پُرا سراروصیت-ابن صفی
Purasrar Wasiyat by Ibne Safi
1
’’شام خوشگوار ہے اور پو رچ کی محرابو ں میں جھو لتی ہو ئی
بیلیں …‘‘
سر جنٹ حمید اس کت آگے نہ سوچ سکا
۔وہ پو رچ کی محرابوں میں جھو لتی ہو ئی بیلوں کے سلسلے میں کسی نا در تشبیہ کے
لئے دیر سے سر ما ررہا تھا ۔جب کو ئی کا م
نہ ہو تو مینڈ کی کا ذہن بھی شا عر ی کر نے لگتا ہے پھر حمید تو کا فی ذہن تھا اور
عر صے سے اُسے کو ئی خوبصورت لڑکی کی نظر نہیں آئی تھی ۔حسن پر ستوں کی عام نفسات
یہ ہے کہ وہ کا لی ،کلو ٹی لڑکیوں سے شروع کر تے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ مشکل
پسند ہو تے جا تے ہیں ۔یعنی پھر مشکل ہی سے کو ئی چہرہ ان کے معیار پر پو ر ا اُتر
ہے …اور پھر ایک خطر ناک دور کا آغاز ہو تا ہے وہ در یچوں میں
جھولتی ہو ئی بیلوں میں حسن تلاش کر نے لگتے ہیں پھر کتّوں کی طرح بھو نکنے میں
ایک ہی آدھ ڈگری کا فرق رہ جا تا ہے۔
سر جنٹ حمید نے بڑی اداسی سے جھو لتی
ہو ئی بیلو ں پر الوداعی نظر ڈالی اور ایک طو یل انگڑائی لے کر کھڑا ہو گیا ۔
وہ سو چ رہا تھا کہ اس وقت اسے کہاں
جانا چا ہئے ۔فر یدی بھی گھر پر مو جو د نہیں تھا ۔ وہ چند لمحے خاموش کھڑا رہا
تھا پھر گیراج کی طرف بڑھا ۔
دفعتہً ایک چھو ٹی سی ٹو سیڑکا رکمپا
ؤنڈ میں داخل ہو ئی اور اسٹیر نگ کے پیچھے بیٹھی ہو ئی لڑکی پر نظر پڑتے ہی حمید
کی عا قبت روشن ہو گئی ۔لڑکی بڑی خوبصورت اور اسما رٹ معلوم ہو تی تھی ۔کا رروک کر
وہ نیچے اتری ۔وہ سفید سلک کی قمیصاور ہلکے سبزرنگ کے پتلون میں ملبوس تھی ۔سنہر
رنگ اور گھونگھریا لے بال پشت پر لہریں لے رہے تھے۔کا نوں میں پڑے ہو ئے سو نے کے
رِنگ گالوں کے سلگتے ہو ئے ابھاروں کو ہو لے ہو لے چھو ر ہے تھے ۔حمید جہاں تھا
وہیں رُک گیا ۔لڑکی تیزی سے اس کی طرف آئی۔
’’انسپکٹر فر یدی !‘‘وہ حمید کو نیچے
سے اوپر تک گھو رتی ہو ئی بولی ۔
حمید نے بو کھلاہٹ میں سر ہلا دیا ۔
’’میں آپ سے صاف صاف گفتگوکر نے آئی
ہوں…سمجھے!‘‘اس نے سخت لہجے میں کہا۔
’’کیجئے !‘‘حمید نے بڑی سا دگی سے کہا
۔
’’میں …!لیکن نہیں
۔’’وہ اس بولی جیسے بلند آواز میں سوچ رہی ہو ۔پھر اس نے بڑی بڑی پلکیں اوپر اٹھا
ئیں ۔اب اس کے چہرے پر ہچکچاہٹ کے آثار تھے ۔اس نے پھر سر جھکا لیا اور سینڈل کی
نو ک سے زمین کر ید نے لگی ۔
’’نہیں ! میں کچھ نہیں کہنا چا ہتی
!‘‘وہ یک بیک اپنی کا ر کی طرف مُڑی ۔
حمید متّحیرانہ انداز میں گردن جھٹک
کر اسے گھورنے لگا۔وہ کا ر کے قریب پہنچ کر پھر پلٹی ،ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا
۔ایک پیر اندر تھا اور دوسراباہر…
’’یہ سا زش ہے ! کھلی ہو ئی سا زش !‘‘
وہ حمید کو گھو نسہ دکھا کر بولی اور سیٹ پر دھم سے بیٹھ کر دروازہ اتنے زور سے
بند کیا کہ سا ری کمپاؤنڈ میں اس کی آواز پَھیل گئی پھر وہ کا راسٹارٹ کر نے ہی
جا رہی تھی کہ حمید اس کی طرف لپکا۔
’’سنئے توسہی …بات کیا ہے ؟‘‘
’’کو ئی بات نہیں !‘‘ وہ چیخ کر بولی
۔’’مجھے ذراہ برابر پر وانہ کر نی چا ہئے لیکن تمہیں زندگی پھر سکون نہیں نصیب ہو
گا !‘‘
اس نے کا راسٹارٹ کی …اور حمید کھڑا دیکھتا ہی رہ گیا ۔جب کار پھاٹک سے نکلی تو وہ چو نکا ۔دوسرے
لمحے میں وہ تیزی سے گیراج کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اس نے کا ر نکالی لیکن وہ سرخ رنگ کی
ٹوسیڑ سٹرک پر نظر نہیں آئی۔مختلف سڑکوں پر بڑی دیر تک اسے تلاش کر تا رہا ۔وہ
چاہتا تو چورا ہوں کےٹریفک کا نسٹیبلوں سے اس کے متعلق پو چھ سکتا تھا مگر چو نکہ
اسے ایک لڑکی ڈرائیوکر رہی تھی اس لئے حمید نے مناسب نہ سمجھا۔
وہ کا فی دیر تک خیالات میں الجھا ہو
ا ایک سڑک سے دوسری سڑک پر کا ر دوڑاتارہا ۔لڑکی بڑی خوبصورت تھی اور اس میں ہ بات
ضرور تھی جس سے حمید کے ذہن کے کسی گوشے میں ایک عجیب سا احساس کُلبلانے لگتاتھا
۔وہ خود بھی آج تک اس کیفیت کو کوئی نام نہ دے سکا تھا۔بس تھی کو ئی چیز جس کا تجزیہ عام نہیں
تھا ۔شاذونادرہی کوئی لڑکی ذہن کے اس ڈھکے چھپے گو شے میں ہلچل مچانے میں کا میاب
ہو تی تھی۔کچھ دیر بعد اس کے ذہن پر ایک عجیب سی اُداسی مسلط ہو گئی ۔اداسی میں
اکتا ہٹ کے بجا ئے ایک ہلکی سی لذّت تھی ۔
وہ گھر واپس آگیا ۔
اندھیرا پھیل گیا تھا ۔کار گیراج میں
کھڑی کر کے حمید بڑی دیر تک لان پر کھڑا رہا ۔رات کی رانی کی مہک ملگجے اندھیرے سے
ہم آہنگ ہو کر اسے اپنی روح کی گہرائیوں میں اتر تی محسوس ہو رہی تھی ۔اس نے ایک
طویل سا نس لی اور آہستہ آہستہ بر آمد ے کی طرف بڑھا ۔
فر یدی کی آواز ڈرائنگ روم میں سنا
ئی دی ۔وہ تنہا نہیں معلوم ہو تا تھا ۔
حمید نے ڈرائنگ روم کا رخ کیا ۔اس کے
داخل ہو تے ہی دوسرا آدمی خاموش ہو گیا ۔
’’کو ئی بات نہیں !‘‘ فر یدی مسکراکر
بولا ۔’’یہ میرے سا تھی ہیں !‘‘
اور پھر اس نے سر کی حبنبش سے حمید کو
بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
کچھ لمحے خاموشی سے گزرے۔اس کےبعد فر
یدی نے اپنے سا منے بیٹھے ہو ئےبھا ری پھر کم آدمی سے کہا ۔
’’اگر یہ مذاق نہیں تو مجھے ان کے
صحیح الدماغ ہو نے میں شبہ ہے !‘‘
’’پہلے مجھے بھی شبہ ہو ا تھا
!‘‘اجنبی نے کہا ۔’’لیکن …میں ان کے صحیح الدماغ ہو نے کی سند بھی پیش کر سکتا ہوں …اور یہ عجیب بات ہے ۔خودانہو ں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس سلسلے میں اپنا
اطمینان کر لوں !‘‘
اس نے چمڑے کے بیگ سے ایک بڑا سا
لفافہ نکال کر فر یدی کی طرف بڑھا دیا۔
فر یدی نے لفافے سے ایک کا غذ نکالا
اور تھو ڑی دیر تک اس پر نظریں جما ئے رہنے کے بعد بولا ۔
’’اسے میں غلط نہیں کہہ سکتا!‘‘ اس کے
چہرے پر تشویش کے آثار تھے۔
’’لیکن …ٹھہریئے…!‘‘
’’میں خود بھی الجھن میں ہوں !‘‘
اجنبی نے کہا ۔’’ان کے اعزّہ…!‘‘
حمید نے فریدی کی طرف دیکھا جس کی
آنکھوں میں وہی پرانی پراسرار چمک تھی جواکثر کشت وخون کی پیش خیمہ بن جا یا کر
تی تھی ۔
’’کیس دلچسپ ہے !‘‘ فر یدی نے اجنبی
کا جملہ پو را ہو نے سے قبل ہی کہا ۔’’اچھا میں دیکھوں گا !‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا !‘‘
اجنبی بولا ۔
’’آپ میرے پیشے سے واقف نہیں !‘‘ فر
یدی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے سا تھ کہا۔’’کیا آپ کو یہ سب کچھ حیرت انگیز نہیں
معلوم ہو تا ۔میڈ یکل بورڈ کی رپو رٹ میرے سا منے ہے اور میں اس میں ایسے لو گوں
کے نام دیکھ رہا ہو ں جو غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتے !‘‘
’’بہر حال…!‘‘اجنبی ایک
طویل سانس لے کر بولا ۔’’مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں ۔یہ سب کتنا مضحکہ خیز ہے ؟ میں نے ان کی موجود گی
ہی میں ہر پہلو پر غور کر نے کی کوشش کی تھی اور میں نےکئی بار چاہا تھا کہ آپ سے
اس سلسلے میں ملوں ۔لیکن …وہ پا بندی جو مجھ پر عائد کی گئی ہے مجھے روکتی رہی!‘‘
فر یدی کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا
۔’’اچھا جناب !...میں تیار ہو ں لیکن آپ اس کے متعلق کسی سے گفتگو نہیں کریں
گے ۔خصوصاً اخباری رپورٹروں سے !‘‘
’’میں خیال رکھو ں گا …!‘‘ اجنبی نے
پہلو بد لتے ہو ئے کہا ۔’’اچھا اب اجا زت دیجئے !‘‘
وہ فر یدی اور حمید سے مصافحہ کر
کےرخصت ہو گیا۔
حمید فر یدی کو توجہ اور دلچسپی سے
دیکھ رہا تھا کیو نکہ اس کے ہو نٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی ۔
’’کو ئی نئی مصیبت ؟‘‘ حمید نے پو چھا
۔
’’ایک دلچسپ کیس حمید صاحب !‘‘ فر یدی
سگا ر کیس سے سگا ر نکا لتے ہو ئے بولا ۔
حمید کی سانس رک گئی۔موسم بہا ر میں
کسی کیس کی اطلاع اس کے لئے ایسی ہی تھی جیسے کسی شاعر کے ہا تھ میں ار تھمیٹک کا
پر چہ پکڑ ادیا جا ئے ۔
’’مرے سے پہلے تم کس قسم کی وصیت کر
نا پسند کروگے !‘‘ فر یدی نے حمید کی آنکھو ں میں دیکھتے ہو ئے سنجیدگی سے پو
چھا۔
’’کیا یہ کو ئی ایسا ہی کیس ہے ؟‘‘ حمید نےبھی
سنجیدگی ہی اختیار کر لی ۔
’’کیا تم یہ وصیت کر و گے کہ تمہا ری
دولت چند جو نکو ں کر دی جا ئے !‘‘
’’مذاق کچھ جچا نہیں!‘‘ حمید بُرا سا
منہ کر بولا ۔’’بلکہ یہ مذاق ہی نہیں!‘‘
’’مذاق نہیں ،میں سنجیدگی سے گفتگو کر
رہا ہو ں !‘‘ فر یدی نے سگا ر سلگاکر کہا۔’’شہر کے ایک متموّ آدمی نے یہ وصیت کی
ہے کہ اس کی دولت چند ج ونکو ں پر صرف کی
جا ئے!‘‘
’’اوہ …!‘‘ حمید فر یدی
کو غور سے دیکھتا ہو ا بولا ۔’’تو یہ اسی وصیت کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی !‘‘
’’ہا ں…! کیا تم اسے
نہیں جا نتے !‘‘
’’نہیں۔لیکن کچھ کچھ یا د پڑتا ہے کہ اُسے
کہیں دیکھا ضرور ہے !‘‘
’’سر مخدوم سے واقف ہو !‘‘ فر یدی نے
پوچھا ۔
’’فر مخدوم !...اوہ …وہی تو نہیں جو چند روز پہلے جل کر مراتھا !‘‘
’’ٹھیک سمجھے وہی !‘‘ فر یدی سر ہلا
کر بولا ۔
’’تب تو معاملہ صاف ہے ۔اس نے خود ہی
اپنے مکان میں آگ لگا ئی ہو گی !‘‘
’’کیو ں ؟‘‘
’’کیو ں کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا
!‘‘ حمید نے کہا ۔’’اس قسم کی وصیت کی مو جو دگی میں یہ مسئلہ بالکل ہی صاف ہو
جاتا ہے ۔ایک بچہ بھی یہی کہے گا کہ اس کا دماغ خراب تھا !‘‘
’’بچہ سو فیصدی ہی کہہ رہا ہے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ لیکن
فرزند ابھی میں شہر کے سر بر آوردہ ڈاکٹروں کا سر ٹیفکیٹ دیکھ رہا تھا جس میں سب نے ایک قلم یہ رائے ظاہر
کی ہے کہ سر مخدوم قطعی صحیح الد ماغ ہیں !‘‘
’’ ڈاکٹروں کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی !‘‘
’’ اوہ تم تو اب واقعی بچوں ہی کی سی باتیں کرنے لگے ہو!‘‘
فریدی سنجید گی سے بولا ۔’’ اگر تمہارے پاس کوئی آدمی اس قسم کی وصیت محفوظ کرانے
کے لئے آئے تو کیا تم اُسے صحیح الدماغ سمجھو گے !‘‘
