بھی ستائے۔
ہم نے کل رات سے کھانا نہیں کھایا۔ مقصود بولا۔
’’یہ چیز تکلیف دہ ہیں ۔ فریدی کچھ سوچتا ہوابولا ۔ ویسے کسی نہ کسی
وقت پولیس یہاں ضرور آئے گی۔
’’تہہ خانے میں حمید نے چونک کرپو چھا۔
’’ٹھہرومجھے کچھ آہٹ معلوم ہورہی ہے ۔ فریدی نے ہاتھ اٹھا
کر انہیں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر وہ اٹھ کر آہستہ آہستہ تہہ خانے کے ذینوں پر
چڑھنے لگا۔۔
’’او پر کمرے میں کئی قدموں کی آہٹ معلوم ہورہی تھی۔ حمید بھی فریدی
کے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا۔
’’کون ہو سکتا ہے ؟‘‘ حمید نے آہستہ سے پوچھا۔
’’ کوئی بھی ہو؟‘‘۔ فریدی نے کہا۔ ’’میں اس ڈھکن کو پیٹنےجارہاہوں۔
اگر پو لیس ہوگی تو ضرور اس طرف توجہ ہو جائے گی اور اگر مجرم ہوئے تو خیرفریدی نے
تہہ خانے کے ڈھکن کو دونوں ہاتھوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔ قدموں کی آہٹ رک گئی۔ وہ
بدستور اُس تختے کو پیٹ رہا تھا۔ تھوڑی دیر
کے بعد اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے اوپر سے بھی کوئی اسے پیٹ رہا ہے۔
’’شاید مجرموں نے اس تختے میں کیلیں جڑدی تھیں جنہیں پولیس
اکھاڑ رہی ہے۔ یا پھر جرم کیلیں جڑنا بھول گئے تھے اب جا رہے ہیں۔ بہر حال جو کچھ
بھی ہو میں کسی خاص بات کے لئے منتظر رہنا چاہئے ۔ فریدی نے کہا۔ وہ دونوں نیچےاتر
آئے۔ اوپر بدستور ہتھوڑے چل رہے تھے اور پھر چڑ چڑاہٹ کی آواز آئی۔ حمیدا چل پڑا۔
زینوں پرکئی قدموں کی آہٹیں سنائی دیں اور انسپکٹر جگدیش کا چہرہ دکھائی دیا۔
’’او ہ ....میرے باپ‘‘
جگدیش چیخ کر بولا ۔ ’’یہاں تو جانی پہچانی
صورتیں نظر آرہی ہیں‘‘۔
فریدی آہستہ سے اُٹھ کر آگے بڑھا۔
’’ جی‘‘۔ فریدی نے
ہونٹ بھینچ کر کہا اور جگد پیش کو اس طرح گھورنے لگا جیسے اچانک حملہ کر بیٹھے گا۔
’’جگدیش لڑ کھڑا کر پیچھے ہٹ گیا۔
تم نے پہلی بار کس طرح تلاشی لی تھی ۔ فریدی نے اس سے
پوچھا۔
جگدیش ، شہناز کا بیان لکھ رہا تھا اور مقصود نے خاموشی اختیار
کرلی تھی۔ سپر نٹنڈنٹ نے انہیں کریدنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
تھوڑی دیر بعد فریدی
منہ لٹکائےہوئے کمرے میں واپس آیا۔ اُس کے چہرے پر مایوسی اور نا کامی کے بادل
چھائے
ہوئے
تھے۔
’’ کیا بات ہے؟ ‘‘حمید نے آہستہ سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ۔ کوئی خاص بات نہیں ۔ فریدی بے دلی سے بولا۔
’’دیکھئے آخر میراہی خیال سچ نکلا نا حمید چہک کر بولا۔
’’ شاگردکس کے ہو ‘‘ فریدی کھسیانی ہنسی کے ساتھ بولا ۔ اگر
استاد نے شکست کھائی تو کیا ہوا ۔ تھوڑی دیر بعد سربنتھال کی لاش وہاں سے ہٹادی گئی۔
وہاں ضروری کارروائیوں کے بعد یہ پارٹی سر بنتھال کے بنگلے
کی طرف روانہ ہوگئی۔ شہناز گھر بھیج دی گئی۔ فریدی اور سربنتھال کی ایک ایک چیز کا
بغور جائزہ لے رہا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ بھی تھک ہار کر سر بنتھال کے ڈرائنگ روم
میں آبیٹھا۔
’’دو تین دن کے دوران میں شہر میں چار قتل ہو گئے ۔ ایس ۔ پی بولا۔
اور ہم ابھی تک کچھ نہ کر سکے۔
فریدی سمجھ گیا کہ
روئے سخن کس کی طرف ہے لیکن وہ خاموش ہی رہا۔
’’ لیکن سربنتھال یہاں کسی کام کے لئے مقیم تھا محکمہ
سراغرسانی کے ڈی۔ آئی ۔جی نے کہا۔ وہ ہمارے ملک کے آثار قدیمہ کے متعلق ایک کتاب
لکھ رہا تھا ۔ فریدی بولا ۔ شاید آپ کی نظروں سے اس کی کتاب Ruins of Egypt گذری ہو۔ مصری
آثار قدیمہ پر اس سے اچھی کتاب شاید ہی کسی نے لکھی ہو ۔ اوہ ٹھیک ۔ میں نے اس
کتاب کی شہرت سنی ہے ۔ ڈی۔ آئی ۔جی۔ نے کہا۔ اور پھر کچھ دیر کی رسمی کارروائی کے
بعد یہ لوگ وہاں سے رخصت ہو گئے۔
فریدی راستے بھر خاموش رہا۔ حمید بھی خاموش تھا۔ اسے سب سے
زیادہ کار کے غائب ہو جانے کا غم تھا۔ شاید فضیل ہی انہیں تہہ خانے میں بند کر کے
ان کی کار بھی اڑا لے گیا تھا۔ اس وقت وہ ٹیکسی کر کے گھر جارہے تھے۔ سردی کی شدت
سے ان کے دانت بج رہے تھے۔ گیارہ بج گئے تھے۔ شہر آہستہ آہستہ سنسان ہوتا جا رہا
تھا۔
جیسے ہی ٹیکسی کی ہیڈلائٹس کی روشنی فریدی کی کوٹھی کے
پھاٹک پر پڑی، حمید اچھل پڑا۔ فریدی کی کار سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔
دونوں ٹیکسی سے اتر آئے۔ فریدی نے کار میں ہاتھ ڈال کر ہارن
دیا اور چوکیدار نے پھاٹک کھول دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے
گفتگو کر رہے تھے۔
’’فضیل
کی دلیری پر حیرت ہوتی ہے حمید بولا۔ ’’ ہماری کاروہی یہاں چھوڑ گیا ہے‘‘۔
تم سربنتھال کو جانتے تھے ۔ فریدی نے ٹیوی سے پوچھا۔
اس رات تم ہی اس بیہوش آدم کو کاندھے پر اٹھا کر اپنے گھر میں
لے جا رہے تھے۔
’’ہاں‘‘
’’وہ کون تھا ؟‘‘
’’میں نہیں جانتا‘‘۔
’’کیا
سر بنتھال نے تمہیں اس کے متعلق کوئی اطلاع دی تھی ؟‘‘۔
’’کس وقت ؟‘‘
’’کس وقت؟‘‘
’’اس
رات تمہارے گھر میں وہ دوسرے آدمی کون تھے اور اب کہاں ہے؟‘‘
’’لیفٹیننٹ مارگن اور کیپٹن
خاور۔ لیفٹیننٹ مارگن کل انگلینڈ گیا‘‘۔
’’کس وقت ؟‘‘
’’شام کو‘‘۔
لیفٹیننٹ مارگن سربنتھال
کو جانتا تھا۔
’’ہاں‘‘۔
’’تمہارا
سربنتھال اور اُن دونوں سے کیا تعلق تھا ؟‘‘۔
’’ہم تینوں
دوست تھے‘‘۔
’’تمہارے دو دوستوں کا خاتمہ ہو گیا ۔ فریدی نے کہا۔ کیپٹن خاور سے
تم لوگوں کی دوستی تھی پرانی تھی۔
’’زیادہ پرانی نہیں۔ ٹیوی بولا ۔ ’’شاید آج سے ایک ہفتہ قبل سربنتھال
نے کلب میں اس سے میرا تعارف کرایا تھا۔
’’سربنتھال نے تمہیں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اس بیہوش آدمی کو
تمہارے سپر دکیوں کرنا چاہتا تھا۔
’’ہاں ، اس نے کہا تھا کہ وہ اپنے ایک دشمن کو لائے گا جسے مجھے
حراست میں رکھنا پڑے گا‘‘۔
’’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جرم ہے تم نے ایسی حرکت کا
ارادہ کیوں کیا تھا۔ فریدی نے کہا۔
’’میں اس جرم کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ ٹیوی بیزاری سے بولا۔
تم کیا کرتے ہو؟‘‘
و’’اینڈرسن اینڈسنس میں مینجر ہوں‘‘۔
تمہاری بیوی کو تمہاری اس حرکت کی اطلاع تھی ۔
’’کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ سر بنتھال کے قتل میں کس کا ہاتھ
ہوسکتا ہے؟‘‘
میں بھلا اس کے متعلق کیا بتا سکتا ہوں ۔
’’اس کا کوئی دشمن؟‘‘
’’میں یہ بھی نہیں جانتا‘‘۔
’’لیکن ابھی تم نے اس کے کسی دشمن کا تذکرہ کیا تھا۔ ہاں، لیکن میں
نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سر بنتھال نے مجھے اس کے متعلق کچھ بتا یا نہیں تھا ۔
’’مگر تم نے ابھی اس کا اقرار کیا ہے کہ تم اسے کاندھے پر لاد کر
گھر میں بیجارہے تھے۔
’’لیکن میں اس کی صورت نہیں دیکھ سکا تھا ۔
’’کیوں ؟‘‘
’’اسی وقت کسی نے مجھ پر حملہ کر دیا تھا‘‘۔
’’لیفٹیننٹ
مارگن یہاں کب سے مقیم تھا۔
’’ایک ماہ سے‘‘۔
’’کیوں آیا تھا؟‘‘
’’ مجھ سے ملنے اور شکار کھیلنے‘‘۔
’’کیپٹین اور لیفٹیننٹ مار گن کو سربنتھال کی اس رات والی حرکت کی
اطلاع تھی ؟‘‘
صرف لیفٹیننٹ مارگن جانتا تھا۔
کیپٹن خاور اس وقت تمہارے یہاں کیا کر رہا تھا ؟
’’ہم تینوں فلش کھیل رہے تھے۔
’’تم ایک دوسرے جرم کا اعتراف کر رہے ہو ۔ فریدی مسکرا کر
آنکھ مارتا ہوا بولا۔ ٹیوی خاموش ہو گیا۔ پھر فریدی ٹیوی کی بیوی کو الگ لے گیا
اور کافی دیر تک اس سے گفتگو کرتار ہا جب وہ پلٹ کر پھر ٹیوی کی طرف آیا توٹیوی نے
پوچھا۔
’’ہمیں حوالات میں کیوں بند کیا گیا ہے؟‘‘
’’محض اس لئے کہ تم لوگ سازش کر کے ایک آدمی کو اپنے گھر میں بند
رکھنا چاہتے تھے ۔ فریدی نے کہا اور کوتوالی سے چل دیا۔ حمید کو حیرت تھی کہ آخر
وہ اسے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گیا۔ دس بجے حمید دفتر چلا گیا ۔ وہاں بھی فریدی سے
ملاقات
نہ
ہوئی ۔ حمید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فریدی اب کیا کر رہا ہے۔ شہر کے سارے
اخبارات میں سر ہتھال کے حیرت انگیز فقل کی داستانیں شائع ہوئی تھیں۔ بعض اخباروں
نے رومال کا بھی حوالہ دیا تھا اور لکھا تھا کہ دلکشا ہوٹل سے لے کر سر بنتھال تک
جتنے بھی قتل ہوئے ان کے پیچھے ایک منظم سازش کام کر رہی تھی۔ پولیس دو افراد کی
تلاش میں ہے۔ جبار اور دوسرا ایک غیر ملکی جس کا صحیح نام پولیس کو بھی نہیں معلوم
ہو گا۔ چند اخباروں نے محکمہ سر اغرسانی پربھی ہلکی پھلکی چوٹیں کی تھیں۔
سپر ٹنڈنٹ صاحب کافی
بشاش نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے ڈی۔ آئی۔ جی سے مشورہ کرکے یہ کیس دوسرے انسپکٹروں سپرد
کر دیا تھا۔ حمید نے یہ چیز شدت سے محسوس کی مگر وہ خاموش رہا، کرہی کیا سکتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اسے سپر نٹنڈنٹ نے بلوایا۔
’’فریدی کہاں ہے ؟‘‘ سپر نٹنڈنٹ نے پوچھا۔
’’مجھے علم نہیں‘‘۔
