ملاقاتِ یار-نظیرؔاکبرآبادی
Mulaqat-e-yaar By Nazeer Akbarabadi
ادھر کو جس
گھڑی اے ہم نشیں وہ یار
آیا
ہمارے دل سے گئی
بے کلی ،قرار آیا
اُسے جو مہر
سے ہے ذرّہ پروری
منظور
تو پھر اِدھر کو جھمکتا
وہ مہر وار آیا
مزاج اُس کا
جو عاشق نواز ہے ہردم
تو راہِ لطف پہ پھر
وہ کرم شعار آیا
کسی نے دو ڑ کے
ہم سے کہا ،مبارک
ہو
تمھارے پاس ہی وہ ناز
نیں نگار آیا
کسی نے گل کی طرح
ہنس کے یوں کہا آکر
بھلا ہواکہ
تمھا را بھی گل عذار آیا
خو شی یہ بولی " تمھاری میں گردِ خا طر ہوں "
اِدھر سے عیش
پکارا کہ" میں بھی حا ضر ہوں "
گیا ملال ہو ئے
شاد ہم زمانے سے
ہو ملاپ ،چُھٹے
ہجر کے ستا نے سے
نشاط جی کو
ہو ئی ہر طرف کےملنے سے
سرور دل کو ہوا ہنسے
اور ہنسا نے سے
ہو ئی نمود
وہ ساعت بھی ابنسا ط بھری
کہ جس میں شاد
ہو ئے ہم بھی دل کو لگانے سے
ہر اک طرف سے ہو ئی
سو طرح کی خوش وقتی
نو مدیں آئیاں
عشرت کے کارخانے سے
سماتے پھولے نہیں
پیر ہن میں اب ہرگز
ہم ایسے شاد ہیں
اُس گُل بدن کے آنے سے
جہاں میں جس کو
ملا قات یار کہتے ہیں
عجب بہار ہے،
اِس کو بہار کہتے ہیں
ہمارے دل میں
جو فرقت کی بے قراری تھی
تو اُس کے ہاتھ سے صورت
عجب ہماری تھی
کبھی خیال رخ
و زلف کا سحر تا شام
کبھی تصّور مثرِ گاں
سے دل فگاری تھی
نہ دل لگے تھا کسی
شغل سے کو ئی ساعت
نہ جاں کو جزا لمِ ہجر
،ہم کنا ری تھی
یہ اضطراب تھا ہر دم،
یہ اپنی بےتابی
ہمارے حال پہ سیماب کی بھی
زاری تھی
خدا کے فضل سے پھرا
س میں خیر و خو بی سے
وہ دن بھی آیا
کہ جس کی اُمید واری تھی
جو دیکھی بھر کے
نظر،گل عذار کی صورت
تو ہر طرف نظر
آئی بہار
کی صو رت
عیاں جو سا منے آکر وہ گل عذار ہوا
تو عالم عیش کا پھر
ایک سے ہزار ہوا
نگہ کو حُسن نے اس گل کے
تازگی بخشی
خو شی قریب
ہو ئی ،دور انتظار ہوا
جدا جو ہجر میں ہم
سے قرار رہتا تھا
ہمارے دل سے وہ پھر آن کر دو چار ہوا
تسلّی دل کو ہو
ئی اُس صنم کے ملنے سے
رخ اس کا
ودیکھتے ہی، رفع اضطرا ر ،ہوا
طلب تھی دل کے
تیئں جس کی ایک مدّت سے
ہزار شکر ، وہی
عیش آشکار ہوا
نشاط وعیش کو
خاطر سے ہم قر ینی ہے
نیاز و ناز
ہے اور لطفِ ہم نشینی
ہے
ہم اپنے دل کی خو شی
کا بیاں کریں کیاکیا
کہ ایک لخطہ یہ ٹھہرا
ہے عیش کا نقشا
کبھی ہیں دیکھتے
رخسارِیار کو ہنس ہنس
کبھی خوش سے ہیں
چھو لیتے اُس کی زلفِ دوتا
کبھی ہیں یار کی
چشم و نگاہ سے پیتے
خو شی سے عیش
کے بھر بھر کے ساغرِ صہبا
کبھی ہیں اُس کے تکلّم سے دل
کو خوش کرتے
کبھی ہیں اُس کے
تبسّم پہ جی سے ہو تے فدا
جو دیکھتا ہے ہمیں
اِس طرح کی عشرت میں
تو یہ سخن وہ رہِ
منصفی سے ہے کہتا
نظیرؔ ،تم نے جو حا صل
یہ ،شادمانی کی
یہی بہار ہے
بستانِ زندگا نی کی
0 Comments