حمید نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ ٹھیک یہی واقعہ
جعفری کے ساتھ پیش آیا۔ جب سر مخدوم نے اس سے اس قم کی وصیت کا تذکرہ کیا تو اسے
اس کی ذہنی حالت مشتبہ معلوم ہوئی لیکن خود سرمخدوم ہی نے یہ دشواری بھی رفع کردی۔
قبل اس کے کہ جعفری کچھ کہتا سر مخدوم نے
اپنے ڈاکٹری معائنے کی تجویز پیش کردی تا کہ بعد کواس کی ذہنی حالت پر شبہ کرکے وصیت
غیر قانونی نہ قرار دے دی جائے !‘‘
’’تب تو میں اسے پاگل نہیں کہتا ۔ کیا اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں
تھا !‘‘
’’ کیوں نہیں ... پورا خاندان تھا جو اس کے ٹکڑوں پر اب بھی
پل رہا ہے۔ ہاں البتہ اولاد نہیں تھی ۔ بھائی بھتیجے کئی عدد ہیں !‘‘
’’واقعی کیس دلچسپ ہے!‘‘حمید آہستہ سے بولا۔
’’پورے واقعات سننے کے بعد تمہاری دلچسپی اور زیادہ بڑھ جائے گی !‘‘
فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’غالباً پورے واقعات آپ اس ہفتے کے اندر ہی اندر سنادیں گے!‘‘
’’ ابھی !‘‘ فریدی کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی ۔’’
اور اسی وقت ! سر مخدوم وصیت نامہ مرتب کر نے کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد جل کر مر
گئے۔ ان کی ہدایت تھی کہ اس وصیت کے متعلق ان کی موت کے بعد ہی کسی کو کچھ بتایا
جائے !‘‘
’’ہمپ ! ‘‘حمید آہستہ سے بڑبڑایا۔’’ معاملہ پیچیدہ ہے!‘‘
’’اب اس لطیفے کا دوسراٹکڑاسنو!... وصیت کے مطابق جو نکوں کی
خبر گیری کے لئے بھی ایک آدمی ہونا چاہئے۔
یعنی ان جونکوں کا سرپرست ! یا دوسرے لفظوں میں
ایک ایسا آدمی جو حقیقتاً سر مخدوم کی دولت کا مالک ہو!‘‘
’’ قلعی !‘‘ حمید سر ہلا کر بولا۔ ’’ آپ بیان جاری رکھئے ۔
مجھے کافی مزہ آ رہا ہے!‘‘
’’ابھی اور آئے گا !‘‘ فریدی ہنس پڑا۔
’’مگر یہ تو کوئی لطیفہ نہ ہوا! ‘‘حمید نے ہونٹ سکوڑ کر کہا۔
’’ اور ان جونکوں کا سرپرست کے بنایا گیا ؟‘‘ فریدی حمید کی
آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔’’کیا تم سنناپسندکروگے!‘‘
’’سنا یئے صاحب !‘‘ حمید نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’تو سنو! اُن جونکوں کا سر پرست …یہ ناچیز …یعنی احمد کمال فریدی ہے!‘‘
’’کیا ؟‘‘ حمید کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
’’ہاں… یہ وصیت نامہ کے الفاظ ہیں۔ پندرہ جو نکیں پالی جائیں
اور دولت کا حبہ حبہ ان پر صرف کر دیا جائے۔ جائیداد کا منتظم احمد کمال فریدی۔
انسپکٹر آف …سنٹرل سی ،آئی ،ڈی ہوگا …اور انتظامی امور کے
سلسلے میں کسی کو جواب دہ نہیں ہو گا ۔ یعنی مختارکل سیاہ کرے یا سفید !‘‘
’’ کیا سر مخدوم آپ کے کوئی عزیز تھے !‘‘ حمید نے بوکھلا کر
پوچھا۔
’’قطعی نہیں ... شاید ایک یا دو بار ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ
بھی محض رسمی طور پر !‘‘
’’ابھی آپ نے سر مخدوم کے دوسرے اعزہ کا تذکرہ کیا تھا !‘‘
’’ ہاں وہ کئی ہیں اور ان کے متعلق بھی وصیت میں کچھ کہا گیا
ہے لیکن وہ صرف میری مرضی پر منحصر ہے۔ اگر میں چاہوں گا تو انہیں وہ رقم جوسر
مخدوم کی زندگی میں ملتی تھی ،ملتی رہے گی ورنہ نہیں !‘‘
’’ذرا ٹھہریئے!‘‘ حمید کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ ان لوگوں میں کوئی
لڑکی بھی ہے!‘‘
’’ہاں شاید تین لڑکیاں ہیں !‘‘ فریدی نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’تب وہ انہیں میں سے ایک رہی ہوگی !‘‘حمید بڑ بڑایا۔
’’ کون؟‘‘
’’حمید نے فریدی کو اس لڑکی کے متعلق بتایا جو سرخ رنگ کی ٹوسیٹر
پر آئی تھی۔
’’
ہوں!‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں میں سے ہو ۔ ظاہر ہے
کہ وہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں!‘‘
’’لیکن آخر یہ ہوا کس طرح! اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟“
’’ مطلب !... صاف ظاہر ہے۔ کوئی غیر معمولی حادثہ۔ سرمخدوم
کی موت اتفاقیہ نہیں ہوسکتی! “
’’کمال کرتے ہیں آپ بھی !‘‘ حمید نے کہا۔
’’شاید ہمارا محکمہ بھی اس بات پر متفق ہے کہ وہ اتفاقیہ ہی حادثہ
تھا !‘‘
’’اس وصیت سے دو چار ہونے سے قبل میرا بھی یہی خیال تھا مگراب ! تم
خود سوچو۔“
’’میں سوچ رہا ہوں ! ‘‘حمید سر ہلا کر بولا ۔’’ مگر اس میں
ایک دشواری ہے۔ اس قسم کی وصیت مرتب کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ سر مخدوم کو خدشہ
تھا کہ اس طرح کا کوئی حادثہ ضرور پیش آئے گا؟“
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو!‘‘
’’لیکن پھر !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سر مخدوم نے پولیس کی مدد حاصل کرنے کے بجائے وصیت کیوں مرتب
کی ؟‘‘
’’کیا میراتعلق پولیس سے نہیں ؟‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔
’’ بہت خوب ! اب دور جانے کے بعد آپ سے مددلے رہاہے۔ مگر نہیں
۔ہوسکتا ہے کہ مرنے کے بعداس کادماغ بالکل ہی خراب ہو گیا ہو!‘‘
فریدی ہنسنے لگا۔
کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ ’’ وصیت کی رو سے مجھے اب سر مخدوم کی کو ٹھی میں ہی قیام
کرنا پڑے گا۔ جائیداد کے منتظم کے لئے ضروری
ہے ۔ ‘‘
2
وہ لوگ
سر مخدوم کی کو ٹھی شہر کے ایک ایسے حصے میں واقع جہاں گھنٹی آبادی نہیں تھی۔قُرب
وجوار میں صرف چند کو ٹھیاں اور تھیں اس کے باوجود بھی اس حصے کا شمار شہری ہی
آبادی میں ہو تا تھا اور میونسپل کا ر پورشن کے جلا سوں میں خاص طور سے اس کا نام
لیا جاتا تھا ۔ صرف پانچ یا چھ کو ٹھیوں کے لئے میونسپل کا ر پو ریشن کے کلر کوں
کو کا فی سر مغزنی کر نی پڑتی تھی۔
سر مخدوم کی کوٹھی ان میں سب سے زیادہ
شاندار تھی اوراس کے گرد تقریباً چار فرلانگ لمبی چوڑی چہار دیواری تھی جس میں
پائیں باغ اور عقبی پارک سبھی کچھ تھے۔شمالی مغربی گوشے میں گیراج تھا جس میں کئی
کا ریں کھڑی رہتی تھیں۔ایک اصطبل بھی تھا جس میں ریس کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔
اصطبل سے ہی مقصل نوکروں کی رہا ئش کے کوراٹر تھے ۔ جنوبی مشرقی کونے پر وہ چھوٹی
سی عمارت تھی جو کبھی آؤٹ ہاؤز کے نام سے یاد کی جاتی رہی ہو گی مگر اب تو وہ جلی
ہوئی سیاہ اینٹوں اور آدھ جلے دروازوں کا ڈھیر تھا۔ سر مخدوم اسی عمارت میں جل کر
مر ے تھے۔ وہ وہاں تنہا ہی تھا۔آگ لگی لیکن انہیں باہر نکلنے کا موقع نہ مل سکا ۔
اس سلسلے میں کئی طرح کی راویتیں مشہور تھیں لیکن اخبارات میں صرف اتنا ہی آیا
تھا ۔
سر مخدوم عادات واطوار سے عجیب تھے اس
لئے ان کے اس طرح جل مرنے پر کم از کم ان کے حلقے کے لوگوں کی طرف سے اظہا رحیرت
نہیں کیا گیا ۔ وہ بہت زیادہ موڈی آدمی تھے…اور اسی حدتک جذباتی
بھی ۔ان کے شنا ساؤں کا عام طور پر یہ خیال تھا کہ شاید انہوں نے آؤٹ ہاؤز میں
آتش بازی سے شوق کیا ہو اور اس طرح آگ لگ گئی ہو۔ سر مخدوم کو آتش بازی سے بھی
دلچسپی تھی ۔ شب برات کے زمانے میں وہ
اپنے ہا تھوں سے مختلف قسم کی آتش بازیاں بناتے تھے۔بات یہ تھی کہ سر مخدوم
خاندانی ریئس نہ تھے۔انہوں نے خود اپنے وقتِ بازوں سے یہ پو ریشن حاصل کی تھی ۔کسی
زمانے میں وہ عام آدمیوں کی طرح سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر مسالے کی چاٹ بھی کھایا
کر تے تھے لہٰذا دولت مند اور خطاب یا فتہ ہو جانے کے بعد بھی ان میں یہ عام آدمی
…تھوڑا بہت باقی رہ گیا تھا ۔
اور اسی بنا پر وہ اپنے طبقے میں عادات و اطوار کے کے
لحاظ سے عجیب سمجھے جانے لگے تھے۔ بہر حال وہ خطاب یافتہ ہوجانے کے بعد سڑک کے
کنارے کھڑے ہو کر بار و مسالہ کی بات تو نہیں کھاتے تھے مگر شب برات کا چاند دیکھ
کرشاید شہر میں سب سے پہلےہوائی وہی داغتے تھے۔ اس کے بعد شب برات تک کے لئے آؤٹ
ہاؤزا اچھا خاصا بارود خانہ بن کر رہ جاتا تھا۔ وہ شب وروزو ہیں رہ کر مختلف قسم کی آتش بازیاں بنا یا کر تے تھے
۔غالباً اسی لئے ان کے بعض حاسد و نے یہ افواہ اڑادی تھی کہ ان کے باپ دادا آتش
باز تھے۔
جب
ایک رات آؤٹ ہا ؤز میں آگ اس کے علاوہ اور کچھ نہ سوچ سکے کہ آتش بازی کا شوق
رنگ لایا۔
سر
مخدوم کا کنبہ کافی بڑاتھا خود انہوں نے تو سرے سے شادی ہی نہیں کی تھی لیکن بھائی
بھتیجے کئی عدد تھے اور پورا کنبہ کم و بیش
بارہ نفوس پر مشتمل تھا۔ ان میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔
جس
وقت فریدی کی کیڈ یلاک کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی کنبے کے بیشتر افراد شایہ
ناشتے سے فارغ ہو کر برآمدے میں آبیٹھے تھے۔
فریدی کے ساتھ سولیسٹر جعفری بھی تھا اور سرجنٹ حمیدا اپنے
داہنے ہاتھ میں ایک شیشے کا مرتبان اٹھائے ہوئے تھا جس میں پندرہ عدد جو نکیں تھیں
اور اس کا دل خوشی سے ناچ رہا تھا کیونکہ برآمدے میں اسے وہ لڑکی بھی نظر آئی تھی جس کے متعلق اس نے صحیح اندازہ
لگایا تھا۔ سر مخدوم کے خاندان والوں نے انہیں تنفرآمیز نظروں سے دیکھا۔ معاملات
کوسمجھنے کے لئے ان دو اجنبیوں کے ساتھ جعفری کی موجودگی بھی کافی تھی۔ اگر وہ بھی
نہ ہوتا تو وہ جونکوں والا مرتبان ہی انہیں سب کچھ سمجھا دیتا۔
وہ بر آمدے کے قریب پہنچ گئے لیکن سر مخدوم کے
خاندان والوں میں سے کسی نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی۔ فریدی پورچ میں رک کر بڑے
بے تعلقانہ انداز میں ادھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا ۔’’ یہ عمارت تبدیلی کے لئے خاصی
خوشگوار ثابت ہوگی۔ مجھے پسند آئی !‘‘
فریدی نے یہ جملہ اتنی اونچی آواز میں کہا تھا
کہ برآمدے میں بیٹھے ہوئے لوگ بہ آسانی سن سکیں ۔ حمید نے دیکھا کہ وہی لڑکی جھپٹ
کر اپنی جگہ سے اٹھی اور برآمدہ طے کر کے ٹھیک فریدی کے سامنے آکھڑی ہوئی ، اس کےہونٹ
پھڑک رہے تھے ، سانس پھول رہی تھی اور کان کی لویں سرخ ہو گئی تھیں ۔
’’چلے جاؤ یہاں