’’تم جانتے ہو‘‘۔
’’اب میں کیا عرض کروں‘‘۔
’’اس کیس کے چند ضروری کاغذات اس کے پاس ہیں‘‘۔
’’لیکن
میں نے یہ کیس دوسروں کے سپرد کر دیا ہے‘‘۔
’’لیکن فریدی صاحب کو اس کا کیا علم‘‘۔
’’اب ہو جائے گا علم‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ بھینچ کر بولا۔ جاؤ جا کر اپنا کام کرو‘‘۔
تقریباً دو بجے فریدی
آفس میں پہونچا ۔ وہ ابھی بیٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ سپر نٹنڈنٹ نے اسے اپنے
کمرے میں طلب کر لیا۔
’’اس کیس کے کاغذات داخل کر دو‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ نے کہا ۔
’’ میں آپ سے کئی بار عرض کر چکا کہ....‘‘
’’او ہ‘‘۔ فریدی اسے پڑھ چکنے کے بعد سپر نٹنڈنٹ کی طرف دیکھنے
لگا۔
سپر نٹنڈنٹ طنز یہ انداز میں مسکرار ہا تھا۔
سپر نٹنڈنٹ انہیں
بغور دیکھنے لگا۔
’’بیٹھ جاؤ ‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ بولا’’ اب تک کی تفتیش کی رپورٹ کہاں ہے‘‘
’’انہیں کا غذات میں ہے‘‘۔
’’ یہ رپورٹ تو نہیں‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ ایک کا غذ فریدی کی طرف بڑھا کر بولا
۔ مختصر نوٹ ہیں‘‘۔
’’یہی میرا طریقہ ہے‘‘۔ فریدی لا پروائی سے بولا۔ ’’ میں کسی
کیس کو ختم کرنے کے بعد ہی مکمل رپورٹ لکھا کرتا ہوں‘‘۔
’’اب
تک کی روئید اولکھ دو‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ بولا۔
فریدی نے اپنے لکھے ہوئے نوٹ والا کا غذ اٹھا کر جیب میں
رکھا لیا اور ایک سادے کا غذ پر لکھنے گا۔
’’مکمل رپورٹ یہ ہے کہ میں اس کیس میں بری طرح نا کامیاب
رہا۔ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جسے پئے در پے قتل کے واقعات سے نسبت دی جائے۔
مجرم نے مجھے اور سرجنٹ حمید کو تہہ خانے میں بند کر دیا تھا ۔ اس سلسلے میں ایک
مشکوک آدمی جبار خاں کی مجھے تلاش تھی اور مجرم جس نے مجھے تہہ خانے میں بند کیا
تھا کوئی غیر ملکی معلوم ہوتا تھا‘‘۔
فریدی نے رپورٹ لکھ کر سپر نٹنڈنٹ کی طرف بڑھادی۔
’’ بس‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ نے تحیر آمیز انداز میں اس کی طرف دیکھ
کر کہا۔
’’میں مفصل رپورٹ چاہتا ہوں‘‘۔
’’ میں نے سب کچھ لکھ دیا ہے‘‘۔
’’تفصیل نہیں ہے‘‘۔
’’اور زیادہ کاغذ خراب کرنے سے کیا فائدہ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے
کہا۔ ’’ کہئے تو یہ بھی لکھ دوں کہ اس تفتیش کے
دوران
میں مجھے دوبارز کام ہوا۔ ایک دن کھانا نہیں کھایا۔ ایک بار دن بھر کھانستا رہا‘‘۔
’’ اوہ ‘‘۔ سپر نٹنڈنٹ میز پر پیپرویٹ پیٹخ بنا کر چیخا۔’’ میں بد تمیزی برداشت نہیں
کر سکتا‘‘۔
’’ تو یہ میرا استعفی حاضر ہے‘‘۔ فریدی نے جیب سے ایک تہہ کیا
ہوا کا غذ نکال کر میز پر ڈال دیا اور مسکراتا ہوا کمرے
سے نکل گیا۔
’’حمید !‘‘و ہ میز
کے قریب جا کربولا۔ اپنا استعفی لکھو‘‘۔
’’ارے کیوں ؟ ‘‘ حمید اچھل کر بولا ۔
’’ ہم اب اس محکمے میں کام نہیں کریں گے۔
’’پرانے کوٹ کی تجارت کریں گے ‘‘۔ فریدی سنجیدگی سے بول
دفتر کے لوگ اس کے
گرد اکٹھا ہو گئے مگر وہ اوٹ پٹانگ باتیں کرتارہا۔
9
حیرت
انگیز انکشاف
اس کے چرمی ہینڈ بیگ میں اس کی ڈائری بھی تھی ۔ فریدی نے
کہا۔ ’’اس ڈائری سے اس کی شخصیت کا راز افشا ہو جاتا ہے لیکن اس کا راز تو مجھے
پہلے ہی سے معلوم تھا“۔
’’و ہ کون تھا ؟‘‘ حمید نے بیساختہ پوچھا۔
’’سربنتھال ‘‘۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔ حمید اُچھل پڑا۔
’’ کیوں مذاق
کرتے ہیں۔ وہ ہنس کر بولا ۔ ’’اس کی تو لاش....‘‘
’’ہاں ہاں، اس کی لاش ملی تھی ۔ فریدی نے کہا۔ ” اور وہ لاش
اس کی نہیں بلکہ جبار کی تھی۔ سر بنتھال بھلا اسے کیوں
زندہ
چھوڑتا‘‘۔
’’جبار
بھلا سر بنتھال کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔
’’ جیسے میں پروفیسر رابرٹ لاسلکی ہوسکتا ہوں۔ جیسے تم
مکلارنس ہو سکتے ہو۔ سر بنتھال جیسے فضیل ہو سکتا ہے ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا ‘‘ کیا
اک لاش کا میک اَپ نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے لاش کوڈی۔ آئی۔ جی کے سامنے دیکھا تھا
اور اُسے بھی یہ نکتہ سمجھا دیاتھا ۔یاد
نہیں کہ لاش والے کمرے میں ڈی۔ آئی ۔ جی
اور میں تنہاتھا۔ اس وقت وہ صیح معنوں میں اس کیس کی اہمیت سے آگاہ ہوا تھا
اور پھر میں نے وہ پلاٹ بنایا جس سے سر بنتھال آسانی سے دھوکہ کھا گیا۔ بہرحال کہنے کا مطلب میری اور تمہاری ملازمت بدستور برقرار ہے۔ البتہ
بیچارے سپر نٹنڈنٹ کو اس راز کے ظاہر ہوتے ہی بڑی کوفت ہوگی‘‘
’’تو آپ نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا تھا‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’محض احتیاط کی خاطر‘‘۔
’’تو کیا آپ مجھ پر اعتبار نہیں کرتے‘‘۔
’’یہ بات نہیں پیارے۔
تم اکثر نا دانستگی میں غلطیاں کر جاتے ہو۔ مثلاً کل رات ہی کو جب میں اُسے ریڈیو
والا مسئلہ سمجھا رہا تھا تو تم احمقوں کی طرح میری طرف تاک رہے تھے۔
حمید
خاموش ہو گیا۔
’’
سربنتھال کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ
خود بھی اس رومال کی اہمیت سے واقف نہیں ہے اور وہ کسی کے لئے کام کر رہا ہے ۔ فریدی نے کہا۔
’’بہر حال ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے حمید نے کہا۔ میرا خیال ہے
کہ وہ اس جہاز پر کشتی اتارنا اور پھر اس میں بیٹھ کر نکل جانا کسی اکیلےآدمی کے
بس کا روگ نہیں‘‘۔
’’تمہارا خیال صحیح ہے ۔ فریدی نے کہا ۔’’ بلکہ مجھے تو اس میں
شبہ ہے کہ وہ جہاز سے چلا گیا۔
’’ یہ
بھی ہوسکتا ہے ۔ حمید نے کہا۔ اور پھر ایسی صورت میں جب کہ وہ بھیس بدلنے میں کافی
مہارت رکھتا ہے‘‘۔
’’بہر حال ہمیں اب اور زیادہ محتاط رہنا پڑے گا ۔ فریدی نے
کہا۔ ’’ میں نے کل رات ہی کو ویسا ایک دوسرا رومال تیار کر لیا ہے اور وہ اس وقت
اس ہینڈ بیگ میں موجود ہے اور ہینڈ بیگ کیبن میں ہے اور ہم کسی نئی واردات کے
منتظر !‘‘۔
’’ کیا مطلب ! ‘‘ حمید چونک کر بولا۔
’’ کچھ نہیں۔ فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
اور پھر وہ دونوں ریسٹوران کی طرف چلے گئے ۔
جہاز سمندرکا متلاطم سینہ چیرتا،ہچکو لے لیتا منزل مقصود کی طرف بڑھا
جارہا تھا۔ سورج کی کرنیں چاروں طرف پھیلی ہوئی لہروں پر چمکدار جال بن رہی تھیں۔
سر پر نیلا آسمان اور حدِ نظر تک پھیلا ہوا پانی حمید منظر کی یکسانیت سے اکتا گیا
تھا۔
اس دوران میں دو ایک بار اس کی طبیعت بھی خراب ہو گئی تھی لیکن
فریدی کی احتیاطی تدابیر نے بیماری کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ ابھی دو دن کا سفر اور
باقی تھا۔ حمید کو سر کے اچانک غائب ہو جانے سے الجھن سی ہوگئی تھی ۔ اسے یقین تھا
کہ وہ جہازی پر موجود ہے اور الجھن کی وجہ بھی یہی تھی کہ کہیں کسی وقت وہ حملہ نہ
کر بیٹھے۔ اس وقت بھی وہ ریسٹوران میں ابیٹھااسی کے متعلق سوچ رہا تھا۔ بر خلاف اس
کے فریدی کے رویے سے یہ ظاہر ہو رہا تھا جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہ ہو۔ وہ اس وقت
بوڑھے مارٹن کو چھیڑ چھیڑ کر خودبھی قہقہے لگارہاتھا۔ دو تین لڑکیاں بھی موجود تھیں
لیکن حمید اس وقت لڑکیوں میں دلچسپی لینے کے ما موڈ میں نہیں تھا ۔
’’کیوں بک ‘‘۔
فریدی حمید کی طرف مخاطب ہو کر بولا ۔ ’’ تم اس وقت کچھ اداس نظر آ رہے ہو‘‘ ۔
’’ مم
...مم ...مف... مغم‘‘ حمید ہکلایا۔
’’شٹ
اَپ ۔ فریدی زور سے چیخا ۔ پھر قہقہ لگا کر ہسننےلگا۔ لڑکیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا
اور حمید خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
’’
بیچارہ ہکلا بک‘‘ ۔ ایک لڑکی اس کے چہرے کے قریب انگلی نچا کر بولی۔
حمید
پہلے تو جھلایا لیکن پھر مسکرا کر اسے آنکھ ماردی۔
’’کچھ بھی ہو یہ
محبت کرناجانتا ہے ۔ فریدی حمید کی پیٹھ ٹھونکتا ہوا بولا۔
’’اس سے تو کوئی
پاگل اور کٹکھنی ہی لڑکی محبت کر سکتی ہے‘‘
۔ ایک لڑکی نے کہا۔
حمید خاموش رہا۔ فریدی
لڑکیوں کے مذاق میں دل کھول کر حصہ لے رہا تھا۔ کچھ دیر بعد حمید کو اس پر غصہ آنے
لگا۔ آخر کوئی حد بھی ہے لاپروائی کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ سربنتھال یہیں کہیں قریب ہی
موجود ہے، وہ کوئی احتیاطی تدبیر نہیں کر رہا ہے۔ معلوم نہیں اس کا اگلا قدم کیا
ہوگا۔ ممکن ہے چھپ کر کسی وقت حملہ ہی کر بیٹھے۔
آخر کار فریدی
اٹھا۔ دونوں اپنے کیبنوں کی طرف آئے اور دوسرے لمحے میں فریدی بری طرح گرج رہا
تھا۔ کیبن میں سوٹ کیس کھلے پڑے تھے۔ بستر کی تہیں اُلٹ پلٹ ڈالی گئی تھیں۔ بہر
حال سارا سامان بے ترتیبی سے بکھرا پڑا تھا۔ فریدی نے چخ چیخ کر ساراکیبن سر پر اٹھا لیا۔ ادھر اُدھر
کے مسافر اکٹھا ہو گئے۔
