پہاڑوں
کی ملکہ-ابن صفی
Pahadon
ki Malka By Ibn-e-Safi
1
پیتل کی مورتی
ایشیا کانامور جواں سال سراغرساں انسپکٹر فریدی صبح کا ناشتہ کر چکنے
کے بعد ڈرائنگ روم میں بیٹھااپنی رائفلوں کا مامعائنہ کر رہا تھا۔ سرجنٹ حمید اخبار پڑھنے
میں مشغول تھا۔ اس نے قہقہ لگایا اور فریدی چونک پڑا۔
’’بڑی
دلچسپ خبر ہے‘‘ ۔ حمید نے کہا۔
’’کیا‘‘۔
’’تبت کے ایک
باشندے کے پیٹ میں سے ایک پتیل کی مورتی برآمد ہوئی‘‘۔
’’
کیا فضول بکو اس لگا رکھی ہے‘‘۔ فریدی نے کہا اور ایک آنکھ د با کر رایفئل کی نال
کا جائزہ لینے لگا۔
’’آپ
مذاق سمجھ رہے ہیں۔‘‘
’’مت بکو!‘‘فریدی
اکتا کر بولا۔‘‘ ’’ہر وقت ٹایئں ٹایئں اچھی
نہیں معلوم ہوتی‘‘ ۔
’’اچھا توسنئے‘‘۔
حمید اخبار پڑھنے لگا۔’’ رام گڑھ ۱۲ر جون چوبی پل کے نیچے صبح ہی صبح
ایک تبتّی کی لاش ملی ہے۔
پوسٹ
مارٹم کی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ متوفی کے معدے میں تین انچ لمبی اور ایک انچ چوڑی ایک پیتل کی مورتی برآمد ہوئی۔ ڈاکٹر کا خیال
ہے کہ موت اس مورتی کے نگل جانے کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔ ابھی تک لاش کا کوئی وارث
نہیں مل سکا۔ یہ مورتی آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے موضوع بحث بنی ہوئی
ہے۔ اکثر کا خیال ہے کہ یہ چندر گپت موریہ کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ فی الحال یہ
مورتی پولیس کے قبضے میں ہے۔ یہ معمہ کسی طرح حل نہیں ہو سکا کہ متوفی نے اسےکیوں
نگلا؟‘‘
فریدی
نے انتہائی سنجیدگی سے اس خبر کو سنا اس کی نگاہیں ابھی تک حمید کے چہرے پر ہوجمی
ہوئی تھیں، جو دوسری خبر یں ہی پڑھنے کے لئے اخبار کو الٹ پلٹ رہا تھا۔
’’یہ لیجئےمیگزین
سیکشن میں اس مورتی کی تصویر بھی ہے۔ حمید نے سراٹھا کر کہا لیکن فریدی کی حالت دیکھتے
ہی اسےبے ساختہ ہنسی آگئی۔
’’کہئے!‘‘ جناب
وہ ہنس کر بولا ۔’’ کیا آپ کی رگ جاسوسی پھڑ کھنے لگی ؟‘‘
’’ لاؤ
دیکھوں وہ تصویر فریدی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ حمید نے اخبار اسے دے دیا۔
فریدی
تصویر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں اور نچلاہونٹ
دانتوں میں دب کر رہ گیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر
رہا ہو۔
حمید اسے غور سے دیکھ
رہا تھا۔ اس نے فریدی کو اس حالت میں دیکھ کر بُرا سامنہ بنایا بالکل اسی طرح جیسے کوئی کاہل اور
کام چور لڑ کا اپنے کسی بزرگ سے کسی غیر متوقع حکم کے خیال سے قبل از وقت ہی ناک
بھوں سکوڑ نے لگتا ہے۔
فریدی
نے اخبار صوفے پر رکھ کر کمرے میں ٹہلانا شروع کر دیا۔
’’ یا
رب العالمین۔ حمید آہستہ آہستہ بڑ بڑیا۔’’ اس گنہگار کو ہر قسم کے آفات سے محفوظ
رکھیں۔
’’
حمید!‘‘ فریدی نے کہا ’’ کیا تمہیں یاد ہے۔ براؤن نے ایک مورتی کا تذکرہ کیا تھا‘‘۔
’’کون براؤن‘‘۔
’’وہی جو پچھلے سال اسکاٹ لینڈ سے یہاں آیا تھا‘‘۔
’’اوہ..... وہ سرا فرساں چیف انسپکٹر براؤن ‘‘۔ حمید نے کہا۔ ’’
لیکن میرے سامنے کسی مورتی کا تذکر ہ نہیں آیا تھا‘‘۔
’’
اس نے ایک عجیب وغریب پل کی مورتی کا تذکرہ کیا تھا جس کی وجہ سے لندن میں کافی ہیجان
بر پا ہو گیا تھا‘‘۔
’’ہیجان!‘‘
حمید نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’مورتی کی وجہ سے‘‘۔
’’
وہ مورتی لندن کے باہر آثار قدیمہ جارج مسلے کی ملکیت تھی۔ اسے کسی نے چرالیا اور
پھر عجیب و غریب وارداتوں کے سلسلے شروع ہو گئے‘‘۔
’’بھلا یہ کیونکر معلوم ہوا کہ دو و اردا تیں اسی مورتی کی
وجہ سے ہوئی تھیں ‘‘۔ حمید نے کہا ۔
’’اس
لئے کہ ایک باروہ مورتی ایک قتل کے سلسلے میں پولیس کے قبضہ میں آگئی تھی۔ لیکن کسی
نے اسے اسکاٹ لینڈیارڈ سے پھر اڑالیا۔
’’واقعی عجیب بات ہے ‘‘۔ حمید نے کہا۔’’اسکاٹ لینڈ یارڈ میں
چوری کرنا آسان کام نہیں۔
’’اس
مورتی کے ماتھے پر بھی ایک سینگ ہے‘‘۔ فریدی نے اخبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” براؤن نے جس مورتی کے بارے میں بتایا تھا۔
اس کے ماتھے پر بھی ایک سینگ تھا۔
’’لیکن وہ ہے کیا بلا۔ اسکے لئے قتل کیوں ہوئے۔ جارج فنلے نے
بھی اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا لیکن براؤن کا خیال ہے کہ اس نے دیدہ دانستہ اس کے
راز کو چھپانے کی کوشش کی تھی‘‘۔
’’اس
کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘حمید نے پو چھا۔
’’میں
خواہ مخواہ قیاس آرائی کرنے کا قائل نہیں۔
’’خیر ہوگا ‘‘۔ حمید نے لا پروائی سے کہا اور اخبار اٹھا کر
پڑھنے لگا۔
فریدی اور حمید آج کل تین ماہ کی چھٹی پر تھے۔ انہوں نے
ارادہ کیا تھا کہ گرمیاں شملہ میں بسر کریں۔ قریباً سارےانتظامات مکمل ہو چکے تھے۔
وہ شاید آج ہی شملہ کے لئے روانہ ہو جاتے لیکن اس درزی کی علالت کی وجہ سے جوان کےکپڑے
سی رہا تھا۔ انہیں دو ایک دن کے لئے توقف کرنا پڑا۔
’’حمید
!‘‘فریدی کہتے کہتے اچانک رک کر بولا۔
’’جی‘‘
’’ ہم لوگ شملہ
نہیں جائیں گئے‘‘۔
’’کیوں؟ ‘‘حمید
نے متعجبانہ انداز میں پوچھا۔
’’ہمیں آج ہی رات کی گاڑی سے رام گڑھ چلنا ہے‘‘۔
’’ آخر کیوں ؟‘‘
’’ضروری کپڑے تو ہمارے پاس کافی سے زیادہ ہیں۔ ہم درزی کی صحت
یابی کا انتظار نہ کریں گئے ‘‘۔
’’وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن اس کی وجہ ‘‘۔
’’پتیل کی مورتی‘‘ ۔
’’لا حول ولاقوۃ ‘‘۔ حمید بولا ۔ ’’ کیا آپ اسے تبّتی کے جرم میں گرفتار کر لیں گئے‘‘۔
’’حمید
زیادہ بکو اس اچھی نہیں ہوتی ‘‘۔
’’میں ہرگز ہرگز رام گڑھ نہ جاؤں گا ‘‘۔حمید جھنجھلا کر بولا۔
’’
تمہیں چلنا پڑے گا ۔ فریدی اس کی طرف مڑ کر بولا۔
’’قیامت تک نہیں جاؤں گا ۔ حمید نے کہا۔ ’’واہ یہ بھی اچھی رہی
یہ ہزار دقت تو چھٹی ملی ہے ....نہیں نہیں ....مجھ میں اب اتنی سکت نہیں رہ گئی کہ
خواہ مخواہ آپ کے ساتھ دوڑتا پھروں‘‘۔
’’ کاہل ....کام
چور!‘‘
’’مجھے قطعی چوٹ نہیں گئی ‘‘۔ حمید نے کہا۔’’
میں سو بار کاہل ہزار بار کام چور پھر ‘‘۔
’’تمہارا سر‘‘ ۔
فریدی نے کہا۔
’’مجھے اس سے بھی انکار نہیں ۔ حمید بولا۔
’’دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں چلتے ۔ فریدی نے کہا۔
’’میں آج رات کی گاڑی سے گھر چلا جاؤں گا‘‘ حمید نے جھنجھلا
کر کہا۔
’’جہنم
میں جاؤ ۔ فریدی نے کہا اور لائبریری میں چلا گیا اس کے چہرے سے معلوم ہور ہا تھا
جیسے وہ کسی شدید الجھن میں مبتلا ہے۔
ایک
گھنٹے کے اندر اندر اس نے میز پر کتابوں کا اچھا خاصا ڈھیرلگا لیا۔
یہ کتا میں ایشیائی فن بت تراشی سے متعلق تھیں۔
تھوڑی دیر بعد حمید بھی تنہائی سے اکتا کر لائبریری ہی میں چلا آیا۔ فریدی کو
کتابوں میں ڈوبا ہوا دیکھ کر اسے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ فریدی نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’آپ
نے بھی اپنی زندگی بربادب کر لی ....حمید نے کہا۔ ‘‘
تم یہاں
کیوں آئے ۔ فریدی نے کہا۔
اتنی
دیر میں حمید اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔
’’او
ہ ...تو یہ اسی مورتی کے سلسلے میں چھان بین ہو رہی ہے ‘‘۔ حمید نے جھک کر فریدی
کے سامنے کھلی ہوئی کتاب میں دیکھتے ہوئے کہا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ اچھل
پڑا۔
’’ارے
یہ تو بالکل اسی تصویرسےمشابہ ہے.... بالکل وہی ....ہو بہو وہی ‘‘۔ حمید حیرت سے
بولا۔
فریدی
نے کتاب بند کر دی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے حمید کی طرف دیکھنے لگا۔ بالکل اسی طرح
جیسے کوئی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے۔
’’ہمیں
رام گڑھ چلنا ہی پڑے گا۔ وہ اس طرح بولا جیسے کوئی خواب میں بڑ بڑاتا ہے۔
حمید
نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’سنا تم نے میں کہ رہا ہوں کہ رام گڑھ چلنا ضروری ہے ‘‘۔ فریدی
نے کہا۔ ’’اور اگر تم نہ جاؤ گے تو میں تنہا جاؤں گا۔ لیکن آپ یہ کیوں نہیں بتاتے
کہ آپ کی اس بے تابی کی وجہ کیا ہے ۔ حمید نے کہا۔ تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ایک
بار یہ مورتی میرے والد مرحوم کے قبضے میں آکر نکل گئی تھی ۔ فریدی نے کہا۔
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘ ۔ حمید نے حیرت کا اظہار کرتے
ہوئے کہا۔
’’
والد صاحب کے بارے میں تو تمہیں پہلے ہی سے بہت کچھ معلوم ہے وہ بھی میری ہی طرح
کارناموں کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ ایک بار یہ مورتی ان کے ہاتھ بھی لگی تھی لیکن
پھر پر اسرار طریقے سے غائب ہوگئی۔ یہ مجھے ابھی ابھی اس کتاب کے مطالعے سے معلوم
ہوا۔ انہوں نے کتاب میں چھپی ہوئی تصویر کے نیچے پیتل کی مورتی کے متعلق لکھا ہے
فریدی نے کتاب کو دوبارہ کھول کر دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو۔
حمید،
فریدی کے ہاتھ سے کتاب لے کر د یکھنے لگا۔
۲۰جنوری
۱۸۹۳ء
آج جب میں نے اس کتاب کا یہ صفحہ دیکھا تو مجھے دس سال قبل کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔
اسی تصویر سے بالکل ملتی جلتی ایک چھوٹی سی چیل کی مورتی مجھے ملی تھی لیکن وہ جس
حیرت انگیز طریقے سے مجھ تک پہنچی تھی اسی تحیر خیز طریقے پر غائب بھی ہوگئی ۔ ایک
رات گرمیوں کے زمانے میں میں اپنے پائیں باغ میں سور ہا تھا کہ دفعتًا کوئی میرے
پلنگ پر آکر گرا، میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا۔ ایک آدمی زخمی
ہو کر مجھ پر پڑا بری طرح ہانپ رہا تھا۔میں نے اُسے ہٹایالیکن دوسرے ہی لمحےمحسوس
ہوا کہ و ہ بے ہوش ہے۔ میں اسے اُٹھا کر اندر لےگیاوہ ایک انگریزتھا۔ تھوڑی دیرباد
ہوش آگیا ہو وہاں سے جانے کے لئے ضد کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بہت پو چھا کہ وہ
کون ہے اور کسی طرح زخمی ہو گیالیکن اس نے
اس کے متعلق بتانے سے انکار کر دیا۔ البتہ اس نے مجھے ایک مجلس کی مورتی نکال کردی
اور کہا کہ میں اسے اپنے پاس امانت رکھوں جیسے و ہ کسی موقعے سے آکر لے جائے گا۔
پھر اس واقعے کے تیسرے دن بعد اس کی لاش ایک نالے میں جاری پائی گئی۔ وہ مورتی میرے
پاس تقریباً ایک ہفتہ رہی پھر ایک دن غائب ہو گئی میں نے اس معمے کو سمجھنے کے لئے
ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن مایوسی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔
حمید
نے کتاب بند کر کے فریدی کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’یہ
سمیلی قوم کے سی جی لا کے دیوتا کی تصویر ہے سمیلی قوم رام گڑھ سے ڈیڑ ھ سومیل دوری
پر کنچار کے پہاڑی جنگلوں میں آباد ہے عملی قوم کے لوگ اب سے کئی ہزار سال پیشتر
تبت کے پوربی علاقے میں رہتے تھے۔ اس وقت بھی دو ہی دیوتا کی پوجا کرتے تھے۔ کسی
حادثے کی بنا پر وہ لوگ تبت سے آکر کچنار کے جنگلوں میں آباد ہوگئے۔ آج سے تین سو
سال قبل ایک انگریز سیاح نے انکشاف کیا تھا کہ اس قوم پر ایک انگریز عورت حکومت
کرتی ہے جسے وہ د یوی سمجھ کر پوجتے ہیں اور اس سے بھی دلچسپ ایک بات اور بھی ہے
وہ یہ کہ یہ دیوی ان پر تین سو سال سے حکومت کر رہی ہے۔
’’کیا مطلب ‘‘۔حمید نے تحیر کا اظہار
کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھلا وہ تین سو سال سے اب تک زندہ کیسے ہے؟‘‘۔
’’
اس کے لئے انہوں نے ایک خوف ناک طریقہ اختیار کیا ہے ۔ فریدی کچھ سوچتا ہو بولا ۔ ’’اس
ملکہ کے لئے وہ کسی نو جوان گوری نسل کے مرد کو پکڑ لاتے ہیں ملکہ کے ساتھ اس کی
شادی کر دی جاتی ہے اگر اس کے مرنے سے پہلے ملکہ مرگئی تو وہ اسے بھی قتل کر کے
ملکہ کے ساتھ ہی دفن کر دیتے ہیں۔ ملکہ کی ایک لڑکی جو سب سے زیادہ خوبصورت ہوتی
ہے اس کی جگہ ملکہ بنادی جاتی ہے اور اس کی بقیہ اولادیں دیوتا پرقربان کردی جاتی
ہیں۔ اسی طرح وہ اس ملکہ کی سفید نسل کو برقرار رکھتے ہیں ‘‘۔
’’واقعی
بہت وحشیانہ طریقہ ہے‘‘ ۔ حمید نے کہا۔
’’ آج کی مہذب
دنیا اس وحشی قوم کا وجود کس طرح برداشت کر رہی ہے ؟ ‘‘
’’مجبوری
ہے !‘‘ فریدی بولا۔’’ وہاں تک پہنچنا بہت دشوار ہے۔ انگریزوں نے سفید نسل کے ان
مظلوموں کو بچائے کے لئے کافی جدو جہد کی ہے۔ لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔
’’لیکن یہ راز دنیا کو کس طرح معلوم ہوا‘‘۔
’’
اس سیاح کے ذریعہ جس نے اس قوم کے حالات لکھے ہیں ۔ فریدی نے کہا۔
’’
اسے وحشیوں نے پکڑ لیا تھا اور اس کی شادی ملکہ وقت کے ساتھ کر دی تھی لیکن جب اسے
اپنے انجام کے متعلق معلوم ہوا تو وہ کسی طرح وہاں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
حمید
کسی سوچ میں ڈوب گیا۔
’’لیکن
آخر رام گڑھ جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘حمید نے پو چھا۔
’’
اس مورتی کو دیکھنے کے لئے جس کے لئے عرصہ دراز سے لوگ جدو جہد کرتے چلے آئے ہیں ‘‘۔
’’تو کیا آپ کواس کی امید ہے کہ آپ اسے دیکھ سکیں گئے۔
’’ کیوں نہیں ۔‘‘
’’جس چیز کے لئے وہ لوگ اپنی جانوں پر کھلتے چلے آئے ہیں کیا
اسے انہوں نے پولیس کے قبضے میں رہنے دیا ۔
خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ پولیس اس کے متعلق
خاص علم نہ رکھتی ہو۔ اس نے اسے احتیاط سے بھی نہ رکھا ہوگا‘‘۔
میں
جانتا ہوں ۔ فریدی نے کہا۔ وہ یقینا پولیس کے قبضے سے نکل گئی ہوگی‘‘۔
’’پھر حمید نے فریدی کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’
لیکن میں اس مورتی کے متعلق معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں لوگوں کی دلچسپیوں کا
مرکز بنی ہوئی ہے؟‘‘۔
ارے چھوڑیے بھی ہو گا کچھ خزانے وزانے کا چکر میں
نے اس قسم کے بہتیرے ناول پڑھے ہیں۔ وہ مورتی یقینًا کسی زمین دوز خزانے کا حال
بتاتی ہوگی‘‘۔
’’ہوسکتا ہے ۔ فریدی نے کہا۔‘‘ لیکن یہ تو سوچو۔ اس میں لطف
کرنا آئے گا‘‘۔
’’لطف
کیا آئے گا ۔ حمید نے کہا۔ ’’اگر آپ نے ان لوگوں کا سراغ لگا بھی لیا۔ جو اس کے
لئے جدو جہد کر رہے ہیں تو اس سے فائدہ ظاہر ہے کہ وہ لوگ اس جدوجہد کا مقصد کسی
طرح بھی ظاہر نہ ہونے دیں گے‘‘۔
’’خیر چھوڑو ان باتوں کو ‘‘۔ فریدی نے
کہا۔ ’’ تین ماہ کی چھٹی میں نے محض تفریح کی خاطر لی ہے اور رام گڑھ ایک بہترین
تفریح گاہ بھی ہے ‘‘۔
’’لیکن میں تو اسے تفریح گاہ ہر گز نہیں
سمجھتا‘‘۔
’’بھئی تم مت چلنا میرے ساتھ‘‘ ۔ فریدی
نے اکتا کر کہا۔’’ خواہ مخواہ بکواس کرنے سے کیا فائدہ ‘‘۔
’’تو کیا میں یہاں اکیلے رہ کر مکھیاں
ماروں گا؟‘‘
’’نہیں با قاعدہ ان کی پرورش کرنا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’عجب مصیبت میں جان ہے ‘‘۔ حمید جھنجھلا کر بولا۔
’’ پھر وہی فضول باتیں !‘‘ ارے میاں اب کون سی مصیبت ہے‘‘۔
’’کیا یہ کم مصیبت ہے کہ میں اتنے دنوں تک آپ سے دور رہوں گا‘‘۔ حمید
نے کہا۔
’’تو پھر چلو‘‘۔
’’ یہ مشکل ہے‘‘۔
’’ تو جہنم میں جاؤ‘‘۔
’’لیکن وہاں بھی اکیلے دل نہ لگے گا ‘‘۔ حمید نے ہنس کر کہا۔
’’اچھافی الحال لائبریری سے نکل جاؤ ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی
سے کہا۔
’’لیکن
جاؤں کہاں؟‘‘
’’ارے
تو میری کھوپڑی کیوں چاٹ رہے ہو بھائی ‘‘۔ فریدی نے عاجز آ کر اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’
لو میں ہی چلا جاتا ہوں‘‘۔
’’تو میں بھی چلتا ہوں
آپ ہی کے ساتھ ‘‘۔
’’بھئی
مجھے پریشان مت کیا کرو ‘‘۔ فریدی بے دلی سے بولا ۔
’’تو
آپ کب چل رہے ہیں رام گڑ ھ‘‘۔
’’تم سے مطلب !‘‘۔
’’بغیر
مطلب نہیں پوچھ رہا ہوں‘‘۔
’’میں
تمہیں نہیں لے جاؤں گا ۔ فریدی نے کہا۔
’’تو
میں آپ کے کاندھے پر تو چڑ ھ کر جاؤں گا نہیں‘‘۔
’’نہیں بھئی تم اس بار
میر اساتھ نہ دے سکو گئے ۔ فریدی نے تنگ آکر کہا۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ یہ میرا
آخری کارنامہ ہو‘‘۔
’’معلوم نہیں آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں ‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’ مجھے کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے ‘‘۔
’’تب
تو میں آپ کا ساتھ کسی طرح نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔
’’اماں
تم تو جان کو آجاتے ہو‘‘۔
’’کچھ
بھی ہو مجھے تو اب چلنا ہی پڑے گا‘‘۔
’’اچھا
اچھا بابا۔ اب جاؤ بھی مجھے کچھ ضروری چیزیں دیکھنی ہیں ۔ فریدی نے کہا اور پھر
کتابوں کا ڈھیر الٹنے پلٹنے لگا۔
2
مڈبھیڑ
آخر وہی
ہوا جس کا ڈر تھا۔ رام گڑھ پہنچنے پر فریدی کو معلوم ہوا کہ وہ مورتی پولیس کے
قبضے سے بھی نکل گئی ہے۔ سپر نٹنڈنٹ پولیس مسٹر ماتھر کوفریدی کے استفسار پر حیرت
ضرور ہوئی لیکن پھر فریدی نے اسے مطمئن کر دیا کہ اس نے یونہی با لامقصد اس مورتی
کا تذکرہ کیا تھا۔ ماتھر نے اسے بتایا کہ وہ مورتی اسی کے پاس تھی۔ اس کا ارادہ
تھا کہ وہ اسے عجائب خانے کے منتظم کے حوالے کر دے گا۔ لیکن وہ کہیں گم ہوگئی ہے
اور ماتھر نے اسے کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اسے تو ان ماہرین آثار قدیمہ
پرانسی آرہی تھی جنہوں نے اس مورتی کے متعلق زمین و آسمان کے قلابے ملا کر رکھ دئے
تھے ۔ ہوگی بھئی چندر گپت کے زمانے کی لیکن اس سے آج کی دنیا کو کیا فائدہ پہنچ
سکتا ہے!