سے !‘‘ وہ پھاٹک کی طرف ہاتھ تان کر حلق کے بل چیخی۔
فریدی
بڑی سنجیدہ اور ترحم آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
اچانک ایک ادھیڑ عمر کا آدمی بھی تیز قدموں سے
چلتا ہوا پورچ میں آگیا اور اس نے لڑ کی کا بازو پکڑ کر کہا۔
’’ صوفیہ ... یہ بدتمیزی
ہے.... بد اخلاقی ہے ۔‘‘ پھر وہ فریدی سے بولا ۔ ’’معاف کیجئے گا یہ ابھی نا سمجھ
ہے !‘‘
’’ اوہ …کوئی بات نہیں ! ‘‘
فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ مجھے محض مرحوم کی وصیت کا پاس ہے ورنہ میں بہت مشغول
آدمی ہوں اور مجھے سب
سے زیادہ آرام اپنے گھر ی پر ملتا ہے!‘‘
’’تو پھر یہاں
تمہیں تکلیف ہی تکلیف ہوگی ! ‘‘ صوفیہ جلدی سے بولی۔
’’ایک رات بھی چین
سے نہ سو سکو گے!‘‘
’’میں مرحوم کے
لئے سب کچھ برداشت کروں گا!‘‘ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’
صوفیہ اندر جاؤ! ‘‘معمر آدمی نے لڑکی کو ڈانٹا اور وہ جھلاہٹ میں پیر پٹختی ہوئی
اندر چلی گئی۔ حمید کو بڑا افسوس ہوا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ جونکوں والا مرتبان اس
آدمی کے سر پر پٹخ دے ۔ برآمدے میں دولڑ کیاں اور تھیں لیکن وہ صورت ہی سے احمق
معلوم ہوتی تھیں۔ حمید کا خیال تھا کہ غیر ذہین لڑکیاں ... Responsive نہیں ہو تیں۔
اس لئے وہ ان کی طرف دھیان بھی نہیں دیتا تھا، خواہ وہ کتنی ہی حسین کیوں نہ ہوں
اس کے بر خلاف بعض کلوٹیاں محض اپنی ذہانت کی بنا پر اسے اپنی طرف متوجہ کر لیتی
تھیں چاہے ان کے پیر کتنے ہی بھدے کیوں نہ ہوں۔ وہ ذہانت کا پجاری تھا ، ذہانت جو
چیرے ہی سے ظاہر ہو جائے۔
’’کیا آپ مجھے تھوڑا وقت دیں گے !‘‘
معمر آدمی نے فریدی سے کہا۔
’’ضرور
... بڑی خوشی سے !‘‘ فریدی بولا۔
وہ انہیں ایک کمرے میں لایا۔ حمید نے جونکوں کا
مرتبان میز پر رکھ دیا اور خود فریدی کے برابر بیٹھ گیا۔ جعفری کی نظریں معمر آدمی
کے چہرے پر تھیں ۔
’’کیا آپ کو یہ
سب کچھ مضحکہ خیز نہیں معلوم ہوتا !‘‘ معمر آدمی نے فریدی سے کہا۔
’’معلوم تو ہوتا
ہے مگر مجبور ہوں ۔ مرحوم کی وصیت ... میں ان کی بہت عزّت کرتا تھا ! ‘‘
’’اور
آپ کو یقین ہے کہ یہ کسی صحیح الدماغ آدمی کی وصیت ہے!‘‘
’’
ایک موڈی آدمی کی وصیت !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ جو مرنے کے بعد بھی لوگوں کو
حیرت میں مبتلارکھنا چاہتا ہے۔کیا سر مخدوم اپنی زندگی میں تحیر پسند نہیں تھے !‘‘
’’تھے… مجھے اس سے
انکار نہیں۔ لیکن آپ جیسا آدمی اس قسم کے چکر میں پڑ جائے ۔ یہ البتہ میرے لئے تحیّرانگیز
ہے!‘‘
’’ ہے نا تحیرانگیز
! ‘‘فریدی مسکرا کر بولا۔’’ میں یہی کہ رہا تھا کہ سر مخدوم نے بہتوں کو تحیر میں
چھوڑا ہے!‘‘
کچھ
دیر تک خاموشی رہی پھر معمر آدمی نے آہستہ سے کہا۔
’’
اگر اس وصیت نامے کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو آپ کی کیا پوزیشن
ہوگی !“
’’
مجھے بڑی خوشی ہوگی اور آپ اس کے مصارف مجھ سے لے سکتے ہیں !‘‘ فریدی نے کہا۔ ”
مجھ پر توایک قسم کا
فرض عائد ہو کر رہ گیا
ہے جس کی تکمیل ضروری ہے!‘‘
’’
تو کیا آپ یہاں قیام کریں گے؟‘‘
’’یقیناً!‘‘فریدی
بولا۔’’ وصیت کے مطابق یہ ضروری ہے !‘‘
’’جہنم
میں گئی وصیت !‘‘ معمرآدمی نے کرسی کے ہتھے
پر گھوسہ مار کر کہا ۔ ’’ میں اسے بکو اس سمجھتا
ہوں ، بھائی صاحب کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی!‘‘
’’خوب
!‘‘ فر یدی چبھتے ہو ئے لہجے میں بولا۔’’اور اس کے باوجود بھی آپ لوگوں نے انہیں
مہمان خانہ میں تنہا چھوڑدیا تھا۔ نہ صرف تنہا بلکہ آتش بازی کے ذخیرے کے ساتھ …!‘‘
معمرآدمی
خاموشی سے فر یدی کو گھو ر نے لگا پھر اس کی نظریں جو نکوں کے مرتبان کی طرف اٹھ گئیں
جسے وہ کراہٹ سے ہونٹ سکوڑے ہوئے دیکھتا رہا۔اچانک وہ جعفری کی طرف دیکھ کربولا۔
’’میں
ساری چالیں سمجھتا ہوں ۔ اپنے بال دھوپ میں
نہیں سفید کئے !‘‘
’’ چالیں!‘‘
جعفری حیرت سے بولا ۔’’ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟‘‘
’’
ٹھیک کہ رہا ہوں امیں نے سینکڑوں داستانیں پڑھی ہیں ۔ وکیلوں کے ہتھکنڈ ےوہ کس طرح
اپنے موکلوں کی طرف سے جعلی و صیتیں بناتے ہیں !‘‘
’’غالباً آپ جاسوسی ناولوں کی باتیں کر رہے ہیں !‘‘ فریدی
مسکرا کر بولا ۔’’ لیکن یہ وصیت جعلی نہیں اس پر گواہوں کی حیثیت سے چند معززین نے
اپنے دستخط کئے ہیں!‘‘
’’سب کچھ ہو
سکتا ہے... کیا نہیں ہوسکتا !‘‘ معمر آدمی سر ہلا کر بولا۔
’’د
یکھئے مسٹر ناصر …!‘‘جعفری نے جھلا کر کہا۔ ’’ آپ مجھ پر نہ
صرف اتہام لگا رہے ہیں بلکہ میری تو ہین بھی کر رہے ہیں !‘‘
’’یہ معاملہ
عدالت میں ضرور جائے گا!‘‘ معمر آدمی نے کہا پھر فریدی سے بولا ۔ ’’ میں اس وصیت
کے سلسلے میں عذرداری کروں گا اس لئے آپ اس عمارت میں قیام نہیں کر سکتے !‘‘
’’
قیام تو میں یہیں کروں گا !‘‘ فریدی نرم لہجے میں بولا ۔ ’’ آپ نے پہلے ہی وصیت کے
خلاف درخواست دے کر امتناعی حکم کیوں نہیں لے لیا۔ اب تو جب تک سرکاری طور پر مجھے
یہاں سے ہٹنے پر مجبور نہ کیا جائے ، میں نہیں ہٹ سکتا اس لئے میری ایک بات اور سن
لیجئے ۔ اگر آپ نے عدالتی کارروائی کر کے مجھے یہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تو آپ سب
ایک بہت بڑی مصیبت میں پڑ جا ئیں گے!‘‘
’’کیا
مطلب ! ‘‘معمر آدمی اُسے گھورنے لگا۔
’’مطلب صاف ظاہر
ہے۔ ڈاکٹروں کا سرٹیفکیٹ میں پھاڑ دوں گا۔ اس کے بعد وصیت کو ایک پاگل آدمی کی وصیت
ثابت کر دینے میں دیر نہیں لگے گی!‘‘
’’یہ تو آپ اپنے
ہی خلاف کریں گے !‘‘جعفری بو کھلا کر بولا ۔
’’
سنتے جائیے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ اس کے بعد پولیس اس عمارت کے گرد شکاری کتّوں
کی طرح منڈلانے لگے گی ۔ آخر یک پاگل آدمی کو آتش باری کے ذخیرے کے ساتھ مہمان
خانے میں تھا کیوں چھوڑا گیا۔
یقینًا ان کے اعزّ ہ اس
کی موت کے خواہاں تھے۔ کیوں ؟ دولت کے لئے ؟‘‘
معمر
آدمی کے چہرے کی سرخی غائب ہوگئی… تھوڑی دیر بعد بولا۔
’’ آخر آپ چاہے
کیا ہیں ؟‘‘
’’
اس وقت تک قیام کرنا جب تک کہ یہ ساری جو نکیں مرنہ جائیں!‘‘ فریدی نے انتہائی سنجید
گی سے کہا۔
’’
آپ میرا مذاق اڑار ہے ہیں !‘‘ معمر آدمی بگڑ گیا۔
’’ سنئے تو سہی !آپ
سمجھے نہیں ۔ وصیت میں یہی ہے نا کہ دولت کا حبہ حبہ ان پندرہ جونکوں پر صرف کر دیا جائےلیکن ان کے
مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں وصیت کچھ نہیں کہتی ۔ غالباًجونکوں کے بعد
آپ ہی ہولوگ جائیداد کے وارث ہوں گے اور جونکوں کا سر پرست یعنی
یہ خاکسار اپنے اعزازی عہدے سے سبکدوش ہو جائے گا!‘‘
’’ شاید آپ کے
دماغ میں بھی خلل ہے !‘‘ معمر آدمی نے کہا۔
’’چلئے یہی سہی … !‘
‘فریدی ہنس کر بولا ۔’’ میں سرمخدوم کی وصیت کا احترام ضرور کروں گا ۔ خواہ وہ
پاگل پن ہو یا اس سے بھی بُری کوئی چیز ۔‘‘
’’
لیکن آپ ان گندے کیڑوں کو یہاں نہیں رکھ سکیں گے !‘‘ وہ جونکوں کے مرتبان کی طرف
اشارہ کر کےجھلائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’
دیکھئے جناب ! ‘‘حمید نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔ ’’ آپ ان معزز جونکوں کی تو
ہین نہیں کر سکتے ۔ ان میں سے ایک تو یقیناً لیڈی کہلانے کی مستحق ہوگی۔ ایک نائٹ
کی وارث ہونے کی بنا پر !‘‘
معمر
آدمی صرف دانت پیس کر رہ گیا۔
’’آپ کو ہماری
وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی !‘‘ فریدی نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔
’’
میں سب سمجھتا ہوں !‘‘ معمر آدمی سر ہلا کر بولا ۔’’ آپ کو شبہ ہے آپ سمجھتے ہیں
کہ ہم میں سے ہی کسی نےمہمان خانے میں آگ لگائی تھی !‘‘
’’
اگر آپ سر مخدوم کو پاگل تصور کرتے ہیں تو یقیناً مجھے یہی سوچنا چاہئے !‘‘
’’نہیں وہ پاگل
نہیں تھے !‘‘ معمر آدمی نے جھلا کر کہا۔
’’تب پھر یہ وصیت سو فیصدی جائز ہے!‘‘
’’قانون اسے
ناجائز قرار دے گا !‘‘وہ کرسی کے ہتھے پر ہاتھ ماکر بولا۔
’’
او ہو! مجھے اس کی فکر نہیں ۔ جب تک قانون فیصلہ کرے مجھے یہیں رہنا ہوگا۔ ہو سکتا
ہے کہ اس سے پہلے ہی جونکیں مرجائیں پھر سب کچھ آپ ہی کا ہے!‘‘
’’یہ ابھی مرجائیں
گی !‘‘ دروازے کے قریب سے ایک غصیلی آواز آئی۔ وہ چونک کر مُڑے۔
صوفیہ
اپنے ہاتھ میں ایک وزنی ساہتھوڑا لئے کھڑی تھی ۔
’’نا
ممکن …نا ممکن !‘‘ حمید نے جھپٹ کر مر تبان میز سے
اٹھالیا۔’’انہیں زندہ رہنا ہے۔یہ غیر فانی معزز جونکیں …ان میں یقیناً ایک
لیڈی ہے !‘‘
’’صوفیہ
!‘‘ معمر آدمی کی تیز آواز کمرے میں گونجی ۔
’’آپ نہیں سمجھتے !‘‘ صوفیہ نے کہا ۔’’یہ لوگ ہمیں
پریشان کرنا چا ہتے ہیں !‘‘
’’میں
سمجھتا ہوں !تم اندر جاؤ!‘‘
’’خیر
پھر سہی !‘‘ صوفیہ حمید کو گھورتی ہوئی چلی گئی ۔ اس بار پھر حمید کو اس آدمی پر
تاؤ آیا ۔
’’یہ
سب بچے بہت شیطان ہیں!‘‘ معمر آدمی نے معنی خیر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’مجھے
شریربچے پسند ہیں!‘‘ فریدی کی جوابی مسکراہٹ اس سے بھی زیادہ معنی خیز تھی۔
فریدی
اور حمید سچ مچ یہاں قیام کرنے کے لئے آئے تھے لہذا انہیں دنیا
کی کوئی طاقت اس سے نہیں روک سکتی تھی ۔ انہوں نے اپنے قیام کے لئے وہی کمرے منتخب
کئےجن کا تعلق صرف سر مخدوم سے تھا۔ گھر والوں نے نہ انہیں دو پہر کے کھانے کے لئے
پو چھا اور نہ شام کی چائے کے لئے ۔ تو کر بھی کوئی پھٹے پھٹے نظر آرہے تھے۔ حکم ماننا تو الگ رہا وہ ا ن کا
نوٹس ہی نہیں لیتے تھے ۔ مجبور اًفریدی کو اپنے دو نو کر بلوانے پڑے۔ یہ رنگ دیکھ
کر حمید بور ہونے لگا۔ پہلے وہ سمجھا تھا کہ شاید سر مخدوم کے خاندان والے انہیں
ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔
’’اے
جونکوں کے مربیّ !‘‘اس نے فریدی سے کہا ۔’’ میں خود کو اچھوت محسوس کر نے لگا ہوں