’’یہ دیکھو!‘‘ ذرا یہ بد انتظامی دیکھو۔ جہازوں پر بھی چور گھسنےلگئے ۔ فریدی مجمع کی طرف مخاطب ہو کرچیخا ۔
میں ریسٹوران میں تھا اور یہاں کوئی گھس آیا ‘‘۔
اور پھر وہ چیختا ہوا کپتان کے کیبن کی طرف چلا گیا۔ مجمع
اس کے پیچھے تھا۔
’’آخر یہ کیا مذاق ہے ۔ وہ کپتان کو مخاطب کر
کے چیخا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘۔
’’میرے کیبن میں چور گھسا تھا‘‘۔
’’چور ۔ کپتان چونک کر بولا ۔ ’’ کیا مطلب؟‘‘۔
خواہ مخواہ میر اسامان کیوں بکھیر دیا اور وہ ہینڈ بیگ کیسا
تھا جو پُر اسرار طریقے پر میرے پاس آیا اور پر اسرار طریقے پر غائب بھی ہو گیا ۔
’’کہیں وہ
تمہارے اس ریڈ پوسٹ کے چکر میں نہ آیا ہو ۔ کپتان نے کہا۔ ہو سکتا ہے ۔ فریدی نے
کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ مگر وہ ہینڈ بیگ۔
’’یہی میں بھی سوچ رہا ہوں ۔ کپتان نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد مجمع بر خاست ہو گیا۔ فریدی اور حمید تنہارہ
گئے۔
حمید نے کچھ بولنے
کی کوشش ہی کی تھی کہ فریدی نے اسے ڈانٹ دیا۔
پھر آہستہ سے بولا ۔ عرشے پر چلو۔
عرشے پر پہونچ کر دونوں ر یلنگ سے ٹک گئے۔
’’ ہم وہاں کوئی گفتگو نہیں کر سکتے تھے ۔ فریدی بولا ۔ ’’ہماری
نگرانی ہوری ہے‘‘۔
’’ آخر آپ نے یہ کیا ڈھونگ پھیلایا ہے ۔ حمید
نے کہا۔
’’ میں نے جو کچھ سوچا تھا وہی ہوا۔ سربنتھال جہاز ہی پر موجود ہے۔
گھبراہٹ میں وہ روپوش ہو گیا۔ لیکن اب اُسےافسوس ہور ہا ہوگا۔ اگر میرا انداز ہ غلط نہیں ہے تو و ہ رو مال کے معاملے میں دھو کا
کھا گیا ہوگا‘‘۔
’’ یعنی‘‘۔
’’ اگر وہ حقیقتًار و مال کے راز سے خود واقف نہیں ہے تو میرا بنایا
ہوا نقلی رومال جو میں نے اس کے ہینڈ بیگ میں رکھ دیا تھا۔ اسے مطمئن کر دے گا۔ میں
نے اس کی ڈائری بھی اسی میں رہنے دی ہے۔ اس طرح وہ کم از کم مجھ پرشبہ کرنا چھوڑ
دے گا۔مگر نہیں اُس نے تو اپنی دانست میں ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کی اور یہ ظاہر
کر کے کہ وہ جہاز سے فرار ہو گیا ہے اپنا ہینڈ بیگ نکال لے گیا۔ بہر حال اب یہ دیکھتا
ہے کہ میرے اس بیان سے جو میں نے کپتان کو دیا ہے اس
پر کیا اثر پڑتا ہے۔
’’مگر یہ مشین کہاں سے نکل پڑی تھی ‘‘۔ حمید نے پوچھا۔
’’بھئی اسے بنانے میں میرا ایک دن بر باد ہو گیا ۔ فریدی نے
کہا۔ بہر حال اسے ظاہر کرنے کا موقع جلد آ گیا۔ میں جو رومال ادا کر رہا ہوں آخر
اس کا کوئی ٹیکنیکل ثبوت بھی تو ہونا چاہئے۔
’’
اور وہ آواز ‘‘۔حمید نے پوچھا۔ وہ تو حقیقتًا کسی ذی روح کی آواز معلوم ہوتی تھی‘‘۔
’’وہ
ذی روح ایک الم رسیدہ چوہا ہے ۔ فریدی
مسکرا کر بولا ۔ جو اس مشین میں بند ہے۔ مشین میں بیٹری لگاتے ہی اس کی دُم دو چھریوں
کے بیچ میں دبنے لگتی ہے اور وہ چیخنا شروع کر دیتا ہے‘‘۔
حمید
بے اختیار ہنس پڑا۔
’’اور اس طرح مریخ کے باشندوں کی آواز ہم تک پہونچتی ہے ۔ فریدی
اسے آنکھ مار کر مسکراتا ہوا بولا۔
’’اوہ
!‘‘فریدی مارٹن کو تحریرآمیز نظروں سے گھورتا ہوا بولا ’’تم واقعی ایک اچھے جاسوس
ثابت ہو سکتے ہو۔ مارٹن فخریہ انداز میں ہنسنےلگا۔
’’
تو وہ میر اسٹ چرانا چاہتا تھا۔ میں اس کا سر توڑ دوں گا ۔ فریدی مٹھیّاں بھینچ کر
آہستہ سے بڑبڑایا۔
’’
بہتر یہ ہے کہ تم اس کی حفاظت کرو‘‘۔ بوڑھا مارٹن مسکرا کر بولا۔
’’
خیر دیکھا جائیگا ‘‘۔ فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔
10
رومال کا راز
پھر بقیہ سفرمیں کسی قسم کا کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔
البتہ جہاز میں کسی اور کولمبیا والے پروفیسر کی گمشدگی کی وجہ سے ہیجان ضرور رہا۔
حمید کو افسوس تھا کہ سر بنتھال اس طرح ہاتھ آکر نکل گیا لیکن فریدی کچھ اور ہی
سوچ رہا تھا۔ اسے تو در اصل اس رومال کا راز معلوم کرنے کی فکر تھی جس کی بدولت
اتنے قتل ہوئے تھے اور یہ بھی اس کے ذہن نشین ہو چکا تھا کہ سر بنتھال بھی اس کے
راز سے واقف نہیں لہذا اسے اب اس ہستی کی فکر تھی جس نے سربنتھال کو رو مال حاصل کرنے کے لئے مقرر کیا تھا۔ سربنتھال
کی ڈائری سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ وہ یہ کام کسی اور کے لئے کر رہا تھا۔ اس
کے اچانک غائب ہو جانے سے فریدی پھر اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور ہو گیا۔
ابھی تک اسکی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ آئندہ وہ کیا کرے گا۔ رومال اب بھی
اس کے پاس تھا لیکن اُسے ایک امید تھی وہ یہ کہ مصرکا محکمہ سراغرسانی اس مسئلے پر
روشنی ضرور ڈال سکے گا۔
قاہرہ پہونچ کردہ ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ فریدی محسوس کر رہا
تھا کہ ان کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ سربنتھال غائب کیوں ہو
گیا تھا اور پھر اسے اپنا یہ خیال بدل دینا پڑا کہ وہ ان کے متعلق غلط فہمی میں
مبتلا ہو گیا تھا لیکن رو مال کا مسئلہ ابھی تک اُلجھن کا باعث بنا ہوا تھا۔ اگر
سر بنتھال کو اپنی غلطی کا علم ہو گیاہے تو وہ ضر ورحملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایسی
صورت میں انہیں کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور وہ رومال اس رومال کی حفاظت بھی
ضروری تھی۔ فریدی اُسے ہر وقت ساتھ ہی رکھتا تھا۔
ایک دن انہوں نے
آرام کیا اور پھر دوسرے دن سے فریدی نے اپنی تفتیش کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ ایک
مصری کے بھیس میں ہوٹل سے تنہا نکل جاتا اور پھر کافی رات گئے واپس آتا۔ اس دوران
میں حمید کمرے میں پڑے پڑے یا تو کتا بیں پڑھتا یا پھر کارٹون بناتا رہتا۔
ایک رات جب فریدی
واپس آیا تو اس کے چہرے سے ایک نئے قسم کا جوش ظاہر ہو رہاتھا۔ آنکھوں میں وہی
پرانی چک عود کر آئی تھی جو اکثر کسی نا قابل حل مسئلہ کے آسان ہو جانے پر پیدا
ہوا کرتی تھی۔ وہ آتے ہی پلنگ پر گر پڑا۔ ’’حمید ‘‘۔ وہ آہستہ سے بولا ۔ دروازے
اور کھڑکیاں بند کر کے ان پر سیاہ پردے کھینچ دو‘‘۔
’’ خیریت !‘‘ حمید چونک کر بولا۔
’’جلدی کرو‘‘۔
’’حمید
نے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے سیاہ پردے کھینچ دیئے‘‘۔
’’بکس سے ہیٹر نکالو‘‘۔
حمید نے تعمل کی ۔ فریدی نے ہیٹر کا پلگ سوئچ بورڈ میں لگا
دیا۔
’’ کیا چائے بنائے گا ۔ حمید نے مسکرا کر کہا۔ کیوں نہ میں
ویٹر کو بلا کر نیچے سے چائے منگوالوں۔
’’بکومت ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ قریب آؤ‘‘۔
فریدی نے جیب سے حسینہ والا رومال نکالا اور اسے دونوں
ہاتھوں سے پکڑ کر ہیٹر سے آدھے بالشت کی اونچائی پرتان دیا۔اور پھر حمید
کے دیکھتے ہی دیکھتے رومال کی سفید سطح پرسیا رنگ کی لکیریں ابھر نے لگیں۔
’’ارے
یہ کیا ۔ حمیداُچھل کر بولا۔
’’چیخونہیں۔
آہستہ بولو‘‘۔ فریدی نے کہا۔
حمید سوالیہ نگاہوں سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’برخوردار
یہ طریقہ اتفا قاً دریافت ہو گیا۔
’’لیکن
ہے کیا بلا‘‘۔
’’کوئی
نقشہ کسی خاص جگہ کا ۔ فریدی نے کہا۔
’’و ہ ۔۔۔۔پھر وہی خزانے کا چکر ‘‘ حمید نے کہا۔
’’میں
ایسا نہیں سمجھتا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’پھر‘‘۔
ابھی
کچھ نہیں کہہ سکتا۔ فریدی نے رومال پر اُبھری ہوئی لکیروں کی طرف دیکھ کر کہا۔ یہ
کتے کا سردیکھ رہے ہو؟
حمید جھک کر دیکھنے لگا۔ ایک کتے کا سر جس کا منہ کھلا ہوا
تھا۔ ایک کتا جو آسمان کی طرف سر اُٹھائے بھونک رہا تھا۔ پھر اس کے نیچے ایک نقشہ
تھا اور ایک جگہ’’ 975 ‘‘کے ہند سے لکھے ہوئے تھے۔
حمید
نے پھر استفہامیہ نظروں سے فریدی کی طرف دیکھا۔ فریدی نے رومال تہہ کر کے جیب میں
رکھ لیا۔ ہیٹر ہٹادیا گیا۔
’’کچھ
سمجھ میں آیا ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔
’’ کچھ بھی نہیں ‘‘ حمید نے کہا۔ لیکن آپ کو یہ
تدبیر کیسے سوجھ گئی‘‘۔
اتفاقاًیہ راز معلوم ہو گیا۔ آج شام کو تھک کر ایک پارک کے
ویران گوشے میں بیٹھ گیا۔ یہ رومال میرے زانو پر پھیلا ہوا تھا اور ہاتھ میں سگار
تھا۔ شاید سگار کا جلتا ہوا حصہ رومال کی سطح سے قریب تھا۔ دفعتاً میری نظر رومال
پر پڑی اور میں نےیکھا کی ایک جگہ کچھ سیاہ لکیر اُبھر آئی ہے۔ پہلے تو مجھے حیرت ہوئی لیکن
پھر سارا معاملہ سمجھ میں آگیا۔ میں نے کئی جگہ سگار کےجلتے ہوئے حصے سے اس طرح لکیریں
ابھار یں اور پھر رومال کو جیب میں رکھ کر سیدھا ادھرچلا آیا اور اب دوسرا عجوبہ دیکھنا چاہتے ہو‘‘۔
فریدی
نے حمید کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے رومال جیب سے نکلا اور حمید کے سامنے
پھینک دیا۔
’’ارے و ہ نقشہ
کہاں گیا ‘‘۔ حمید متعجبانہ لہجے میں بولا۔
’’ غائب ہو گیا ‘‘۔ فریدی نے آہستہ سے کہا۔ ’’ جب تک رومال