حمید کو ہنسنے کا موقع مل گیا تھا ۔ وہ ہر وقت فریدی کو چھیڑ
تا رہتا اٹھتے بیٹھتے پیتل کی مورتی کا تذکرہ چھیڑ کر اس کےسراغرسانی کے جنون کا
مضحکہ اڑاتا آج بھی دو صبح سے اسے بری طرح تنگ کر رہاتھا۔ اس وقت شام کو جب دونوں ٹہلنےکے
لئے نکلے تو حمید نے اسے پھر چھیڑ نا شروع کر دیا۔
’’ ارے وہ کیا ‘‘۔ حمید نے کیا۔
’’کہاں
‘‘۔ فریدی نے پوچھا۔
’’وہ اُدھر!‘‘۔
’’کچھ
تو نہیں‘‘۔
’’میں
سمجھا شاید پیتل کی مورتی پڑی ہے‘‘۔
’’آخر
تم میرا مضحکہ اڑانے پر کیوں اتر آئے ہو‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’ آپ نے کام ہی ایسا کیا ہے‘‘۔
’’بھئی
تم مجیب آدمی ہو... آخر تم میرے ساتھ آئے ہی کیوں ؟‘‘
’’ اس لئے کہ اب آپ کو یہاں سے واپس لے جاؤں‘‘ ۔ حمید نے
کہا
’’قطعی
غلط فریدی بولا ۔ ’’ میں چھٹیاں یہاں
گزاروں گا‘‘۔
’’وہ
مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا‘‘۔ حمید نے کہا۔ ’’ واقعی بزرگوں کے اقوال کا قائل ہونا
ہی پڑتا ہے‘‘۔
’’ کیسے اقوال‘‘۔
’’یہی کہ بیوی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے‘‘ ۔
’’ لاحول ولا و
قوة‘‘۔
حمید خاموش ہو گیا۔ شاید اسے کوئی معقول جملہ نہیں سوجھ سکا
تھا۔
’’پوپی
....پوپی ‘‘۔ فریدی نے اپنے ننھے منے کتے کو پکارا جو سڑک پار کر کے دوسری طرف
بھاگنے لگا تھا۔
’’بھلا
بتائیے ان پوپیوں سو پیوں کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘‘۔ حمید نے بُر اسامنہ
بنا کر کہا۔
’’ اگر بیوی ہوتی تو ان کے بجائے اسے لے آتا ۔ فریدی ہنس کر
بولا۔
’’میں
کہتا ہوں آپ اپنی زندگی فضول پر باز کر رہے ہیں ۔
’’بس
آپ ہی کو خانہ آبادی مبارک رہے۔ خاکسار کو تلقین کی ضرورت نہیں ‘‘۔ فریدی بولا ۔
’’اچھا تو کب تک یونہی سڑکیں ناپتے رہیں گے ۔ چلئے سامنے
والے پارک میں چل کر بیٹھیں۔
’’میراخیال
ہے ہم ایک فرلانگ بھی نہیں چلے۔ فریدی نے کہا۔’’ اوہ اچھا تو یہ بات ہے وہاں وہ نیلی
پیلی ساڑیاں جو لہرارہی ہیں۔ خیر جناب چلئے‘‘۔
یہ دونوں پارک میں آئے۔ پولی اپنی ننھی منی گنجان بالوں والی
دم لہراتا ہو ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ دفعتاً ایک السیشن کلاس پر جھپٹا قبل اس کےکہ فریدی آگے بڑھ کر اسے
چھڑاتا۔ السیشن کتے نے اسے دو تین پٹکینیاں سے کیا۔ ایک طرف سے ایک خوبصورت انگریز لڑکی چیختی ہوئی کتے کی طر دوڑی اور پوپی کو اسے چھین
کر گود میں اٹھایا جس بنچ پر سے وہ لڑکی آ
ئی تھی اس پر ایک انگریز مر دبھی بیٹا تھا۔ فریدی جھلاہٹ میں اس کی طرف بڑھا۔
’’کیوں
جناب یہ کتاآپ کا ہے ؟ ‘‘فریدی نے اس سے پوچھا۔
’’ کیوں!‘‘ اس نے فریدی کو دتیکھی نظروں سے گھور کر پو چھا۔
’’وہ
اس لئے کہ اس نے میرے کتے کو قریب قریب ختم ہی کر دیا ہے ۔
’’تو
میں کیا کروں‘‘ ۔ وہ لاپرائی سے بولا ۔
’’اس قسم کے وحشی
کتے آز ادر کھے جاتے ہیں ‘‘۔ فریدی نے تیز لہجے میں کہا۔
انگریز نے کوئی جواب دینے کے بجائے نفرت سے منہ
پھیر لیا۔
’’
مسٹر مجھے افسوس ہے لڑکی نے فریدی کے قریب آ کر کہا پھر اپنے ساتھی انگریز سے
مخاطب ہو کر بولی۔
’’ ٹام
تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ احمق ہو جاتے ہو‘‘۔
’’تو اب میں کیا
کروں کتا ہی تو ہے ‘‘۔ انگریز بولا۔
’’
اگر یہی بات ہے تو ٹھہر و میں بھی ایک منگا تا ہوں‘‘ ۔ فریدی نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’جاؤ جاؤ مت
دماغ چاٹو ۔ انگریز گرج کر بولا۔
’’اچھا تو اگر
تم اپنے باپ کے بیٹے ہو تو اس وقت تک یہاں ٹھہروجب تک کہ میر اکتا بھی یہاں نہ
آجائے‘‘۔
لڑکی
اپنے ساتھی کو پھر بُرا بھلا کہنے لگی۔ لیکن شاید اس پر جھگڑا کرنے کا جنون سا طاری
ہو گیا تھا۔ اس نے فریدی کا چلینج منضورکر لیا۔
’’حمید!‘‘ فریدی حمید کی طرف مڑکر بولا۔’’یلوڈنگو‘‘۔
حمید زخمی پو پی کو گود میں اٹھا کر پارک سے باہر نکل گیا۔
فریدی نے جو کتامنگوایا تھا وہ دنیا کی خطر ناک ترین افریقی نسل سے تھا۔
بات کافی بڑھ گئی تھی۔ لڑکی کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا
کہ دو بری طرح گھبرائی ہوئی ہے۔ اس کے بر خلاف اس کے ساتھی کی آنکھوں سے نفرت اور
حقارت جھلک رہی تھی ۔ یہ ایک جوان العمر اور تندرست آدمی تھا۔ اس کے بھاری اور غیر
مناسب جبڑے اس کی سفا کا نہ طبیعت کا اظہار کر رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد حمید ایک سرکش کتے کی زنجیر تھامے پارک میں
داخل ہوا۔ السیشن انگریز کے پیروں کے پاس پڑا اونگھ رہا تھا۔ فریدی کے کتے یلوڈنگ
کی مد پر چونک کر بیٹھ گیا۔ فریدی نے اپنے کتے کے پٹےسے زنجیر الگ کر لی یلونڈنگو کو دیکھ کر انگریز کے کتے نے غرانا شروع کیا۔ ڈنگوپہلے
تو اسے خاموشی سے گھورتا رہا۔ پھر ایکا ایک اس پر جھپٹ پڑا۔ لڑکی چیخ کر بینچ پر کھڑی ہوگئی ۔ انگریز بھی ایک طرف ہٹ گیا۔ چند
لمحوں کے بعد السیشن نے ایک خوفناک چیخ ماری اور زمین پرڈھیرہو گیا ۔
فریدی نے اپنا ریوالور جیب میں ڈال لیا انگریز جیسے ہی
پستول اٹھانے کے لئے جھکا دو پو لیس کا نسٹل آکر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ حمید نے
یلوڈنگوکے سامنے زنجیر ڈال دی اور فریدی
کا اشارہ پاتے ہی وہ پارک سے کتے سمیت روانہ ہو گیا۔ کچھ لوگ دور بیٹھے ہوئے کتوں کی
لڑائی ضرور دیکھ رہے تھے لیکن انہوں نے صرف انگریز کو پستول نکالتے ہوئے دیکھا
تھا۔ فریدی کی طرف وہ اس وقت متوجہ ہوئے جب وہ اپناریولور جیب میں رکھ چکا تھا۔ یہ
سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں سکا ۔ انگریز کے گرد
بھیڑ اٹھی ہوری تھی اور فریدی وہاں سے جاچکا تھا۔
انگریز چند پڑھے
لکھے آدمیوں کی مدد سے پولیس کو سارا واقعہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس کے
باوجود بھی اسےقریب کے تھانہ میں جاناہی پڑا۔
ادھر حمید بوکھلایا ہوا اپنی جائے قیام پر پہنچا اسے رہ رہ
کرفریدی کی اس حرکت پر غصہ آرہا تھا ۔ بھلا یہ کیا صحافت کی ۔ بیٹھے بجائے ایک نئی
مصیبت ۔ اگر وہ انگریز فریدی کی گولی سے زخمی ہو گیا ہو تو وہ انہیں خیالات میں دیر
تک الجھار ہا۔ تقریباًد و گھنٹے گزر گئے لیکن فریدی کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس دوران
میں اس نے کو تو الی کے دو چکر لگائے لیکن نہ معلوم ہو سکا کہ فریدی کہاں ہے البتہ
پارک کے حادثے کے متعلق کئی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں ۔ یہ سب ایک پر اسرار آدمی
کے متعلق تھیں جس کے کتے سے ایک انتہائی تو انا اور تندرست السیشن کو موت کے گھاٹ
اتار دیا تھا اور اس کے نشانے کی تعریفوں کے پل باند ھے جارہے تھے کہ اس کی گولی
انگریز کے پستول پر تھی اور وہ ہاتھ سے نکل گیا،.... خیر حمید کو یہ معلوم کر کے
اطمینان ہوا کہ انگریز زخمی نہیں ہوا۔ خود سے تعجب ہونے لگا کہ اتنی جلدی میں فریدی
اتنا کامیاب نشانہ کیسے لے سکا۔ لیکن اسے یہ سوچ کر الجھن ہوری تھی کی پولیس اس
معاملے کی تحقیقات ضرور کرے گی اور اگر یہ چیز ظاہر ہوگئی تو بڑی سبکی ہوگی ۔ وہ
فریدی کی نیک نامی پر ایک ہلکا سا دہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ چہ جائیکہ اس
پر قانون شکنی کا الزام عائد ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس انگریز اور اس کی ساتھی لڑکی
نے ہم لوگوں کو اچھی طرح پہچان لیا ہو گا۔ اب اگر کہیں اور مدبھیڑ ہوگئی تو پریشانیوں
کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ فریدی کے آتے ہی وہ ا سے واپس
چلنے کا مشورہ دے گا۔ لیکن اسے اس کی ایک فی صدی بھی توقع نہیں تھی کہ فریدی اس کے
مشورے پر عمل کرے گا۔ وہ اس کی ضدی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا جب تک کہ وہ کم بخت
پیتل کی مورتی مل نہ جائے گی اور فریدی اس کو دریافت نہ کر لے گا ، اس کا یہاں سے ہلنا
ناممکن ہے۔
دس بج گئے تھے لیکن
فریدی نہ لوٹا۔ رات حددرجہ تاریک تھی۔ آسمان میں غبار ہونے کی وجہ سے ستارے بھی
مدھم پڑ گئے تھے ۔ رام گڑھ کی حسین پہاڑیاں تاریکی کی چادر اوڑھے خاموش کھڑی تھیں
۔ پہاڑی جھینگروں کی تیز آوازوں نے ماحول میں ایک عجیب قسم کی ویران یکسانیت پیدا
کر رکھی تھی۔ کبھی کبھی بھٹکے ہوئے تیتر کی صدا سناٹے میں لہرا کر رہ جاتی ۔ حمید برآمدے میں بیٹھا
فریدی کا انتظار کر رہا تھا اس نے ابھی تک کھانا بھی نہ کھایا تھا۔ حمید کی تشویش
بڑھتی جاری تھی وہ سوچ رہا تھاکہ کہیں فریدی کسی مصبیت میں نہ پھنس گیا ہو ۔
اسے کچھ دور اندھیرے میں
قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ دوسرے لمحےمیں فریدی اس کے سامنے
کھٹر امسکرارہا تھا۔
’’اور
اب آپ اس طرح مسکرا ر ہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو‘‘۔ حمید جھلا کر بولا ۔
’’بگڑ ومت پیارے ۔‘‘ فریدی چہک کر بولا ۔ ’’مہینوں کی منزل
گھنٹوں میں طے کر کے آرہا ہوں‘‘۔
’’خواہ
مخواه اتنی دیر پریشان کرڈالا‘‘۔حمید نے بیزاری سے کہا۔
’’معلوم
ہوتا ہے کہ اب شوہر پرست بیوی کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دو گے ‘‘۔ فریدی ہنس
کر بولا ۔
’’بس
بس رہنے دیجئے ‘‘۔ حمید منہ سکوڑ کر بولا‘‘ ۔ ’’ ابھی بتاؤں گا تو جو اس گم ہو جائیں
گے‘‘ ۔
’’کیوں؟
کیا ہوا ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ و و انگر یزبرُی طرح زخمی ہو گیا ہے‘‘۔
’’بہت
اچھے ‘‘۔ فریدی قہقہ لگا کر بولا۔ شاید تم افیونیوں کی محفل سے اٹھ کر آئے ہو‘‘ ۔
’’خیر
مجھے کیا ابھی سب کچھ معلوم ہو جائے گا‘‘۔
’ ’
جی مجھے سب کچھ معلوم ہے ۔ فریدی مسکرا کر بولا۔
میں اتنا اناڑی نشانہ باز نہیں ہوں‘‘۔
’’ خیر دیکھا
جائے گا ‘‘ حمید نے کہا۔ لیکن آپ کو یہ کیا
سوجھی تھی!‘‘ ۔
’’بھئی کیا
بتاؤں غصہ ہی تو ہے آ گیا !‘‘فریدی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’پولیس نے اس کی
رپورٹ درج کر لی ہے ۔ کر لی ہوگی ۔ فریدی نے لا پروائی سے کہا۔
’’دیکھئے جناب
حمید نے کہا۔ ’’ہر جگہ یہ لاٹ صاحبی کام نہیں آسکتی اگر ہم لوگ اس معاملے میں پھنس
گئے تو بڑی بے عزتی ہو گی۔
’’اچھا جی فریدی
ہنس کر بولا۔ آج کل بڑے عاقبت اندیش ہور ہے ہو ؟‘‘
خیر مار دیتے گولی مجھے کیا حمید نے اٹھتے ہوئے کہا۔
بھوک کے مارے برا حال ہو گیا ۔“
’’جی نہیں !‘‘ حمید منہ پھلا کر بولا ۔
’’واقعی
تم میں ایک سعادت مند بیوی بنے کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ؟‘‘
حمید کوئی جواب دیے بغیر سیدھا ڈرائنگ روم کی طرف چلا گیا
کھانے کی میز پر تھوڑی دیر خاموشی رہی ۔ پھر فریدی نےگفتگو کا سلسلہ شروع کر دیا۔
’’مجھے
ہرگز توقع نہیں تھی کہ اتنی جلدی اور اتنے ڈرامائی انداز میں کامیابی ہوگی‘‘۔
’’اسے
محض اتفاق سمجھنا چاہئے کہ میں انہیں لوگوں سے الجھ پڑا جن کی تلاش تھی‘‘۔
’’ کیا مطلب‘‘ ۔ حمید چونک کر بولا۔
’’پیتل
کی مورتی ‘‘۔ فریدی جھک کر حمید کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
’’لا
حول ولا قوۃ‘‘۔حمید نو الا پلیٹ میں رکھ کر کھڑا ہو گیا۔
فریدی نے قہقہ لگایا۔
’’ بھلا کھانے پر غصہ اتارنے سے کیا فائد؟‘‘فریدی نے کہا۔ بیٹھو
بیٹھو حمید بیٹھ گیا۔ لیکن اس کے چہرے پر بیزاری کے آثار نظر آ رہے تھے۔
’’بھئی
تم سن کر اچھل پڑو گئے‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔
’’جی
نہیں کوئی ایسی بات نہیں سننا چاہتا جس سے مجھے خواہ مخواہ اچھلنا کودنا پڑے۔
’’ وہ لڑکی تھی نہ
....‘‘فریدی مسکرا کر بولا‘‘۔خیر چھوڑو ہٹاؤ‘‘۔
’’اوہ اسے تو میں بھول ہی گیا تھا ‘‘۔ حمید نے جلدی سے
پوچھا۔
’’ کافی خوبصورت ہے ۔ فریدی نے کہا۔
’’واقعی ایسی لڑکیاں کم
دیکھنے میں آتی ہیں حمید بولا ۔ ’’ غضب کی ہے‘‘۔
’’میں
وہ انتظام کر رہاہوں کہ تمہیں کچھ دن اس کے ساتھ رہنا پڑے گا ۔ فریدی سنجیدگی سے
بولا ۔
حمید کی رال با قاعدہ طور پر ٹپکنے لگی۔
’’کیا
تم اس کے ساتھ رہنا پسند کرو گے۔ فریدی نے پوچھا۔
’’شاید
آپ کوئی بہت ہی خطرناک قسم کا مذاق کرنے والے ہیں حمید بولا ۔
’’نہیں
میں بالکل سنجید ہوں‘‘۔
حمید خاموش ہو گیا۔
’’جانتے
ہو وہ کون ہے؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’بھلا
میں کیا جانوں‘‘۔
’’ جارج فنلے کی لڑکی جو لیا۔
’’جارج
فنلے۔ حمید چونک کر بولا۔ یہ نام کہیں سنا تو ہے‘‘۔
’’میری
ہی زبانی سنا ہے ‘‘۔ فریدی مسکرا کر بولا۔
’’وہ
کون ہے؟‘‘
’’لندن
کا ایک ماہر آثار قدیمہ ۔
حمید کچھ سوچنے لگا۔ پھر یکا یک اس کے چہرے پر نفرت کے آثار
پیدا ہو گئے ۔ اس نے فریدی کو گھور کر دیکھا۔ جوقاب سے شور با نکال کر اپنی پلیٹ میں
ڈال رہا تھا۔
’’پھر وہی پیتل کی مورتی...خدااسے غارت کرے‘‘۔حمید جھلا کر بولا۔
’’تو تمہیں جولیا پسند نہیں آئی۔‘‘فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’جہنم میں گئی جولیا‘‘۔حمید منہ سکوڑ کر بولا۔
’’پھر تو میں ہی اس سے عشق کروں گا۔‘‘
’’آپ کی مرضی‘‘۔
تھوڑی دیر کے لیےپھر خاموشی چھا
گئی۔فریدی کھانا کھا چکا تھا۔حمید خیالات میں دوبا ہواآہستہ آہستہ منہ چلا رہا
تھا۔فریدی اُٹھ کر ٹہلنے لگا۔
’’لیکن جارج فنلے یہاں کہا؟‘‘
’’یہی چیز قابل غور ہے‘‘۔فریدی نے
کہا۔
’’بہت ممکن ہے کہ اس نے بھی اخبارات
میں مورتی کے متعلق پڑھا ہو۔‘‘حمید نے کہا۔
’’نہیں!وہ اس واقعے کے پہلے سے یہاں
موجود ہیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘حمید نے کہا۔’’لیکن یک بیک
آپ کو اس کی اطلا ع کیسے ہوئی‘‘۔
’’محض اتفاق‘‘۔فریدی نے کہا۔’’آج واقع
کی رپورٹ انہوں نےتھانے میں درج کرادی ہے اسی رپورٹ کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا جارج
فنلے اس کی لڑکی جولیا اور سر پھرا انگریز کیپٹین آرتھر یہاں ایک ماہ سے مقیم
ہیں۔‘‘
’’وجہ‘‘
’’سیاحت‘‘
’’ہوں۔تو اب مجھے کچھ کچھ عقل آرہی
ہے۔’’لیکن عقل کے ساتھ تھوڑی ہمت بھی درکار ہے‘‘۔
’’تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت وہ
پیتل کی مورتی انہیں لوگو ں کے قبضے میں ہے‘‘۔
’’قظعی‘‘
’’اور آپ کا ارادہ ہے آپ اُسے ان کے
پاس سے اُڑا دیں۔‘‘حمید نے پوچھا
’’نہیں بھئی بھلا اس سے کیا فائدہ‘‘۔
’’تو پھر آپ میرے لیے باہمت ہونے کی
دعائیں کیوں مانگ رہے ہیں۔‘‘
’’اس کی بھی وجہ ہے‘‘۔
’’کیا‘‘
’’ایک لمبی داستان‘‘
’’یعنی‘‘
’’جارج فنلے کی پارٹی عنقریب مشرق کی طرف سفر کرنے والی ہے‘‘۔
’’بڑی خوشی ہوئی۔میری دعائیں اس کے
ساتھ ہیں‘‘۔حمید سنجیدگی سے بولا۔
’’اوور یہ بھی جانتے ہو‘‘۔فریدی نے اس
کی بات ان سنی کرکے کہا‘‘۔کچنار کا جنگل جہاں سمیلی قوم آباد ہے مشرق ہی کی طرف ہے‘‘۔
’’اوہ۔‘‘حمید غور سے فریدی کی طرف
دیکھنے لگا۔
’’جارج فنلے کا ساتھی کیپٹین آرتھر
ایک زمانے میں یہاں محکمہ جنگلات کا آفسر تھا ۔غلباً وہ جارج فنلے
کی رہنمائی کرے گا‘‘۔
’’مگر یہ جارج فنلے صاحب اس خطرناک
مہم پر اپنی صاجزادی کو کیوں لے جارہا ہیں‘‘۔
’’محض اسی لئے کہ میاں حمید اسی
بہانےاپنے دوست اور بھائی فریدی کا ساتھ
دے سکیں‘‘۔
’’یعنی تو آپ بھی اس پارٹی کے ساتھ
سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔حمید جلدی سے بولا۔
’’قطعی‘‘
’’بھلا اس سے کیا فائدہ!‘‘
’’دونوں اپنی اپنی لیاقت کے مطابق تفریح کرسکیں گے۔میں اس سفر سے لطف اٹھاؤں گا اور تم اس لڑکی نیلی
آنکھوں میں گیتوں کے جزیزے تلاش کرنا‘‘۔
’’تو کیا واقعی آپ جان دینے پر تلے
ہوئے ہیں۔‘‘حمید نے کہا۔
’’تمہیں یہ خیال کیسے پیدا ہوا؟‘‘
’’ظاہر ہے کہ آرتھر اور جولیا ہم
لوگوں کو دیکھتے ہی پہچان لیں گے‘‘۔
’’اوہ‘‘فریدی مسکرا کر بولا‘‘۔تم اس
کی فکر نہ کرو‘‘۔
’’میں نہایت سنجیدگی سے عرض کررہاہوں
کہ میں سفر کے لئے تیار نہیں ‘‘۔حمید نے
کہا۔
’’میں نہایت صدق دل سے کہتا ہوں کہ
تمہیں اس کے لیے مجبور نہیں کروں گا‘‘۔فریدی نے کہا اور سگار سلگا کر ہلکے ہلکے کش