۔اگر اجازت ہو تو میں دل بہلانے کے لئے بر خوردار بغراخاں کو یہاں لاؤں!‘‘
’’نہیں
بہت زیادہ مضحکہ خیز بننے کی ضرورت نہیں ۔لیکن میں تمہیں گھر بھیجنا چاہتا ہوں!‘‘
’’میں
انتہائی درجہ شکر گزار ہوں گا!‘‘
’’تم
غلط سمجھے!تمہیں چھٹی نہیں دے رہا ہوں ۔
تجربہ گاہ سے ایم ی فورٹین کی بوتل لاؤ
اور گوشت کے دوتین ٹکڑے بھی ۔ ورنہ ہم رات کو با ہر نہیں نکل سکیں گے !‘‘
’’
کیوں ؟‘‘
ان
کے رکھوالی کرنے والے کتّے لٹکھنے معلوم
ہوتے ہیں۔ اگر یہ رات کو کپاؤنڈ میں چھوڑے گئے تو باہر نکلنا دشوار ہوگا!‘‘
’’باہر نکلنے کی
ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
’’بکومت ! کیا
تم سمجھتے ہو کہ میں سچ مچ یہاں جونکوں کی
پرورش کرنے آیا ہوں !‘‘
’’مگر
وہ …لڑکی …صوفیہ !‘‘ حمید گردن کھا تا ہوابڑ بڑایا۔
’’وہ ہمیں پریشان کر سکتی ہے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’
مگر میں تمہاری صلاحیتوں کی طرف سے کبھی مایوس نہیں ہو سکتا!‘‘
’’کلیجہ
گز بھر کا ہو گیا !‘‘ حمید نے خود ہی اپنی پیٹھ ٹھونکتے ہو ئے کہا۔
’’اچھا
بس اب جلدی سے جاؤ ۔سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہمیں ساری تیاریاں مکمل کر لینی ہیں
!‘‘
حمید
چند لمحے فریدی کو عجیب نظروں سے دیکھتا رہا پھر باہر چلا گیا ۔
3
کمپاؤنڈ میں
گہری تاریکی مسط تھی ۔فریدی اور حمید
دروازہ کھول کر دبے پاؤں باہر نکلے۔ چاروں طرف گہرا سنا ٹا تھا ۔ کتوں کا انتظام وہ پہلے ہی کر چکے تھے
اور شاید وہ کمپاؤنڈ ہی میں کہیں بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ فریدی کا خیال تھا کہ صبح
سے قبل اگر وہ ہوش میں آبھی گئے تو وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں گے ۔ ان میں بھو نکنے کی بھی سکت نہ
ہوگی شاید صرف اونگھ اونگھ کر غراتے رہیں گے۔گھر والوں کو ان رکھوالی کرنے والے السیشن کتّوں پر
اتنا بھروسہ تھا کہ انہوں نے چوکیدار بھی نہیں رکھے تھے۔ چہار دیواری کے پھاٹک پر
صرف ایک آدمی رہتا تھا لیکن عمارت سے بھا ٹک کا فاصلہ دو فرلانگ سے کسی طرح کم نہ
رہا ہوگا اس لئے انہیں اس کی چنداں فکر نہیں تھی۔
وہ دبے پاؤں مگر تیزی
سے چلتے ہوئے مہمان خانے کے ملبے کی طرف بڑھ ر ہے تھے ۔ قریب پہنچ کر فریدی رک گیااس
نے مُڑا کر عمارت پر نظرڈالی جو بدستور تاریکی میں نہائی ہوئی کھڑی تھی ۔ پھر اس
نے جیب سے ٹارچ نکالی اور ملبے کے ایک ڈھیر
پر جھک پڑا۔ ٹارج کی روشنی کی ایک باریک کی
لکیر آہستہ آہستہ ادھر اُدھر رینگ رہی تھی ۔
حمید چپ چاپ فریدی
کے ساتھ ادھر سے ادھر حرکت کر رہا تھا ۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ فریدی نے یہ سب کیوں
کیا ہے اور نہ ہی اس نے پو چھنے کی زحمت گوارا کی تھی۔
قریب قریب آدھے
گھنٹے تک فریدی ان ڈھیروں کو کریدتا رہا پھر اس نے حمید کی مدد سے ایک دبے ہوئے
ادھ جلے دروازے کو ڈھیر سے سے نکالا۔ چند
لمحے اس کا جائزہ لیتا رہا پھر ٹارچ کی روشنی بند کر کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔
’’ یہ کون ہے ؟‘‘ اچانک اس نے آہستہ سے کہا اور ایک طرف ہٹ گیا۔
’’ کدھر؟‘‘ حمید نے
چونک کر پو چھا۔
فریدی نے ایک طرف اندھیرے میں اشارہ کیا اور پھر حمید وہاں
تنہا رہ گیا... فریدی کسی طرف اندھیرے میں رینگ گیا تھا۔
دفعتہ ً حمید کے داہنے شانے سے کوئی چیز زور سے ٹکرائی ۔ ایک
ہلکا سا دھما کہ ہوا۔ داہنے گال پر آنچ سی محسوس ہوئی اور حمید لڑ کھڑا گیا۔ پھر اس کی پیٹھ
پر بھی ویسا ہی ایک دھما کہ ہوا اور وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔
’’گولی لگی!‘‘ اس
کے ذہن نے تیزی سے دہرایا اور پھر اس کا سر گھومنے لگا... پسلی میں گولی... پھیپھڑے میں
گھس گئی ہوگی… پھر موت… اس کا دم گھٹنے لگا …لیکن پھر اس نے محسوس
کیا کہ تکلیف کا احساس نہ تو شانے میں ہےاور نہ پسلی ہی میں ۔ اس نے زمین پر پڑے اپنے شانے پر ہاتھ
پھیرا …پسلی ٹٹولی ۔کہیں
کچھ بھی نہ تھا نہ تو گرم گرم خون کی نمی اور نہ کوئی سوراخ ... وہ اچھل کر
کھڑا ہو گیا اور پھر ایک تیسرا دھماکہ ہوا۔ اُسے اپنے پیروں کے پاس چمک دکھائی دی
،وہ پیچھے ہٹ گیا۔
’’لاحول ولا قوة… پٹاخ…!‘‘ وہ آہستہ سے
بڑبڑایا۔
پھر قریب ہی اسے اس قسم کی آواز یں میں سنائی دیں جیسے دو
آدمی ایک دوسرے سے الجھ پڑے ہوں۔
’’حمید تم زندہ ہو یا مر گئے !‘‘ اس نے فریدی کا ہلکا سا قہقہہ
۔ حمید آواز کی طرف جھپٹا ۔ فریدی کسی کو
دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھا۔
’’یہ شریرلڑکی …!‘‘ فریدی ہنستا ہوا بولا۔
’’چھوڑو مجھے !‘‘ حمید نے ایک نسوانی آواز سنی جو صوفیہ کے علاوہ
اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی ۔
پھر وہ بے بسی سے ہنسنےلگی۔
’’تمہیں شاید سر مخدوم کے قاتل سے ہمدردی ہے!‘‘ فریدی بولا۔
’’میں نہیں جانتی ! تم لوگ یہی سمجھتے ہو کہ چچا جان کو ہم
لوگوں نے مار ڈالا ہے اور تم اس لئے یہاں آئے ہو مگریہ بکواس ہے ۔ ہم سب انہیں بے
حد چاہتے تھے ! ‘‘
’’ تم صرف اپنے متعلق وثوق سے کہہ سکتی ہو!‘‘ فریدی بولا ۔
’’ میں سب کو اچھی طرح جانتی ہوں ۔ ان میں پلی بڑھی ہوں۔
کوئی اتنا کمینہ نہیں !‘‘
’’ میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ خاندان ہی کا کوئی فرد ہے!‘‘
فریدی نے کہا۔
’’پھر اس طرح چوری چھپے تحقیقات کا کیا مطلب؟‘‘صوفیہ بال کی کھال
نکالنے پر تل گئی تھی۔
’’ محض اس لئے کہ میں سرکاری طور پر کام نہیں کر رہا ! ‘‘
فریدی نے کہا۔ ’’ پولیس کو تو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ یہ ایک اتفاقیہ حادثہ ہے !ممکن
ہے سر مخدوم نے کسی نئی قسم کی آتش بازی کا تجربہ کیا ہو اور بارود کے ذخیرے تک اس
کی چنگاریاں پہنچ گئی ہوں !‘‘
’’ اور یہ قطعی درست نظریہ ہے !‘‘ صوفیہ اپنی پتلون کی جیبیں
ٹٹولتی ہوئی بولی ۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوا …!‘‘
’’یہ تم کس طرح کہہ سکتی ہو؟‘‘
’’اس طرح !‘‘ صوفیہ نے جیب سے کوئی چیز نکال کر حمید کے پیر
کے پاس داغ دی۔ دھما کہ ہوا اور حمید اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ صوفیہ ہنسنے لگی۔
’’ شرارت بند کرو! جو میں پوچھ رہا ہوں' ان کا جواب دو !‘‘
فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ تم نے کیا پوچھا
تھا ؟‘‘
’’ تمہارا شبہ کس پر ہے ؟ ‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ کسی پر بھی نہیں
!‘‘
’’میں گھر والوں کے متعلق نہیں پوچھ رہا ہوں !‘‘
’’ تو کوئی باہری بھی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کر
سکتا ۔ ہمارے کتّے بہت خطر ناک ہیں!‘‘
’’ اس وقت وہ کہاں ہیں ؟ ‘‘فریدی نے طنز آمیز لہجے میں
پوچھا۔
’’ اوہ…!‘‘ صوفیہ چونک پڑی ۔ ’’ کہاں ہیں!... واقعی وہ
کہاں ہیں ؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا ۔پھر جلدی سے بولی۔
’’کیا تم نے انہیں مار ڈالا؟‘‘
’’ قطعی نہیں ! لیکن وہ صبح تک گہری نیند سوتے رہیں گے !‘‘
’’ بے ہوش کر دیا ! ‘‘ صوفیہ اچھل کر بولی۔
’’ہاں ... اور اسی طرح کوئی دوسرا بھی کمپاؤنڈ میں داخل ہو سکتا
ہے!‘‘
صوفیہ سوچ میں پڑگئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔ ’’
تم صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ تمہیں خاندان ہی کے کسی آدمی پر شبہ ہے۔ ظاہر ہے کہ
کوئی باہری یہ حرکت کیوں کرنے لگا !‘‘
’’تم کافی سمجھ دار ہو ... ہاں میں یہی سمجھتا ہوں!‘‘
’’تو پھر… وہ تو میں بھی ہو سکتی ہوں کیونکہ چچا جان
مجھے سب سے زیادہ چاہتے تھے ... اور اکثر کہا کرتے تھے کہ جائیداد کا سب سے بڑا حصہ مجھے ہی دیں گے!‘‘
’’تم !‘‘ فریدی انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولا۔’’ ہر گز نہیں ! تم
سر مخدوم کی قاتلہ نہیں ہو سکتیں ۔ اگر تم کسی کوقتل کر سکتی ہو تو پھر فرشتوں پر
بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا !‘‘
’’کیوں ...! کوئی پیشانی پر تو کچھ لکھا نہیں ہے!“
’’تمہاری پیشانی پر لکھا ہے۔ صرف ایک لفظ ... وفادار …تم سر مخدوم کے لئے اپنی جان بھی دے سکتی تھیں …اور میں نے یہ لفظ
پورے خاندان میں صرف تمہاری ہی پیشانی پر دیکھا ہے!‘‘
فریدی کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ صوفیہ کے ہونٹوں کے گوشے
کا نپ رہے تھے اور وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُن آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی
جو پھوٹ بہنے کے لئے اکٹھا ہورہے تھے۔
’’ تم سر مخدوم سے بے انتہا محبت کرتی تھیں !‘‘ فریدی نے
تپتے ہوئے لوہے پر آخری ضرب لگائی اور صوفیہ سچ مچ
پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ بہت زیادہ جذباتی
معلوم ہوتی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ خود آگاہ بھی ! کیونکہ اس نے فوراً ہی اپنی حالت
پر قابو پا لیا اور اب ایسا معلوم ہور ہا تھا جیسے وہ اپنی اس حرکت پر بہت زیادہ
شرمندہ ہو۔
’’ پہلے مجھے صرف شبہ تھا لیکن اب !‘‘ فریدی قدرے توقف کے
ساتھ بولا ۔’’ لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ سر مخدوم کا جل کر مرنا اتفاقیہ حادثہ نہیں
تھا۔ اگر وہ آگ کے نرغے سے نکلنا بھی چاہتے تو نہیں نکل سکتے تھے !‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘صوفیہ چونک پڑی۔
’’ سارے دروازے باہر کی طرف سے بولٹ کر دئیے گئے تھے !‘‘
’’یہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں ؟‘‘
فریدی نے فوراً ہی جواب نہیں دیا ۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اس
نے تھوڑی دیر بعد پو چھا۔ ’’ باہر کے سارے دروازے سرخ رنگ کے تھے نا !‘‘
’’ہاں …آں …!‘‘
’’ تو آؤ …میں تمہیں دکھاؤں !‘‘
وہ پھر ملبے کے ڈھیروں کے قریب آگئے ۔ فریدی نے اسے سرخ رنگ