گرم رہتا ہے لکیریں دکھائی دیتی ہیں اور ٹھنڈا ہوتے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ میرے خیال
سے علی فضیل ہی کی جدت معلوم ہوتی ہے‘‘۔
’’کیا
مطلب ‘‘۔
’’ یہ
نقشہ اس نے تیار کیا تھا اور شائد اس کی وجہ سے اس کی جان بھی گئی ۔ فریدی نے کہا۔
یعنی آپ کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت جولوگ اس رومال میں دلچسپی لے رہے ہیں وہی علی فضیل
کے بھی قاتل ہیں ۔ حمید نے کہا۔
’’قطعی ۔ حالات یہی کہتے ہیں۔‘‘
’’کیسے حالات حمید
نے پو چھا۔ چھوڑ بھی۔ ابھی میں نے کھانا نہیں کھایا ۔ فریدی نے کہاکہ یہ سیاہ پر
دے اب ہٹادو۔ ہم لوگ اس وقت یہیں کمرے میں کھانا کھا ئیں گے‘‘۔
فریدی نے ٹیلی فون پر ہیڈ ویٹر کو کمرے ہی میں کھانا
بھجوانے کا آرڈر دیا اور پھر ایک کرسی پر بیٹھ کراونگھنے لگا۔ حمید کا اضطراب
بڑھتا جارہا تھا لیکن اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ فریدی کھانے سے پہلے ایک لفظ بھی
نہ بتائے گا۔ یہ اس کے کردار کی ایک نمایاں خصوصیت تھی کہ جو زبان سے کہتا اسی پر
اڑ جاتا ہے۔ کھانے کے دوران میں فریدی بالکل خاموش رہا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ آخر
حمید نے بھی طے کر لیا کہ اب وہ ایک لفظ بھی اس کے متعلق نہ پوچھے گا۔
کھانا کھا چکنے کے بعد فریدی نے سگا ر سلگایااور کمرے میں
ٹہلنے لگا۔ حمید سونے کی تیاری کرنے لگا۔ فریدی نےپلٹ کر دیکھا۔ حمید شب خوابی کا
لباس پہن رہا تھا۔ فریدی کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’ اور کیا یہ تعجب خیز بات نہیں کہ علی فضیل کتے کے سر کے
قریب قتل کر دیا گیا ۔ فریدی آہستہ سے بڑبڑایا۔ ’’کیا ؟‘‘ حمید بے ساختہ بولا۔ ’’کتے
کے سر کے قریب۔ لیکن پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ۔ فریدی
نے اسے دوبارہ دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
’’ہاں ۔ میں نے علی فضیل کے قتل کے متعلق ساری تفصیلات
معلوم کرلی ہیں۔ وہ ایک ایسے علاقے میں قتل کیا گیا تھا جو بدروحوں کا مسکن بنایا
جاتا ہے۔ وہ یہاں سے اٹھارہ میل کی دوری پر سمندر کے کنارے کا علاقہ ہے اور اس
علاقے کا نام ہے كلب الشیاطین یعنی شیطانوں
کا کتا ۔ حمید بولا ۔ اسی بنا پر آپ یہ
کہہ رہے ہیں کہ وہ کتے کے سر کے قریب قتل کیا گیا تھا۔‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں۔ وہاں سچ مچ ایک کتے کا سر موجود ہے ‘‘۔کہ
فریدی نے کہا۔
’’ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ‘‘ حمید برا سا منہ بناکر بولا۔
’’بہت
اچھے‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا ۔ ’’بخدا تمہاری
موجودگی میں مجھے اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ میں غیر شادی شدہ ہوں۔ آخر تمہاری ادائیں
اتنی بیو یانہ کیوں ہیں ؟‘‘
’’چھوڑیئے بھی ‘‘۔ حمیداُکتا کر بولا ۔ ’’ میں مذاق کے موڈ میں
نہیں ہوں‘‘۔
’’خیر
....خیر ....تو میں کیا کہہ رہا تھا۔ ہاں وہ کتے کا سر ...‘‘
’’
نہیں تمہار اسر۔ پیچھے سے آواز آئی۔ فریدی چونک کر پلٹا۔ دروازے میں سر بنتھال اپنی
اصلی شکل میں کھڑا مسکرارہا تھا۔ اس
کے ہاتھ میں دبے ہوئے پستول کا رخ فریدی اور حمید کی طرف تھا۔
’’حسینہ
والا رومال نکالو‘‘ ۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ فریدی خاموش رہا۔ میں نہیں چاہتا کہ
ہوٹل میں پستول کادھما کہ گونجے ‘‘۔ سربنتھال نے آگے بڑھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’’
اور اگرتم نےاسی پر مجبور کیا تو .....‘‘
’’آؤ
بیٹھو‘‘ ۔ فریدی مسکرا کر بولا ۔ اتنی بھی کیا عجلت۔ تمہارے لئے وہسکی منگاؤں یا
مارٹینی‘‘
’’ بکومت !جلدی کرو‘‘۔
’’ مگر تم تو مر گئے تھے ۔ حمید نے کہا۔
تمہاری ہی وجہ سے مرنا بھی پڑا تھا لیکن شاید اس بار تمہاری
باری ہے ۔ سر بنتھال نے کہا۔ ’’رومال نکالو‘‘۔ فریدی نے جیب سے رومال نکال کر اس
کے سامنے ڈال دیا۔ سر بنتھال رو مال اُٹھانے کے لئے جھکا ہی تھا کہ فریدی اس پر ٹوٹ پڑا۔ پستول ا چھل کر
دور جا گرا۔ حمید نے بڑھ کر پستول اٹھا لیا لیکن دوا بھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا
کہ اس پر نہ جانے کدھر سے دو آدمی ٹوٹ پڑے۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے میں
آہستہ آہستہ تاریکی پھیل رہی ہو اور پھر ایک لامتناہی اندھیرا ۔
حمید نہ جانے کب تک بیہوش رہا اور پھر جب اسے ہوش آیا تو اس
نے دیکھا کہ قریب ہی فریدی ریشم کی ڈوریوں میں جکڑا پڑا ہے۔
خیر تمہیں ہوش تو آیا ۔ فریدی مسکرا کر بولا۔
ہم کہاں ہیں ۔ حمید گھبرا کر بولا۔
’’جہاں تھے ۔ فریدی نے
کہا۔ ’’ گھبراؤ نہیں سب خیریت ہے بس ذرا ُٹھ کر مجھے کھول دو۔ سر بنتھال کے ہاتھوں
یہ تیسری چوٹ ہے۔ اس کے ساتھ پانچ آدمی اور بھی تھے خیر دیکھا جائے گا۔
’’میر اخیال ہے کہ ہاتھی کے علاوہ کوئی اور جانور اس طرح ٹانگیں نہیں چیرسکتا‘‘۔تو پھر وہاں ہاتھی کے
پیروں کے نشانات ضرور پائے گئے ہوں گے‘‘۔
’’نہیں ہاتھی کے پیروں کے نشانات نہیں پائے
گئے ۔ فریدی نے کہا۔
’’پھر ان کے پاس اس
بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ کسی در ندے کی حرکت تھی ۔
’’کوئی
ثبوت نہیں‘‘۔
’’پھر‘‘
’’ارے بھئی اس کے علاوہ اور کہہ بھی کیاسکتے
ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی انسان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ عجیب و غریب محکمہ ہے۔
فریدی نے کہا۔
علی فضیل یہاں کا بہترین دماغ تھا ۔ فریدی نے کہا۔
لیکن آخر سر بنتھال اس میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے ۔ حمید نے
کہا۔
’’یہی تو دیکھنا ہے ۔ فریدی بولا۔ ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ سر نبتھال
بھی آدھا جرمن ہے اور علی فضیل کچھ بھاگے ہوئے جرمنوں کا پتہ لگار ہا تھا۔ بہر حال
یہاں تک تو اس سلسلے کی کڑیاں ملتی ہیں لیکن انہیں اور ملا نا پڑے گا۔ اس ایک
رومال کے لئے اتنے قتل ہوگئے۔ آخر کیوں ؟‘‘ اس رو مال میں کلب شیاطین کا نو نقشہ ہونا
کیا معنی رکھتا ہے ؟‘‘۔ فریدی کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا حمید بھی خاموش ہو گیا۔
’’کیوں نہ ہم اس وقت کے حادثے کی اطلاع ہوٹل کے منیجر کودے دیں
۔ حمید نے کہا۔
ایسی حرکت بھی نہ کرنا انہیں تو یہی پر یشانی میں مبتلا ہو جائیں
گے اور جس کام کے لئے آئے ہیں وہ ادھر اہی
رہ جائے گا۔
’’کیوں؟‘‘
’’ارے میاں اتنی معمولی سی بات نہیں سمجھتے۔ اس کی اطلاع پولیس
میں ہوگی اور پھر اس کا جو انجام ہو گا اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔ خواہ مخواہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
’’بہر حال میں اپنی حفاظت کے لئے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے
گا۔ حمید نے کہا۔
’’اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم جہاں بھی رہیں ہوشیار ہیں
۔ ہم کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں‘‘۔ حمید نے کہا۔ ‘‘سربنتھال ہمیں نہایت آسانی سے قتل
کر سکتا ہے۔
’’لیکن بھولو کہ وہ خود بھی اب معاملات کو طول نہیں دینا چاہتے اور
نہ اسی وقت ہمیں ٹھکانے لگا دیتا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت ہنگامے کے خیال سے اس نے
ایسا نہیں کیا ۔ ممکن ہے کہ پستول کی آواز سے لوگ اکٹھے ہو جاتے اور انہیں یہاں سے
نکل جانے میں دشواری ہوتی ۔ حمید نے کہا۔
’’ہم قطعی اس کے قابو میں تھے۔ فریدی نے کہا۔ ’’اگر وہ
چاہتا تو ہمارا گلا گھونٹ کر نہایت آسانی سے ہمیں ٹھنڈا کر دیتا اور کسی
کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی‘‘۔
11
خطرناک تجربہ
دوسرے دن
قصبےمیں سرکاری مدد پہونچ گئی اور فریدی حمید کولے کر پھر شہر واپس آ گیا۔ اخبارات
میں کلباش کی اس ٹریجیڈی کی خبر شائع ہوئی تھی۔ بیس آدمی ہلاک اور پچہتر زخمی
،اٹھارہ مکانات منہدم ہو گئے اور جھونپڑ تو ایک بھی نہ بچ سکا تھا۔ اس باربھی موسمیات کے ماہرین نے اسے
سائیکون قرار دیا۔ البتہ قصبے کے لوگ اسے کلب الشیاطین کی برہمی سے تعبیر کر رہے
تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس میں بسنے والی
حیں وہاں قصبےکے بجائےویرانہ چاہتی ہیں۔ حمید کا پیر مختصری طبی امداد سے ٹھیک ہو
گیا تھا لیکن ابھی دو ورود کی وجہ سے نقل و حرکت سے محروم تھا۔ اس رات کی خوفناک یا
داب بھی اس کے ذہن پر مسلط تھی۔ وہ زیادہ تر خاموش رہنے لگا تھا۔ اس کے برخلاف فریدی
کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ وہ پہلے کی طرح سوچتا، ہنستا مسکراتا
اوربات بات پر حمید کا مضحکہ اڑ اتا رہتا تھالیکن اس دوران میں وہ جو کام کرتارہا
