پیسا-نظیرؔ اکبر آبادی
Paisa By Nazeer Akbarabadi
نقش یاں جس
کے میاں ہاتھ لگا پیسے
کا
اس نے تیار
ہر اک ٹھا ٹھ کیا پیسے کا
گھر بھی پاکیزہ عمارت
سے بنا پیسے کا
کھا نا آرام سے کھا
نے کو ملا پیسے کا
کپڑا تن کا
بھی ملا زیب فزا،پیسے کا
جب ہوا پیسے کا اے
دوستو آکر سنجو گ
عشرتیں پاس ہو ئیں
،دورہو ئے من کے روگ
کھا ئے جب مال پو ے،
دودھ دہی ،مو ہن بھو گ
د ل کو آنند ہو ئی
،بھاگ گئے روگ اور دھو گ
ایسی خو بی
ہے،جہاں آنا ہوا پیسے کا
سا تھ اک دو ست کے اک
دن جو میں گلشن میں گیا
واں کے سر ووسمن
ولالہ وگل کو دیکھا
پو چھا اس سے کہ یہ ہے باغ بتاؤ کس کا
اس نے تب گل کی طرح
ہنس دیا اور مجھ سے کہا
مہر باں، مجھ سے
یہ تم پو چھو ہو کیا،پیسےکا
یہ تو کیا اور جو ہیں
اِس سے بڑے باغ وچمن
ہیں کھلے کیا
ریوں میں نرگس و نسرین
و سمن
حوض ،فوّارے ہیں ،
بنگلوں میں بھی پر دے ،چلون
جابہ جا قمری و بلبل
کی صدا شور فگن
واں بھی دیکھا
تو فقط گُل ہےکھلا پیسے کا
واں کو ئی آیا
لیے ایک
مرصعّ پنجرا
لال دستار ،دو پٹّا
بھی ہرا جوں توتا
اس میں اک بیٹھی وہ مینا کہ ہو
بلبل بھی فدا
میں نے پو چھا"
یہ تمہارا ہے" رہا وہ چپکا
نکلی منقارسے مینا کی صدا،پیسے کا
واں سے نکلا تو
مکاں اک نظرآیاایسا
درودیواروں سے چمکے
تھا پڑاآب طِلا
سیم ،چونے کی جگہ اس
کی تھا اینٹوں میں لگا
واہ وا کر کے کہا
میں نے،یہ ہو گا کس کا
عقل نےجب مجھے
چپکے سے کہا ،پیسے کا
رو ٹھا عا شق سے جو
معشوق کوئی ہٹ کا بھرا
اور وہ منّت سے کسی طور نہیں
ہے منتا
خو بیاں پیسے کی
اے یار کہوں میں کیا کیا
دل اگر سنگ سے بھی اُس کا زیادہ تھا کڑا
موم سا ہو گیا
جب نام سُنا پیسے کا
جس گھڑی ہو تی ہے اے
دوستو پیسے کی نمود
ہر طرح ہو تی ہے خوش و قتی
و خو بی بہبود
خو ش دلی ،تازگی اور
خرّمی کر تی ہے ورود
جو خوشی چاہیے
،ہوتی ہے وہیں آموجود
دیکھا یارو تو یہ
ہے عیش و مزا ،پیسے کا
پیسے والے نے اگر
بیٹھ کے لو گوں میں کہا
جیسا چاہوں تو مکاں
ویسا ہی ڈا لوں بنوا
حرفِ تکرار کسی کی جو
زباں پر آیا
اس نے بنوا کے دیا
جلدی سے ویسا ہی دِکھا
اُس کا یہ کام
ہے اے دوستو ،یا پیسے کا
ناچ اور راگ کی
بھی خوب سی تیّا ری ہے
حسن ہے، ناز ہے، خوبی ہے ،طرح داری ہے
ربط ہے، پیار ہے ،اور
دوستی ہے ،یاری ہے
غور سے دیکھا تو سب عیش کی بسیاری ہے
روپ جس وقت ہوا
جلوہ نما ،پیسے کا
دام میں دام کے، یارو ،جو مرا دل ہے اسیر
اس لیے ہو تی ہے یہ میری زباں سے تقریر
جی بھی خوش رہتا ہے اور دل بھی بہت عیش پزیر
جس قدر ہو سکا میں نے
کیا تحر یر نظیرؔ
و صف آگے میں
لکھوں تابہ کجا،پیسے کا
1 Comments
ماشا اللہ لفظ لفظ تاریخ و تجربہ۔
ReplyDelete