پنکھا -نظیرؔ اکبرآبادی
Pankha By Nazeer Akbarabadi
کیا موسمِ گرمی
میں نمودار ہے پنکھا
خو بوں کے پسینوں کا خریدار ہے پنکھا
گل رُوکا ہر اک جاپہ
طلب گار ہے پنکھا
اب پاس مرے یار کے ہر
بار ہے پنکھا
گرمی سے محبّت
کی بڑا یار ہے پنکھا
کیا کیا تجھے اُلفت
کی جتا تا ہے وفا ئیں
دھوپ آوے ،تو کرتا ہے پڑا ہاتھ سے چھا ئیں
بے تاب ہو، کرکرکے خو
شامد کی ہو ائیں
لیتا ہے ہر اک دم
ترے مکھڑے کی بلائیں
ایسا تری الفت میں
گر فتار ہے پنکھا
دل باغ ہوا جاتا ہے پھولوں
کی بھبک سے
اور رُح بسی
جاتی ہے خوش بوکی مہک سے
کچھ خس سے ،کچھ اُس پانی کی بوندوں کی ٹپک سے
نیندآتی ہے آنکھوں میں چلی جن کی
جھپک سے
کیا یار کے جھلنے
کا مزے دار ہے پنکھا
نرمی سے ،صفائی
سے ،نزاکت سے ،بھڑک سے
گو ٹوں کی لگاوٹ سے ، اور ابرک کی چمک سے
مُقّیش کے جھڑتے ہیں پڑے
تار جھپک سے
دریا کو ئی و گو
ٹے و کناری کی جھمک
سے
کیا ہاتھ میں کافر
کے جھمک دار ہے پنکھا
ہے یہ وہ ہوا
دار ، جہاں اِس کا گزر ہو
پھر گرمی تو واں
اپنے پسینے میں چلے رو
کرتا ہے خو شی رُوح
کو، دیتا ہے عرق کھو
رکھتا ہے سدا اپنے وہ
قبضے میں ہوا کو
سچ پو چھو تو کچھ
صاحبِ اسرار ہے پنکھا
لے شام سے ، گرمی
میں سدا،تا بہ سحر گاہ
رہتا ہے ہراک وقت
پری زادوں کے ہم راہ
عا شق کے تئیں اُس کی
بھلا کیو نکے نہ ہو چاہ
پھولوں کی گُند ھاوٹ
سے اب اُس گُل کا نظیرؔ آہ
رشکِ چمن و حسرتِ گُل
زار ہے پنکھا
0 Comments