تھا حمید سے اس کی حماقت اور خلل دماغی پرمحمول کرنے کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں
پہنا سکا۔ فریدی نے کپڑے کے دو قدِ آدم مجسمے تیار کئے تھے ایک پر اس نے سیاہ ریشمی
چادرکا غلاف چڑھاد یا تھا اور دوسرے کو یونہی رہنے دیا وہ بھی تھا تو کالا ہی لیکن سوتی کپڑے کا۔آخر
ایک دن حمید پوچھ ہی بیٹھا۔
’’آخر یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔کیا آپ پر بھی کسی خبیث روح کا
سایہ ہو گیا ہے‘‘۔
’’نہیں میں ان خبیث
روحوں کو گرفتار کرنے کی تدبیر کررہاں ہوں‘‘۔گفریدی نے کہا۔
’’تو گویا
اب بھی آپ ان کے وجود سے منکر ہیں۔
’’ اگر سربنتھال کی لاش غائب نہ ہو گئی ہوتی تو میں ضرور
قائل ہو جاتا ۔
’’ بھلا اس میں کون سانکتہ ہے ۔ حمید نے پوچھا۔
’’ یہی کہ بھوتوں نے اس کی لاش غائب کیوں کر دی اور وہ وہاں
اس وقت کیا کر رہا تھا۔
ممکن ہے کہ وہ بھی
ہماری ہی طرح اس کا راز جاننےن کی کوشش کر رہا ہو ۔ حمید نے کہا۔
اگر ایسا ہے تو اس
لیے ترجمے بھوت نے اس کا تعاقب کیوں نہیں کیا۔
’’ حمید خاموش ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ فریدی کردار کا غازی
ہونے کے ساتھ ہی ساتھ گفتار کا غازی بھی ہے۔
’’ اور پھر وہ بھوت ہمیں پکڑ کیوں نہیں پایا۔ ہم نے دور یشمی
چادریں اوڑ لی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان چاروں پرنہ تو نقش سلیمانی بنا ہوا تھا اورنہ
وہ کسی عامل کا عطیہ تھیں۔ میں نے انہیں محض لباس شبری کے طور پر استعمال کرنے کے
لیے خریدا تھا ۔
اسی اس شہروی کے طور پر
استعمال بھی تھا تو کالا ہی لیکن سوتی کپڑے گا۔ آخر ایک دن عید کا چھوتی ہینا ۔
" آخر یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ کیا آپ پر بھی کسی خبیث روح کا سایہ ہو گیا ہے ۔
" نہیں ، میں ان خبیث روحوں کو گرفتار کرنے کی تدبیر کر رہا ہوں ۔ فریدی نے
کہا۔
حمید نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ یہ مسئلہ اُس کی الجھن
کا باعث بن چکا تھا لیکن اس اُلجھن نے کسی واضح خیال کی طرف اس کی رہنمائی نہیں کی
تھی۔
’’تو
کیا آپ پھر اُدھر جانے کا قصد رکھتے ہیں‘‘۔ حمید نے پوچھا۔
’’تم جانتے ہو کہ میں کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑ تا‘‘۔ فریدی
نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ پر مسکرا کر بولا ۔ اگر تم واقعی خوفزدہ ہو تو میں تمہیں
اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کروں گا۔
’’ آپ تو خواہہ مخواہ بدگمان ہو جاتے ہیں‘‘۔حمید جھنجلا کر بولا
مجھے آپ کی بھی زندگی عزیز ہے۔ کیوں نہ اس معاملے میں یہاں کے حکام کی بھی مدد لی
جائے‘‘۔
’’ابھی نہیں اپنے اطمینان کے لئے میں ایک تجربہ اور کرنا
چاہتا ہوں ۔ فریدی نے کہا۔
’’کب ‘‘
’’آج ہی‘‘۔
’’میر
اپیر تو ٹھیک ہو جانے دیجئے ‘‘۔
’’نہیں،
میں تمہیں نہ لے جاؤں گا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’کیوں
؟‘‘
’’ممکن
ہے کہ تمہیں سنبھالنے میں خودہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھوں‘]۔
’’بہر
حال میں آپ کو تنہا نہ جانے دوں گا‘‘۔
’’
نہیں بھئی تم سمجھتے نہیں ہو‘‘۔ فریدی نے اکتا کر کہا۔ ’’ میں اس لئے ایسا نہیں کر
رہا ہوں کہ تم ڈرتے ہو حالانکہ یہ بھی غلط ہے کہ تم ڈرپوک ہو۔ وہ معاملہ ہی ایسا
تھا کہ اچھے سے اچھے سورما کے پیر اکھڑ جات‘‘۔
’’پھر
آخر آپ مجھے کیوں نہیں لے جانا چاہتے ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’ ممکن ہے اس بار اور زیادہ بد حواسی کے عالم میں بھاگنا
پڑے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جا ئیں۔
ایسے
حالات میں تنہا آدمی اپنا بچاؤ خوب کر سکتا ہے‘‘۔
حمید نے بہت کوشش کی
کہ فریدی کو اس ارادے سے باز رکھے مگر کامیاب نہ ہوا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا
تھا کہ آخر کار اس کا انجام کیا ہوگا ۔ کیا اس بار فریدی کی دلیری کام آسکے گی۔ کیاوہ
ایک ایسی قوت کا مقابلہ کر سکے گا جو انسانی دسترس سے باہر ہے ؟‘‘ کہیں یہ اس کا
آخری کارنامہ تو نہیں؟
فریدی اُسی دن شام کو قا ہر ہ سے کلب اشیاطین کے علاقے کی
طرف روانہ ہو گیا۔ وہ رات حمید نے بڑے کرب و بے چینی کے ساتھ گذاری۔ رات بھر وہ سو
نہ سکا۔ صبح دس بجے تک وہ فریدی کا انتظار کرتارہا اور پھر اچانک اس کا اضطراب بڑھ
گیا۔ فریدی نے گیارہ بجے تک لوٹ آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بارہ بچ گئے اور اس کا
کہیں پتہ نہ تھا۔ حمید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟ آخر اس نے یہ فیصلہ
کیا کہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح کلب الشیاطین کے علاقے میں پہونچنے کی کوشش کرے لیکن
اگر علی فضیل ہی کی طرح فریدی بھی....۔ اس کے آگے سوچنے کی ہمت نہ پڑی اور اس کے
جسم کے رونگتے کھڑے ہو گئے۔
وہ باہر جانے کے لئے اٹھاہی تھا کہ برآمدے میں قدموں کی آہٹ
سنائی دی اور فریدی مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ اس
کے بغل میں ایک بڑا سا بنڈل د ہوا تھا جسے اس نے فرش پر ڈال دیا۔
’’ بھئی بہت تھک گیا
ہوں ذرا ہیڈ ویٹر کو کافی کے لئے فون کردو ۔ فریدی ایک کرسی پر گرتا ہوا بولا۔ حمید
اٹھ کر لنگڑاتا ہوا فون کی طرف گیا اور فریدی جوتے اتار کر کرسی پر اکڑوں بیٹھ گیا۔
’’یہ بتائے خیریت ہے نا ۔ ؟ حمید نے کہا۔
’’ ہاں ، آں ، سب خیریت ہے اور خیر وعافیت تمہاری خداوند کریم
سے نیک مطلوب ہے۔ دیگر احوال یہ ہے کہ تجربہ کامیاب رہا اور کوئی خاص بات نہیں۔
بچوں کو آداب بزرگوں کو پیار فقط قانون گو نہیں دعا گو‘‘۔
’’ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ واقعی تجربہ کامیاب رہا ۔ حمید
ہنس کر بولا ۔ کیا سر پر رکھنے کے لئے تھوڑی برف بھی منگوا دوں‘‘۔
’’اے
ہے پاندان کیا ہوا تمہارا ۔ فریدی نے مُسکرا کر کہا۔
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’ بخدا تم نے اس وقت کسی کلرک کی بیوی کی طرح خیریت پوچھی
تھی جو بیچاری دن بھر شوہر کے انتظار میں بیٹھی چھالیہ کرتی رہتی ہے اور اس کی آمد
پر جماہی لیتی ہوئی منہ پر سر وتا لیکر اس کی خیریت پوچھتی ہے‘‘۔
’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ایک آدھا اسکریو ڈھیلا ہو گیا
ہے۔ حمید جھینپ کر بولا۔
’’خیر
معلوم ہوا کہ تم نرے گاؤدی ہو گئے ہو ۔ فریدی نے کہا۔ مجھے اس سے بہتر جملے کی
توقع تھی۔
تھوڑی دیر بعد کافی آگئی ۔ فریدی نے دو تین گھونٹ لینے کے
بعد سگار سلگا دیا۔
’’ ہاں تو بھئی تجربہ کامیاب رہا اور دلچسپ بھی ۔ فریدی نے
کہا۔ ’’ میں نے ٹیکسی قصبے کے باہری چھوڑ دی تھی اور ان دونوں مجسموں کو لیکر ساحل
کی طرف روانہ ہو گیا۔ کنارے پر کھڑے ہوئے مجھے دس پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ اس کتے
کے منہ میں پھر وہی روشنی دکھائی دی اور وہ دیو چکر اس میں سے نکل کر میری طرف
جھپٹا۔ میں نے بھاگنا شروع کیا۔ و ہ میرا پیچھا کر رہا تھا۔ آخر کار میں سیاہ چادر
اوڑھ کر لیٹ گیا اور وہ میرے قریب ہی آکر رک گیا۔ پھر میں نے وہ مجسمہ اس کے سامنے
پھینک دیا جو سوتی کپڑے کا تھا۔ وہ حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھکا اورمجھے کی ٹانگیں
چیر کر پھینک دیں۔ اُف کتنی در زندگی تھی۔ اس وقت بھی اس تصور سے کانپ اٹھا ہوں ‘‘۔
فریدی نے بنڈل کھول
کر اس مجسمےکے دونوں ٹکڑے نکا لے اور حمید کے سامنے ڈال دیئے۔ اسی طرح اس نے علی
فضیل کی ٹانگیں چیر دی تھیں ۔ فریدی آہستہ سے بولا۔
’’ ہاں، تو پھر میں نے وہ مجسمہ بھی اُس کے سامنے ڈال دیا
جس پر ریشمی غلاف چڑھایا تھا لیکن وہ بے حس وحرکت کھڑارہا، جیسے اندھا ہو گیا ہو۔
اس نے اس مجسمے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ اس
سے تم کیا سمجھتے ہو؟‘‘۔
’’میں
تو کچھ بھی نہ سمجھ سکا حمید نے بے بسی سے کہا۔
’’ خیر.... خیر.... میں بھی ابھی اس مسئلہ پر روشنی ڈالنا
نہیں چاہتا لیکن میں نے جو اندازہ لگایا ہے وہ غلط نہیں ہو سکتا ہاں،
تو پھر میں نے اس مجسمے کو چادر کے اندر کھینچ لیا۔ وہ قطعی
بے حس وحرکت کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے جست لگائی ہور پھر کتے کے منہ کی طرف
روانہ ہو گیا ۔ میں نے جلدی جلدی مجسمے پرسے کالا ریشمی غلاف اتارا اور اپنے جسم
پر اس طرح منڈھ لیا کہ کوئی حصہ کھلا نہ رہے اور پھر میں ساحل کی طرف آیا۔ تقریباً
آدھ گھنٹے تک کھڑا رہا لیکن کوئی نیا حادیہ پیش نہ آیا۔ کہو اب کیا کہتے ہو۔
’’یعنی یہ خبیث رو حیں ریشم سے ڈرتی ہیں حمید نے کہا۔
’’نہیں
بلکہ اس کتے کے پیٹ میں بیٹھی ہوئی خبیث شخصیت کو ریشم دکھائی نہیں دیتا ۔ فریدی بولا۔
میں پھر نہیں سمجھا‘‘۔ بہت جلد سمجھ جاؤ گے ۔ فریدی نے کہا۔ لیکن اطمینان رکھو وہ