لینے لگا۔
’’لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ
اکیلے سفر کریں‘‘۔
’’پھر تم چاہتے کیا ہو‘‘
’’یہی کہ آپ اپنا ارادہ قطعی ترک کر
دیجیے۔‘‘
’’یہ نا ممکن ہے‘‘۔
’’نپولین کا قول ہے کہ دنیا میں کوئی
چیز نا ممکن نہیں‘‘۔حمید مُسکرا کر بولا۔
فریدی کچھ کہنے ہی جارہا تھا کہ وہ
چونک پڑا۔حمید چپ رہنے کا اشارہ کرکے وہ آہستہ سے بولا۔’’یہ غراہٹ کیسی تھی ؟‘‘۔
’’اونہہ ہوگا کوئی کتاممکن ہے اپناہی کرتا ہو ‘‘۔ حمیدنے لا پروائی
سے کہا۔
’’نہیں یہ اپنے کتے کی آواز نہیں ۔ فریدی نے کہا اور اٹھ کر
کھڑکی کے قریب چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد غراہٹ کی آواز پھر سنائی دی۔ فریدی کی نگاہیں
باہر اندھیرے میں بھٹک رہی تھیں۔ کچھ اور ٹارچ کی روشنی میں اسے ایک بڑا سا کتادکھائی
دیا۔ ٹارچ کسی آدمی کے ہاتھ میں تھی جس کی روشنی میں صرف اس کے پیر دکھائی دے رہے
تھے۔ کتاز مین پر سونگھ کر غرارہا تھا۔ فریدی نے کمرے کی روشنی گل کردی۔
’’یہ کیا کیا آپ نے‘‘۔ حمید جلدی سے بولا۔
’’خاموش‘‘ فریدی نے آہستہ سے کہا اور تیزی سے دوسرے کمرے میں
چلا گیا تھوڑی دیر میں پوری عمارت تاریک ہو گئی۔ حمید اب تک کھڑکی کے قریب کھڑا حیرت
سے اس کتے کو دیکھ رہا تھا۔ کتاکسی جگہ گویا جم کر رہ گیا۔ وہ بار بار زمین
سونگھتا اور پھر سر اٹھا کر غرانے لگتا۔ اس کے پاس کھڑا ہوا آدمی ادھر ادھر ٹارچ کی
روشنی ڈال رہا تھا ۔ چاروں طرف سناٹاتھا۔ قرب و جوار کی عمارتیں بھی تاریک تھیں۔ حمید
کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ فریدی نے مکان کی روشنی کیوں گل کردی
اور وہ کہاں چلا گیا۔
اس آدی کی ٹارچ کی روشنی ادھر ادھر ک عمارتوں پر رینگتی ہوئی
پھر کتے پر آکر جم گئی۔ دفعتاً کسی طرف سے ایک فائر ہوا اور کتا اچھل کر دور جا
گرا۔ شاید یہ کتے کی آخری ہچکیاں تھیں۔ اندھیرے میں کوئی دور تک دوڑ تا چلا گیا ۔
پتھریلی زمین پر قدموں کی آواز آہستہ آہستہ دور ہوتی جارہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد
سکوت چھا گیا۔
3
فریدی
کی عجیب حرکت
حمید کی الجھن لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جارہی تھی۔ اندھیرے میں اس کا
دم گھٹنے لگا تھا۔ فائر کی آواز اور مرتے ہوئے کتے کے شور کی وجہ سے پاس کی کئی
عمارتوں میں روشنی نظر آنے لگی تھی۔ کچھ لوگ باہر بھی نکل آئے تھے۔ حمید نے بھی غیر
ارادی طور پر کمرے میں روشنی کر دی اور باہر نکل آیا چار پانچ آدمی جن کے ہاتھوں میں
ٹارچیں تھیں کتے کی لاش کو دیکھ رہے تھے ۔
یہ ایک کافی قوی اور خوفناک کتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد کچھ ایسی مضحکہ خیز قسم کی
قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ حمید کو الٹے پاؤں واپس آنا پڑا اسے ڈ رتھا کہ کہیں
وہ بے تحاشہ ہنسنا نہ شروع کر دے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا فریدی ایک آرام کرسی پردر
از سگار کے ہلکے ہلکے کش لے رہا تھا۔ اس کی رائفل کرسی کے بازو سے ٹکی ہوئی تھی۔ حمید
کو دیکھ کر مسکرایا۔
’’ آخر آپ نے یہ سب کیا اودھم مچارکھی ہے ‘‘۔ حمید نے
جھنجلا کر کہا۔
’’ خیر یہ بعد میں بتاؤں گا تم یہ بتاؤ کہ ڈنگو کو گھر تک
کس طرح لائے تھے ۔ فریدی نے پو چھا‘‘۔
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
’’مطلب یہ کہ و ہ اپنے پیروں سے چل کر یہاں تک پہنچا تھا یا کسی
اور طرح‘‘۔
’’آخر آپ یہ کیوں پو چھا ہے ہیں ‘‘۔
’’تم میرے سوال کا جواب دو‘‘۔ فریدی نے اکتا کر کہا۔
’’ کچھ دور تک مجھے اس کو گود میں لانا پڑا تھا‘‘ ۔
’’کیا اسی جگہ سے تو نہیں جہاں ہم نےابھی اس کتے کو دیکھا تھا ۔ فریدی
نے پو چھا۔
’’بہت ممکن ہے وہی جگہ رہی ہو ‘‘۔حمید نے کہا۔ وہاں پہنچ کروہ کسی
طرح آگے بڑھ میں نہیں رہا تھا۔ مجبورا ًمجھے اسے گود میں اٹھا نا پڑا۔
’’اوہ تو یہی وجہ تھی ۔‘‘ فرید ی بے ساختہ بولا ۔
’’آخر آپ کچھ بتاتے کیوں نہیں ‘‘۔ حمیدے بے صبری کا اظہار کرتے
ہوئے کہا۔
’’ابھی تم جس کتے کی لاش دیکھ کر آئے ہوا سے میں نے ہی مارا ہے‘‘ ۔
فریدی نے کہا۔
’’ لیکن کیوں۔ حمید بے تابی سے بولا ۔ آخر آج کتوں کے پیچھے
کیوں پڑ گئے ہیں ‘‘۔
’’اگر میں اسے
ٹھکانے نہ لگا دیتا تو اچھی خاصی مصیبت آجاتی اور میری بنائی ہوئی اسکیم خاک میں
مل جاتی‘‘ ۔ فریدی نے بجھا ہوا سگارایش
ٹرے میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اب ختم بھی کیجئے یہ پہیلیاں‘‘۔ حمید اکتا کر بولا۔
’’یہ
کتا بھی آرتھر ہی کا تھا۔ بہت خطرناک قسم کا بلڈ ہاؤنڈ (blood bound) اس کی سب سے
بڑی خصوصیت یہ ہےکہ یہ آپ اپنے شکار کی بو پا جانے پر اسے پاتال میں بھی نہیں
چھوڑتا ۔ آرتھر نے شاید اسے السیشن کی لاش سنگھا کر یلوڈنگو کے راستے پر لگا دیا
تھا۔ جہاں تک ڈنگو اپنے پیروں سے چل کر آیا
تھا اس نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا لیکن یہاں آخر وہ مجبور ہو گیا کیونکہ تم ڈنگ کو
یہاں سے گود میں لائے تھے یہ بھی ایک اتفاق تھا جس کی وجہ سے اس وقت بچ گئے ،ور نہ دوسری صورت میں سیدھا نہیں آتا اور
نت نئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا‘‘۔
’’تو یہ کہیئے ۔ حمید نے مسکرا کر کہا۔ ‘‘میں تو سمجھا تھا شاید
خدا نخواستہ‘‘۔
’’ دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ فریدی نے جملہ پورا کر دیا۔
’’بھلا میں یہ کیسے کہ سکتا ہوں‘‘حمید ہنس کر بولا ۔
’’ خیر..خیر...ختم
کرو یہ باتیں... اپنا ضروری سامان ٹھیک کر لو۔ ہمیں اسی وقت یہ مکان چھوڑنا ہے‘‘۔
’’جی‘‘۔ حمید چونک کر بولا۔ ’’ کیا مطلب‘‘۔
’’کسی ہوٹل میں چل کر ر ہیں گئے‘‘۔
’’آخر کیوں ؟‘‘
’’بھئی عجیب گھا مٹر آدمی ہو ۔ فریدی بولا ۔ ’’ اس علاقے میں اس
کتے پر گولی چلانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ یہیں کہیں رہتے ہیں ۔
’’تعجب ہے کہ اس
انگریز سے اس بری طرح خائف ہو گئے ‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’تم غلط سمجھےبات یہ نہیں ۔ فریدی نے کہا۔ آرتھر سے خائف
ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ڈر اس بات کا ہے کیا دوبارہ اس کا سامنا ہو گیا تو میں
اپنی اسکیموں کو عملی جامہ نہ پہنا سکوں گا‘‘۔
’’آخر وہ اسکیمیں معلوم تو ہوں ‘‘۔ حمید نے اکتا کر کہا۔
’’
اطمینان سے بتاؤں گا‘‘۔ فریدی نے کہا ۔ ابھی جو کچھ میں کہ رہا ہوں اس پر عمل کرو۔
حمید نے بادلِ نخواستہ اٹھ کر ضروریات کی
چیزیں اکٹھی کیں اور ایک سوٹ کیس میں رکھیں ۔ فریدی بھی انتظام میں مشغول ہو گیا۔
اس نے نوکروں کو ضروری ہدایات دیں اور انہیں ایک کثیر رقم دے کر اس وقت تک رام گڑھ
میں مقیم رہنے کے لئے کہا جب تک وہ واپس نہ آجائے ۔ ان نوکروں کو و ہ اپنے ہمراہ
لایا تھا اور یہ سب معتبر اور پرانے نوکر تھے۔
فریدی
اور حمید نے ایک ایک سوٹ کیس اور ہوائڈ ال اٹھا لئے اور گھر سے نکل کر باہر پھیلی
ہوئی تاریکی میں گم ہو گئے۔ تقریبًا ایک گھنٹے کے بعد و ہ ایک متوسط درجے کے صاف
ستھرے ہوٹل میں بحیثیت مسافر داخل ہو رہے تھے۔ انہیں رہائش کے کمرے مل گئے۔
’’ کہئے حضور والا آپ کو اطمینان میسر ہو یا نہیں ‘‘۔ حمید نے تھوڑی
دیر بعد کہا۔
’’ہاں آں ۔’’ فریدی چار پائی پر لیٹ کر حمید کی طرف کروٹ لیتا
ہوا بولا ۔’’ کیا پو چھنا چاہتے ہو!‘‘۔
’’ان سب بوکھلا ہٹوں کا مطلب !‘‘
’’ تم اسے بوکھلا ہٹ کہہ رہے ہو پیارے‘‘ ۔ فریدی مسکر ابولا ۔
’’جی نہیں بہت بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں آپ حمید طنذ یہ
انداز میں بولا۔
’’ خیرا کارنامہ میں انجام دے رہا ہوں۔ اس میں تم میرے
برابر کے شریک ہو گئے۔
’’ میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیجا ہو‘‘حمید بے زاری سے
بولا۔
’’ اس بار تمہیں پاؤں دھونے کا بھی موقع مل جائے گا ۔ فریدی
مسکرا کر بولا ۔
’’ میں نے واسکیم بنائی ہےکہ تم سن کر اچھل پڑو گے فریدی نے
کہا۔
’’ارشاد‘‘
’’جارج فنلے سفر
کے نئے ساتھی مہیا کر رہا ہے۔ آج بھی اس نے دس پہاڑیوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ تقریباً
پچاس آدمی اس کے ساتھ جائیں گے ۔ وہ جدھر جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ادھر کوئی با
قاعدہ راستہ نہیں ہے اس لئے سفر پیدل یا خچروں پر کیا جائے گا۔
’’تو پھر آپ کا
کیا کا ارادہ ہے ؟‘‘
’’ہم دونوں بھی
پہاڑی مزدوروں کی حیثیت سے اس پارٹی میں شامل ہو جا ئیں گئے ۔ فریدی نے کہا۔
’’بہت
خوب اور ڈیڑھ سو میل پیدل چل کر آخیر میں اللہ کو پیارے ہو جا ئیں گئے ۔ حمید نے
کہا۔
’’تم ہمیشہ ہر چیز
کا تاریک پہلوی دیکھتے ہو ۔ فریدی نے کہا۔
’’یہ
عادت اچھی نہیں تمہیں تو عورت ہونا چاہئے تھا۔
’’ہیں تو میری بدنصیبی ہے حمیدبولا۔ خیر آپ اپنا بیان جاری رکھئے۔
’’کل ہم دونوں پہاڑی مزدوروں کے بھیس میں جارج فنلے سے ملیں
گئے۔
’’لیکن اس سے فائد ہ، ہمارا پول جلدہی کھل جائے گا اس لئے کہ
ہم پہاڑی زبان نہیں جانتے ۔ حمید نے کہا۔
’’تم صرف اپنے متعلق کہہ سکتے ہو ‘‘۔ فریدی بولا ‘‘میں ادھر کی
زبان بخوبی بول سکتا ہوں۔
’’لیکن میں کیا کروں گا۔ حمید اکتا کر بولا ۔
’’تم گونگے بن جانا۔‘‘
’’کیا مطلب‘‘۔
’’تمہارے متعلق پہاڑیوں میں یہ مشہور کر دوں گا کہ تم گونگےہو
۔ فریدی نے کہا۔
’’بس بس معاف رکھئے خاکسار کو‘‘۔ حمید نے کہا۔’’ میں زندگی
بھر ایسا نہیں کر سکتا ۔
’’تو پھر کل تم گھر واپس چلے جاؤ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’خیر دیکھا جائے گا۔ حمید نے کہا۔ آپ اپنا پروگرام بتا ئے ۔
’’بس صرف اتنی سی بات کہ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ چلتا ہے ۔ فریدی
نے کیا۔
محض
اس مورتی کار از جانے کے لئے ؟‘‘ حمید نے کہا۔
’’لیکن یہ کوئی عقل مندی کی حرکت نہ ہوگی ۔ حمید نے کہا ۔ یہ
تو وہی مثل ہوئی کہ شکاری کا کھیلیں اور بے وقوف ساتھ پھریں‘‘۔
’’فی الحال اسے بے وقوفی ہی سمجھ لیں ۔ فریدی نے کہا میں مکمل
ارادہ کر چکا ہوں۔ اور اگر راستے میں آرتھر یا جولیا نے ہمیں پہچان لیا تو شامت ہی
آجائے گی ۔
’’تم مطمئن رہو۔ اس کی نوبت نہ آنے پائے گی ۔ فریدی نے کہا۔
’’میں تو پانچ سال سے مطمئن بیٹھا ہوں‘‘۔
’’
اماں تم عجیب آدمی ہو ۔ فریدی جھلا کر بولا ۔ ’میں تمہیں مجبور کب کرتا ہوں کہ تم
میرے ساتھ چلو تو میں کب کہ رہا ہوں کہ میں ساتھ نہ چلوں گا۔ لیکن چلنے کا جو طریقہ
آپ اختیار کرنے والے ہیں دو انتہائی تکلیف دہ ہو گا ۔ ہر قسم کی دقتوں کا سامنا
کرنا پڑ گا نہ تو ہمارے پاس قاعدے کے کپڑے ہوں گے اور نہ جوتے ۔ یار تم واقعی بڑے
عیاشی ہو۔ فریدی مسکرا کر ہوا ۔ اور اس
زندگی میں بھی تو آکر دیکھو کہ یہ تختی پر لطف ہے‘‘۔
’’خیر صاحب چھوڑئیے ۔ حمید نے جمائی لیتے ہوئے کہا ۔ اب چیند
آرہی ہے‘‘۔
4
روانگی
فرید
ی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ حمید
اور وہ جارج فنلے کے بار برداروں کی ٹوٹی میں شامل کر لئے گئے۔ فریدی نے دوخچر خرید
لئے تھے اگر وہ ایسانہ کرتا و شاید حمید کی ہمت نہ پڑتی ۔ ڈیڑھ سو میل کا پیدل سفر
آسان کام نہیں اور پھرایسے لوگوں کے لئے جن کی زندگی محنت اور مشقت سے دور گزری
ہو۔
تیسرے دن یہ کارواں
جو پچپن آدمیوں پر مشتمل تھا۔ مشرق کی طرف روانہ ہو گیا ان کے ساتھ میں خچربھی تھے
جن پر چھوٹے چھوٹے خمےاور دوسرا سامان لدا ہوا تھا۔ فریدی اور حمید کے خچروں پر
بہت تھوڑ اسامان تھا اس لئے وہ کبھی کبھی بیٹھ بھی لیتےتھے۔ حمید کوفر یدی پر حیرت
ہورہی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی ہو۔ وہی چال ڈھال
وہی وحشیانہ اندازویسی ہی جفا کشی و ہ شخص جو ہمیشہ نہایت محدود اور آرام دہ جوتے
استعمال کرتا تھا اس وقت اتنی آسمانی کے ساتھ پتھریلی زمین پر نگے پیر چل رہاتھا ۔
جیسے اس نے بھی جوتے پہنے ہی ہوں۔
حمید کا دم گھٹ رہا
تھا کیونکہ اس کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان روک دی گئی تھی ۔ فریدی کی اسکیم کے
مطابق وہ ایک ہونے کی حیثیت سے پارٹی میں شامل ہوا تھا۔ فریدی جب اس سے اشاروں میں
بات کرتا تو اسے بے ساختہ ہنسی آ جاتی اورفریدی اسے بری طرح گھورنے لگتا۔
فریدی نے کچھ اتنا گھناؤ بھیس بدلا تھا کہ بعض اوقات تو حمید
کا جی مالش ہونے لگتا وہ ایک ادھیڑ عمر کے پہاڑی مزدور کے بھیس میں تھا اس کے منہ
سے ہر وقت رال بہہ بہہ کر تھوڑی سے چلتی رہتی تھی۔ اسے وہ نہایت لا پروائی سے پھٹی
ہوئی قمیص کی آستینوں سے ہو پوچھ لیتا تھا۔
اس وقت وہ ایک خچرکی باگ ڈور تھا مےسے ایک موٹے سے بانس کا ڈنڈاٹیکتا لنگڑاتا ہوا نا ہموار راستے طے کر رہا
تھا۔ قافلے کی رفتار بہت آہستہ ست ہوتی جارہی تھی۔ قافلے کا راہبہر کیپٹن آرتھر پر
ڈالنے کے لئے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی خمیے نصب
کر دینا چاہتا تھا۔
شام کی سرد ہوتی ہوئی سرخی مائل دھوپ پہاڑیوں پر پھیلی ہوئی
تھی ہر طرف ایک پر اسرار سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایسا سناٹاجوپتھریلی زمین پر خچھروں
کی ٹاپوں کی آواز کے باجود بھی برقرار تھا۔ کبھی کسی پہاڑی عقاب کی تیز آو از دور
لہراتی چلی جاتی۔ آرتھر ، جولیا اور جارج فنلےاپنے اپنے خچروں سے اتر پڑے کا رواں
رک گیا ۔ ایک گھنٹہ کے بعد ویران چٹانوں کے درمیان کافی چہل پہل نظر آنے لگی جیسے
نصب کر دیئے گئے۔ جابجا آگ جلادی گئی دھند لکا تاریکی میں تبدیل ہو چکا تھا۔
مغربی
افق میں شوخ رنگوں کے لہرئیےسیاہی کے غبار میں دب کر آہستہ آہستہ دھندلے ہوتے
جارہے تھے۔
آرتھر مزدوروں کو رات کے کھانے کے لئے چاول اور خشک مچھلیاں
بانٹتا پھر رہا تھا۔ کسی جگہ رک کر مزدوروں کو کچھ ہدایات بھی دینے لگتا تھا ۔ وہ
پہاڑی زبان بخوبی بول سکتا تھا۔ اس نے شاید ادھر کی زبانوں سے اس وقت سیکھی تھیں جب وہ پہاڑی جنگلات کا افسر
تھا اس کے بر خلاف جارج فنلےاور جو لیامشرقی زبانوں سے بالکل ہی نا واقف تھے ۔ شاید
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آرتھر کو اپنا راہبر بنا یا تھا۔
آرتھر
اب فریدی کو اتنے ہی چاول دینے لگا جیتنےکہ اس نے دوسروں کو دئے تھے تو فریدی اس
سے الجھ پڑا۔
’’بھلا صاحب اتنے میں میرا کیا ہوگا فریدی نے کہا۔
’’کیا یہ کم ہے ار تھر تیز لہجے میں بولا ۔
’’اتنے ہی میں نے سب کو دیے ہیں ۔
’’صاحب میں ان سب سے زیادہ کام کر سکتا ہوں فریدی بولا۔
’’کیا کام کر سکتے ہو‘‘۔
’’بڑی بڑائی چٹا نیں لڑھکا سکتا ہوں۔ جنگلی جانوروں سے لڑسکتا
ہوں۔ ہاتھیوں کے سونڈ اکھاڑ سکتا ہوں۔ میں شیر کا بیٹاہوں۔ فریدی نے اپنی چھاتی پر
ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور پھر دوسرے مزدوروں کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ ان جوانوں میں
سے مجھے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے ایک ہاتھ پراٹھا کرکم ازکم
ایک میل تک لے جا سکتا ہوں‘‘۔
’’اوہ بڑے بہادر
ہو تم ‘‘۔
’’جی صاحب ‘‘۔
فریدی
کے قریب ہی ایک قومی ہیکل نوجوان پہاڑی مزدور کھٹرا اس کی ڈینگین سن رہا تھا۔ اسے
بے اختیار ہنسی آگئی ۔ تو کیا میں جھوٹ کہہ رہاہوں۔ میرے بیٹے۔ فریدی اس کی طرف مڑ
کر آستین سے اپنی رال پوچھتاہوا بولا ۔
’’نہیں
تم بالکل سچ کہہ رہے ہو ۔ وہ ہنس کر بولا۔
صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم لوگوں سے زیادہ پیٹوہو۔
’’دیکھو
میرے بچے تم ابھی مجھے نہیں جانتے ۔ فریدی نے کہا۔ تمہیں شاید اپنے تن وتوشی پر گمند
ہے۔ ذرا میرا پنجہ ہی موڑدو‘‘ فریدی نے اپنا پنجہ اس کی طرف بڑھا دیا ۔ آر تھر دونوں
کو دلچسپی سے دیکھنے لگا۔
نوجوان نے فریدی کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں
پھنسا ئیں اور زور کرنے لگا لیکن موڑ نا تو در کنار فریدی کے ہاتھ میں جنبش تک نہ