کے مین دروازے دکھائے جو دونوں طرف سے بولٹ تھے۔ حمید حیرت سے فریدی کی طرف دیکھنے
لگا۔ اس نے بھی اُسے ان دروازوں کو الٹتے پلٹتے دیکھا تھا لیکن یہ بات اس کی سمجھ
میں نہیں آئی تھی کہ اس کا مقصد کیا تھا۔
’’کسی نے بھی اس کی طرف دھیان نہیں دیا ! ‘‘ صوفیہ فریدی کی طرف
مڑکر آہستہ سے بولی۔
’’ بہر حال تم اُسے
کیا کہوگی !‘‘
’’ ہو سکتا ہے کہ بعد کو کسی نے بولٹ کر دیا ہو!‘‘
’’نا ممکن… میں نے انہیں ملبے کے نیچے سے نکالا ہے!‘‘
صوفیہ کسی سوچ میں
پڑگئی۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا ۔
’’ کچھ بھی ہو! میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ گھر والوں میں سے
کسی نے حرکت کی ہے! ‘‘
’’میں تمہیں یہ منوانا بھی نہیں چاہتا اور نہ فی الحال خود
ہی اس پر یقین کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی تو میں صرف اتفاقیہ
حادثہ
یا سازش پر غور کر رہا ہوں !“
’’اور اس کے لئے آپ نے چوروں کا سا طریقہ اختیار کیا ہے !‘‘صوفیہ
نے طنزاً کہا۔
’’ مجبوری ہے....! میں اس سلسلے میں شور وشر نہیں چاہتا !‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’تم لوگوں کی پریشانیاں بڑھ جائیں گی۔ سر مخدوم کی وصیت پبلک میں
آجائے گی۔ اخبارات نت نئی حاشیہ آرائیاں کریں گے !‘‘
’’وہ تو ہو کر رہے گا۔ ناصر چچا عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھا ئیں
گے !‘‘
’’نا ممکن !‘‘ فریدی مسکرا
کر بولا ۔’’ وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتے ۔ اس طرح وہ سر مخدوم کو پاگل ثابت کریں گے
جو پورے خاندان کے حق میں اچھا نہ ہو گا ؟“
’’ تو آپ نے چاروں طرف سے پھانس لیا ہے !‘‘
’’میں نے !‘‘ فریدی نے حیرت سے کہا۔ ’’ نہیں تو …!یہ کام تو سر مخد دم ہی نے کیا ہے!‘‘
اچانک فریدی خاموش
ہو گیا اور اس کے منہ سے تحیر آمیز آواز نکلی۔
’’ کون ہے ؟‘‘ اس نے بلند آواز میں پوچھا۔
پھر ملبے کے ڈھیروں کی دوسری طرف سے کچھ اس قسم کی آواز آئی پھسل کر گراہو۔ دوسرے ہی لمحے میں ایک تار یک سایہ تیزی
سے دوڑتا ہوا منہدی کی باڑھ پھلانگ گیا۔
’’ٹھہرو…ورنہ گولی ماردوں
گا!‘‘ فریدی نے گرج کر کہا۔
بھاگنے والا رُ کا
نہیں وہ عقبی پارک کی طرف دوڑ رہا تھا۔ فریدی بھی منہدی کی باڑھ پھلانگ چکا تھا۔
اس کےپیچھے حمید بھی لپکا اور شاید صوفیہ بھی اس کے ساتھ ہی دوڑ رہی تھی۔
اصطبل کے قریب اُگی
ہوئی مالتی کی بے ترتیب جھاڑیوں نے کئی بار فریدی کی راہ روکی اور اس دوران میں
بھاگنے والا احاطے کی دیوار تک پہنچ گیا جس کی اونچائی پانچ یا چھ فیٹ سے زیادہ
نہیں تھی ۔ فریدی اب بھی شاید آدھے فر لانگ کے فاصلے پر تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے
بھاگنے والا دیوار پر چڑھنے لگا۔
فریدی نے گولی مارنے کی دھمکی ہی دی تھی۔ حقیقت اس کی جیب میں
ریو الور موجود نہیں تھا۔ بھاگنے والا دیوارپر چڑھ کر دوسری طرف کو دگیا۔
فریدی جہاں تھا وہیں رُک گیا۔وہ جانتا تھاکہ اب تعاقب فضول
ہے۔ کیونکہ احاطے کی دیوار کے نیچے سے چھیول کا گھنا جنگل شروع ہوگیا تھا …جو میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔
حمید اور صوفیہ اُس جے قریب ہی کھڑے ہانپ رہے تھے۔
’’ک…کو…ن…تھا!‘‘ صوفیہ ہانپتی ہوئی بولی۔
’’پتہ نہیں !‘‘ فریدی تیزی سے اس کی طرف مڑا۔’’میں گھر
والوں کو چیک کروں گا۔ حمید تم یہیں ٹھہرو۔ادھر کاخیال رکھنا!‘‘
’’سب … سور ہے… ہوں گے!‘‘ صوفیہ نے کہا۔
’’ فکر نہ کرو… میرے ساتھ آؤ!‘‘
وہ دونوں چلے گئے ۔ حمید تنہارہ گیا۔ اس نے نوکروں کے
کوارٹروں میں روشنی دیکھی ۔
کچھ دروازے چڑ چڑا
کر کھلے اور تین لالٹینیں اندھیرے میں جھولنے لگیں ۔
’’کون ہے؟ ‘‘کسی نے چیخ کر کہا۔
حمید کچھ نہ بولا… اور نہ اس نے
اپنی جگہ سے حرکت کی ... تین آدمی ہاتھوں میں لالٹینیں لئے دور کھڑے بھنبھنا رہے
تھے۔ ’’کون ہے؟ ‘‘کسی نے پھر ہانک لگائی اور پھر وہ تینوں حمید کی طرف بڑھے۔ حمید
پھر بھی کچھ نہ بولا۔ وہ تینوں
قریب
پہنچ گئے ایک نے لالٹین حمید کے چہرے کے برابر اٹھالی اور پھر فوراً ہی
اس کا ہاتھ جھک گیا۔
’’اندر آجاؤ !‘‘ حمید نے تحکما نہ لہجے میں کہا ۔’’میں
تفریح کر رہا ہوں !‘‘
وہ لالٹین جھلا تے ہوئے چپ چاپ واپس چلے گئے۔
حمید احاطے کی دیوار کی نگرانی کررہا تھا۔اسے یقین تھا کہ
وہ بھاگنے والا گھر ہی والوں میں سے کوئی رہا ہوگا سر مخدوم کے خاندان میں اس وقت
بھی چار مرد تھے۔ایک تو ناصر …سر مخدوم کا بھائی جس نے آج صبح فریدی سے وصیت کے متعلق
گفتگو کی تھی ۔دوسرا شمشاد …سر مخدوم کی بہن کا لڑکا، شاہی فضائیہ میں پائلٹ تھا۔ تیسرا
فر حان …ناصر کا لڑکا …چوتھا…ارشاد …شمشاد کا چھوٹا بھائی اور ایم ایس سی کا طالب علم تھا۔
حمید کے ذہن میں ان چاروں کی شکلیں تھیں…اور وہ سوچ رہا تھا کہ ان میں سے کون اتنا پھر تیلا ہو سکتا ہے۔وہ کئی منٹ تک
انہیں اپنے ذہن میں پر رکھتا اور تولتا رہا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر گھر والوں میں
سے کوئی غائب ہوا تو وہ شمشاد ہی ہوگا۔
’’خاندان کے سارے لوگ موجود ہیں۔ وہ سب سور ہے تھے ۔ آؤ
واپس چلیں !‘‘
بر آمدے میں گھر کے سارے موجود تھے۔ان میں سے کوئی بھی ایسا
نہیں تھا جس کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثارنہ رہے ہوں۔فریدی اور حمید کو دیکھ کر ان
میں سے کئی کی مٹّھیا ں کس گئیں اور ناصر کے چہرے سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے
وہ کچا کھا جائے گا۔
’’آخر یہ سب کیا لغویت ہے؟‘‘ شمشاد نے جھلا ئے لہجے میں
کہا۔
’’مجھے افسوس ہے!‘‘ فریدی آہستہ سے بولا۔
’’میں پوچھتا ہوں آپ چوروں کی طرح …!‘‘ ناصر کچھ
کہتے کہتے رک گیا۔
’’ٹھہریئے!‘‘ فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا
۔ ’’ مجھے پورا یقین ہے کہ سر مخدوم کو جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا تھا!‘‘
’’ آپ اس طرح دھمکا
کر… نہ جانے کیا کرنا چاہتے ہیں !‘‘ ناصر کی
آواز تیز ہوگئی۔
’’ سر مخدوم کو مہمان خانے میں قید کیا گیا تھا! ‘‘فریدی ان
کے چہروں کو گھورتا ہوا آہستہ سے بولا ۔
’’ کیا بکواس ہے؟ ‘‘شمشاد بڑبڑایا۔
’’بکواس نہیں! حقیقت ! باہر سے سارے دروازے بولٹ کر دیئے
گئے تا کہ وہ نکل کر بھاگ نہ سکیں !‘‘
’’کیا ؟‘‘ ناصر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
اور پھر چند لمحوں کے لئے اس قسم کا سناٹا طاری ہو گیا جیسے
وہ سب کسی لاش کے قریب کھڑے ہوں۔
فرید کی اور حمید
انہیں اسی حال میں چھوڑ کر اپنے کمروں کی طرف چلے گئے۔
4
دوسری صبح
نہ جانے کیوں حمید بڑی تھکن محسوس کر رہا تھا۔ ایک عجیب سی الجھن تھی جسے تنہائی
کے احساس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ فریدی صبح ہی سے غائب تھا لیکن حمید کے لئے یہ تاکید تھی کہ وہ ایک منٹ کے لیے بھی سر مخدوم کی کوٹھی نہ
چھوڑے۔
حمید تنک آ گیا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ جتنی جلد یہاں سے گلو
خلاصی ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ تین خوبصورت اور نوجوان لڑ کیوں کی موجودگی میں بھی دو
اس کوٹھی کے ماحول سے اُکتا گیا تھا۔ بات دراصل یہ تھی کہ وہ ہرکس ونا کس اس کی تنفر ان سے آمیز نظروں سے تنک آگیا تھا۔
حتیٰ کہ نوکر چاکر بھی انہیں گو یا اچھوت سمجھتے تھے۔
حمید نے مسہری سے اُٹھ
کر ایک طویل انگڑائی لی اور غسل خانے کی طرف چلا گیا۔ سر مخدوم کے خاندان والوں نے
اس کا نوٹس بھی نہ لیا ۔ حمید سوچ رہا تھا کہ اگر فریدی نے اپنے نوکر نہ بلوائے
ہوتے تو یہاں بھوکوں بھی مرنا پڑتا۔
منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے وقت اُسے صوفیہ کا خیال آیا۔
اس کا قرب حقیقتًا ٹھنڈے پانی کی طرح تازگی بخشتا تھا اور وہ خود اوس میں بھیگی
ہوئی ٹھنڈی ہوا معلوم ہوتی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ صوفیہ کو یقین آ گیا ہے شاید اب
وہ سے بے گانگی کا برتاؤ نہ کرے۔ خوبصورت لڑکیوں کی سرد مہری اُسے بہت گراں گزرتی
تھی اور کچھ غیر فطری سی بھی معلوم ہوتی تھی ۔کچھ ایسی ہی غیر فطری جیسے گلاب کا
پھول بھنڈیوں کی شکل اختیار کرے ۔
ناشتے کے بعد وہ بر آمد ے میں نکل آیا۔صبح بڑی خوشگوار
تھی ۔ دھوپ میں ابھی گرمی نہیں آئی تھی۔حمید نے چاروں طرف دیکھا ۔بر آمدے میں اس
کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔وہ ایک آرام کرسی پر بیٹھ کر اس کی پشت سے ٹک گیا۔
نہ جانے کیوں اس کی الجھن اور زیادہ بڑھ گئی۔ ایسا عجیب و
غریب اور بے سروپا کیس اسے آج تک نہ ملا تھا۔ کبھی کبھی تو اسے ایسا محسوس ہونے
لگتا جیسے وہ کسی ڈرامے کے ریہرسل میں حصہ لے رہا ہو۔ فریدی کا خیال تھا کہ سرمخد
دم نے اپنے لئے پہلے ہی خطرے کی بو سونگھ لی تھی اس لئے اس نے ایک ایسی بے تکی وصیت
مرتب کی جس کی بنا پر اس کی موت کو اتفاقیہ نہ سمجھا جاسکے۔ حمید کوفریدی کی اس
رائے سے اتفاق تھا مگر کیا سر مخدوم کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے خاندان ہی کا
کوئی آدمی ان کی موت کا خواہاں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے ...۔
حمید اس کے آگے نہ سوچ سکا کیونکہ اس کی توجہ کا مرکز ایک
بھاری بھر کم آدمی بن گیا تھا جو طویل روِش سے گزرتا ہوا بر آمدے ہی کی طرف آرہا تھا۔ اس کے سر پر فلیٹ ہیٹ
تھی اور جسم پر ایک بہترین طور پر پریس کیا ہوا سوٹ ۔قمیض کے کالر کی بے داغ سفیدی دورہی سے چمک رہی تھی۔
پورچ میں پہنچ کر وہ اچانک رک گیا۔ وہ حمید کو تحیرآمیز نظروں سے گھور رہا تھا۔ حمید کے
ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ حمید ا سے ہزاروں میں پہچان سکتا تھا۔
’’ہیلو آ فیسر !‘‘
آنے والے نے کسی قسم کے جذبے کا اظہار کئے بغیر کہا۔