کوئی آسیبی خلل نہیں ہے۔ ہماری تمہاری جیتی جاگتی دنیا کی بات ہے‘‘۔
’’پتہ
نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘حمیدا کتا کر بولا۔
’’میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تمہیں قریب سے دکھا دوں گا ۔ فریدی
نے کہا۔ ’’ا ورفون کر کے کافی اور منگواؤ۔
حمید نے پھر اٹھ کر فون کیا۔
’’ لیکن آپ اس وقت تک مجھے الجھن میں ڈالےر ہیں گے ‘‘
حمید نے کہا۔ اس میں
الجھن کی کوئی بات نہیں۔ میں نے حقائق تمہارے لئے سامنے رکھ دیے اب تم خود غور کر
کے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کرو کوئی مشکل بات نہیں ۔ فریدی نے کہا ، اور آرام
سے کرسی پر لیٹ گیا۔ حمید بھی کسی سوچ میں ڈوب گیا تھا۔
12
کتے کے پیٹ میں
دوسرے دن فریدی ، مصر کے محکمہ سراغر سانی کے دفتر میں بیٹھا محکمے
کے ڈائرکٹر ضر غام پاشا سے گفتگو کر رہا تھا۔ مسٹرفریدی مجھے افسوس ہے کہ ہم آپ کی
کوئی مد دنہ کر سکیں گئے پاشا نے کہا۔ لیکن میرے ملک کی حکومت نے آپ کی حکومت سے
درخواست کی ہے، آپ کو براہ راست اس کے لئے احکامات مل چکے ہیں۔
’’ ٹھیک ہے‘‘۔ پاشا بولا‘‘۔ مجھے اس سے کب انکار ہے۔ آپ اس شخص کا پتہ نشان
بتائیے جو آپ کی حکومت کا مجرم ہے ہم اسے گرفتار کر کے آپ کے حوالے کر دیں گے لیکن
کلب الشیاطین والا واقعہ خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا‘‘۔
’’لیکن میں نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے کہ اسے خواب نہیں کہا
جاسکتا ۔ فریدی نے کہا ممکن ہے آپ درست کہتے ہوں ۔ پاشا نے کہا اور خاموش ہو گیا۔
فریدی سمجھ گیا کہ وہ اس کے آگے گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ وہ
و ہاں سے ناکام لوٹا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اب اُس نے اپنی حکومت کے سفارت
خانے کا رخ کیا سفیر اس سے اس کے کارناموں کی بناء پر اچھی طرح واقف تھا اور اسے
حکومت کی طرف سے پہلے ہی فریدی کی ہر مکن امداد کے لئے ہدایات مل چکی تھیں۔ اس نے
فریدی سے وعدہ کیا کہ وہ قاہرہ کے پولیس کمشنر سے اس مسئلے پر گفتگو کرےگا۔
پھر دودن بعد اسے
اطلاع ملی کہ پولیس کمشنربھی تقطیع اوقات کے لئے تیار نہیں اس کے خیال کے مطابق
حملے کا کوئی آدی کلب الشیاطین کے اندر گھنے کی ہمت نہ کرے گا۔ آخر فریدی نے فیصلہ
کیا کہ وہ بذات خود پولیس کمشنر سے ملاقات کرے گا لیکن اس کی یہ کوشش بھی بار آور
ثابت نہ ہوئی پولیس کمشنر نے اسے بتایا کہ آسیبی خلل سے قطع نظر کر کے بھی وہاں
کوئی جانا پسند نہ کرے گا۔ اس نے بھی فریدی کے قائم کردہ خیالات کا مضحکہ اڑا لیا۔
پھر فریدی کو اپنے ہی قوت بازو پر بھروسہ کرنا پڑا۔ اس نے چھوٹی سی ریر کی کشتی تیار
کی اور اس پر ریشم کا غلاف چڑھایا۔ دو ہلکے ہلکے چوار جائے اور ان پر ریشم کا کپڑا
لپیٹ دیا۔ اپنے اور حمید کے لئے ریشم کا ایسا لباس تیار کرایا جس سے جسم کا کوئی
حصہ کھلا نہ ہو سکے۔ آنکھوں کے حصوں پر ریشم ہی کی باریک جالی لگوائی۔
حمیدان سب تیاریوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔ وہ اچھی
طرح سمجھ چکا تھا کہ یہ ان کا آخری کارنامہ ہے لیکن وہ فریدی کی مخالفت نہ کر سکا۔
وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے اس سلسلے میں ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو فریدی اکیلے
ہی چلا جائے گا۔
یہ چیز اسے کسی طرح گوارا نہ تھی۔ اس دوران میں وہ کئی ہوٹل
تبدیل کر چکے تھے ۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں مجرم ان کا سراغ لگا کر انہیں اپنے راستے
سے ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔ فریدی نے اس رات سربنتھال کے ساتھ پانچ آدمی دیکھے تھے۔
وہ بھی سمجھتا تھا کہ مجموعی طور پر ان کی اتنی ہی تعداد ہوتی ضروری نہیں لیکن اس
کے باوجو د بھی وہ خطرہ مول لینے پر تیار تھا۔
حمید کا پیر ٹھیک ہو گیا تھا اور وہ اس قا بل ہو گیا تھا کہ
ہوٹل سے نکل کر بازار تک جاسکے۔ آج جب وہ بازار سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں تین
چار مقامی اخبارات تھے حمید نے انہیں فریدی کے سامنے ڈال دیا۔
’’کلب
الشیاطین کا دوسرا عجوبہ ‘‘۔حمید نے آہستہ سے کہا۔
’’ بیان کر چلو ‘‘۔ فریدی نے لا پرواہی سے کہا۔ ’’میرے پاس
اتنا وقت نہیں کہ انہیں پڑھ سکوں ‘‘۔
’’کلباش کے رہے سہے دیہاتیوں نے بھی قصبہ چھوڑ دیا ۔ حمید
نے کہا۔ کل رات ساحل پر قصبے کے کچھ آدمیوں نے چار طویل القامت آدمیوں کو آپس میں تلوارچلاتے
دیکھا۔ ان کا بیان ہے کہ ان آدمیوں کی لمبائی دس بار فٹ سے کم نہیں تھی ۔ تھوڑی دیر
تک وہ اسی طرح لڑتے رہے، پھر اڑتے ہوئے
کلب الشیاطین کی طرف چلے گئے ۔ دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ وہ اس پتھر یلے کتے کے
منہ میں گھس کر غائب ہو گئے تھے۔ اور پھر اس کتے کے دہانے سے چنگاریاں نکلنے لگی
تھیں۔ اب پوراقصبہ ویران ہے کل ہی رات کو وہاں کی بچی کچھی آبادی شہر کی طرف منتقل
ہو گئی ہے۔ ’’آگے کہو‘‘۔ فریدی بولا۔
’’اور
کوئی بات نہیں‘‘۔
’’اس
واقعے کے متعلق یہاں کے اخبارات اور حکام کا کیا خیال ہے‘‘۔
’’دیہاتیوں کی توہم پرستی ‘‘حمید نے کہا ۔’’
حکام نے دیہاتیوں کومشورہ دیا ہے کہ وہ قصبے کی طرف لوٹ جائیں‘‘۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے
۔ فریدی شکر یہ انداز میں بولا ۔ ’’یہاں کی حکومت متمدن دنیا کے لئے ایک مستقل
خطرہ پال رہی ہے۔ محکمہ موسمیات اور ارضیات کی مقتل نہ جانے کہاں چرنے گئی ہے۔ اس
حصے کی جغرافیائی حالت قطعی ایسی نہیں کہ یہاں سائیکون آسکیں۔ خیر دیکھا جائے گا.....
دیکھا جائے گا۔‘‘
فریدی اٹھ کر بیتا
بانہ انداز میں ٹہلنے لگا۔
’’میں
ایک بار پھر آپ کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کروں گا۔ حمید نے کہا۔ مشکل ہے۔
فریدی پلٹ کر بولا میں سب کچھ سمجھ چکا ہوں۔ میں کلب اشیاطین پر اس طرح جھپٹنا
چاہتا ہوں جیسے ایک شرابی عرصے تک شراب نہ ملنے کے بعد شراب کی بوتل پر جھپٹتا ہے۔
میں اب انتظار نہیں کرسکتا۔ اگر تم نہیں جانا چاہتے تو میں تنہا جاؤں گا‘‘۔
’’ آپ پھر میر امطلب غلط سمجھے میں ....تو ...‘‘
’’میں کچھ نہیں سننا چاہتا ۔ فریدی نے اس کی بات کاٹ دی۔
حمید خاموش ہو گیا۔
وہ جانتا تھا کہ اب ساری کوششیں بیکارہیں۔
اسی شام کو وہ
دونوں کلباش کی طرف روانہ ہو گئے ۔ فریدی نے سارا ضر وری سامان ساتھ لے لیا تھا۔ جیسی
ڈرائیور پر انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ کسی اخبار کے نامہ نگار ہیں جیسی انہوں نے
ویران قصبے سے آدھ میل ادھر چھوڑ دی۔ تاریکی پھیل گئی تھی۔ وہ قصبےکے ایک ویران
مکان میں گھس گئے ۔ یہاں چاروں طرف سناٹا تھا۔ گاؤں میں ایک متنفس بھی نہیں رہ گیا
تھا۔ سائیں سائیں کرتی ہوئی سیاہ رات نے قصبے کی ویرانی میں اور اضافہ کر دیا تھا کبھی
کبھی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں خاموشی کے اتھاہ ساگر میں ہنگورے پیدا کر کے دور
غائب ہو جاتی تھیں۔
میرا خیال ہے کہ تم
خائف نہیں ہو‘‘۔ فریدی نے حمید سے کہا۔
’’قطعی
نہیں بشرطیکہ اپنے جیسے انسانوں سے مقابلہ کرتا ہے ہے۔
’’مطمئن رہو۔ اس کے آگے تمہیں سوچناہی نہ چاہئے ۔
’’اوہ۔۔۔۔۔
آپ تو مجھے اس طرح بہلا رہے ہیں جیسے میں نے اس طویل القامت دیو کو دیکھا ہی نہ ہو
۔ گھبراؤ نہیں ، آج رات اس سے مقابلے کی توقع نہیں ۔ فریدی نے کہا۔
’’خیر
دیکھا جائے گا۔ حمید نے اکتا کر کہا۔
ایک گھنٹے کے بعد ساری تیاریاں مکمل کر لینے کے بعد وہ ساحل پر کھڑے تھے۔ کافی عرصہ گذر گیا لیکن کلب
اشیاطین کی خاموشی میں فرق نہیں آیا۔ حمید کو فریدی کی پیشینگوئی پر حیرت ہونے لگی
اور فریدی نے ربر کی کشتی۔ ندر میں ڈالدی۔ وہ آہستہ آہستہ کلب الشیاطین کی طرف بڑھ
رہے تھے۔ حمید کی نظریں کتے کے پھیلے ہوئے دہانے کی طرف گئی ہوئی تھیں۔ وہ سوچ رہا
تھا کہ واقعی یہ سیا و ریشم کا لباس سحر زدہ ہے۔
اور پھر ان کی کشتی چٹانوں کے سلسلے سے ٹکرائی۔ فریدی کگار
پکڑ کر اوپر چڑھ گیا۔ حمید نے بھی اس کی تقلید کی اور اس کے بعد کشتی اور کھینچ لی
گئی۔ حمید چٹانوںپر قدم رکھتے ہی لرزاٹھا یہاں کا پراسرار سناٹامصرقدیم کے خوفناک
جادو گروں کی یاد دلانے لگا اور میرے بھی یاد آئے جن میں ہزاروں سال سے انسانی لاشیں
محفوظ ہیں محض اس امید پر کہ ایک دن ان کی بھٹکی ہوئی رو حیں اپنے جسموں میں لوٹ
آئیں گی۔
چٹانوں کا سلسلہ
تقریباً دو تین فرلانگ تک چلا گیا تھا جس چٹان پر یہ لوگ کھڑے تھے کلب اشیاطین کا
ایک حصہ تھی۔ فریدی نے جیب سے سے ٹارچ نکالی اور آہستہ آہستہ ایک طرف بڑھنے لگا۔
پندرہ منٹ کی جدو جہد کے بعد بھی وہ کوئی ایسا راستہ نہ معلوم کر سکے جس کے ذریعہ