ہوئی۔
’’بس کر میرے
بچے ۔ فریدی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا۔ ’’مجھے تیری طاقت کا اعتراف ہے لیکن یہ پنجہ
لوہے کا ہے ‘‘۔
نوجو
ان مزدور نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا، دوسری طرف چلا گیا۔
’’واقعی
تم کافی طاقت ور ہو۔ آرتھر نے تحسین آمیز
لہجے میں کہا۔ اچھا یہ لواپنے چاول اور اب تو خوش ہو۔
’’خدا صاحب کا بھلا کرے۔
’’گونگا تمہارا لڑکا ہے‘‘آرتھر نے پو چھا۔
’’میر بھائی ہے صاحب‘‘۔
’’اس کا چاول اسے دیا جائے گا‘‘۔
’’ہاں
صاحب‘‘۔
ارتھر
آگے بڑھ گیا۔
’’حمید لکڑ ہاں
سلگارہا تھا۔ آگ پھونکتے پھونکتے اس کے آنسو بہہ چلےتھے۔ آگ تھی کہ جلنے کانام نہ
لیتی تھی۔ فریدی مسکراتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔
’’کیوں میاں حمید خیریت تو ہے ۔ فریدی اس کے پاس بیٹھ کر
آہستہ سے بولا۔
’’دیکھئے آپ خواہ مخواہ مجھے تاؤنہ دلائیے۔حمید نے جواب دیا۔
’’یار تم بہت
کمزور دل کے آدمی ہو۔
’’اب اس سفر میں میر از ندہ رہنامحال ہے ‘‘۔ حمید بولا۔
’’کیوں‘‘۔
’’یہ بھی کوئی
پوچھنے کی بات ہے ۔ حمید نے بے بسی سے کہا ‘‘ کہاں ہماری زندگی اور کہاں یہ پھتر یلی
چٹانیں میں کہتا ہوں کہ اگر مجھے چائے نصیب نہ ہوئی تو میر امر جانا یقینی ہے۔ درد
سے سر پھٹا جارہا ہے‘‘۔
’’گھبراتے کیوں ہو پیارے بہت جلد تمہاری چائے کا بھی انتظام
ہو جائے گا ۔ فریدی نے کہا۔ بہت جلد یہ لوگ مجھ میں رچی لینے پر مجبور ہو جائیں
گئے۔
’’بسں بیٹھے
ہوائی قلعے بنایا کیجئے ۔ حمید جل کر بولا۔
’’سن رہے ہو۔
بخدا جولیا کی آواز میں بڑی مٹھا س ہے ۔ فریدی نے مُسکر اکر کہا۔
’’ہو گی سالی‘‘ - حمید جھنجلا کر بولا۔
’’تمہاری جمالیاتی حِس کہاں مرگئی حمید؟‘‘
’’دکھئے میں اس
وقت باتیں کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں‘‘۔
’’خیر خدا کا شکر ہے کہ میں نے زندگی میں ایک بار تمہارے منہ
سے یہ جملہ سن لیا ‘‘۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
خدا
تمہاری قینچی کی طرح چلنے والی زبان کی مغفرت کرے آمین‘‘۔
’’حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے فریدی کے اور اپنے چاول ایک
بڑے سے تسلے میں ڈال کر آگ پر چڑ ھادیے تھے۔
’’یار اس طرح
ہمت نہ ہارو۔ دیکھو بہت جلد ہم لوگ اس پارٹی میں کوئی نمایاں جگہ حاصل کر لیں گئے۔
اتنی
نمایاں کہ شاید انہیں ہم کو اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑے۔
پھر
وہی عورتوں کی سی باتیں۔
’’ابھی ان دونوں میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک قوی ہیکل
مزدور ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔’’ ستا ہے، بڑے طاقتور ہوا ۔ وہ فریدی کی طرف دیکھ
کر مشتر یہ انداز میں بولا ۔
جا
بھائی جا اپنا کام کر مجھے چاول ابالنے ہیں ۔ فریدی لا پروائی سے بولا۔
’’مجھ
سے بھی لڑوگے‘‘۔پہاڑی خودور اکڑ کر بولا۔
’’نہیں بھائی میں بہت کمزور ہوں جامیر اد ماغ نہ چاٹ ۔ فریدی
نے کہا۔ اور جلتی ہوئی کنکریوں کو ہلائے جلانے لگا۔
’’لے
یار تو تو بڑا بودانکلا‘‘۔ پہاڑی ہنس کر
بولا۔
’’آخر تو چاہتا کیا ہے؟‘‘ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’کشتی!‘‘
’’اچھا چل پہلے صاحب سے پوچھ لیں لیکن پھر تجھے لڑنا ہی پڑے
گا‘‘۔ فریدی نے کہا۔
دونوں آرتھر کےخیمے کے سامنے آئے خیمےمیں جولیا
۔ آرتھر اور جارج ملے میٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’
کیا ہے؟ ‘‘آرتھر فریدی کوخیمے کے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا۔
’’ صاحب میں
اجازت لینے آیا ہوں‘‘۔
’’کس بات کی‘‘۔
’’یہ مجھ سے کشتی
لڑناچاہتا ہے ۔ فریدی نے مزدور کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
آرتھر
ہنسنےلگا پھر اس نے جارج فنلے کو فریدی کی شیخیوں کے متعلق بتا نا شروع کیا۔
’’
لیکن بہت گندا آدمی ہے‘‘۔ جو لیا ہونٹ سکوڑ کر بولی۔ ’’ دیکھو ر ال کسی برُی طرح
بہہ رہی ہے۔ لیکن میں ان کی لڑائی دیکھنا چاہتی ہوں۔
آرتھر
نے انہیں اجازت دے دی۔ جو لیا اور جارج فنلے بھی خیمے سے باہر نکل آئے ۔ فریدی اور
مزدور ایک دوسرے پرپل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد مزدور ہانپنے لگا۔
’’دیکھو بیٹا۔ فریدی نے کہا۔ تو ابھی تک مجھے نہیں اکھاڑ پایا
ہے اب سنھبل میں تجھے اکھاڑتا ہوں۔ فریدی نے کہا۔ فریدی نے زور کر کے اٹھایا اور
اپنے سر سے بلند کر کے بولا ’’ بول کدھر پھینکوں لیکن پھر آہستہ سے سامنے زمین پر
کھڑا کر دیا۔
’’جا بھاگ جا ۔جا کر اپنے چاول ابال بڑے بوڑھوں کے منہ نہیں لگا
کرتے شابش ‘‘فریدی نے کہا۔
دور کھڑے ہوئے
مزدوروں نے ہنسنا شروع کر دیا اور شکست خورد ہ
مزدور خود ہی کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا بولا ۔ ’’مان گیابا با واقعی تو استاد
ہے ‘‘۔ اور پھر وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا اپنی ٹولی میں جاملا۔
’’ واقعی بہت طاقت ور ہے ۔ جارج فنلےنے آرتھر سے کہا۔
’’ مگر بہت گندا مجھے تو بہت گھن آتی ہے ‘‘جولیا بولی اور
فریدی دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔
’’صاحب بولتے ہیں تم بہت طاقتور ہو‘‘۔ آرتھر نے فریدی سے کہا۔ لیکن
میم صاحب تم کو گندا کہتی ہیں۔ تمہارےمنہ سے رال بہتی ہے۔‘‘
’’صاحب میرے منہ میں چھالے ہیں جب وہ اچھے ہو جا ئیں گے تو رال خود
بخود بند ہو جائے گی‘‘۔
’’اوہ اچھا ہم تمہیں چھالوں کی دودیں گے‘‘ ۔ آرتھر نے کہا۔
’’لیکن صاحب اب میری طاقت بہت گھٹ جائے گی اور شاید میر ابھائی تو
مری جائے گا‘‘۔
’’کیوں ؟ ‘‘آرتھر نے پوچھا۔
’’ ہم دونوں چائے کے عادی ہیں ۔ بھلا ہمیں چائے یہاں کہاں
سے ملے گی ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’ہم تمہیں جانے دیں گے جاؤ اپنا بر تن آرتھر نے کہا ۔
’’صاحب کا بہت بہت شکریہ ‘‘فریدی نے کہا۔ آپ بھی نکولس صاحب کی طرح
نیک اور رحم دل آدمی ہیں ‘‘۔
’’کون نکولس صاحب‘‘۔ آرتھر نے پوچھا۔
’’ارے آپ نے نکولس صاحب کا نام نہیں سنا۔ فریدی نے حیرت کا اظہار
کرتے ہوئے کہا۔
’’میجر یو ایم نکولس افریقہ کے مشہور شکاری ۔
’’تم انہیں کیا جانو‘‘ آرتھر نے پوچھا۔
’’ارے بھلا مجھ سے زیادہ انہیں کون جانے گا ۔ فریدی نے کہا۔
’’میں نے تین سال تک ان کے ساتھ افریقہ کے کالے جنگلوں کی خاک چھانی
ہے‘‘۔
’’آرتھر ہسنے لگا جارج فنلےنے اس سے ہنسی کی وجہ پوچھی۔ ’’یہ کہہ
رہا ہے کہ میجر نکولس کے ساتھ افریقہ میں رہ چکا ہے‘‘۔
’’ممکن ہے ۔ جارج فنلےنے کہا۔
’’مجھے تو اب اس پر کچھ شبہ ہو چلاہے ۔ آرتھر نے کہا۔
’’کیوں جارج فنلے نے چونک کر پوچھا۔
’’ کہیں یہ بھی انہیں دیسیوں میں سے ہو جنہوں نے مورتی حاصل
کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’اوہ جارج فنلےنے کہا اور فریدی کو گھورنے لگا۔
’’خیر میں اس کا امتحان کئے لیتا ہوں ۔ آرتھر نے کہا اور پھر فریدی
کی طرف مڑ کر بولا۔
’’ نکولس کا مستقل قیام افریقہ میں کہاں تھا ۔
’’مومباسہ میں ‘‘ ۔ فریدی نے جواب دیا۔
’’وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا‘‘۔
’’افریقہ کی سب سے زیادہ خطر ناک چیز کیا ہے ؟ ‘‘آرتھر نے پو چھا۔
’’ زہریلی مکھی سی سی فلائی جس کے حملے کی خبر تک نہیں ہوتی
۔ فریدی نے کہا۔’’ شاید آپ کو مجھ پر کچھ شبہ ہوا ہے۔ شاید آپ نہیں جانتے ہیں کہ میں
اپنے آقاؤں کے لئے جان تک کی بازی لگا دیتا ہوں ۔ جھوٹ کبھی نہیں بولتامگر صاحب اب
و ہ قدردان کہاں نکولس صاحب مجھے اپنے
برابر بٹھاتے تھے‘‘۔
’’بھلا میں تم پر کس بات کا شبہ کر سکتا ہوں‘‘ ۔ آرتھر نے اچانک پو
چھا۔
’’یہی کہ میں آپ کو اپنے جھوٹے کارناموں کے قصے سنا کر آپ
کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا ہوں محض اس لئے کہ کسی دن موقعہ پا کر آپ لوگوں کو لوٹ
لوں ۔ فریدی نے کہا۔
’’تم غلط سمجھے۔ آرتھر ہنس کر بولا۔ میں صرف
اتنا جاننا چاہتا تھا کہ تم واقعی کام کے آدمی ہو یا نہیں ‘‘۔
’’خیر صاحب یہ تو وقت پر ہی معلوم ہو سکے گا ۔ فریدی نے کہا۔
’’تم
اس سے پہلے بھی کبھی مشرق کی طرف سفر کر چکے ہو۔ آرتھر نے چھا۔
’’صرف ایک بار فریدی نے کہا ۔ اور وہ واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے
کہ ایک بار آپ ہی کی طرح ایک صاحب نے رام گڑھ میں بہت سے مزدوروں کو اکٹھا کیا تھا
اور وہ بھی اسی طرف آئے تھے لیکن کچھ دور چلنے کے بعد وہ اچانک لوٹ پڑےتھے ان کی کوئی چیز چوری ہوگئی تھی۔
اس کا انہیں اتناد کھ ہوا کہ وہ آگے نہ جاسکے۔
’’کیا
چیز چوری ہو گئی تھی۔
’’یہ انہوں نے نہیں بتایا ۔
’’ہوں‘‘
آرتھر کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ’’و ہ کہاں جانا چاہتے تھے۔
’’ دریائے سامتی کے کنارے فریدی نے کہا۔’’ وہ دوسرے کنارے
پر جانا چاہتے تھے۔ لیکن ارادہ تھا کہ وہ مزدوروں کو ادھر ہی سے رخصت کر دیں گئے۔
’’آرتھر
جارج فنلے کی طرف مڑ کر اسے اپنی اور فریدی کی گفتگو کے متعلق انگریزی میں بتانے
لگا۔
’’ان
باتوں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مورتی کے متعلق کچھ نہیں جانتا ‘‘۔
’’جولیا
بولی ’’اگر ایسا ہوتا تو وہ اس کا تذکرہ ہی نہ کرتا ۔
’’ ہاں میر ابھی یہی خیال ہے‘‘۔ آرتھر نے کہا۔ پھر وہ فریدی
کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پیاری زبان میں بولا۔ جاؤ جاؤ اپنا بر تن لاؤ تم ہر وقت یہاں
سے چائے لے سکتے ہو اور رات کو سوتے وقت میرے پاس آنا میں تمہارے چھالوں میں دو
الگا دوں گا۔
تھوڑی دیر بعد حمید اور فریدی آگ کے پاس بیٹھے چائے پی رہے
تھے۔
’’ کیوں برخوردار ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔ ’’کہو کیسی رہی۔
’’بہت
اچھی ‘‘۔حمید بے زاری سے بولا۔ اور چاول کے تسلے کو آگ پر سے اتارنے لگا۔
’’ ابھی کیا ہے میں اس سے بھی زیادہ آرام پہنچانے کی کوشش
اور کہو تو جولیا سے تمہاری شادی کرادوں‘‘۔
’’ بس جناب کی عنایت کا شکریہ ۔ حمید نے کہا۔ ‘‘ اس وقت تو
مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے میرے باپ کی بھی کبھی شادی نہ ہوئی ہو‘‘۔
سورج طلوع
ہوتے ہی پھر سفر شروع ہو گیا۔خیمے اکھاڑ کر خیچروں پر ہار کر دیئے گئے۔ جن مزدوروں
کے پاس خچر تھے وہ ان پر سامان لادنےکے بعد خود بھی بیٹھ گئے۔ بقیہ لوگ اپنے سروں
پر کچھ نہ کچھ اٹھائے ہوئے پیدل چل ہے تھے۔
جولیا اور جارج فنلے خچروں پر سوار آگے آگے چل رہے تھے۔
اس وقت قافلہ بلندی سے ایک پُر فضاواری میں اتر رہا تھا خشک
پہاڑوں کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا۔ چاروں طرف ہری بھری پہاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں ۔ نیچے
وادی میں چھوٹی سی پہاڑی ندی ننھے ننھے قطرے اچھالتی ہوئی تیز رفتاری سے بہہ ر ہی
تھی۔ سناٹے میں پانی کی آواز ایسی معلوم ہورہی تھی جیسے خوفناک دھندلکوں میں ستار
کی مدہم سی جھنکار حمید کی رومان پسندطبیعت گنگنانے کے لئے بے قرار ہوگئی ۔ لیکن
وہو تو گونگاتھاوہ جھنجھلا گیا اس کا دل چاہا اپنے خچرکے دونوں کان اکھاڑ لائے۔ فریدی
و در تھاور نہ وہ اسے ایک آدھ بارکھا جانے والی نظروں سے ضرور گھورتا ۔ اس کا خچرجو
لیا کے سنہرے بالوں کے نیچے سرخ و سپید گردن جس کے درمیان میں ایک لطیف کی سلوٹ تھی۔
حمید کے دل میں گدگدیاں پیدا کر رہی تھی۔ کاش وہ بول سکتا جولیا کافی خوب صورت تھی۔
اس کی گہری نیلی آنکھیں دو پہاڑیوں کے درمیان خلا سے دکھائی دینے والی آسمان کی
طرح پر کشش اور روح کو ایک انجانی دنیا میں کھینچ لے جانے والی تھیں ۔ آنکھوں اور
چہرے میں دوسری دل آویز چیز او پری ہونٹ کی ہلکی
سنہری روئد گی تھی اور جب اس میں پسینے کی ننھی ننھی بوندیں بھی شامل ہو جا ئیں تو دو
اور زیادہ حسین دکھائی دینے لگتی۔ دن بھر کی مسافت طے کرنے کے بعد جب وہ چائے کا
پہلا گھونٹ لیتی تو اس کی آنکھوں میں نشہ سا جھلکنے لگتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا
جیسے سارے جسم کی مسکن اس کے چہرے پر ایک غم آلویز ماہٹ بن کر چھیل گئی ہو۔ حمید غیر
ارادی طور پر اس کے قریب رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ سوچتا کاش و ہ اس حالت میں
رہنے پر مجبور نہ ہوتا کاش وہ بول سکتا‘‘۔
کارواں وادی میں اتر آیا تھا آگے بڑھنے سے پہلے ندی پار کر نی
ضروری تھا۔
’’ندی زیادہ گہری نہیں ہے ۔ آرتھر نے جارج فنلے سے کہا ۔ ’’ہم
لوگ آسانی سے گزر جا ئیں گے۔ میں اس علاقے میں کچھ دن رہ چکا ہوں ۔ جارج فنلےنے بھی
اپنا خچرپانی میں اتار دیا۔
تھوڑی دیر بعد پورا
قافلہ ندی پار کر گیا سامنے دور تک ساتھ میدان پھیلا ہوا تھا۔
’’ دوسری چڑھائی ذرا تکلیف دہ ہوگی۔ آرتھر نے جارج فنلے سے
کہا۔
’’کیوں‘‘
’’ وہاں ہمیں خودہی راستے بنانے پڑیں گے لیکن یہ وقت زیادہ
دور تک قائم نہیں رہے گی۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ ہمیں اس کے لئے دو تین دن پہلے ہی
اپنی پچھلی تھکن دور کرنی پڑے گی۔
’’ہوں
‘‘جارج فنلے نے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا۔
’’ آگے ایک گاؤں ہے وہاں ہم دو تین دن ٹھہرجائیں کے لیکن ہم
لوگوں کو کافی محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ اب ہمیں ایسے لوگوں سے دوچار ہو ناہے جو
قطعی وحشی ہیں۔
اگر انہوں نے ہمیں گاؤں میں داخل نہ ہونے دیا تو جارج فنلے
نے کہا۔
’’گھبرانے کی بات نہیں،
میں ان کے سردار کے پاس جارہا ہوں“۔ آرتھر نے جارج فنلے سے کہا ۔ وہ جنگی آرتھر کو
ایک بڑے جھونپڑے کے باہر چھوڑ کر خود اندر چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا
اس کے ساتھ ایک آدمی اور تھا جس نے بے شمار معدے زیورات پہن رکھے تھے اور اس کا
منڈا ہوا سر پیلے رنگ سے رنگا ہوا تھا۔ آرتھر کو دیکھتے ہی وہ ہنس پڑا۔ آرتھر نے
اس کے قریب پہنچ کر مکا تانا ہے وہ بوسہ دے کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر اس نے
مکا تاتا اور آرتھر اسے بوسہ دے کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر دونوں نے زمین پر
دوزانوں بیٹھ کر آہستہ آہستہ تین بار اپنے سر ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ غالباً یہ ان
کا معانقہ تھا۔ وہ شخص جو آرتھر کولا یا تھا۔ سردار کا اشارہ پاکر آرتھر کے سامنے
اچھلنے کودنے لگا۔ اس نے آرتھر کے گردتین چکر لگائے اور اس کا داہنا ہاتھ چوم کر
زمین پر بیٹھ گیا۔
پھر سردار نے اس سے کچھ کہا اور وہ اٹھ کر اس طرف چلا گیا
جدھر جارج فنلےوغیر ہ کھڑے تھے۔
تھوڑی دیر بعد خچروں
پر سے سامان اتارا جانے لگا۔ پرانی شناسائی کی بناپر جنگیوں کے سردار نے آرتھر کو
وہاں قیام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ جولیا بری طرح خائف تھی اگر کسی جنگلی سے اس کی
آنکھیں چار ہو جائیں تو وہ خوف سے لرزنے لگتی تھی۔ ایک بار خیمےمیں جانے کے بعد وہ
پھر باہر نہیں نکلی فریدی اور حمید ایک خیمےکی رسیاں تان رہے تھے ۔ حمیدپسینہ پسینہ
اور ہا تھا ۔
’’ کیوں حمید صاحب ان جنگلی عورتوں میں سے کوئی پسند آئی ۔ فریدی
نے آہستہ سے کہا۔
’’ارے یہ عورتیں ہیں۔ اگر یہ عورتیں ہیں تو میں لفظ عورت پر
سو بار لعنت بھیجتا ہوں‘‘۔
’’ لیکن گھبراؤ نہیں صاحبزادے بہت جلد ان میں سے کوئی ایک
تمہارے لئے سوہان روح بینے والی ہے‘‘ ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘حمید چونک کر بولا۔
’’تم اس قوم کی عجیب و غریب مہمان نوازی سے واقف نہیں ہوا‘‘۔
فریدی نے کہا ۔ آج رات تمہیں کسی نہ کسی عورت کے ساتھ ناچنا پڑے گا۔
’’دیکھئے
میں خودکشی کرلوں گا۔ حمید نے جھلا کر کہا۔
’’میرے خیال میں خودکشی سے زیادہ آسان تو وہ ناچ رہے گا ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’دیکھئے...