بر آمدے میں پہنچ کر ایک بار پھر اس نے حمید کوٹٹو لنے والی نظروں
سے دیکھا ۔
’’ ادھر کیسے !‘‘ حمید نے پوچھا۔
اجنبی جواب دینے کے بجائے اُسے تفکر آمیزنظروں سے
دیکھتارہا۔
’’کیا تم مجھے یہاں دیکھ کر متحیر ہو!‘‘ حمید نے ہنس کر
کہا۔
اجنبی نے لاپروائی کے اظہار کےلئے اپنے شانوی کو جنبش دی
اور آہستہ سے بولا۔
’’میں سمجھا ۔لیکن مجھے اس کی پروانہیں!‘‘
’’تم کیا سمجھتے اور تمہیں کس کی پروا نہیں!‘‘
’’دیکھئے یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ آپ ٹانگ اَڑائیں!‘‘
’’میں بالکل نہیں سمجھا!‘‘ حمید نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے
کہا۔
’’کیا میں یہاں آپ ک موجودگی کامطلب پوچھ سکتا ہوں !‘‘
اجنبی کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
’’مہمان ہوں!‘‘
’’بہت خوب !‘‘اجنبی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔ ’’ لیکن میں نے
پہلے ہی اچھی طرح مضبوطی کر لی تھی !‘‘
حمید کو ایک جھُرجُھر
ی سی آئی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
پھر نہ جانے کدھر سے سر مخدوم کا بھائی ناصر آنکا…اور حمید نے محسوس کیا جیسے اس کو دیکھ
کر اس کے چہرے کارنگاڑگیا ہو۔
’’ او ہو. .. آپ ! ‘‘ ناصر آہستہ سے بولا۔
’’جی ہاں میں!‘‘
اجنبی نے گرج کر کہا اور کھڑا ہو گیا۔
’’اوپر چلئے… میرے ساتھ آئیے ! ‘‘ناصر مضطربانہ انداز میں
دروازے کی طرف مُڑ تا ہوا بولا ۔
اجنبی حمید پر قہر
آلود نظر ڈالتا ہوا نا صر کے پیچھے چلا گیا۔
حمید کی حیرت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ۔ اجنبی کوئی معزز
آدمی نہیں تھا وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ شہر کا مشہور بدمعاش صفدر خاں جس کے کئی
جوئے خانے چلتے تھے اور وہ پولیس والوں کو کافی رقم کھلاتا تھا۔
ایسی صورت میں حمید
کا برآمدے میں رکے رہنا ناممکنات میں سے تھا۔ وہ بھی اندر چلا گیا لیکن ناصر تک
پہنچنا مشکل تھا۔ فریدی کی بھی ہدایت تھی کہ ان کے بھی معاملات میں دخل اندازی نہ
کی جائے …مگر… صفدر سے جس قسم کی گفتگو ہوئی تھی اس کا تقاضہ تھا
کہ ایسے موقع پر چوکنا رہنا چاہئے۔ پھر صفدر کو دیکھ کر ناصر کی گھبراہٹ آخر اس کا
کیا مطلب تھا ۔ وہ تیزی سے کا ریڈر طے کرنے لگا۔ لیکن جیسے ہی وہ سرے پر مڑا اُسے
اس طرح رک جانا پڑا جیسے پوری بریکیں لگ گئی ہوں ۔
صوفیہ اس کے کمرے
کے دروازے پر جھکی ہوئی تھی اور اس کا انہماک
اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اسے حمید کے آنے
تک
کی خبر نہ ہوئی۔ وہ ایک مڑے ہوئے تار کی مد سے دروازے کا قفل کھولنے کی کوشش کر رہی
تھی۔ اس کی پتلون کی جیب میں پڑے ہوئے
ہتھوڑے کا دستہ حمید کو صاف نظر آرہا تھا۔
’’ لاؤ… مجھے دو… میں کھول دوں !‘‘
حمید آگے کی طرف جھکتا ہوا آہستہ سے بولا۔
صوفیہ اچھل کر پیچھے
ہٹ گئی ۔ پہلے تو اس کی آنکھیں خوفز دہ سی نے ایک جھینپا جھینپا سا قہقہہ لگایا ۔
لیکن حمید کی سنجید گی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔
اس نے اس طرح اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی جیسے خود بھی اس چوری میں شریک ہو۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر تار
صوفیہ سے لیا اور قفل پر جھک پڑا۔ تھوڑی کی جدو جہد کے بعد قفل کھل گیا اب حمید نے
دروازے کو دھکا دے کر کھولتے ہوئے اسے اندر چلنے کا اشارہ کیا۔
نہ جانے کیوں صوفیہ
بھی سنجیدہ نظر آنے لگی لیکن اس کی سنجید گی میں حیرت بھی شامل تھی۔
’’ ایڈونچر ‘‘ حمید نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہستہ
سے کہا۔
صوفیہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا پھر اس کی نظریں جو
نکوں والے مرتبان کی طرف رینگ گئیں جو میز پر رکھا ہوا تھا۔ ’’پارٹنر… حمید ایک گہری
سانس نے کرشانے بھٹکتا ہوا بولا ۔ ’’ ہم دونوں مل کر ایک رات میں سارے شہرکولوٹ
سکتے ہیں !‘‘
صوفیہ پھر ہنسنے لگی
اور پھر اس نے حمید کو باتوں میں الجھا کر جیب سے ہتھوڑا نکال لیا اور اسے اپنی
پشت پرچھپائے ہوئے آہستہ آہستہ میز کی طرف کھسکنے لگی۔
’’ اوں ہوں !‘‘ دوست !‘‘ حمید سر ہلا کر بولا ۔’’ ٹھہرو!‘‘
اس نے نہایت آہستگی
سے ہتھوڑا اس کے ہاتھ سے لے لیا اور توقع کے خلاف صوفیہ نے کوئی تعرض نہیں کیا۔
’’یہ جو نکیں !‘‘ حمید نے خوابناک انداز میں کہا۔ ’’میرے
لئے معزز ترین ہیں… ادھر آؤ! میں تمہیں ان سےملاؤں!‘‘
حمید نے جیب سے ایک
چھوٹی سی چمکدار چمٹی نکالی اور اس کی مدد سے ایک جو نک نکال کر بولا۔
’’لیڈی چیڑ لی!‘‘
پھر وہ ایک ایک
جونک نکال کر میز پر ڈالتا اور کہتا گیا۔ ’’ مادام بواری، سی نوز ٹیا، کلوپٹرا، ماد
موزئیل دیراں ...!‘‘
’’ہٹو! تم کتنے گندے آدمی ہو! ‘‘صوفیہ نفرت سے ہونٹ سکوڑ کر بولی ۔
’’ میں گندے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہوں!‘‘ حمید کراہ
کر بولا اور اس کی آواز بڑی درد ناک ہوگئی۔ وہ اسے چند لمحے مغموم نظروں سے دیکھتا
رہا پھر ایک سرد آہ کھینچ کر بولا ۔’’ ان لوگوں نے مجھے پاگل بنا رکھا ہے۔ کہتے ہیں
کہ تم سارجنٹ حمید ہو آہ… کیسا بد نصیب ہوں
میں ۔ حالانکہ میری رعایا مجھے شہزاہ کمبخت عرف جادوکی بنسری کے نام سے پکارتی تھی ۔ برا ہوا اس دن کا کہ براؤن
پری مجھ پر عاشق ہو کر کوہ قاف اٹھالے گئی …!‘‘
’’کیا واقعی دماغ چل گیاہے !‘‘ صوفیہ
کو گھور کر بولی۔
لیکن حمید اس کی پر واکئے بغیر بکتا
رہا ۔’’کوہِ قاف پہنچ کر اصل حقیقت کھلی ۔معلوم ہوا کہ براؤن پری عاشق واشق کچھ
بھی نہیں ہوئی تھی۔اس نے مجھے جھانسہ دیا تھا ۔واقعہ یوں تھا کہ جب بھی براؤن پری
انڈے دیتی تو بچے نکلنے سے پہلے ہی بلیوبلیک دیو اُن کا آملیٹ یامار ملیڈ بنا کر
چٹ کر جاتا!‘‘
’’براؤن پری…انڈے …بلیوبلیک دیو!‘‘ صوفیہ بے تحاشہ ہنسنے لگی۔
’’براؤن پری !‘‘حمید نے بکو اس جاری رکھی ۔ ’’ براؤن پری اس
قدر تنگ آگئی تھی کہ اس کی ساری فراکیں ڈھیلی ہو کر رہ گئی تھیں۔ آخر اس کی ملاقات ایک تھیٹریکل
کمپنی کے منیجر سے ہوگئی۔ اس نامراد نے براؤن پری کو میرا پتہ بتادیا اور کہا کہ میرے
علاوہ اور کوئی بلیو بلیک دیوکو نہ مار سکے گا۔ پس وہ Murderss of the worldیعنی قتالہ عالم
مجھے کوہ قاف اٹھا لے گئی ۔ قصہ کو تاہ مجھے بلیو بیک دیو سے ایک خونریز جنگ کرنی
پڑی اور میں نے اس کے پیٹ میں اپنا فاؤنٹین پین گھونپ کر اس کا خاتمہ کر دیا۔ جب
براؤن پری کے انڈے محفوظ ہو گئے تو اس حیلہ جو بہانہ ساز نے مجھے اپنے اوپر عاشق
کرانے سے صاف انکار کر دیا کہنے لگی کہ تجھے مس انڈر اور اسٹینڈنگ (misunderstanding) ہوئی تھی۔ میں تو تمہارے والد پر عاشق ہوئی تھی۔ دھو کے میں تمہیں
اُٹھا لائی ۔سن کر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے
کہا تو اچھا اپنی صاحبزادی بلیک اینڈ وائٹ ہی پر عاشق ہونے کا موقع دو۔ وہ اس پر
بھی رضا مندنہ ہوئی اور میرا تعارف ایک تحصیل دار کی لڑکی سے کرادیا۔ ‘‘
صوفیہ ہنستی ہوئی ایک
آرام کرسی میں ڈھیر ہوگئی۔
’’ اس کی لڑکی پہلے ہی سے براؤن پری کے بھتیجے سفید پَرے پر
عاشق تھی۔ سفید پَر اجو دور سے کوئی امریکن اور قریب سے قلعی کیا ہو ا مراد آبادی
اگلدان معلوم ہوتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں تحصیل دار کی لڑکی پر عاشق ہوا تو
وہائٹ پَر امجھے اس قدر بور کرے گا کہ میں مرجاؤں گا ۔ وہ کم بخت جس کا بھی دشمن
ہوتا اسے اپنے فرضی معاشقوں کی اتنی داستانیں سنا تا کہ وہ بے چارہ بور ہو کر یا
تو خودکشی کر لیتا یا پھر شادیاں کرنا شروع کر دیتا۔ بہر حال تحصیل دار کی لڑکی نے
میرا تعارف اپنے میاں سے کرا دیا۔‘‘
’’ اب تم مجھے بور کر رہے ہوا!‘‘ صوفیہ اٹھتی ہوئی بولی۔
’’یہ ابھی چچا ناصر کےساتھ کون تھا؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’کیوں؟تم سےمطلب !خیر چھوڑواسے !میں تم سے ایک سوال کرنا
چاہوں گی!‘‘
’’مگر وہ ار تھمیٹک کانہ ہو!‘‘ حمید مسکرا کر بولا۔
’’پچھلی رات بھاگنے والا کون تھا؟‘‘
’’پتہ نہیں!‘‘
’’گھر کے سب لوگ موجود تھے !‘‘ صوفیہ آہستہ سے بولی۔
’’ کیا تم اب بھی گھر والوں میں سے کسی پر شبہ کرو گے !‘‘
’’ہر گز نہیں ۔ لیکن یہ صفدر یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘
’’کون صفدر ؟‘‘
’’وہی جو اس وقت ناصر صاحب کے ساتھ ہے!‘‘
’’میں نہیں جانتی ! انہی سے پوچھو!‘‘
حمید چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’ ناصر صاحب تمہارے
والد ہیں !‘‘
’’ کیوں؟… نہیں تو… میرے چچا ہیں۔
میرے والد کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا ۔ مگر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو ؟‘‘
’’ان کا برتاؤ تمہارے ساتھ اچھا نہیں معلوم ہوتا !‘‘
صوفیہ کچھ نہ بولی۔ اس نے خاموشی سے ہتھوڑا اٹھایا اور باہر
چلی گئی۔
حمید بڑی دیر تک اس لڑکی کے متعلق سوچتا رہا۔
غالبًا صفدر جاچکا
تھا۔ حمید کمرہ مقفل کر کے پھر بر آمدے میں آ گیا۔ فریدی ابھی تک واپس نہیں آیا
تھا۔ حمید کی گھٹن بڑھتی گئی۔ وہ پچھلی شام کو بھی کہیں باہر نہیں جا سکا تھا اور
آج بھی نکل بھاگنے کے امکانات نظر نہیں آرہے تھے ۔
وہ بڑی بے دلی سے
پائپ لگا کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گیا۔
کچھ دیر بعد نا صر شاید اسے تلاش ہی کرتا ہوا برآمدے کی طرف
آنکلا ۔
’’ سنئے جناب !‘‘ وہ چند لمحے حمید کو گھورتے رہنے کے بعد بولا ۔’’
آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ آپ میرے ملاقاتیوں کو روک کر ان سے گفتگو کریں !‘‘
’’اتفاق سے وہ معزز آدمی میرا بھی ملاقاتی تھا !‘‘ حمید نے مسکرا
کر کہا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ کسی چکر میں ہیں !‘‘
’’یہ اور زیادہ خوشی کی بات ہے!‘‘