اندر پہونچ سکتے۔ پھر انہوں نے دوسری راہ اختیار کی ۔ فریدی عین کتےکے سرکے نیچے
آکر کھڑا ہوگیا جس کی اونچائی چالیس فٹ سے کسی طرح کم نہ رہی ہوگی۔ حمید پر ایک
بار پھر ہیت طاری ہوگئی ۔ خود فریدی نے بھی ایک بار جھر جھری لی۔
ادھر بھی کسی طرف
سے کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس وقت کی سب سے بڑی وجہ تھی کہ فریدی اپنی ٹارچ کا
آزادانہ استعمال نہیں کر رہا تھا ۔ دفتاً و ہ داہنی طرف کے نشیب میں اتر گیا ۔ حمید
نے بھی اس کی تقلید کی ادھر چٹان کا پھیلاؤ زیادہ تھا۔
ایک جگہ اچانک فریدی رُکا اور جھک کر زمین کی طرف دیکھنے
لگا۔
’’یہ نشانات دیکھ رہے ہو ۔ وہ آہستہ سے بولا ’’
بھیگے ہوئے پیروں کے نشانات‘‘
اور وہ آہستہ آہستہ نشانات کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور پھر
وہ ایک بار کتے کی گردن کے قریب پہونچ گئے۔ یہاں اگر پیروں کے نشانات غائب ہو گئے
تھے ۔ فریدی نےٹارچ روشن کی۔ اسے غلط فہمی
ہوئی تھی ۔ پیروں کے نشانات یہاں غائب نہیں ہوئے تھے بلکہ چندا بھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے
پتھروں پر نظر آ رہے تھے۔ آخر ان پتھروں پر چلنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ چٹان کا ایک
حصہ سپاٹ اور مسلح ہے ۔ فریدی آہستہ سے بولا۔
’’یہ چیز واقعی دلچسپ ہے ۔ حمید نے کہا۔
فریدی ان پتھروں
کود یکھنے لگا۔ ہر ٹکڑے پر پیر کا ایک نشان موجود تھا اور اس کے بعد سطح چٹان پر
کوئی نشان نظر نہ آیا۔ فریدی بھی ان پتھروں پر پیر رکھ کر چلنے لگا۔ آخری پتھر پر پیررکھتے
ہی چٹان کا ایک حصہ اپنی جگہ سے سرکتا نظر آیا۔ لو بھئی اس خبیث کا پیٹ پھٹ گیا ۔
فریدی حمید کی طرف رہ کر آہستہ سے بولا اور پھر اس نے اچانک نمودار ہونے والے غار
کے دہانے میں ٹارچ کی روشنی ڈالی۔ اندر
بالکل سناٹا تھا اور دہانے کے سرے سے آٹھ دس زینے تہہ تک چلے گئے تھے۔ دونوں غار میں
آہستگی اتر گئے۔ جیسے ہی انہوں نے فرش پر قدم رکھا او پر دہانے کا منہ بند ہو گیا۔
’’یہ کیا ہوا ‘‘۔ حمید اوپر کی طرف دیکھ کر
گھبرائے ہوئے لہجہ میں بولا۔ ٹھہر وفریدی نے کہا اور زینوں پر چڑھتا چلا گیا۔ آخری
زینے پر پیررکھتے ہی دہانہ پھر کھل گیا۔ فریدی لوٹ آیا اور دہانہ بند ہو گیا۔ غضب
کی کاریگری ہے فریدی آہستہ سے بولا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بھوت اس وقت کہاں سورہے ہیں ۔
حمید نے کہا ۔ وہ مطمئن ہیں کہ کوئی ان تک پہونچنے کی ہمت نہ کر سکے گا ۔ فریدی نے
کہا۔ اور پھر ہم انہیں قطعی نہ دکھائی دے رہے ہوں گے۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ ہم نے جادوئی لباس جو پہن رکھا ہے ۔ فریدی
ہنس کر بولا ۔
معلوم نہیں آپ کے
ذہن میں کیا ہے ۔ حمید نے کہا۔
’’جو
کچھ ہے ابھی سامنے آیا جاتا ہے‘‘۔ فریدی نے کہا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ وہ ایک
کمرے میں کھڑے تھے جس میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ان کا دم گھٹنے لگا
اور وہ پھر زینوں پر چڑھ گئے۔ غار کا دہانہ کھل جانے کی وجہ سے انہیں اس گھٹن سے
نجات ملی ۔ فریدی نے پھر ٹارچ کی روشنی میں اس کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس کی
نظریں سامنے کی دیوار سے ملحقہ زمینوں پر پڑیں۔ یہ تین الگ الگ سیڑھیاں تھیں جن کا
درمیانی فاصلہ ایک فٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ ذرا ان زینوں کو دیکھو‘‘۔ فریدی بولا ۔ ’’
بھلا ان تین زینوں کا کیا مطلب ہے اور یہ بھی سوچو کہ ان کے سرے پر دروازے نہیں ہیں۔
پھر آخر ان کا کیا مقصد ہے اور حمید ذرا پہلےزینے کی سیڑھیاں تو گنو۔
’’ نو ہیں۔ حمید بولا ۔ دوسرے میں سات اور تیسرے میں پانچ ہیں
۔
اچھا وہ رومال والا عدد کیا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’نو سو پچہترحمید نے کہا۔
نو سو پچہتر نہ کہو‘‘، فریدی نے آہستہ سے کہا۔ ’’ بلکہ نو،
سات پانچ کہو ،لو بھئی نو سو پچہتر کامسئلہ بھی چٹکی بجاتے حل ہو گیا۔ قدرت کچھ مہربان معلوم ہوتی
ہے۔ اچھا تم یہیں ٹھہرو تا کہ دہانہ کھلار ہے ۔ میں ذرا ان زینوں کو دیکھتا ہوں ۔
وہ آخری زینےپر سے نیچے کود پڑا۔ اب وہ سامنے والی دیوارکے زینوں کا جائزہ لے رہا
تھا۔ پہلے وہ نوسیٹرھیوں والے زینے پر چڑھا، پھر اس پر ہو کر سات سیڑھیوں والے زینوں
سے گذرتا ہوا نیچے اتر آیا اور پانچ سیڑھیوں والے زینوں پر چڑھنے لگا۔ جیسے ہی وہ
آخری سیڑھی پر پہونچا دیوار کا ایک حصہ ایک طرف ہٹ گیا اور دوسری طرف سے عجیب قسم
کی گھر گھراہٹ کی آواز سنائی دینے لگی۔ فریدی نے حمید کو اشارے سے بلایا۔ دونوں
اندر داخل ہو گئے ۔ یہاں بالکل تاریکی تھی۔ فریدی نے ٹارچ روشن کی اور آگے بڑھنے
لگا۔
’’یہ آواز کیسی ہے ؟ حمید نے پوچھا‘‘۔
’’ کسی مشین کی ہے ‘‘فریدی نے کہا۔
’’مشین حمید چونک کر بولا۔
’’ہاں
خاموشی سے چلےآؤ۔ فریدی نے کہا۔ وہ ایک تنگ وتاریک راستے سے گذرر ہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک
کمرے کے سامنے کھڑے تھے جس کے دروازے پر سیاہ پردہ پڑا تھا اور روشندانوں سے روشنی
پھوٹ رہی تھی ۔ دونوں بہ آہستگی دروازے کے سامنے سے ہٹ کر ایک کنارے کھڑے ہو گئے۔
فریدی نے روشندان سے جھانک کر دیکھا ۔ اندر چار آدمی ایک میز کے گردبیٹھے شراب پی
رہے تھے۔ ان میں ایک بوڑھا تھا جس کے چہرے پر گھنی اور سفید ڈاڑھی تھی۔ یہ چاروں یورپین
معلوم ہوتے تھے۔ فریدی نے حمید کوقریب آنے کا اشارہ کیا۔
’’ دیکھا تم نے یہ ہیں تمہارے بھوت اس بوڑھے کو پہچانتے ہو۔
کہیں تصویر تو دیکھی ہی ہوگی‘‘۔
’’ میں نہیں پہچانتا.... لیکن یہ....
ٹھہر و فریدی آہستہ
سے بولا۔ اس طرف داہنے کونے میں دیکھو۔
حمید لا کھڑا کر پیچھے
ہٹ گیا۔
’’ارے
تو..... وہی ‘‘۔
’’لیکن ڈرو نہیں ۔ یہ اس وقت بالکل بیجان ہیں ۔ فریدی نے کہا
اور جیب سے ریوالور نکال لیا۔ حمید نے بھی اپنے ریوالور کا دستہ مضبوطی سے پکڑ لیا۔
’’یہ بوڑھا جرمنی کا مشہور سائنسدان ولیمسن
ہے جو ہٹلرکی موت کے بعد پراسرار طریقے پر غائب ہو گیا تھا اور اب یہاں ویرنے میں
کسی نئے تباہ کن ہتھیار کا تجربہ کر رہا ہے۔ خیر آؤ لیکن ہوشیاری سے ۔
فریدی پر دہ اٹھا
کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہ چاروں اسے دیکھتے ہی بوکھلا کر کھڑے ہو گئے ۔
ہینڈ زاب ۔ فریدی
گرج کر بولا ۔ ’’ اگر کوئی اپنی جگہ سے ہلا تو شوٹ کر دوں گا۔ چاروں نے اپنے ہاتھ
اوپر اٹھائے ۔ وہ گھبرائی ہوئی نظروں سے ان دونوں سیاہ پوشوں کو دیکھ رہے تھے۔
تم کون ہو؟ بوڑھا
سا ئنسدان بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔
تمہاری مشینی آندھی
کے شکار دو دیہاتیوں کے بھوت۔ فریدی قہقہ لگا کر بولا۔ جن کی اطلاع تمہارا ٹیلی ویژن
سٹ بھی نہ دےسکا‘‘۔
بوڑھا آہستہ آہستہ دیوار کے قریب رکھی ہوئی ایک مشین کی طرف
بڑھ رہا تھا۔ اس مشین میں ایک شیشہ لگا ہوا تھا۔ جس میں پورا ساحلی علاقہ صاف نظر
آرہا تھا۔ حمید تحیر تھا کہ آخر اس بند کمرے میں رکھی ہوئی مشین میں باہر کے مناظر
کس طرح دکھائی دے رہے ہیں اور پھر چند لمحوں کے بعد سارا معمہ حل ہو گیا۔ اس مشین
کے ذریعہ وہ ساحل پر لوگوں کی نقل حرکت کا جائیز ہ لیا کرتے تھے ۔ فریدی بوڑھے کی
حرکت دیکھ رہا تھا۔ اس نے پستول تھما کر شیشے پر گولی چلا دی ۔ شیشہ ایک جھٹکے کے ساتھ ٹوٹ گیا۔ بوڑھاچیخ کر فریدی کی طرف جھپٹا۔
فریدی کے پستول کی نال سے پھر ایک شعلہ نکلا اور بوڑھا اچھل کر دیوار سے ٹک گیا۔
اس کے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ اس کا ایک پیرزخمی ہو گیا تھا۔
’’ حمیدان تینوں کے
ہاتھ پیرجکڑ دو ۔ فریدی نے کہا ۔ اور میں اس بوڑھے سے نپٹتا ہوں‘‘ ۔
فریدی نے حمید کا
پستول بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایک پستول کا رخ بوڑھے کی طرف تھا اور دوسرے کا
ان تینوں آدمیوں کی طرف حمید نے جیب سے پتلی پتلی مضبوط ڈوریانکالیں اور یکے بعد دیگرے
انہیں جکڑ نے لگا۔
’’کیوں اولین وہ ر و مال کہاں ہے ۔ فریدی نے
بوڑھے سے کہا۔
’’میں
نے اسے جلا دیا ۔ ولمین چیخ کر بولا۔
’’بہت
خوب سربنتھال کی لاش کیا ہوئی ؟
’’اوہ تو تم وہی
جاسوس ہو۔ ولمین چیخ کر بولا۔
فریدی نے قہقہ لگایا۔
’’ تمہارے وہ دیوپیکر بھوت یہی ہیں ۔ فریدی ایک طرف کھڑے
ہوئے چار پانچ لوہے کے مجسموں کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
ولمین نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’کیا
تم جانتے تھے کہ تمہاری مشین کی شعا عیں ریشم کے لباس سے نہیں گذر سکتیں ۔ فریدی
نے پوچھا۔
’’ ہاں لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مشرقی سور بھی اتنے زہین
ہو سکتے ہیں ۔ ولین درد سےچیخ کر بولا ۔
فریدی نےپھر قہقہ لگایا۔
’’خیر...