میں آپ سے...‘‘
’’چپ چپ ‘‘ آرتھر آرہا ہے۔ فریدی نے کہا۔
آرتھر ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔
’’کہو
تم ان جنگلیوں سے خائف تو نہیں ہو‘‘۔ آرتھر نے فریدی سے ہنس کر پو چھا۔
’’بالکل
نہیں بھلا ان میں خوف زدہ کرنے والی کیا بات ہے ۔ فریدی نے جواب دیا۔
’’کیا
تمہارادہ انگریز شکاری ادھری سے گذرا تھا؟‘‘
’’نہیں
۔ دوسری طرف سے فریدی نے کیا۔ ’’ہمیں و ہ پہاڑی ندی نہیں پار کرنی پڑی تھی۔
’’اس
قبیلے کا سردار میر اور دست ہے ۔ آرتھر نے کہا۔
’’لیکن
گو ٹاقوم قابل اعتبار نہیں ہے ۔ فریدی بولا۔
’’تمہیں
کیا معلوم ‘‘آرتھر چونک کر بولا ۔ ’’تم شاید ادھر کبھی آئے ہی نہیں۔
’’یہ میں نے اپنے باپ کی زبانی سنا تھا ۔ فریدی نے جواب دیا۔
’’نہیں
ایسا نہیں ہے‘‘۔
’’بتا دینا میرا کام تھا آگے آپ کو اختیار ہے ۔ فریدی نے کہا‘‘
خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ آپ کے ساتھ ایک
جوان لڑکی ہے۔ آپ کا محتاط رہنا ضروری ہے۔ بکواس ہے ۔ آرتھر نے نا خوشگوار لہجہ میں
کہا اور آگے بڑھ گیا۔ فریدی پھر قیمہ درست کرنے میں مشغول ہو گیا۔
خیمے نصب ہو چکے تھے۔ جارج فنلےوغیر و آرام کرنے لگے۔
مزدوروں نے کھانا پکانا شروع کر دیا۔ جنگلیوں کے ننگ دھڑ نگ بچے کھانے کے لالچ میں
مزدوروں کے گرد اکٹھا ہو گئے آرتھر سردار کے جھونپڑے میں چلا گیا۔ کثیف اور میلی عورتیں
پہاڑی مزدوروں کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ فریدی اور حمید
ایک جگہ بیٹھے اپنے چاول ابال رہے تھے۔ فریدی آرتھر سے خشک ڈبل روٹیاں مانگ لایا
تھا جنہیں ایک بڑے سے تسلے میں بھگوئے ہوئے تھا۔
حمید جنگی عورتوں میں
ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہاتھا۔ ان میں کئی جوان تھیں جنہیں قید اپنے تصور میں
نہلا دھلاگر جدید طرز کے کپڑے پہنا رہا تھا۔
’’اس
لڑکی کو دیکھ رہے ہیں آپ حمید نے آہستہ سے کہا۔
شام کے کھانے سے فارغ ہو کر ڈھول پیٹےجانے لگے اور پھر قبیلے
کی جوان لڑکیاں دائر ہ بنا کر ڈھول کی آواز پر ناچنے لگیں۔ جنگلی چیخ چیخ کر گارہے
تھے۔ سردار کے قریب ہی شیر کی کھال والا جو ان بیٹھا اپنے بازوؤں کی مچھلیاں اکٹراا
کڑا کر دیکھ رہا تھا۔ اکثر وہ جولیا کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ لیتا تھا۔
جولیا بری طرح لرز رہی تھی۔ وہ جانے کے لئے اٹھی۔ شیر کی کھال والے نے چیخ سن کر
کچھ کیا۔ اس کی آواز سنتے ہی کئی جو ان ناچتی ہوئی لڑکیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے
ان کو پکڑ کر اچھلنا کودنا شروع کردیا۔ جو لیا جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ شیر کی
کھال والے نے اسے پکڑ لیا اور کھینچ کرنا چنے والوں کی بھیٹر میں لے آیا۔ جولیا کی
چیخیں نکل گئیں ۔ آرتھر اور جارج فنلے اسے چھڑانے کے لئے آگے بڑھے لیکن ان کے سینوں
کے سامنے کئی جنگلی نیزے لے کر آ گئے ۔
سردار چیخنےلگا۔ شاید وہ اس حرکت پر اپنی نارضگی کا اظہار
کر رہا تھا۔ شیر کی کھال والے نے سردار پر اپنا نیزہ تان لیا۔
دونوں میں بہت ہی تیز قسم کی گفتگو ہورہی تھی۔ ادھر جارج فنلے
آرتھر کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔
دفتًا فریدی بھیٹر کو چیرتا ہوا آرتھر کے قریب پہنچا۔ آرتھر
بری طرح گھیر لیا ہوا تھا۔
’’کیوں
صاحب کیا معاملہ ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’تم ٹھیک کہتے تھے ۔ ہمیں دھوکا دیا گیا۔ اس شیطان نے اس
لئے ہمارا اسلحہ لے لینے کی تحریک شروع کی تھی۔ اور سردار کیا کہتا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’وہ
بے چارہ بے قصور ہے۔ اس وقت پورا قبیلہ اس شیطان کا طرفدار ہو گیا ہے‘‘۔
’’سردار
انتہائی کوشش کر رہا ہے کہ وہ جولیا کو چھوڑ دے لیکن وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہے۔
’’وہ
آخر کہتا کیا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔
ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھارہا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ
ہم لوگ نیزوں اور تلواروں سے نہیں لڑ سکتے اس لئے وہ کہتا ہے کہ جو لیا اس وقت
واپس ہوسکتی ہے جب وہ مار ڈالا جائے ۔ کاش ہمارے پاس رائفلیں ہوتیں۔
’’تو کیا وہ ہم میں سے ایک سے لڑنا چاہتا ہے یا سب کو انکا
رہا ہے ۔ فریدی نے پوچھا۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔
’’سردار
سے پوچھئے ۔ فریدی نے کہا۔ اگر وہ تنہا لڑ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو تو میں تیار
ہوں‘‘۔
آرتھر سردار سے گفتگو کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہ و فریدی کی
طرف مڑ کر بولا۔
’’وہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی میں جو لیا نہیں واپس ہوسکتی چاہے
مجموعی حیثیت سے‘‘۔
’’اچھا اس سے کہہ دیجئے کہ ہمارا ایک آدمی اس
سے لڑے گا اور ہاں آپ اپنے خیمےمیں جائیے ۔ آپ کا سارا اسلحہ وہاں موجود ہے اگر
ہماری لڑائی کے دوران میں کوئی دوسرا دخل دے تو آپ بے دریغ فائر کرنا شروع کر دیئے
گا۔ آرتھرحیرت سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتا ۔ فریدی نے کہا۔ ’’جلدی کیجئے
میں اس سے نپٹتاہوں‘‘۔
آرتھر نے جلدی سے
جارج فنلےکو سب کچھ بتا دیا اور پھر سردار کی طرف کی طلب ہوا۔ جو لیا اس دوران میں
بے ہوش ہوگئی تھی جسے شیر کی کھال والے نے اپنے کاندھے پر ڈال لیا تھا۔ آرتھر
سردار سے گفتگو کرنے کے بعد خیمے کی طرف چلا گیا۔ سردار نے ایک نیزہ اور ڈھال فریدی
کے سامنے ڈال دی۔
شیر کی کھال والے نے جولیا کو کاندھے سے اتار کر اپنے ساتھیوں
کے حوالے کر دیا۔
چند لمحوں کے بعد فریدی اور وہ ایک دوسرے کے سامنے نیزہ
تانے کھڑے تھے اور حمید بری طرح کانپ رہا تھا۔ فریدی بھو کے شیر کی طرح اپنے مقابل
کو گھور رہاتھا۔ جنگلی نے نیز ہ مارا۔ فریدی نے ڈھال سامنے کر دی اور پیشتر بدال
کر جنگی پر حملہ آور ہوا لیکن اس نے بڑی پھرتی سے وار خالی کر دیا۔ نیزوں کی انیاں
ڈھالوں سے ٹکڑ اٹکڑا کر چھنا کے پیدا کر رہی تھیں ۔ پندرہ بسیں منٹ گزر گئے ۔ لیکن
کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ آرتھر واپس آگیا۔ جو لیا بھی ہوش میں آگئی تھی۔ جنگلی کے حملوں
کی رفتار ست ہوتی جارہی تھی۔ اس کے نوجوان ساتھی چیخ چیخ کر شاید اسے ہمت دلا رہے
تھے ۔ جنگلیوں کا سردار بڑی تو جہ اور دلچسپی سے اس جنگ کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے جیسے
شیر کی کھال والے کی سستی بڑھتی جارہی تھی سردار کے چہرے پر تازگی کے آثار گھیرے ہوتے
جارہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے، وفریدی کی کامیابی کا متمنی ہو۔ شیر کی کھال
والے نے جھلا کر اپنا نیز و فریدی کو دے مارا۔ فریدی پھرتی سے بیٹھ گیا اور نیز و
سننا تا ہوا اس پر سے نکل گیا۔ اچانک ایک چیخ سنائی دی۔ نیزہ دوسری طرف کھڑے ہوئے
ایک جنگلی کے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ فریدی بھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ شیر
کی کھال ولا اچھل کر اس پر آرہا لیکن دوسرے بھی لمحے میں اس کے منہ سے بھی ایک چیخ
نکلی اور وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ فریدی نے
اپنا نیزہ اٹھا لیا تھا۔ جنگی اپنے ہی دور میں اٹھے ہوئے نیزے کا شکار ہو گیا۔ جنگی
جوان کے ساتھیوں نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس پر سردار خود نیز لے کر میدان میں کود
پڑا۔ جنگی سہم کر پیچھے ہٹ گئے کیونکہ ان کا ساتھی مارا جا چکا تھا۔ جارج فنلے کے
مزدوروں نے گا پھاڑ پھاڑ کر چیخناشروع کر دیا۔ وہ سب فریدی کو گود میں اٹھائے سارے
میدان میں دوڑتے پھر رہے تھے۔
اسی رات کو جولیا آرتھر ، جارج اور فریدی خیمےمیں بیٹھے
ہوئے آج کے واقعات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ واقعی تم بہت کام کے آدمی نکلے۔ آرتھر نے
فریدی سے کہا صاحب اور میم صاحب دونوں تم
سے بہت خوش ہیں۔ بولو کیا انعام چاہتے ہو ؟‘‘
’’گرما
گرم چائے کا صرف ایک کپ کیونکہ میں سرشام سے محنت کر رہا ہوں‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔
دوسرے دن
صبح خیمے اُکھاڑ دئے گئے۔اس وقت کارواں جنگلیوں کی دورو یہ قطاروں کے درمیان سے
گزررہاتھا۔
ان کی انکھوں میں نفرت تھی اگر ان کا بس
چلتاتو وہ اس قافلے کے ایک خچر تک زندہ نہ چھوڑتے جنگلیوں کا سردار قافلے کے آگے چل رہا تھا۔وہ اور اس کے کچھ ساتھی قافلے
کواگلی چڑھائی تک چھوڑ کر وپس چلے گئے۔
پہاڑیوں سے جنگلوں کے کچھ کچھ آثار شروع ہو گئے تھے۔
تاز ودم پہاڑی مزدوروں نے ایک گیت شروع کر دیا۔ ان کی تیز
آوازیں چٹانوں سے ٹکرا کر ایک عجیب طرح کی گونج پیدا کر رہی تھیں۔ ایسا معلوم
ہورہاتھا۔ جیسے ذہن کی لامحدود وسعتوں میں چندر رنگین یادیں رینگ رہی ہوں۔
حمید
کی نگاہیں جو لیا کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔ جواب ایک خوفزدہ ہرنی کی طرح کبھی
کبھی پلٹ کر پیچھے دیکھنے لگتی تھی۔ حمید کے ذہن میں فریدی جاگ اٹھادہ سوچنے لگا
کہ کاش فریدی نے اپنا یہ کارنامہ اپنی صہیح شکل وصورت میں انجام دیا ہوتا۔
فریدی کا خچر سب سے
پیچھے تھا۔ حسب دستور وہ اس وقت بھی اپنے خچر کی باگ تھا مےموٹا سا ڈنڈا ٹیکتا ہوا پیدل چل رہا تھا۔
’’اس کی گٹھری اس کی پیٹھ پر بندھی ہوئی تھی۔
’’ حمید نے اپنے خچرکی رفتار میں کمی کردی۔ آہستہ آہستہ وہ
فریدی کے برابر آ گیا۔
’’آپ
دنیا میں کچھ نہیں کر سکتے حمید نے کہا۔
’’میں نے کبھی اس کا دعوی نہیں کیا ۔ فریدی مسکرا کر بولا ۔
’’نہیں
واقعی آپ ‘‘
’’بالکل
ا حمق ہیں ۔ فریدی نے جملہ پورا کر دیا۔
’’بھلابتا
ئے آپ کے رات والے کارنامے سے آپ کو کیا
فائدہ پہنچا ‘‘حمید نے کہا۔
’’ اچھا حمید صاحب آپ بھی فرما دیجئے کہ میرے کسی کا رنامے سے
مجھے فائدہ پہنچا ہے ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’کسی
سے نہیں‘‘۔
’’تو
پھر تم نے خصوصیت سے رات والے کارنامے کا حوالہ کیوں دیا ۔
’’تو
فرمائے نا‘‘۔
’’مطلب
یہ ہے کہ اگر آپ نے اصلی صورت میں کارنامہ سرانجام دیا ہوتا تو ‘‘۔
’’تو کیا ہوتا‘‘۔
’’مطلب یہ کہ‘‘۔
’’کیو
کیو ۔ رک کیوں گئے“۔ فریدی نے کہا۔
’’بات یہ ہے کہ جو لیا ...‘‘حمید جملہ پورا نہ کر سکا۔
’’اوہ
سمجھا‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا ’’ جولیا مجھ پر عاشق ہو جاتی اور میں اٹھارویں صدی کے
کسی ناول کے ہیرو کی طرح ایک بار اور اپنی
جان پر کھیل جانے کی کوشش کرتا بہر حال لیکن تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوتا۔
’’قائدہ!‘‘
ارے میں دیکھ کر خوش ہوتا ‘‘ حمید چہک کر بولا۔
ہوتا ہے‘‘۔
’’بس تم اب یہ دعا مانگو گو کہ کسی جنگی صورت سے تمہاری ملاقات نہ
ہو۔ ورنہ ساری مردانگی و عشق بازی دھری رہ جا ئےگی ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’نہیں
دیکھئے مذاق نہیں میں اس سفر سے تنگ آگیا ہوں‘‘۔
’’تو
واپس چلے جاؤ ‘‘ فریدی نے لا پروائی سے کہا ‘‘ تم اس لڑ کی جولیا سے بھی گئے گزرے
ہو‘‘۔ آپ بھی لڑکیوں کی بات لے بیٹھے ۔ حمید نے کہا ’’ ارے وہ جنگلی اسے پکڑ ہی لے
جاتا تو کون سی مصیبت آجاتی ۔ شادی کرتا اور گھر میں ڈال لیتا بھلا میں کس مصرف کا
ہوں‘‘۔
فریدی ہنس کر بولا۔ ’’ کیوں اپنا دل چھوٹا کرتے ہو۔ تمہارا
مصرف تو کوئی مجھ سے پوچھے‘‘۔ جی ہاں جہاں چاہا اٹھا کر پھینک دیا۔ حمید توالو کا پٹھاہے۔
خیر یہ تمہاری لیاقت ہے کہ اپنے منہ میاں الو بن رہے ہو ۔ فریدی نے سنجیدگی سے
کہا۔
حمید خاموش ہو گیا۔ فریدی نے سراٹھا کر سامنے دیکھا کاروان
دور نکل گیا تھا۔ پہاڑی مزدور شاید گانے گاتے تھک گئے تھے۔ فریدی تیزی سے قدم
اٹھانے لگا۔
’’ آخر آپ پیدل کیوں چل رہے ہیں ۔ حمید نے پوچھا۔
’’بارہ بجے کے بعد میں خچر پر بیٹھوں گا ۔ فریدی نے کہا۔
’’کیوں۔
’’اس
لئے کہ سب لوگ اس وقت خچروں پر بیٹھے بیٹھے اکتا جائیں گے اور انہیں بھی اترنا پڑے
گا لیکن پھر ان سے پیدل بھی نہ چلا جائے گا۔ میں دن کے بہترین حصے میں پیدل چل کر
اپنی تھکن کا بوجھ خچر پر ڈال دوں گا اور پھر جب شام کواتروں گا تو بالکل تازہ دم
ہوں گا‘‘۔
حمید نے اپنے خچر کے رسید کی اور قافلے میں جانے کی کوشش
کرنے لگا۔ فریدی بدستور پیدل چل رہا تھا۔ آفتاب آہستہ آہستہ بلند ہوتا جارہا تھا۔
دھوپ میں کافی حرارت پیدا ہوگئی تھی۔ آرتھر اور جارج وغیرہ نے اپنے کوٹ اتار دیئے
تھے۔ وہ سب پسینے میں ترتھے۔ جو لیا کے شفاف چہرے پر پسینے کی بوند میں ایسی معلوم
ہورہی تھیں جیسے کسی تالاب میں کھلے ہوئے کنول کی پنکھڑیوں پر شبنم کے قطرے بکھر
گئے ہوں دو ایک ہلکی ہلکی لٹیں بھیگ کر ماتھے پر چپک گئی تھیں۔ تھکاوٹ نے اس کی
آنکھوں میں ایک عجب طرح کی رعنائی پیدا کر دی تھی۔ حمید اس کے قریب جمالیاتی حس کی
تسکین کرنےلگااوہ در اصل اس کے سہارے سفر کی تکالیف کو بھلا دینا چاہتا تھا۔
قافلہ دن بھر چلتارہا۔ اس دوران میں فریدی نے ایک بار بھی
قافلے سے ملنے کی کوشش نہ کی۔ وہ بدستور پیچھے ہی پیچھے چلتا رہا۔ کئی بار آرتھر
نے اسے ٹو کا بھی لیکن اس نے اس کی پرواہ نہ کی۔ در اصل وہ ان جنگلیوں کی طرف سے
مطمئن نہ تھا جن کی آنکھوں میں اس نے نفرت اور انتظام کی چنگاریاں دیکھی تھیں۔
اس پر آرتھر طنزیہ
انداز میں ہنس پڑا۔
’’نقشے
پر بھروسہ مت کروجارج‘‘۔ آرتھر اپنے مخصوص طنز یہ لہجے میں بولا‘‘۔ ان راہوں میں
اچھے اچھےبھٹک جاتے ہیں‘‘۔
’’پرو
ہ مت کرو‘‘۔ جارج لا پروائی سے بولا۔
’ ’ میں کہتی ہوں ۔ آخر جھگڑے سے کیا فائدہ‘‘۔ جولیا
گھبرائے ہوئے لہجہ میں بولی۔
’’یہ اپنے باپ ہی سے پوچھو‘‘ ۔ آرتھر نے شانے ہلا کر کہا۔
’’پاپا‘‘ جولیا بولی۔
’’تم
آخر پریشان کیوں ہوتی ہو ‘‘۔ جارج بولا۔ آرتھر کو شاید یہ غلط نہیں ہوئی ہے کہ میں اس کے بغیر آگے نہ بڑھ سکوں
گا۔
’’آگے
کیا تم آگے سے بھی بڑھ سکو گے.... مگر ...؟‘‘
’’ مجھے جو کچھ کہنا تھا کہ چکا‘‘۔ جارج آرتھر کی بات کاٹ کر بولا
۔ ’’ اگر مجھے پر اعتماد کر سکتے ہو تو کرو ورنہ میں تمہاری واپسی کا انتظام کر
سکتا ہوں‘‘۔
’’ جی شکریہ ...مجھے کسی انتظام کی ضرورت نہیں۔ میں واپس
چلا جاؤں گا‘‘۔ آرتھر نے کہا اور خیمے سے نکل گیا۔ فریدی آگے بڑھ گیا۔
’’چائے
؟ ‘‘آرتھر نے سوالیہ انداز میں پو چھا تمہیں اب یہاں سے چائے نہیں ملے گی۔
’’ کیوں صاحب ‘‘