’’ہماری سخت بے عزتی ہو رہی ہے !‘‘ نا صر جھنجھلا کر بولا ۔
’’یہ آپ اپنے بھائی صاحب سے کہئے جنہوں نے خواہ مخواہ اپنی دولت نہ
صرف ہمارے گلے لگا دی بلکہ ہم پر چند جونکوں کی پرورش کا بھی بار ڈال دیا۔ ویسے
ناصر صاحب کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ مرحوم نے وصیت نامے میں جونکوں کو کیوں شامل کیا
؟‘‘
” میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ میں ان لغویات میں سرکھپاؤں
!‘‘
’’کہیں یہ جو نکیں ایک قسم کا استعارہ تو نہیں ؟‘‘
’’ کیا مطلب !‘‘ ناصر اُسے گھورنے لگا۔
’’کچھ نہیں! اور اس وقت خیالات کچھ شاعرانہ اور ہے ہیں !‘‘
ناصرکچھ سے قہر آلود نظروں سے دیکھتا رہا پھر گرج کر
بولا ۔ ’’ میں اب معاملے کو آگے بڑھاؤں گا!‘‘
’’ ضرور بڑھائیے۔ مجھے وہ گندے کیڑے ذرہ برابر بھی پسند نہیں
!‘‘
ناصر کچھ کہے بغیر پھر واپس چلا گیا۔ حمید نے بجھا ہوا پائپ سلگایا اور پرپھرذہنی
طور پر مکھیاں مارنے لگا۔ ایسے اکتا دینے والے کیس سے پہلے کبھی اس کا سابقہ نہیں
پڑا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ پورج میں ایک کار آکر ر
کی اور اس پر سے ادھیڑ عمر کا ایک مہا جن قسم کا کھدر پوش اتر ااور حمید کو یہ سوچ
کر تعظیماّ کھڑا ہو جانا پڑا کہ ممکن ہے کہ وہ کوئی بڑا لیڈر یاپا لیا منٹ کا ممبر
ہو۔
’’دانش صاحب ! ‘‘اس نے حمید سے پوچھا۔
’’دانش صاحب !‘‘ حمید ذہن پر زور دیتا ہوا بولا ۔’’ میرا خیال
ہے کہ یہاں کوئی دانش صاحب نہیں رہتے!‘‘
’’ کیا؟‘‘ نو وارد گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹتا ہوا بولا ۔ ’’
کیا کہا آپ نے کوئی دانش نہیں …!‘‘
’’جی نہیں ! یہاں اس نام کا کوئی نہیں !‘‘
’’دانش ... ناصر صاحب کے لڑکے۔ سر مخدوم کے بھتیجے !‘‘
’’ جی نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ناصر صاحب کے لڑکے کا نام دانش نہیں فرحان
ہے!‘‘
’’ ارے ! ہی ہی! وہ تو چھوٹا لڑکا ہے۔ آپ ناصر صاحب سے
کہلوادیں کہ سیٹھ ٹڈ امل آیا ہے!‘‘
’’ تشریف رکھئے ! میں اطلاع کئے دیتا ہوں!‘‘ حمید نے کہا
اور راہداری میں ہولیا۔
اس کا ذہن ” دانش
دانش ‘‘کی گردان کر رہا تھا… آخر یہ کون تھا اور کہاں تھا۔ ابھی تک انہیں
کیوں نہ معلوم ہو سکا تھا کہ ناصر کا ایک لڑکا اور بھی ہے۔
5
وہ کہاں ہے؟
’’دانش !‘‘فریدی آہستہ سے بڑبڑایا اور سگار سلگا کر جلتے ہوئے سرے
پر نظریں جمادیں …۔
’’آخر اس کا نام ابھی تک ہمیں کیوں نہیں معلوم تھا !‘‘ حمید
بولا۔ وہ فریدی سے صفدر والا واقعہ بھی بیان کر چکا تھا۔ فریدی چند لمحے سگار کے
جلتے ہوئے سرے کو گھورتا رہا پھر بولا ۔
’’ میں صبح سے اب تک دانش ہی کے متعلق چھان بین کر رہا تھا
!‘‘
’’ اور آپ نے مجھے پہلے نہیں بتایا !‘‘
’’پہلے مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا !‘‘ فریدی بولا ۔’’ یہ تو تحقیقات
کے دوران میں معلوم ہوا کہ ناصر کے کوئی لڑکا اور بھی ہے جو واردات کی شام تک گھر
میں دیکھا گیا تھا!‘‘
’’اوہ …!اور اس کے بعد
سے …!‘‘ حمید آنکھیں نکال کر رہ گیا۔
’’اتنی جلدی نتائج
اخذ کرنے کی کوشش نہ کرو!‘‘
’’ کیوں نہ نا صر کو ٹٹولا جائے !‘‘
’’نہیں ...! فی الحال اس کی ضرورت نہیں ۔ دانش کے متعلق معلوم ہوا
ہے کہ وہ ایک اوباش قسم کا آدمی ہے!‘‘
’’لیکن آپ نے یہ ساری معلومات کہاں سے بہم پہنچا ئیں!‘‘
’’پڑوسیوں سے !‘‘
’’اور کچھ !‘‘
’’اور ابھی کچھ بھی نہیں ! ‘‘فریدی بجھا ہوا سگار ایک طرف اچھالتا
ہوا بولا ۔’’ اٹھو ہم ذرا صفدر کو دیکھیں گے ! ‘‘
’’ کیا میں بھی چلوں ! ‘‘حمید نے پوچھا ۔
’’ہاں ! اب تم چل سکتے ہو!‘‘
’’کیوں اب کیا خاص بات ہوگئی !‘‘
’’فکر نہ کرو…جو کہوں وہ کرتے چلو!‘‘
’’ صوفیہ ان جونکوں
کو ختم کر دے گی !‘‘
’’ کیا تم انہیں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہو!‘‘ فریدی اس کی آنکھوں میں
دیکھتا ہوا بولا ۔
’’ کیوں! کیا وصیت نامہ ...!‘‘
’’چھوڑو !‘‘ فریدی اس کی بات کاٹ کر بولا ۔ ’’ جو نکیں اس کیس میں کسی اہم نکتے کی طرف اشارہ نہیں کرتیں
!‘‘
’’ پھر آخر ان کا مصرف کیا ہے؟‘‘
فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ باہر آئے ۔ فریدی نے گیراج
سے کیڈی نکالی اور پھر وہ سڑک پر آگئے۔
کیڈی
کا رُخ شہر کی طرف تھا۔
’’میں ان جونکوں کے متعلق پوچھ رہا تھا !‘‘ حمید پائپ میں تمبا کو
بھرتا ہوا بولا ۔
’’ محض مذاق ! یا پھر سر مخدوم کے اعزہ کے لئے ایک استعارہ
۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا قاتل حقیقتا ًاس کا کوئی عزیزہی ہو!‘‘
’’ آپ نے کہا تھا کہ جونکوں کے مرجانے کے بعد وصیت نامہ ساقط ہو
جائے گا ! ‘‘
’’
مجھے اب وصیت نامے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ۔ کیونکہ اب اس کا مطلب حل ہو
چکا ہے۔ اس وصیت کی عدم موجودگی میں سر مخدوم کی موت اتفاقیہ بھی جاتی مگر اب ہمیں
ایک قاتل کی تلاش ہے!“
’’اس کیس کا پیچیدہ ترین مسئلہ !‘‘حمید نے سوالیہ انداز میں کہا۔
’’سر مخدوم کا رویہ… خطرہ پہلے سے
لاحق ہونے کے باوجود بھی اس شخص نے چوہوں کی طرح جان دے دی!‘‘
’’اوہ … تو آپ کا یہ خیال ہے کہ وہ مرا ہی نہیں !‘‘
’’ لاش! ... ایک چلی ہوئی لاش… آؤٹ ہاؤز میں
سر مخدوم کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا تھا!‘‘
’’ بہر حال یہ کیسی مجھے ضرور پاگل بنادے گا !‘‘حمید نے
پائپ لگاتے ہوئے کہا۔
شہر پہنچ کر فریدی نے کیڈی صفدر کے ہوٹل کے سامنے روک دی۔ یہ
ہوٹل کچھ اس قسم کا تھا کہ اگر اس کے ساتھ بھی نہ ہوتی تو لوگ اسے قابل اعتنا بھی
نہ سمجھتے اور ویسے تو اس کی گہرائیوں کے واقف کا رشہر کے بہت بڑے بڑے لوگ تھے۔ در
پردہ یہاں ایک بہت بڑا قمار خانہ تھا اور شہر کے بہتیرے دولت مند یہاں جوا کھیلتے
تھے۔
صفدر انہیں کاؤنٹر
ہی پر مل گیا اور اس نے انہیں دیکھ کر بہت پُر امنہ بنایا۔ صفدر پولیس یا محکمہ
سراغرسانی کے آفیسروں سے ذرہ برابر بھی مرعوب نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس کے روپوں کی
پہنچ دور دور تک تھی ۔ حمید کو صفدر کے اس رویے پر بڑا تاؤ آیا لیکن فریدی نے اپنی
ظاہری حالت میں بالکل فرق نہ آنے دیا۔
’’ کیا تم دانش سے واقف ہو؟‘‘ فریدی نے صفدر سے پوچھا۔
’’ میں کسی دانش وانش کو نہیں جانتا اور نہ میں اسے پسند
کرتا ہوں کہ آپ جیسے بزرگ لوگ یہاں آنے کی تکلیف اٹھا ئیں !‘‘
’’ آج غلطی ہوئی آئندہ بلوائیں گے! ‘‘حمید جھلاّ کر بولا۔
’’ کیا آپ نے مجھے بھی کسی بنئے ونئے کا لونڈاسمجھا ہے؟‘‘
’’ کیا تم سر مخدوم
کے بھتیجے دانش کو نہیں جانتے ؟‘‘ فریدی نے پھر پوچھا۔
’’نہیں!‘‘
’’اور نہ اس سے کبھی تمہارا لین دین رہا ہے؟‘‘
’’ کیوں… نہیں! میں اسے جانتا ہی نہیں !‘‘
’’ کیا تم دو گواہوں کے سامنے یہی جملہ دہرا سکو گے یا اسے بھی
چھوڑو! مجھے لکھ کر دے دو کہ دانش سے تمہارا کبھی کوئی لین دین نہیں رہا !‘‘
’’میں کیوں لکھ کر دے دوں ؟‘‘
’’حرج ہی کیا ہے ! جب تم اسے نہیں جانتے !‘‘
’’دیکھئے جناب میرے پاس بے کا وقت نہیں ہے!‘‘
’’خیر !‘‘فریدی لا پروائی سے بولا ۔’’ لیکن تمہیں دانش سے جبہ بھی
وصول ہو جانے کی توقع نہ رکھنی چاہئے !‘‘
’’نہ جانے آپ کیا ...!‘‘
فریدی اس کی بات پر دھیان دیئے بغیر واپس جانے کے لئے مُڑا۔
’’ٹھہریئے!‘‘ صفدر مضطربانہ انداز میں بولا۔
فریدی رک گیا لیکن اس کی طرف مڑا نہیں ۔
’’آپ لین دین کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں !‘‘
’’ یونہی !‘‘ تفریحا
ً!‘‘فریدی اس کی طرف مڑ کر مسکرایا۔
’’میں سمجھ گیا! ‘‘ صفدر
آہستہ سے بڑ بڑایا۔ پھر یک بیک اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس نے دانت میں کر کہا۔
’’ ناصر دورُخی
چل رہا ہے!‘‘
’’نہیں اتفاق سے اس بے چارے کا کوئی رخ ہی نہیں رہ گیا !‘‘ فریدی
نے سرد لہجے میں کہا۔ سارجنٹ حمید سے ٹکرانے کے بعد اس نے یقیناً تمہیں سمجھانے
بجھانے کی کوشش کی ہوگی لیکن اصل حقیقت سے دور ہی رکھا ہوگا۔ تم سمجھے ہو گے شاید ناصر نے ہم لوگوں کو محض تمہاری وجہ
سے مدعو کیا ہے!‘‘
صفدر اُسے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے اس کی بات سمجھنے کی
کوشش کر رہا ہو۔
’’پھر کیا بات تھی؟ ‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔
’’ تم نے سرجنٹ حمید سے کہا تھا کہ تم نے اپنی مضبوطی پہلے
ہی کر لی تھی ۔ یعنی غالبًا تم نے دانش سے پر ونوٹ لکھوالیا تھا …مگر اب پرونوٹ بھی تمہیں تمہاری رقم واپس نہ دلا سکے گا !‘‘
’’ کیوں؟‘‘ صفدر غرا کر بولا۔
’’ کیونکہ سرمخدوم کی جائیداد کا مالک میں ہوں ۔ اس کے اعزہ
نہیں ۔ وہ بھی اب میرے ہی رحم و کرم پر ہیں!‘‘
’’ نہ جانے آپ کہاں کی ہانک رہے ہیں !‘‘ صفدر بے ساختہ ہنس
پڑا۔
’’ناصر سے پوچھ لو! ‘‘فریدی نے فون کی طرف اشارہ کیا۔
’’ وہ گیا جہنم میں ! میں اُسے دیکھ لوں گا !‘‘
’’ضرور دیکھ لینا۔ لیکن رقم وصول نہ ہو سکے گی۔ کتنے روپے تھے !‘‘
’’پندرہ ہزار ۔ میں
نے پر ونوٹ لکھوا لیا تھا۔ ایک ماہ گزرا اس کی مدت پوری ہو چکی ہے اور اب میں دعویٰ
دائر کر سکتا ہوں !‘‘
’’کیا فائدہ دانش کی طرف سے مفلسی کی عذرداری
ہو جائے اور پھر اگر وہ جیل بھی گیا تو اس کے اخراجات
تمہارے
ذمہ!‘‘
’’آخر کیوں !... کیا اب سر مخدوم کی جائیداد کا مالک ناصر نہیں
!‘‘
’’ ہر گز نہیں! کہہ تو دیا کہ میں جب چاہوں اسے کوٹھی سے بھی
نکال سکتا ہوں !‘‘
’’میں نہیں سمجھ سکتا ! ‘‘
’’سر مخدوم کی وصیت! جس کی رو سے میں ان کی جائیداد کا مالک
ہوں !‘‘
’’سر مخدوم آپ کے کون تھے؟‘‘
’’کوئی بھی نہیں !‘‘
صفدر نے جھلا کر فون کا ریسیور اٹھایا اور شاید ناصر کے
نمبر ڈائل کرنے لگا ۔ پھر اس نے ماؤتھ پیس میں ناصرہی کو مخاطب کیا ۔ وہ اُس سے فریدی
کی کہی ہوئی بات کے متعلق پوچھ رہاتھا… پھر وہ ماؤتھ پیس کو ہتھیلی سے بند کر کے فریدی
کی طرف مڑا...