خیر... ولمین تمہارا یہ عظیم الشان کارنامہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوئے جار ہا ہے۔ کیا
تم مجھے ان تباہ کن مشینوں کے بارے میں نہ بتاؤ گے ؟ فریدی نے کہا۔
’’مشین تم نے برباد کردی ولمین ٹوٹی ہوئی مشین کی طرف اشارہ
کر کے بواا۔ دنیا کا کوئی سا ئنسد ہ اب یہ نہ بتا سکے گا کہ یہ کیسے بنائی گئی تھی۔
یہی مشین آندھیاں پیدا کرتی تھیں۔ یہ مشین ان لوہے کے آدمیوں کی آنکھ تھی۔ یہ آدمی
اسی اسکیم کے تحت بنے تھے جس کے تحت جرمنی کے مشہور اور خود بخود اڑنے والے ہم اور
ہوائی جہاز بنائے گئے تھے۔ ان میں ریڈیائی طریقوں سے قوت عمل پیدا کی جاتی تھی لیکن
افسوس کہ یہ اب بیکار ہو چکے ہیں۔ تم خبیث سور تم نے میرے اس کا رنامے پر خاک ڈال دی جس کے لئے میں نے اپنی ساری زندگی
وقف کر دی تھی مجھے سہارا د یکر آدم بی تک لے چلو میں تمہیں مرنے سے پہلے کچھ اور
باتیں بتانا چاہتاوں اور مجھے یہاں سے کوئی قوت زندہ نہیں لے جاسکتی بوڑھے نے آنکھیں بند کر لیں، ایسا معلوم
ہورہاتھا جیسے اسےغش آ گیا ہو۔ وہ گرنے ہی والا تھا کہ فریدی نے آگے بڑھ کر اسے
سمبھال لیا۔ حمید جو بقیہ تینوں آدمیوں کو باندھ کر زمین پر ڈال چکا تھا، فریدی کی
مدد کے لئے آگے بڑھا لیکن دوسرے ہی لمحے میں فریدی زمین پر تھا اور اس کے دونوں
پستول بوڑھے ولمین کے ہاتھوں میں۔
’’کیوں
سور ما اب بتاؤ ۔ بوڑ ھاولمین قہقیہ لگا کر بولا۔
’’ اچھا تو کیا تم ہمیں یہاں تنہا سمجھتے ہو۔ فریدی مسکرا کر بولا۔ مت بھولو کہ میرے
ہی جیسے نہ جانے کتنے سیاہ پوش اس کتے کے پیٹ میں موجود ہیں۔ اس لئے میں نے آتے ہی
سب سے پہلے تمہاری مشین بر باد کر دی تھی۔ تم اس وقت ہم دونوں کو مار نہیں سکتے۔
’’دیکھا
جائے گا۔ ولمین آہستہ بولا‘‘تم اٹھ کر میرے ساتھیوں کو فوراً کھول دورنہ...‘‘ز
فریدی آہستہ سے اٹھا۔ ولمین نے حمید کو بھی اشارہ کیا ۔
دونوں بندھے ہوئے آدمیوں کو کھولنے لگے۔ ولمین دیوار کے قریب جا کر روشندان سے
جھانکنے لگا لیکن وہ فریدی اور حمید کی طرف سے غافل نہیں تھا۔ فریدی نے چیخنا چاہا۔
’’ خبر دار ولمین آہستہ سے بولا ۔ اگر منہ سے آواز نکلی تو
شوٹ کر دوں گا۔ اسے باہر کہیں کھڑے ہوئے خیالی آدمیوں کا خوف تھا۔
اس بار جیسے ہی اس نے روشندان کی طرف منہ پھیر افریدی نے
پھرتی سے ایک آدمی کو اٹھا کر اس پر پھینک مارا۔ دونوں ایک ساتھ زمین پر آ رہے۔ دو
فائر ہوئے اور دو چیخیں کمرے میں گونج اٹھیں
۔
گرتے گرتے ولمین کے
ہاتھوں میں دبے ہوئے دونوں پستول چل گئے تھے۔ فریدی اور حمید ان کی طرف چھپٹے ایک
پستول کی گولی ولمین کی تھوڑی پھاڑتی ہوئی سر سے نکل گئی تھی اور دوسری اس کے ساتھی
کے سینے سے پار ہوگئی تھی۔ اوہ یہ تو بہت برا ہوا ۔ فرید ی بیساختہ بولا ۔ ’’ میں
اس بوڑھے کو زندہ گرفتار کر نا چاہتا تھا۔ حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔ ولمین کے دو ساتھی
زمین پر اوندھے پڑے تھے۔ وہ ان دونوں کو چیخ چیخ کر گالیاں دےرہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد فریدی اور حمید تہہ خانے کے دوسرے حصوں کا
جائزہ لے رہے تھے یہاں ان لوگوں نے اچھا خاصا کارخانہ قائم کر رکھا تھا۔ ایک چھوٹا
سابجلی گھر بھی تھا جس کی قوت سے مشین چلائی جاتی تھی حمید نے لوہے کے ان قد آور
آدمیوں کو قریب سے دیکھا جنھیں وہ بھوسمجھے ہوئے تھا۔
’’ ایک بڑی خوفناک چیز مٹ گئی فریدی نے کہا۔ ورنہ انکی جنگ
میں یہ لوہے کے آدمی انسانوں کے مقابلے میں استعمال کئے جاتے۔
حمید
نے کوئی جواب نہ دیا ، اس پر ابھی تک حیرت طاری تھی کبھی وہ لوہے کے آدمیوں کی طرف
دیکھتا تھا اور کبھی فریدی کی طرف شاید وہ دانوں کا موازنہ کر رہا تھا کہ ان میں زیادہ
خوفناک کون ہے فریدی... یا لوہے کا بھوت؟ افسوس کہ یہ مشین بر باد ہوگئی۔ فریدی نے
کہا۔ لیکن بہت اچھا ہو ا۔ور نہ کوئی اور اسے اپنے ناپاک مقاصد کےلئے امن پسند دنیا
کے خلاف استعمال کرتا۔ بہت اچھا ہوا ۔
دوسرے دن دو پہر کو کلباش کے علاقے میں ایک جم
غفیر لگا ہوا تھا ہے چپے چپے پر پولیس اور فوج کے سپاہی نظر آرہے تھے۔ کلب الشیاطین
کی خبیث رو حیں بتائی جارہی تھیں۔ فریدی ساحل پر ایک خیمے میں مصر کے اعلی حکام سے
گفتگو کر رہا تھاو انہیں شروع سے ساری داستان سنارہا تھا۔ اور پھر جب میں نے یہ دیکھا
کہ ریٹی چادر کے سامنے اس دیو پیکر کی ساری قوتیں بیکار ہو جاتی ہیں تو میں اس نتیجہ
پر پہونچ گیا کہ وہ آدمی کوئی مافوق الفطرت ہستی نہیں بلکہ کسی مشین کا تابع تھا
اور اس مشین کی پیدا کر دہ شعاعیں ریشم کی سطح سے نہیں ٹکراتیں اس کے لئے میں نے ایک
دوسرا تجربہ کیا ۔ اب فریدی نے انہیں کپڑے کے قد آدم مجسموں والے تجربے کے متعلق
بتایا۔
’’واقعی مسٹر فریدی تم نے امن پسند دنیا کے
لئے ایک احسان عظیم کیا ہے ۔ قاہرہ کا پولیس کمشنر بولا ۔ مجھے افسوس ہورہا ہے کہ
میں نے تمہارے مشورے پر عمل کیوں نہیں کیا تھا۔ خود میں بھی شرمندہ ہوں محکمہ
سراغرسانی کے ڈائر کٹر نے کہا۔ خیر، جو کچھ ہو ٹھیک ہوا ۔ فریدی نے کہا میرا مقصد
حل ہو گیا ۔
’’اف
میرے خدا۔ ایک آفیسر بولا ۔ ہم لوگ بھی
کتنے احمق تھے کہ ان تباہ کن آندھیوں کو سائیکون سمجھتے رہےاور عوام کی خبیث روح
کا کارنامہ ۔
اسی دن اخبار کے غیر معمولی شمارے دھٹر ادھٹر فروخت ہورہے
تھے۔ ان میں کلب الشیاطین کی وارداتوں کے متعلق خبریں شائع ہوئی تھیں۔ فریدی اور
حمید کی کارگزار ہوں کو کچھ اور بھی زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔
اور وہ دونوں شام کو ایک گمنام سے ہوٹل میں بیٹھے کافی پی
رہے تھے۔ اپنے ہوٹل سے دو ملنے والوں کے خوف سے نکل بھاگے تھے۔ آج صبح سے آٹو گراف
لینے والوں کی کاپیوں پر دستخط کرتے کرتے ان کے ہاتھ دُ کھنے لگے تھے۔ اخباروں کےنامہ
نگاروں نے الگ تنگ کر رکھا تھا اور پھر انہوں نے جان بچانے کے لئے رہائشی ہوٹل سے
ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا۔
’’حمیدہ
ایک چیز مجھے الجھن میں ڈالے رہے گی‘‘۔
’’وہ کیا ؟‘‘
’’كلب الشیاطین فریدی آہستہ سے بولا۔ آخر ولمین اس کے راز
سے کیسے واقف ہو گیا جبکہ یہاں کے باشندے بھی اس کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے اور
نہ کسی تاریخی کتاب ہی سے اس کے وجود پر کوئی روشنی پڑتی ہے اور یہ تو تم نے دیکھ
ہی لیا کہ وہ آج کی کاریگری نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اہرام اور ابو الہول سے بھی
پہلے کی چیز ہو۔ معلوم نہیں یہ جرمن اس کے اندر کس طرح پہونچ گئے ۔ ولیمن کے ساتھیوں
سے معلوم ہوا کہ ولمین ہی نے اس کا پتہ
لگا یا تھا لیکن وہ بھی یہ نہ بتا سکےکہا سے اس کا حال کیسے معلوم ہوا تھا۔ حمید
نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ خاموشی سے کافی پی رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولا۔ خیریہ سب سوچنے کے لئے زندگی پڑی ہے۔یہ بتایئے اب کیا پروگرام ہے۔
’’میں
اب کچھ آرام کرنا چاہتا ہوں کیا ہما را محکمہ اس خطر ناک مہم کے بعد ہمیں سال دو
سال کی چھٹی بھی نہ دے سکےگا۔ میں تمہیں سیاحت کے بہانے سے لایا تھا۔ لہذہ سیاحت
ہوگی۔ اپنی رپورٹ اور چھٹی کی درخواست جلدی سفارت خانے کے سپرد کر کے ہم یو روپ کی
طرف روانہ ہو جا ئیں گے اور پھر واپسی پرتمہاری شادی ۔ کیا سمجھے ؟‘‘
’’ اور آپ اپنے متعلق کیا کہتے ہیں ؟‘‘ حمید نے کہا۔
’’کیا
ایک دوست کی بیوی میرے لئے کافی نہ ہوگی ۔ فریدی مسکرا یا۔
’’ کافی ....ہاں ....کافی.... بوائے.... کافی اورلاؤ‘‘۔ حمید
چیخ کر بولا۔ اور دانت نکال کر فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔
0 Comments