’’یہ دونوں بہت بد دماغ ہیں۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ کوئی
گندا پیاڑی ان کے خیمے کے قریب نہ آنے پائے‘‘۔
آرتھر نے کہا۔
فریدی اس کی چالبازی پر دل ہی دل میں ہنس پڑا۔
’’ اچھا صاحب۔ اس نے مردہ آواز میں کہا۔
’’لیکن
میں تمہیں چائے کا سامان دوں گا ۔‘‘ آرتھر نے کہا۔ چلو میرے خیمے میں۔ میں بہادروں
کا قدردان ہوں‘‘۔
آرتھر اپنے خیمےمیں داخل ہوتے ہوئے فریدی کی طرف مڑا۔
’’کیا
تم جانتے ہو کہ تم لوگ کہاں جارہے ہو ۔ اس نے فریدی سے پو چھا۔
’’نہیں
صاحب ‘‘
’’پھر
تم کیوں چل پڑے تھے۔ آرتھر نے پو چھا۔ ’’اگر ہم تمہیں کسی مصیبت میں پھنسا دیں تو !‘‘
مصیبت کے تو ہم کیڑے
ہیں صاحب‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا۔’’ ہمیں معقول اُجرت ملنی چاہئے۔ پھر ہمیں آپ جہنم ہی
میں کیوں نہ جھونک دیں۔
’’یہ تو بہت بری بات ہے صاحب !‘‘فریدی نے کہا۔
میں بھی اس کی اس کمینی حرکت سے خوش نہیں ہوں‘‘۔ آرتھر نے کہا‘‘۔
خیر میں اسے ایسی سزا دوں گا کہ وہ عمر بھریادر کھے گا۔
فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ آرتھر کی چالوں پر غور کر
رہا تھا۔
’’دریائے
نامتی پار کرتے ہی وہ مجھے قتل کرنے کا ارادو رکھتے ہیں ‘‘۔ آرتھر بولا۔
’’ کیوں خریدی نے چونک کر پو چھا۔
’’تا
کہ پورا خزانہ کیلے ہضم کر سکے‘‘۔
’’ لیکن یہ آپ کو معلوم کیسے ہوا؟‘‘
’’باپ
بیٹی میں اس کے متعلق مشورہ ہور ہا تھا ۔ آرتھر نے جواب دیا۔
’’تب تو واقعی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے ۔ فریدی بولا۔
’’سنو میں نے ایک تد بیرسوچی ہے ۔ آرتھر نے کہا۔
’’کیا‘‘۔
’’ہم لوگ کھانے پینے کا ضروری سامان لے کر رات ہی کو یہاں سے چل دیں۔
’’ان
دونوں کو یہاں تنہا چھوڑ دیا جائے ۔ فریدی نے پو چھا۔
’’اور
مزدور ؟‘‘
’’انہیں
میں ٹھیک کرلوں گا‘‘۔ آرتھر نے کہا۔
’’مگر
صاحب ‘‘۔
’’کچھ
نہیں میں یہ طے کر چکا ہوں‘‘۔ آرتھر بولا ۔ ’’بے ایمانوں کو بے ایمانی سے پہلے مزہ
چکھا دینا زیادہ اچھا ہے؟‘‘
اگر تم میرے ساتھ چلو گے تو مالا مال کر دوں گا۔
’’یہ تو آپ نے دیکھ ہی لیا کہ میں اپنے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا
ہوں‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ آپ آئے معالمہ کی بات کی طرف مجھے آپ کیا دیں گے۔
’’جو
تم مانگو آرتھر بولا۔
’’خزانے
کا چوتھائی ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’منظور‘‘
’’بہت
اچھا اور اگر آپ نے دھوکا دیا تو نتیجے کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے‘‘۔
دونوں کے حملے کا منتظر ہو۔ فریدی نے جیب میں ہاتھ ڈالااور چارج لڑکھڑا کر وہ قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس
کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ فریدی نے جیب سے پیتل کی مورتی اور راستے کا
نقشہ نکال کر جارج کی طرف بڑھادیا۔ باپ اور بیٹی حیرت زدہ نظروں سے دونوں کی طرف دیکھ
ر ہے تھے۔ جارج نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے مورتی پکڑلی۔
’’ جولیا۔ یہ واقعی سچا بہادر ہے ۔ جارج ہے اختیار بولا ۔ ’’
کاش یہ ہماری زبان سمجھ سکتا۔
تھوڑی دیر بعد فریدی جارج کو ان نوچٹانوں کے درمیان لےگیا۔
جہاں اس نے کھانے پینے کا کیثر سامان اور کچھ اسلحہ چھپا کر رکھ دیا تھا۔ اس نے یہ
کام اسی وقت سے شروع کر دیا تھا۔ جب آرتھر اسے بجھا کر دوسرے مزدوروں کو ورغلانے
چلا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ سائے کی طرح آرتھر کے پیچھے لگارہاتھا۔ جب آرتھر
مورتی اور راستے کا نقشہ چرانے کے لئے جارج
کے خیمے میں گھساتھا۔ اس وقت بھی فریدی تھوڑے ہی فاصلہ پر چھپا ہوا تھا
اوراس کی نگر انی کر رہا تھا۔ آرتھر نے مورتی چرالی اور، اپنے خیمےمیں لے آیا اور اسے اپنے سوٹ کیس میں رکھ کر پھر
مزدوروں کی طرف چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد فریدی نے وہ مورتی اور نقشہ اس کے سوٹ کیس سے
اڑادیا۔ اس نے جارج کو سارے واقعات اشاروں میں سمجھانے کی کوشش کی اور وہ اس میں
کامیاب بھی ہو گیا۔
اور پھر اس ویرانے
میں ان کے درمیان سے رنگ ونسل کی دیوار ہٹ گئی ۔ تھوڑی دیر بعد جولیا اپنے کپوں میں
چائے پیش کر رہی تھی۔
فریدی نے اشاروں ہی اشاروں میں جارج کو سمجھایا کہ اس حادثے
سے دل شکستہ ہو کر اسے پیچھےنہ لوٹ جانا
چاہئے۔ اس نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ آخر وقت تک اس کا ساتھ دیتارہے گا۔ اس پر
جارج نے جولیا ہے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ آرتھر نے اسے سب کچھ بتا دیا ہے‘‘۔
ہو سکتا ہے۔ جو لیا ہوئی۔ لیکن یہ آرتھر سے زیادہ قابل
اعتماد ہے۔
کاش یہ ہماری زبان سمجھ سکتا۔ جارج ہاتھ ملتا ہوا بولا۔
قریب تھا کہ حمید کچھ بول پڑے۔ فریدی نے اسے گھور کر دیکھا۔
سفر جاری رہا۔ فریدی کو راستے میں آرتھر سے مڈبھیر ہو جانے
کی توقع تھی۔ اس لئے اس نے راستہ ہی بدل دیا تھا۔ وہ سیدھا جانے کے بجائے پہاڑی
علاقے میں داخل ہو گیا اور درمیان میں چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گزرتا ہوا آگے بڑھنے
لگا اصل دریائے نامتی کی ایک چھوٹی سی شاخ سینگل مری تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تقریباً
پینتالیس میل کی مسافت طے کرنے کے بعد لوگ سیتل ندی کے کنارے بھی گئے ۔ یہاں سے
انہوں نے کنارے ہی کنارے اتر کی طرف پڑھنا شروع کردیا۔ ادھر انہیں بعض اوقات بہت ہی
دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا تھا ۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ جو لیا تھک
کر بیٹھ جاتی ۔ فریدی کو اسے اپنی پیٹھ پر اٹھانا پڑتا۔ حمید د یکھتا اور دل ہی دل
میں بیچ و تاب کھا کر رہ جاتا۔ ان راستوں کے لئے خچرقطعی بےکار ثابت ہوئے تھے اس
لئے انہیں راستے ہی میں چھوڑ دینا پڑا۔ خچروں کے ساتھ بھی بہت سا سامان جس میں
خیمے میں شامل تھے ایک غار میں ڈال دیا گیا۔ خورد و
نوش کا تھوڑا بہت سامان اور رائفیلیں وغیرہ
وہ لوگ اپنے کاندھوں پر لاد کر چل رہے تھے۔ سب کچھ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن فریدی کی کا
تمبا کوکا گھٹر اب تک اس کی پیٹھ پر بندھا ہوا تھا۔
رفتہ رفتہ خورد
ونوش کا سامان بھی ختم ہو گیا۔ لیکن انہیں اس کی پرو انہ تھی کیونکہ وہ اب جس خطےسے گزر رہے تھے وہاں بکثرت آبی پر ندےاور جنگلی پھل ملتے تھے۔ جو لیا
بہت نڈھا ل ہو گئی تھی اس کے سُرخ سپید چہرے پر ہلکی سی نیلا ہٹ دوڑ گئی تھی۔ کبھی
کبھی وہ اپنی زندگی سے نا امید ہو جاتی اور جارج اسے ہمیت دلانے لگتا ہے۔ اس نے
اسے شروع ہی سے اس سفر سے اور کارناموں سے بھر پورفلموں کی ماری ہوئی تھی اور خزانے سے زیادہ رومان کی
تلاش میں آئی تھی۔
آرتھر کے جانے کے ٹھیک بیسویں دن بعد وہ اس جگہ پہنچ گئے
جہاں سیتل بدی دریائے نامتی سے مل گئی تھی۔ اب انہوں نےمشرق کی طرف بڑھنا شروع کیا۔
راستے میں اسے وہ پہاڑی ہر دور دکھائی دیئے، جو آرتھر کے ساتھ چپکے سے چلے آئے
تھے۔ فریدی نے جارج وغیرہ کو چھپ جانے کا اشارہ کیا اور خود اونچی نچی چٹانوں کی آڑلیتا
ہوا آگے بڑھا۔ تقریباً سوفٹ کی گہرائی میں ایک ننھی سی وادی تھی جس میں انہوں نے خیمےگاڑ
دیے تھے۔ فریدی چٹانوں کی آڑ لے کر نیچے اترنے لگا۔
بہر حال اس کی چھان
بین کا خلاصہ یہ ہے کہ آرتھر ان پہاڑیوں میں نہیں تھا ۔ فریدی ،وہی چھپا بیٹھار
ہا۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ آہستہ آہستہ تاریکی کی چادر حد نظر تک پھیلی ہوئی پہاڑیوں
پر پھیلتی جارہی تھی ۔ ایک مزدور اس کی طرف آنکلا جہاں فریدی چھپا ہوا تھا۔ وہ
اچانک اس پر ٹوٹ پڑا۔ فریدی اور اصل یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آرتھر کہاں ہے وہ
مزدوروں کو لے کر دریا کے پار گیا تھا پھر واپس نہیں آیا۔
اندھیرے کی وجہ سے وہ مزد ور فریدی کو پہنچان نہ سکا۔ فریدی
نے اس سے کہا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس چلا جائے اور نہ کسی نہ کسی حادثے
کا شکار ہو جانے کے امکانات ہیں۔ مزدور کو چھوڑ کر فریدی جارج وغیرہ کے پاس واپس
آگیا اور پھر ان لوگوں نے تاریکی میں دریا کے کنارے کنارے چلنا شروع کیا۔ فریدی سو
چ ر ہا تھا کہ وہ جارج کو آرتھر کی گمشدگی کا حال کس طرح بتا ئے اب خود اسے اپنے
گو نگے پن سے الجھن ہونے لگی تھی ۔
بہر حال ایک جگہ رک
کر فریدی نے دریا کی طرف اشارہ کیا کہ اب ہمیں پار چلنا چاہئے ۔ جارج نے ایک تہہ کی
ہوئی ربڑکی کشتی نکالی اور اس میں سائیکل کے پمپ سے ہوا بھر نے لگا۔ تھوڑی دیر بعد
کشتی پانی میں تیرنے کے قابل ہوگئی۔ یہ اتنی بڑی تھی کہ اس پر دس آدمی نہایت آسانی
سے بیٹھ سکتے تھے۔
کشتی میں بٹھتے وقت
حمید کا دل زور سے دھڑکا وہ راستے بھر فریدی سے کچنار کے جنگلوں میں بسنے والی قوم
کی درندگی کے واقعات سنتا آیا تھا فریدی پتوار ہاتھ میں لئے کشتی کھیچنےلگا۔
رات حد در جہ تاریک
تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہور ہا تھا۔ جیسے ابھی تھوڑی
دیر میں بارش ہو جائے گی۔ فریدی جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا۔
ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔در یا
کا پاٹ دو میل سے کسی طرح کم نہ رہا ہوگا۔ کنارے پر پہنچ کر جارج نے کشتی کی ہوا
نکالی۔ پھر اسے تہہ کر کے کاندھے پر ڈال لیا۔
رات گزارنے کے لئے انہوں نے ایک اسی جگہ کا انتخاب کیا جو
چاروں طرف چٹانوں سے گھری ہوئی تھی اور ان چٹانوں پر کانٹے دار جھاڑیاں تھیں۔ فریدی
نے پروگرام بنایا تھاوہ سب باری باری سوتے جاگتے ر ہیں گے لیکن ایسانہ ہو سکا۔ دن
بھر کے تھکے ماندے جب وہ لیٹے تو کوئی بھی اپنی بند ہوئی ہوئی آنکھوں کو نہ روک
سکا۔
اور پھر جب صبح ان کی آنکھ کھلی تو ان کے سینوں پر جنگلیوں
کے نیزوں کی انہاں رکھی ہوئی تھیں۔ جو لیا تو بے ہوش ہوگئی۔ یہ سب انتہائی کر یہہ
المنظر تھے اور انہوں نے اپنی گردنوں اور انسانی کھوپڑیوں کی مالائیں لٹکارکھی
تھیں ان کے ساتھ ایک دراز قد آدمی تھا۔ جو ان کے مقابلے میں کچھ مہذب معلوم ہوتا
تھا ۔ اس نے ریشمی کپڑے کی ایکرنگین قبا
پہن رکھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وحشیانہ پن بھی نہیں تھا، جو اس کے دوسرے مسلح
ساتھیوں کی آنکھوں میں تھا۔ اس کی وضع قطع دیکھ کرفریدی کو نبت کے بدھ فقیر یاد آ
گئے ۔ اس نے فریدی وغیرہ کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔
یہ سب ایک طرف چل پڑے۔ جنگلیوں نے انہیں حلقے میں لے لیا۔ گویا وہ قیدی تھے۔
سورن سر پر آگیا
تھا۔ وہ چلتے رہے جو لیا کی حالت غیر تھی ۔ وہ قدم قدم پر لڑ کھڑ ا جاتی تھی۔ آخر
فریدی نے اسے پیٹھ پر لا دیا۔ وہ اپنا ڈنڈہ ٹیک کرلنگڑاتا ہوا چل رہا تھا۔
خُدا خُداکر کے وہ تقریباً دو بجے ایک بستی میں پہنچے۔ یہاں
بے شمار جھو نپڑے تھے۔ لیکن ان کی تعمیر میں ایک خاص سلیقے کو دخل تھا۔ یہاں کے
رہنے والے اگر مہذب نہیں تو نیم مہذب ضرور تھے۔ عورتیں رنگین اور خوشنما لبادوں میں
ملبوس نظر آئی تھیں اور مردوں کا لباس قریب قریب وہی تھا جو فریدی کے گرفتار کرنے
والوں کے پیشرو کا تھا۔ بستی کے اندر صاف ستھری سڑکیں تھیں۔ یہ لوگ جدھر سے گزرتے
لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی لیکن اس حالت میں بھی ان کی طرف سے کسی قسم کے وحشیانہ بات
کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ وہ خاموشی اور حیرت سے اپنی سرزمین میں داخل ہونے والے
اجنبیوں کو دیکھتے اور ایک دوسرے سے سر گوشیاں کرنے لگتے۔ ان لوگوں کا رنگ گندمی
تھا اور چہروں کی بناوٹ قریب قریب ویسی ہی تھی جیسی تبت کے باشندوں کے چہروں کی
ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی اداسی تھی ، جو شاید انسانیت اور وحشی
پن کی آویزش کا نتیجہ تھی۔
متعد در استوں سے گزرتے ہوئے یہ لوگ ایک بڑے سے احاطے میں
داخل ہوئے جس کی دیواریں مٹی کی تھیں لیکن انہیں بھی مختلف رنگوں کی گل کاریوں سے
آراستہ کیا گیا تھا۔ یہاں ایک طرف بہت بڑے ہوئے بُت نصب تھے جو تعدا میں اٹھرہ تھے۔
فریدی چونک پڑا اور یہی حالت جارج فنلے کی بھی ہوئی۔ ان میں
سے ایک بت بالکل اس پیتل کی مورتی سے مشابہ تھا۔ ’’سی ۔ جی۔ لا‘‘، فریدی نے آہستہ سے کہا اور جارج فنلے چونک کر اس
کی طرف دیکھنے لگا اور اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
احاطے کی دیوار کے نیچے تین طرف مسلح آدمی کھڑے تھے۔ یہ لوگ
بھی وحشی معلوم ہوتے تھے انہوں نے بھی اپنی گردنوں میں کھوپڑی کی ہڈیوں کی مالا ئیں
لٹکا رکھی تھیں۔ سامنے ایک بہت بڑا سائبان تھا جس کے لیے ایک کافی بلند چبوترے پر چھوٹے
چھوٹے کرسی نما تخت پڑے ہوئے تھے۔
ان لوگوں کے داخل ہوتے ہی ہتھیار بند وحشیوں نے شور مچانا
شروع کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا او رسنکھ پھو کنےلگا جس کی آواز سے جو لیا
ایک بار پھر چکرا گئی ، اگر فریدی اسے سہارانہ دیتا تو یقینًا گرگئی ہوتی۔
ان لوگوں کو ایک طرف کھڑا کر دیا گیا۔ شور بدستور جاری رہا۔
دفتًا سائبان کےنیچے سے دو آدمی ہرے رنگ کے لبادے پہنے ہوئے نمودار ہوئے۔ انہوں نے
ہاتھ اٹھا کر کچھ کہا ور مجمع پرسناٹا چھا گیا۔ فریدی وغیر ہ کے گرفتار کرنے والوں
کا پیشرو آگے بڑھا اور اس نے ان دونوں سے کچھ کہا ہ دونوں چابوترے سے اتر کر ان کے
پاس آئے اور فریدی کو گھورنا شروع کیا۔ وہ پلک جھپکائے بغیر انہیں گھور رہے تھے ایسا
معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی آنکھیں پتھر کی ہوں۔
پھر ان دونوں نے
جارج فنلے کی را ئفلوں اور پستولوں پر
قبضہ کرلیا اور اس وقت تک ان لوگوں کی جامہ تلاشی لیتے رہے جب تک کہ ایک ایک کار
توی دستیاب نہیں ہو گیا۔ فریدی کی گٹھری بھی ٹٹولی تھی لیکن اس میں تمباکو کے بنڈل
اور ایک چھوٹی چلم کے علاوہ اور تھا ہی کیا ۔
بندوقیں وغیرہ چھن جانے پر جولیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
جارج اسے دلاسہ دینے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن خود اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور حمید
کے چہرے پرتو زلزلہ سا آ گیا تھا۔ کبھی اس کے ناک کے نتھنے پھڑ کنے لگتے تھے کبھی
ہونٹ کا پنے لگتے۔ اس وقت اس نے فریدی کو قہر آلود نگاہوں سے نہیں دیکھا۔ اس کی
آنکھوں میں اس وقت ایک عجیب قسم کی بے بسی تھی۔
دافتاً بہت سی گھنٹیاں
