مہندی-نظیؔر اکبرآبادی
Mehndi By Nazeer Akbarabadi
میاں یہ کس پر ی کے ہاتھ
پر عاشق ہو ئی مہندی
کہ باطن میں ہو
ئی ہے سرخ ،ظاہرمیں ہری مہندی
کٹی ،کُچلی گئی ، ٹو ٹی ،چھنی ،بھیگی ،پسی مہندی
جب اِتنے دکھ سہے ،تب
اُس کے ہاتھوں میں لگی مہندی
شفق میں ڈوب کرجوں پنجہ
ٔ خور شید ہو رنگیں
چمک میں، رنگ میں، سرخی
میں،کچھ ایسی ہی تھی مہندی
جو گورے گورے ہاتھ
اور نرم و نازک پیارے
پیارے ہوں
تو بس وہ جان ہیں مہندی
کی اور اُ ن کا ہے جی مہندی
بھلا کیوں کر نہ ہو
ں یارو میں اُس کو دیکھ
دیوانہ
کہ ہو ویں جس
پری روکے،پری ہاتھ
اور پری مہندی
نظیرؔ اُس گُل بدن
نے اور ہی مہندی لگائی ہے
مبارک باد، اچّھا ،واہ وا ،خاصی رچی مہندی
0 Comments