پرندے کی فریاد-علامہ اقبال
Parinde ki Faryad by Allama Iqbal
بچوں کے لیے
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دَم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
کیا بدنصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا
ہوں
ساتھی تو میں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار، کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس
قید کا الہی! ُڈکھڑا کسے سُناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھُٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا
رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے
دُکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھے کو کر دے، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر
دُعا لے
1 Comments
علامہ اقبال کی یادگار منظوم تحریرھے اور شاہکار کلام ہے ۔۔ایک روح اسیر کے جذبات و احساسات کی بہترین عکاسی ۔۔۔یاسییت سے لبریز شکستہ دل کی صداے بازگشت۔۔۔عمدہ انتخاب۔
ReplyDelete