بجنے لگیں اور ترہیان بھونکی جانے لگیں۔ دیوار کے قریب کھڑے ہوئے مسلح وحشی سجدے میں
گر گئے ۔ سائبان کے پیچھے ایک جلوس دکھائی دے رہاتھا۔ رنگ برنگ کی قبائیں لہرارہی
تھیں ۔ سب سے پہلے ایک مرد اور ایک عورت سائبان کے نیچے آئے۔ مرد آر تھر تھا جس نے
اپنے قومی لباس کے بجائے ایک چمکیلا لبادہ پہن رکھا تھا جس میں جا بجا خوش رنگ اور
قیمتی پتھر نکلے ہوئے تھے۔ عورت غالباً یہاں کی سفید قام ملکہ تھی ۔ یہ ایک
خوبصورت اور جوان العمر صورت تھی اس کے سر پر سیاہ رنگ کی لکڑی کا ایک تاج تھا جس
کی چوٹی پر ایک بڑا سا ہیر انصب تھا۔ وہ دونوں بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ کے لوگ جو شاید
در باری تھے ان کے پیچھے پڑی ہوئی چوکیوں پر بیٹھ گئے۔
’’ اوہ جارج فنلے !‘‘آرتھر
طنزیہ انداز میں بولا ۔ ’’مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔ پھر و ہ فریدی کی طرف مخاطب
ہو کرپہاڑی زبان میں بولا۔
اور تم دغا باز تم
سے تو اچھی طرح سمجھوںگا‘‘۔
’’ لیکن بزدلوں کی طرح نہیں میں تمہیں بہادر سمجھتا ہوں ۔
فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’ جارج !میں یہاں کی ملکہ کا شوہر ہوں۔ کل ہی ہماری شادی
ہوئی ہے ۔ آرتھر نے ہنس کر کہا۔
’’ اور کل ہی تم اس کے ساتھ دفن کر دیئے جاؤ گئے ۔ جارج طنز
یہ انداز میں بولا۔
’’ اور کل کا حال کون جانے ممکن ہے کل میں قدرتی موت مر
جاؤں۔ آرتھر ہنس کر بولا ۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا کی حسین ترین عورت میری ہوئی ہے یہ جنگلی پھول جس میں
خوشبو بھی ہے اور رنگ بھی ‘‘۔
’’کیا یہ انگریزی بول سکتی ہے‘‘۔ جولیا نے بے ساختہ ہوچھا۔
’’نہیں لیکن اتنی لاطینی جانتی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو
بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ زبان شاید شروع سے یہاں کی ملکائیں ایک دوسری کو سکھاتی
آئی ہیں ۔
آرتھر نے کہا۔
فریدی کو یہ معلوم
کر کے خوشی ہوئی کہ وہ لاطینی زبان جانتی ہے فریدی نے سوچا کہ اب بولناہی چاہئے ورنہ
مفت میں جان جائے گی ۔ لاطینی فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں وہ اچھا خاصہ دخل
رکھتا تھا۔
’’ا ے دنیا کی طاقت ور ترین ملکہ‘‘۔ فریدی نے قدرے جھک کر سیدھے
کھڑے ہوتے ہوئے لاطینی زبان میں کہا کیا مہمانوں کے ساتھ یہی برتاؤ کیا جاتا ہے؟‘‘
آرتھر، جولیا اور جارج فنلے بیک وقت چونک پڑے ان کی آنکھیں
حیرت سے پھیل گئیں۔
’’ اے سیاہ فام اجنبی‘‘ ۔ ملکہ بولی ہمیں افسوس ہے کہ ہمارا
شوہر............. سلاشیہ کا بیٹا ہم سے تمہیں پہلے ہی مانگ چکا ہے۔
’خیر اگرسی ۔ جی۔
لادیو تا کی بیٹی چاہتی ہے کہ ہم اس پر قربان ہو جائیں تو ہمیں کوئی افسوس نہیں ہم
اس کے لئے بھی تیار ہیں ۔ فریدی نے کہا۔
’’میں تم سے وعدہ کر چکی ہوں۔ پورا کروں گی‘‘۔ ملکہ نے مسکرا کر کہا۔
پھر اس نے مسلح وحشیوں سے کچھ کہا اور آرتھر سے لاطینی زبان میں بولی۔
’’یہ ہمارے دیوتا میمون اعظم کی بھینٹ ہیں۔
آرتھر نے قہقہ لگایا۔
’’لوسنو
سر جارج ! تم ان لوگوں کے دیو تابن مانس کی نذر کئے جاؤ گے۔ تم نے اتنا خوفناک گوریلا
کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ وہ تم لوگوں کی ہڈیوں کے جوڑ جوڑ الگ کر دے گا۔ وہ دریا کے ایک
چھوٹے سے جزیرے میں رہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اب میں یہاں کے خزانے کا تنہا مالک
ہوں‘‘۔
جارج نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’اتنے
بے درد نہ بنو۔ جولیا بولی۔
’’تمہارے
باپ نے مجھے اس پر مجبور کیا ہے اگروہ مجھ پر اعتبار کر کے خزانے کا راز بتا دیتا
تو اس کی نوبت نہ آتی‘‘۔
جولیا لاکھ لاکھ
روئی اور گڑگڑائی لیکن آرتھر پر کچھ اثر نہ ہوا ملکہ نے سپاہیوں کو اشارہ کیا ۔ ان
لوگوں کی ایک بار پھر تلاشی
کی گئی۔
دریا میں ایک بڑی سی کشتی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ کھانے پینے
کے سامان کے علاوہ ان سے سب کچھ چھین لیا گیا۔
فالتو چیزوں میں فریدی کی تمبا کو کا بنڈل بھی بچ گیا تھا۔
’’اف
میرے خدا ‘‘۔ جارج کشتی پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔’’ اب....سچ مچ ہماری موت ہی آگئی ہے‘‘۔
’’ آپ آخر اتنے مایوس کیوں ہو گئے ہیں‘‘۔ جولیا بولی۔
’’سر
ہنری نے اپنے سفر نامےمیں اس گوریلے کے متعلق بھی لکھا ہے ‘‘۔ جارج بولا ۔
’’وہ انتہائی خوفناک
اور خونخوار ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہیں جس سے اپنی حفاظت کر سکیں گے‘‘۔
ناؤ چل پڑی۔ آگے چل
کر دریائے نامتی ایک جگہ دو شاخوں میں بٹ گیا اور درمیان میں زمین کا ایک حصہ ایک جزیرے
کی شکل میں اُبھر آیا تھا۔ اس کا طول و عرض تقریباً دو میل رہا ہو گا۔
وہ چاروں اس جزیرے میں چھوڑ دیئے گئے۔ کشتی واپس جا چکی تھی۔
یہاں چاروں طرف گھنے جنگل تھے ۔ فریدی نے سب کو دریا کے اونچے کنارے سے نشیب میں
اتار دیا۔ پھر وہ سب ایک جگہ بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے لگے۔
فریدی نے اپنی پیٹھ پر
بندھا ہو تمباکو کا گٹھرا اتار دو تین پتے مل کر چلم میں رکھے اور تمبا کو جلا کر
اطمینان سے کش لینےلگا اس شخص کا اطمینان
دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے ۔ جارج نے جولیا سے کہا۔ ہاں لیکن کیا یہ اس درندے کا
مقابلہ کر سکے گا۔ جولیا نے کہا۔
’’ اراد ہ تو یہی ہے مس جو لیا ‘‘فریدی مسکر کر انگریزی میں
بولا۔
جارج اور جولیا دونوں اچھل پڑے۔
اوہ تم انگریزی بول سکتے ہو ‘‘۔ جارج متحیر ہوکر بولا ’’تو
پھر تم اتنے دنوں تک گو نگے کیوں بنے رہے‘‘۔
’’ مصلحت ‘‘فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’اگر میں ایسا نہ کرتا
تو یہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتا تھا۔
’’ تو گویا تم شروع ہی سے ہمارے مقصد سے واقف تھے ۔ جولیا
نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘
’’لیکن
تم کون ہو؟ ‘‘ جارج نے پوچھا۔
’’ایک
مشرقی آدمی ۔ فریدی نے جواب دیا۔
’’تو
کیا تم انہیں لوگوں میں سے ہو جو ایک عرصے سے اس مورتی کو حاصل کرنے کی کوشش کرر
ہے تھے۔
’’ نہیں ’’آخر تم پریشان کیوں ہو گئے ہو۔ فریدی نے کہا۔’’ میں
تمہارا دشمن نہیں ہوں، مجھے تو اب آرتھر سےسمجھناہے
’’تو
کیا ہم اس جزیرے سے زندہ واپس جاسکیں گئے ‘‘۔ جولیا نے یاس آمیز لہجے میں کہا۔
’’خدا کی ذات سے تو ہی اُمید ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’ مس جولیا اس کی باتوں میں نہ آنا۔ دنیا میں اس سے بڑا مکار ملنامشکل
ہے ۔‘‘ حمید بے ساختہ بولا۔
’’ ارے جولیا اچھل کر بولی ۔ ‘‘ اب اس گونگےنے بھی انگریزی
بولنی شروع کردی۔
’’ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے ؟‘‘ حمیدبولا۔
’’ جو لیا اب ہمیں سچ مچ مرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔
جارج نے کہا۔
’’ تم خواہہ مخواہ
ڈر رہے ہو سر جارج ۔ فریدی بولا۔ مجھے صرف آرتھر سے دشمنی ہے۔ اس نے میرے
سب سے خوبصورت کتے کو اپنے السیشن سے مرواڈ الا تھا‘‘۔
’’ارے تو تم ہی ہو‘‘ ۔ جولیا ایک بار پھر اچھل پڑی۔ مگر نہیں
!جھوٹ کہتے ہو۔ وہ ایک مہذب آدمی تھا ۔ جوان اورخوبصورت !‘‘
’’میں
وہی ہوں ابھی تھوڑی دیر میں تم مجھے پہچان لوگی۔
’’ خیر چھوڑوان باتوں کو ۔ جارج بولا ۔ اگر تم واقعی میرے
دوست ہو تو اس درندے سے جان بچانے کی کوئی تدبیر کرو۔ میں اسے اپنی رائفل کا نشانہ
بنانے کی کوشش کروں گا۔ فریدی نے کہا۔
ر ائفل جارج متحیر ہو کر بولا ۔‘‘اب تمہارے پاس کون سی را ئفل
ہے شاید موت کے خوف سے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
حمید کوبھی حیرت
ہورہی تھی کہ آخر یہ رائفل کہاں سےٹپک پڑی۔
رائفل کوئی بالشت بھر کی چیز تو نہیں ہوتی کہ فریدی نے اسے اپنے گھیر دارا کی
شلوار کےنیفے میں اڑس لیا ہو۔
’’نہیں
سر جارج میں قطعی صحیح الدماغ ہوں ‘‘۔ فریدی نے کہا اور اپنے بانس کے موٹے ڈنڈے کو
بیچ سے پھاڑ دیا۔
را ئفل کی ایک پتلی
سی نال ڈنڈےکے اندر سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔
حمید نے قہقہ لگایا،
جولیا اور سر جارج حیرت سے فریدی کی صورت دیکھ رہے تھے۔
اب فریدی نے تمباکو
کا بنڈل کھوانا شروع کیا۔ اس میں سے رائفل کا کندہ اور بے شمار کارتوسوں کا پیکٹ برآمد
ہوا۔
اس نے دیکھتے ہی دیکھتے
رائفل فٹ کر لی۔
’’دیکھو سر جارج یہ ایک انتہائی طاقتوار اور
بے آواز رائفل ہے اس سے میں ایک ہاتھی کا بھیجا آسانی سے پھاڑسکتا ہوں‘‘۔ فریدی نے
رائفل جارج کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا۔
’’آدمی ہو یا بھوت ‘‘جارج ہنس کر بولا ۔’’ میں
نے تم جیسا د لیر اور عقلمند آدمی آج تک نہیں دیکھا۔
گرفتار ہونے کے بعد پہلی بار سر جارج کے ہونٹوں پر ہنسی آئی
تھی۔
’’ کیا تم سچ مچ وہی ہو جس نے اپنے نشانہ سے آرتھر کا پستول
اڑادیا تھا۔ جولیا بے ساختہ بولی۔
’’ جی ہاں یہ وہی ہے حمید نے بے دلی سے کہا۔ ’’آخر مجھ سے
بھی تو کچھ پوچھو ‘‘۔ حمید نے اس طرح کہا کہ جو لیا بے ساختہ ہنس پڑی ۔
’’اچھا تم ہی بتاؤ‘‘۔
’’میں سرجنٹ حمید ہوں....اور...‘‘
’’ہاں!‘‘ جارج بولا۔ وہ اس مورتی کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے
انہیں کی زندگی میں اس کی کافی شہرت ہو گئی تھی اور انہیں کی زندگی میں یہ ایک بار
چرائی بھی گئی تھی ۔ متعدد بار یہ میرے قبضے سے بھی نکل چکی ہے۔ کئی بار لوگوں نے
اس کا معمہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ خود میں بھی برسوں اسے حل کرنے میں
پریشان رہا اور آخر کار مجھے سر ہنری کی ایک تحریر سے مدد ملی‘‘۔
’’ٹھہرئیے‘‘۔
فریدی بولا۔ ’’ اب مجھے کہنے دیجئے۔ دیکھئے میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ ٹھیک ہے یا
نہیں۔
’’ ہاں ہاں کہو ۔ سر جارج مسکر ابولا۔
’’ سینگ فریدی نے کہا۔ ’’ صرف سینگ اس بت کے ماتھے پر نکلے
ہوئے سینگ کو توڑناہے۔ لیکن مجھے کسی خزانے کی توقع نہیں ہے‘‘۔
’’تمہیں اس کا پتہ کیسے لگا ‘‘۔سر جارج نے حیرت کا اظہار
کرتے ہوئے کہا۔
’’ نہایت آسانی سے یہ کوئی ایسی مشکل چیز تھی ۔ فریدی نے
کہا
’’مورتی
کے مختلف حصوں پر کچھ حروف کندہ تھے، جو بظاہر ان کے اعضاء کے ناموں کے پہلے حروف
معلوم ہوتے تھے۔ لیکن ان حروف کے کندہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ ایک بچہ بھی کسی
مورت یا تصویر کے اعضا کے نام بتا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں سوائے اس کے اور کیا
سمجھا جا سکتا ہے کہ حروف کندہ کرنے کا مقصد کچھ اور تھا لہذا میں نے ان حروف کو
ترتیب دے کر ایک بامعنی لفظ ہارن (سینگ) بنایا۔ ان حروف سے اس کے علاوہ کوئی اور
با معنی لفظ بنتا ہی نہیں‘‘۔
’’ تم ٹھیک سمجھے خدا کی قسم بالکل ٹھیک سمجھے ۔ سر جارج نے
چیخ کر کہا۔ ’’ لیکن تم نے یہ کیسے کہا کہ خزانہ کی توقع ہیں‘‘۔ یہ گفتگو ہورہی تھی
کہ جولیا چیخ پڑی۔ فریدی چونکا۔ ایک سیاہ
رنگ کا چھ فٹ اونچا بن مانس ان کی طرف چلا آرہا تھا۔ فریدی نے سر جارج وغیرہ کو
مار کے اندر دو کیل دیا اور خود اقل سیدھی کر کے نشانہ لینے لگا۔ رائفل چلی بن
مانس کے داہنے شانے پر سے بال اڑ گئے اس نے لڑ کھڑا کر ایک خوفناک چیخ ماری پھر فریدی
کی طرف جھنپٹا۔
فریدی نے پھر فائر
کیا اس بارگولی ٹھیک اس کی پیشانی پر پڑی تھی۔ وہ گر پڑا اس نے دوبارہ اٹھنے کی
کوشش کی۔ لیکن کھٹرانہ ہو سکا۔ وہ بیٹھ کر مٹی اڑانے لگا۔ اس کی چیخیں بہت زیادہ خوفناک
ہوتی جارہی تھیں۔ فریدی نے پے در پے دو تین فائر
کئے اور وہ بالآخر ڈھیر ہو گیا۔
تقریباً ایک
گھنٹہ کے بعد جولیا کو ہوش آیا اور پھر وہ سب مردہ بن مانس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔
’’میں نے آج تک اتنا خوفناک گوریلا نہیں دیکھا ‘‘۔ سر جارج
نے کہا۔
’’ اور اتنا احمق شکاری بھی تم نے نہ دیکھا تھا ‘‘۔ حمید نے
مسکرا کر کہا۔
’’ جو خواہ مخواہ اپنی زندگی خطرے میں ڈالتا ہے‘‘۔
’’ہم تم لوگوں کے احسان مند ہیں ۔ جولیا بولی۔
’’ہاں !فریدی نے آگ کے قریب بیٹھے ہوئے کیا ۔ " ’’کچھ زیادہ
دشواری پیش نہیں آئی۔ اس وقت صرف ایک آدمی کشتی کی نگہبانی کر رہا تھا۔ جسے میں نے
رئفل کا کندہ مار کر بے ہوش کر دیا اور کشتی لے آیا۔
’’اوہ تم نے اسے مارکیوں نہیں ڈالا ۔ وہ ہوش میں آنے کے بعد
ضرور شور مچائےگا۔
’’ میں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا عادی نہیں‘‘۔ فریدی
کہا۔ وہ صبح تک ہوش میں نہیں آسکتا اور اگر آ بھی گیا تو کیا ہوگا وہ ہمارا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے۔
’’بھلا
تمہاری ایک رائفل کسے کسے سنبھل سکے گی۔ جارج نے کہا
’’اب
شاید رائفل چلانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ فریدی بولا ۔ وہ کیسے ‘‘جولیا بولی۔ بس دیکھتی
جاؤ ۔ فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر چونک کر بولا ’’ہم سورج نکلتے ہی اس
پار پہنچ جائیں گئے۔
’’معلوم
ہوتا ہے کہ واقعی تمہار او ماغ خراب ہو چلا ہے‘‘۔
’’مجھ پر اعتماد کرو اور خدا پر بھر وسا رکھو ۔ فریدی نے کہا ’’ ہم
روز روشن میں ان کے درمیان پہنچیں گے‘‘۔
’’ آخر آپ کی اسکیم کیا ہے ۔
حمید نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ تم جانتے ہو کہ میں پہلے سے اپنی اسکیم نہیں بتا تا‘‘۔
فریدی نے اپنے کپڑے سکھائے اور پھر باہر نکل گیا۔ وہ ان سے
کہہ گیا کہ سورج نکلنے سے پہلے ہی ان کے پاس پہنچ جائے گا۔
فریدی کے چلے جانے کے بعد حمید جو لیا اور جارج کو فریدی کے
کارناموں کی داستانیں سناتا ر ہاوہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتارہا کہ فریدی نے آج
تک کوئی غلط قدم اٹھایاہی نہیں اور وہ اتنا خوش قسمت ہے کہ بعض اوقات اس کی حماقتیں
بھی اس کی کامیابی کی وجہ بن گئیں۔ حمید نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اسے محض سراغ
رسانی کا شوق اس محکمےمیں لایا ہے، ورنہ وہ خودایک کافی مالدار آدمی ہے۔
’’ اس کی بیوی اس کی وجہ سے بہت پریشان رہتی ہوگی۔ جولیا بولی۔
’’ میرے شیر نے یہ روگ ہی نہیں پالا ۔ حمید نے کہا۔
’’کیوں‘‘
’’محض
اس لئے کہ دوا سے گھر یلو آدمی بنانے کی کوشش کرے گی ‘‘۔ حمید نے کہا۔
تار یکی آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی تھی۔ آسمان میں نندا
سے چھپکیاں ہی لیتے معلوم ہورہے تھے ۔ ہر طرف ایک پراسرار روح کی گہرائیوں میں اتر
جانے والا سناٹا تھا۔ دور تک پھیلے ہوئے جنگل بے کراں آسمان کی وسعتوں سے سرگوشیاں
کرتے معلوم ہورہے تھے۔
دفتاًایک خوفناک بن مانس خاموشی سے غار میں داخل ہوا۔ حمید
کی پشت غار کے دہانے کی طرف تھی۔ جو لیا اور جارج اونگنے لگے ھے۔ بن مانس کے داخل ہونے کی کسی کو خبر تک نہ
ہوئی۔ اس نے حمید کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ حمید چوک کر مڑا لیکن دوسرے ہی لمحےمیں
و ہ چیخ کر جارج پر گر پڑا ۔جولیا اور جارج جاگ پڑے۔ دونوں کی گھگلی بندھ گئی
دفتاً بن ماس آدمیوں کی طرح قہقہہ مار کر ہنسا۔
ڈرونہیں۔ میں فریدی ہوں‘‘۔ بن ماس نے کہا۔ ’’ میں نے اس بن
ماس کی کھال اتار کر اپنے جسم پرفٹ کرلی ہے۔ حمید تم دیکھ کربتاؤ کہیں سے کوئی تو
کمی نہیں رہ گئی‘‘۔
’’تینوں ہنسنے لگے لیکن ان کی ہسی میں اب تک خوف شامل تھا۔ حمید ایک
جلتی ہوئی لکڑی اٹھا کر نیچے سے اوپر تک فریدی کا جائزہ لینے لگا۔
’‘سو فیصدی خالص بن مانس -۔حمید ہنس کر بولا ۔لیکن اس حماقت
کی ضرورت؟‘‘ ۔
’’تمہیں پھر سے مہذب دنیا کی روشنی دکھانے کے لئے ۔ فریدی
نے کہا۔ ’’ اب میں سمیلی قوم کا ایک زندہ دیوتاا ہوں اور تم لوگ میری پناہ میں ہو۔
کیا وہ اب ہمیں اپنی سرزمین میں نہ داخل ہونے دیں گے مگر اس کھال کی بدبو سے میر
ادماغ پھٹاجارہا ہے۔ سورج نکلنے ہی والا ہے۔ جلدی کروکشتی کنارے پر تیار ہے اور
ہاں اب یہ بھی سن لو۔ اب میں اس وقت تک خاموشی اختیار کرلوں گا جب تک ہم اس سرزمین
سے نکل نہ جائیں۔ جارج تم اس بات کا خیال رکھنا کہ آرتھر اور اس کی سفید ملکہ یہاں
سے نکل کر کسی طرف جانے نہ پائیں۔ ہم انہیں واپس لے چلیں گے۔
چاروں جا کر کشتی
پر بیٹھ گئے ۔ حمید کشتی کھیچنے لگا۔ سر جارج رائفل لئے بیٹھاتھا۔ دوسرے کنارے پر
کوئی نہیں تھا۔ صرف دو تین کشتیاں کھڑی تھیں وہ بآسانی پار اتر گئے۔
بن مانس جولیا کا ہاتھ پکڑے تھا۔ حمید اور جارج ان کے پیچھے
چل رہے تھے۔ بن مانس کو دیکھ کر جنگلیوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ جب وہ
لوگ بستی میں آئے تو عورتیں اور بچے ڈر ڈر کر اپنے جھونپڑوں میں گھس گئے ہر طرف
شور بر پا تھا ۔ لوگ بستی چھوڑ چھوڑ کر جنگل کی طرف بھاگ رہے تھے۔ بہتیرے عبادت
گاہوں میں گر کر چیخیں مار مار کر رور ہے تھے۔ پھر یہ لوگ اس احاطے میں پہنچے جہاں
انہوں نے ملکہ اور آرتھر کو دیکھا تھا۔ اور جہاں بڑے بڑے بت نصب تھے جیسے ہی ان
لوگوں نے بن مانس کو دیکھا بھگڈ رمچ گئی۔
وہاں بھی بہتیرے سجدے میں گر گئے تھے۔ فریدی بن مانسوں کی طرح شور مچا تا ہوا چھل کر
چبوترے پر چڑھ گیا تھا۔ آرتھر نے بھاگنا چاہا لیکن دوسرے ہی لمحے میں سرجارج کے
ہاتھ میں دبی ہوئی رائفل کی نال اس کے سینےپرتھی ۔ ملکہ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی
۔ فریدی نے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ تھوڑی دیر بعد اس احاطے میں ان کے
علاوہ ایک منفس بھی باقی نہ تھا۔ حمید نے آرتھر کے ہاتھ پیررسی سے جکڑ کر ایک طرف
ڈال دیا اور پھر چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ بھاگتے ہوئے جنگلیوں کا شور کہیں دورسنائی
دے رہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے جھونپڑے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ یہ شاید ان کی زندگی میں
پہلا واقعہ تھا کہ ان کے دیوتا بن مانس نے .........ان کی بستی میں آکر رانہیں
درشن دیا تھا۔
بر بارانی کی دو تا کی بینک تو انے میں مشغول ہو گیا۔ عید
اور جولیا کھانے پینے کا سامان اکٹھا کر نے مجھے۔ کی ابھی تک بے ہولی ہوں کے
کاندھے پر پڑی تھی۔
باند گھنٹوں کے بعد وہ ایک دی گئی میں اچھے وہ دنے اس پار
کر ہے تھے۔ فریوی نے حمید کورانے کے تعلق پہلے ی کبھار ہا تھا۔ وہ پاتے اسی پر کر
کے جان والے کتنے کے مطابق سر کرنے کے بجائے دور والے پانی کی تالا بنگل خدلی سے
گزرتا ہوا آبی سفر جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس طرح وہ کشتی پر پیچھے ہی پیچھے رام
گڑھ کے قریب بھی لکھے تھے۔ باری والا کنش اب سے تین سو برس پرانا تھا۔ جسے سر بطری
نے ترتیب دیا تھا اور فریوی نے نیا اقوام اپنی نافر الموالی معلومات کی نام کیا
تھا۔ اس طرح سفر جاری رکھنے کی ایک وجہ اور یہ بھی تھی کہ انہیں سواری کے لئے اور
کوئی دوسری چیزیں بھی نہیں سکتی۔ مچھروں کو آرتھر کے ور نکلا تے ہوئے مزدوروں سمیت
وہ پہلے ہو گا چکا تھا۔
حمید اور سرجارج کشتی کھے ر ہے تھے ۔ آرتھر بندھا ہو پڑا
تھا۔ ملکہ ہوش میں آچکی تھی وہ خاموش اور سہمی ہوئی ایک طرف بیٹھی تھی۔ فریدی اب تک بن مانس کی
کھال پہنیے ہوئے تھا۔ اسے خوف تھا کہ سمیلی قوم کے لوگ حملہ نہ کر دیں۔ اس لئے اس نےیہی مناسب سمجھا کہ کھال اس وقت تک پہنے رہے جب تک
کہ علاقے میں سے گزر نہ جائے گرمی اور کھال کی بد بو ہونے کی وجہ سے اس کا سر چکرانے لگا۔
’’خزانے
کا کیا ہوا سر جارج ‘‘۔آرتھر نے پڑے پڑے پوچھا۔ اور اس وحشی جانور کوتم نے کس طرح
کام میں لیا ۔
’’وحشی جانور کی لمبی داستان ہے وہ پھر کبھی سناؤں گا۔ سر جارج پھیکی
مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ لیکن خزانہ...
خزانے پر تم پہلے ہی قبضہ پا چکے ہو اور اس کےتنہا مالک ہو،
مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
’’کیا
مطلب آرتھر چونک کر بولا ۔میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں کہ مجھے خزانہ نہیں مل
سکا‘‘۔
’’تم
جھوٹے ہو۔ جارج ہنس کر بولا۔ وہ خزانہ اس وقت بھی تمہارے پاس ہے اور تم اس کے تنہاما
لک ہو۔
’’اوہ سر جارج میں جانتا ہوں کہ تم دھوکہ دہی کے سلسلے میں
مجھے قانون کے حوالے کر دو گے لیکن مجھے اس طرح زچ مت کرو !میں سب کچھ بھگتنے کے
لئے تیار ہوں۔ خزانہ تمہیں مبارک رہے۔ تم جیتےمیں ہار گیا۔ لیکن میری درخواست ہے
کہ میرا مضحکہ مت اُڑاؤ‘‘۔
’’آرتھر
مجھے تم سے ہمدردی ہے ۔ سر جارج نے کہا‘‘ تم نے مجھے دھوکا ضرور دیا تھا۔ لیکن میں
تمہیں معاف کر دیا۔ محض اس لئے کہ اب تم اس خزانہ پر قابض ہو چکے ہو اور اگر ایسانہ
ہوتا تو میں کبھی تمہیں معاف نہ کرتا ۔
’’ سر جارج مجھے پریشان نہ کرو ان آرتھر نے ایک بچے کی طرح
بے بسی سے کہا۔
بخدامیں تمہیں پریشان نہیں کر ر ہوں‘‘ ۔ جارج نے اٹھتے ہوئے
کہا۔ ’’ یہ لو میں تمہارے ہاتھ پیربھی کھو ل دیا ہوں۔ جارج نے
بن مانس کی طرف دیکھا۔ اس کا اشارہ پاتے ہی سر جارج نے آرتھر کے ہاتھ پیر کھول دئیے
و ہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حیرت کی وجہ سے اس کے منہ سے ایک الفاظ بھی نکل نہ سکا البتہ
ملکہ کے چہرہ پر بشاشت دوڑ گئی۔
تو کیا اب یہ لوگ ہمیں قتل نہ کریں گئے ۔ ملکہ نے لاطینی
زبان میں آرتھر سے پوچھا۔
’’نہیں ‘‘۔ آرتھر نے جواب دیا۔ لیکن میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
پھر وہ جارج کی طرف مخاطب ہوا اور حمید کی طرف اشارہ کر کے
پوچھا۔
اس گونگے کا ساتھی کہاں گیا ؟‘‘
’’ اسے بن مانس نے مارڈالا ۔سر جارج نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ مجھے افسوس ہے ‘‘۔ آرتھر بولا ۔ وہ ایک بہادر اور وفادار
آدمی تھا اور میں اس کے مقابلہ میں ایک ذلیل آدمی ہوں‘‘ ۔
’’تم اس
خزانے کے لئے بے تاب ہو ۔ سر جارج نے کہا۔ لویہ خزانہ میر یہ سی جی لا دیوتا کی سینگ
کے اندر سے نکلا ہے ۔
سرجارج نے ایک بہت پرانا تہ کیا ہوا کاغذ آرتھر کی طرف بڑھایا
۔ آرتھر اسے لے کر بلند آواز سے پڑھنے لگا۔
’’تم خزانے کی تلاش میں آئے ہو خوش آمدید!میں سچ مچ ایک بہت
بڑا خزانہ تمہیں سونپ رہا ہوں۔ کیا تمہارے لئے یہ خزانہ کم ہے کہ تم ایک سفید فام
عورت یا اس کے بچوں کو وحشی درندوں کے بچوں سے آزاد کرا کے اپنے ساتھ لئے جار ہے
ہو۔ کیا یہ کم ہے کہ تمہارے اس کارنامے پر تمہاری آنے والی نسلیں فخر کر سکیں گی۔
میں سر ہنری فنلے اپنی سفید فام بیوی (جواِن وحشیوں کی ملکہ ہے) کے بطن میں اپنی یاد
گار چھوڑے جارہا ہوں۔ میں جارہا ہوں ورنہ میں بھی ان کی درندگی کا شکار ہو جاؤں
گا۔ اپنے ملک میں پہنچ کر اس بات کی کوشش کروں گا کہ اپنے ساتھ یہاں تک ایک مہم لے
آؤں اور اپنی بیو ی کو یہاں سے لے جاؤں لیکن مجھے اس کی امید نہیں۔ میری قوم صرف ایک
عورت کے لئے اتنا بڑا خطرہ مول نہ لے گی۔ خیر میں انتہائی کوشش کروں گا اور اگر اس
میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو میں اپنی لالچی قوم کو دوسری طرح راضی کروں گا۔ میں سی
جی لا دیوتا کی ایک پتیل کی مورتی بنا کر اسے انتہائی پر اسرار طریقے پر شہرت دوں
گا۔ ان دنوں میرے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خزانوں کی تلاش میں مشرق کا
سفر کرتے ہیں۔ دولت کی لالچ میں اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں کرتے ۔ میں انہیں اسی
طرح کنچارکے جنگلوں میں بھیجوں گا۔ کاش یہ میر امشن کامیاب ہو سکے! بہت ممکن ہے کہ
میری اولا دہی میں سے کوئی اس کی کوشش کرے۔ بہر حال میں خدا اور اس کے بیٹے کی
رحمتوں کا منظر ہوں۔ اگر میں اس مشن کی کامیابی سے پہلے مر بھی گیا تو اس وقت تک میری
روح بے قرار رہے گی۔ جب تک میرے سفید قام بچے اپنے مہذب ملک میں نہ پہنچ جائیں گے
۔ تم پر خدا اور اس کے بیٹے کی برکتیں نازل ہوں ‘‘۔
سر ہنری فنلے
یکم
اپریل ۱۷۱۳ء
آرتھر نے قہقہ لگایا اور وہ پر چہ واپس کر دیا۔ حمید اور
جولیا حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔
’’ کیا بات ہے‘‘ملکہ نے آرتھر سے پوچھا۔
’’ہم
لوگ خزانے کی تلاش میں آئے تھے ۔ آرتھر نے کہا۔ ’’ اور میں نے وہ خزانہ پالیا اور
اس کا تنہا مالک ہوں ‘‘۔ اور پھر آرتھر نے اسے سب کچھ سمجھا دیا۔ وہ کچھ بولی نہیں۔
اس کے چہرے سے بہر حال یہ معلوم ہور ہا تھا کہ اسے اپنی حکومت چھوڑنے کا غم ہے۔
دن گزرتا جار ہا تھا ۔ سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف جھک
رہا تھا۔ وہ کنچار کے علاقے سے نکل کر ستیل ندی کے دہانے میں داخل ہورہے تھے۔ فریدی
بدستور خاموش بیٹھا تھا ملکہ کبھی کبھی خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ لیتی تھی۔
آرتھر بھی مطمئن نہیں تھا۔
’’لیکن
ان لوگوں پر ہمارا دیوتا میمون اعظم لیے مہربان ہو گیا ۔ ملک کے طویل خاموشی کے
بعد آرتھر سے لاطینی زبان میں کہا۔ اے ملکہ میں نے مناسب سمجھا کہ تجھے تیری نسل
کے لوگ تیرے پاس موجود ہیں۔ یہ بوڑھا تیرا عزیز ہے اور یہ لڑکی شاید رشتے میں تیری
بہن لگتی ہو۔ اٹھ اور ان دونوں کو بوسہ دیا
’’ میمون اعظم نے گرج کر کہا۔
ملکہ نے اٹھ کر سر
جارج اور جولیا کی پیشانیاں چوم لیں اور انہوں نے بھی اسے بوسہ دیا۔
’’اور بیٹا آرتھر بن
مانس انگریزی میں بولا ۔ ’’آج سے عہد کرلو کہ کبھی اپنے ساتھیوں کو دھوکہ نہ دو
گے۔
’’ارے سر جارج یہ تو انگریزی بھی جانتا ہے ۔ آرتھر سہمی ہوئی
آواز میں بولا۔
’’میں دیوتا ہوں۔ آرتھر بن مانس نے حمید کی طرف اشارہ کر کے
کہا’’ میں علم دوں تو یہ گونگا بھی انگریزی بولنے لگے۔ ہاں گو نگے آرتھر سے انگریزی
میں بات کرے۔
’’کیپٹن آرتھر دیوتا سچ
کہتا ہے ‘‘حمید نے مسکرا کر انگریزی میں
کہا آرتھر بوکھلا گیا۔
’’جارج یہ کیا معاملہ
ہے ۔ آرتھر نے خوف زدہ آواز میں کہا۔
’’میں
کیا جانوں ۔ جارج اٹھتاہوا بولا ۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ اب ذرا تم پتوار پکڑ لو‘‘۔
’’آرتھر خاموشی سے چوارکھچنے
لگا۔
’’اچھا اے گو نگےاب تو بھی اٹھ تیری جگہ میں بیٹھوں گا۔ تو بھی تھک گیا ہوگا‘‘۔ بن ماس نےاٹھتے ہوئے کہا۔
حمید ہٹ گیا اس کی جگہ بن مانس کشتی کھچنےلگا ۔
’’مسٹر فریدی اب آرتھر
کو زیادہ پریشان نہ کرو‘‘۔ جو لیا بولی۔
’’ مجھے بھی بہت گرمی لگ رہی ہے ۔ فریدی نے کہا اور پتوارکور
کھ کراپنی کھال اتارنے لگا۔
آرتھر کے منہ سے حیرت کی چیخ نکل گئی۔ فریدی اپنی اصل صورت
میں آگیا تھا۔ اس نے پہاڑی مزدوری والا میک اپ بھی بگاڑ دیا تھا ۔
’’یہاں کہاں‘‘ آرتھرچیخ کر
بولا۔’’تم وہی تو ہو جس نے میرے کتوں کا خون کر دیا تھا‘‘۔
’’جی
میں وہی ہوں!‘‘فریدی نے کہا اور خاموش ہو گیا۔
جولیا نے سارا واقعہ آرتھر کو بتایا۔
’’ مسٹر فریدی تم سے مل کر
بہت خوشی ہوئی‘‘۔ آرتھر نے فریدی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ ’’ مجھے اس وقت تم پرشبہ ہو گیا تھا جب تم نے افریقہ کے حوالے دینے شروع
کئے تھے لیکن تم نے بہت خوبصورتی سے مجھے یقین دلاد یاتھا ‘‘۔
’’ کیوں سر جارج ۔ فریدی نے کہا۔ کیا خزانہ ملا۔ تمہاری ’’زبانی ‘‘س ہنری کی داستان سنتے ہی میں شبےمیں پڑ
گیاتھا۔ محض اس لئے کہ اگر واقعی وہ کسی ایسے خزانے سے واقف تھا تو اس نے خود ہی
اسے شہرت کیوں دی و ہ اس مورتی کو دکھاد کھا کر چھپانےکی کوشش کر رہا تھا‘‘۔
’’کاش میں اپنی قوم کے لوگوں کو یہاں سے پکار سکتی ‘‘۔ ملکہ
قہر آلود آواز میں بولی۔ اس کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا تھا وہ فریدی کو اس طرح
گھور رہی تھی جیسے موقع ملتے ہی اسے قتل کردے گی۔ پھر اس نے دریا میں چھلانگ لگانے
کی کوشش کی ۔ فریدی نے جھپٹ کر اسے پکڑ لیا۔
’’ آرتھر بہتر یہی ہے کہ اسے باندھ کر ایک طرف ڈال دور نہ یہ
خودکشی کرلے گی۔ صدیوں کا جنگلی پن آسانی سے نہیں جائے گا۔ اسے مہذب بنانے کے لئے
تمہیں سالہا سال محنت کرنی پڑے گی‘‘۔
’’ میں اس کے لئے سب کچھ کروں گا۔ مسٹر فریدی !میں اسے بے
حد چاہتا ہوں اس کے جنگلی پن میں بھی ایک اتھاہ محبت کی دولت ملی ہے‘‘ ۔ آرتھر نے
کہا اور ملکہ کے ہاتھ ہی باندھ کراُسے ایک طرف ڈال دیا ۔ وہ رو رو کر آرتھر سے منت
کر رہی تھی کہ اسے مرجانے دیا جائے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ خاموش ہوگئی ۔
’’ فریدی تم کبھی انگلینڈ بھی آؤ گے ؟ ‘‘جولیا نے کہا۔
میں بھی یہی کہنے والا تھا‘‘۔جارج نے کہا۔
’’آؤگا‘‘۔فریدی نے کہا اور خاموشی سے کشتی کھچتا رہا۔
’’ تم نے مجھ سے کچھ نہیں کہا ۔ حمید نے جولیا سے کہا۔
’’تم بھی آنا‘‘۔جولیا ہنس پڑی۔
’’نہیں ابھی میراباپ
زندہ ہے وہ مجھے انگلینڈ نہ جانے دے گا ‘‘۔ حمید نے ایسی مسکینیت سے کہا کہ سب ہنس
پڑے۔ رات کے بے کراں سناٹےمیں چپوؤں کی’’ شپاشپ‘‘ ایک عجیب سانغمہ چھیڑے ہوئے تھی۔
سر پر تاروں بھر ا لا محدود آسمان ۔آسمان صدیوں پرانی کہانی دہرار ہا تھا.... اور
نیچے لہروں کی’’ ترل رل رل ایک غیر فانی گیت گا رہی تھی۔
فریدی ماضی کے دھندلکوں میں ڈوب گیا۔
0 Comments