’’ ناصر تو اس سے انکار کرتا ہے!‘‘ اس نے کہا۔
’’اوہ ... !اب اس سے کہو کہ تمہیں یہ اطلاع بیرسٹر جعفری سے ملی ہے…!‘‘
فریدی نے کہا۔
صفدر نے ماؤتھ پیس
میں فریدی کا جملہ دہرا دیا اور پھر وہ اس کے بعد ’’ہیلو ہیلو‘‘ ہی کرتا رہ گیا۔
آخر اس نے جھلا کر ریسیور کو اسٹینڈ پر پٹخ دیا۔
’’ کیوں کیا ہوا ؟‘‘ فریدی نے مسکرا کر پوچھا۔
’’ سالے نے ایک گندی سی گالی دے کر سلسلہ منقطع کر دیا !‘‘
صفدر ہانپتا ہوا بولا۔
’’مجھے یا تمہیں !‘‘ فریدی نے مسکرا کر پوچھا۔
’’پتہ نہیں !‘‘ صفدر بے زاری سے بولا ۔’’ خیر میں سالے سےسمجھ لوں
گا!‘‘
’’تو آپ بتائیے نا کہ آپ کس طرح سر مخدوم کی جائداد کے مالک ہو
سکتے ہیں !‘‘ صفدر جھنجھلا کر بولا ۔
’’سر مخدوم کی وصیت کے مطابق !‘‘
’’اوہ جب آپ سر مخدوم کے کوئی نہیں تو سر مخدوم کو پاگل بھی ثابت کیا
جاسکتا ہے!“
’’کون کرے گا ؟ ‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’ناصر!‘‘
’’ہر گز نہیں کر سکتا …اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے ہتھکڑیاں لگ جائیں گی !‘‘
’’ کیوں...؟‘‘
’’جب سر مخدوم پاگل تھے تو انہیں آتش بازی کے ذخیرے کے ساتھ مہمان
خانے میں تنہا کیوں چھوڑا گیا !‘‘
’’صفدر کی آنکھیں حیرت سے
پھیل گئیں۔
’’تو پھر میرارد پیہ ڈوب گیا !‘‘صفدر آہستہ سے بولا۔
’’ نہیں یہ بھی ضروری نہیں۔ بعض حالات میں تمہارا روپیہ
واپس بھی ہو سکتا ہے!"
’’وہ حالات کیا ہوں گے !‘‘
’’دانش کے متعلق میرے لئے صحیح معلومات بہم پہنچاؤ!‘‘
’’کس قسم کی معلومات ؟‘‘
’’یہی کہ دانش اس وقت کہاں ہے؟‘‘
’’بھلا میں کیا بتا سکتا ہوں …وہ تو مجھے اُسی شام کو دکھائی دیا جس رات کوٹھی کے آؤٹ ہاؤز
میں آگ لگی تھی !‘‘
’’اوہ تو وہ اس شام کو دکھائی دیا تھا !‘‘
’’جی ہاں… اور اس کے بعد سے آج تک میں نے اس کی شکل نہیں
دیکھی۔ ٹھیک یاد آیا… اب تو میں ان سالوں کو پھانسی کے تختے پرہی دیکھنا پسند کروں
گا۔ ناصر سے آج میں نے دانش کے متعلق پوچھا تھا جس پر اس نےبتایا کہ وہ ایک ماہ
قبل کہیں باہر گیا تھا اور اب تک واپس نہیں آیا۔ حالانکہ یہ بکواس ہے۔ میں نے
حادثے کی شام کو اُسے دیکھا تھا۔ اس نے نہیں شراب پی تھی !‘‘
’’تو تم نے ناصر سے اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟‘‘
’’ کیا تھا …لیکن اس نے جواب دیا کہ دانش ایک ماہ سے گھر نہیں آیا !‘‘
’’ہوں ! ‘‘ فریدی نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ صفدر نے اب سچ
بولنا شروع کیا ہے!‘‘
’’پندرہ ہزار کم نہیں ہوتے !‘‘ صفدر، فریدی کو گھور کر بولا ۔ ’’ میرے
پاس پر نوٹ... !‘‘
’’ٹھیک ہے! اور وقت آنے پر تمہاری پائی پائی ادا ہو جائے گی۔
ویسے کیا تم مجھے وہ جگہیں بتاسکتے ہو جہاں دانش کے ملنے کے امکانات ہوں ؟“
’’ کیوں ؟ ‘‘صفدر چونک کر بولا ۔ ’’ آخر آپ کو دانش کی تلاش کیوں
ہے؟‘‘
’’ میرا خیال ہے کہ سر مخدوم کی موت اتفاقیہ نہیں تھی !‘‘
’’ہام!‘‘ صفدر اپنی بائیں آنکھ بند کر کے داہنا گال کھجانے لگا۔
’’تب تو پھر یہ
حرکت دانش ہی نے کی ہوگی !‘‘ وہ کچھ دیر بعد بولا۔
’’ کیوں؟‘‘
’’ٹھہرئیے بتاتا ہوں!‘‘ صفدر نے کہا
اور گھنٹی کا بٹن دبانے لگا۔
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی بھاگتا ہوا کاؤنٹر کی طرف آیا۔
’’ جگدل کو بھیجو! ‘‘ صفدر نے اس سے کہا اور وہ آدمی اُلٹے
پاؤں واپس چلا گیا ۔
دو تین منٹ بعد ایک نو جوان اور گرانڈیل آدمی کا ؤنٹرکے پاس
آکر کھڑا ہو گیا ۔ ظاہری حالت ہی سے خاصا بدمعاش معلوم ہوتاتھا۔
’’پچھلی بار تم سے اور دانش سے کیا باتیں ہوئی تھیں!‘‘ صفدر
نے اس سے پوچھا۔
آنے والے کا متجس نظروں سے فریدی اور حمید کی طرف دیکھا
اور اپنی داہنی ران کھجانے لگا۔
’’بتاؤ کیا باتیں ہوئی تھیں ؟‘‘ صفدر نے دوبارہ پوچھا۔
’’ارے ژناب دانس مَسکھڑی کرتا تھا!‘‘
’’بتاؤ نا!‘‘ صفدر نے تیز لہجے میں کہا۔
وہ کچھ دیر چپ رہا پھر بولا۔’’دانس صاحب بولا تھا۔ہمارے
چاچا کوٹخ کرو تو دس ہجارروپیہ دوں گا!‘‘
’’ٹخ !‘‘حمید آنکھیں نکال کر بولا۔
’’ہاں ہاں …ٹخ …!‘‘ اس نے اپنی گردن پرانگلی پھیر کرکہا۔
’’ مراد قتل ہے ! ‘‘ صفدر مسکرا کر بولا۔
’’ پھر تم نے کیا کہا ؟ ‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’ تم نے کچھ کہا ہی نہیں !‘‘
’’ صاحب ہم بھی مسکھڑی کیا
۔ ہم بولا پہلے دس ہجار دلواؤ ۔ پھر دانس صاحب ہم کو ایک چُھرا دکھایا۔ بولا وہ کھُداپنے
چاچا کو ٹخ کرے گا ۔ ہم بولا ۔ چھرا مارنے کو جور چاہئے …تاکت چاہئے ... دانس
صاحب بولا وہ اپنے چاچا کے گھر آگ لگا دے گا !‘‘
’’ تم جانتے ہو آج کل دانش کہاں ہے؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’نہیں ژناب !‘‘
6
صفدر کے ہوٹل سے نکل کر وہ سیٹھ ٹڈامل کے یہاں پہنچے لیکن دانش
کا سراغ وہاں بھی نہ مل سکا۔ البتہ اتنا ضرور ہو گیا کہ دانش نے پر ونوٹ پر آٹھ
ہزار روپے اس سے بھی لئے تھے۔
واپسی پر حمید نے کہا۔ ’’ آخر یہ لوگ کتنے گدھے
ہیں کہ انہوں نے کسی ضمانت کے بغیر اسے روپے دےدئیے تھے !‘‘
’’
ضمانت کے لئے محض اتنا ہی کافی تھا کہ وہ سر مخدوم کا بھتیجا ہے اور سر مخدوم کے
کوئی اولاد نہیں !‘‘
فریدی بولا۔
’’تو اس کا یہ
مطلب ہوا کہ سر مخدوم نے پہلے بھی کبھی ان لوگوں کے قرض ادا کئے ہوں گے!‘‘
’’ہو
سکتا ہے !‘‘
’’
لیکن دانش غائب ہو گیا ۔ ظاہر ہے کہ پولیس اسے اتفاقیہ حادثہ قرار دے چکی تھی !‘‘
’’جگدل کا بیان یاد
کرو!‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ اس نے اس سے اپنے چچا کے متعلق جو خیال ظاہرکیا
تھا کیا وہ اس کے پھنسا دینے کے لئے کافی نہیں !‘‘
’’
تو پھر… پچھلی رات والا پُر اسرار آدمی دانش ہی
تھا!‘‘
’’ممکن ہے!‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ
وہ جنگل ہی میں چھپا ہو!‘‘
فریدی
کچھ نہ بولا ۔ وہ پھر سر مخدوم کی کوٹھی پر واپس آگئے لیکن فریدی کیڈی اندر نہیں
لے گیا۔
’’پھاٹک کے چوکیداروں
کو یہاں بلا لاؤ !‘‘ فریدی نے حمید سے کہا۔
اس
نے کیڈی باہری چہار دیواری کے نیچے روک دی تھی۔ تھوڑی دیر بعد حمید چوکیدار کوساتھ لئے ہوئے واپس آگیا۔
فریدی
چند لمحے چوکیدار کو گھورتا رہا پھر بولا ۔ ’’ تم جانتے ہو کہ ہم لوگ پولیس کے آدمی
ہیں !‘‘
’’جی …ہجور!‘‘
’’ جس رات آگ لگی
تھی تم کہاں تھے؟“
’’یہیں پھاٹک پر
!‘‘
’’تم نے آگ لگتے
تو دیکھا ہی ہو گا !‘‘
’’ نہیں
سرکار... میں سورہا تھا !‘‘
’’تو تمہیں
پھاٹک پر سونے کی تنخواہ ملتی ہے !‘‘
’’رات کو جاگ کر
میں نے کبھی پہرا نہیں دیا۔ بڑے صاحب کہتے تھے اس کے لئے کتے ہی کا پھی ہیں !‘‘
’’تم کس وقت
سوئے تھے ؟“
’’سائت ایک بجے
!‘‘
’’اس سے پہلے
کوئی باہر سے آیا تھا ؟“
’’ جج …جی …نہیں!‘‘
’’گھر کا کوئی
آدمی !‘‘
’’نہیں سرکار !‘‘
’’جھوٹ بولتے ہو!‘‘
’’مم …نہیں ہجور!‘‘
’’اسے
لے جا کر بند کر دو!‘‘ فریدی نے حمید سے کہا۔
دربان گڑگڑانے لگا۔
’’اگر تم میری باتوں کا صحیح جواب دو گے تو کئی مصیبتوں سے بچ جاؤ گے۔ پولیس والے بہت مارتے ہیں !‘‘
’’لیکن یہ کوئی
ایسی بات نہیں تھی جسے تم چھپا ؤ!‘‘ فریدی اسے تیز نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’ مجھے منع کر دیا گیا تھا !‘‘
’’کس نے منع کیا
تھا ؟‘‘
’’نا صر میاں نے
!‘‘
’’ کیا کہا تھا
؟‘‘
’’یہی کہ میں
دانس میاں کے رات گئے آنے کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتاؤں !‘‘
’’یہ انہوں نے
تم سے کب کہا تھا ؟‘‘
’’آگ لگنے کے
دوسرے دن !‘‘
’’ دانش موجود
تھا!‘‘
’’نہیں وہ نہیں
تھے !‘‘
’’
جب آگ بجھانے کی کوشش کی جارہی تھی اس وقت دانش موجود تھا !‘‘
’’پتہ نہیں ! میں
نے نہیں دیکھا!‘‘
’’اس کے بعد سے
کبھی دانش دکھائی دیا تھا ؟‘‘
’’نہیں ہجور !‘‘
’’دانش اس رات
نشے میں تھا ؟ ‘‘
’’جی ہاں !... بیری تراں!‘‘ دربان بولا ۔ ’’ میں نے ان سے کہا
پہنچا دوں لیکن انہوں نے مجھے گالیاں دیں اور چُھرادکھایا !‘‘
’’چھر ادکھایا ؟‘‘ فریدی نے دہرایا۔
’’جی ہاں سرکار... میں چپ چاپ لیٹ گیا !‘‘
’’ کیا اس سے پہلے بھی کبھی چھرا دکھایا تھا !‘‘
’’ کبھی نہیں !‘‘
’’اچھا جاؤ!‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔’’ لیکن اس کا تذکرہ ناصر
یا کسی اور سے ہرگز نہ کرنا!‘‘
’’ اچھا صاحب !‘‘ در بان سلام کر کے چلا گیا۔ وہ بہت زیادہ
خوفزدہ نظر آرہا تھا۔
فریدی کیڈی کو اسٹارٹ کر کے کمپاؤنڈ میں لایا۔
’’سنوحمید !‘‘ اس نے کہا۔ ’’ اب صرف اسی لڑکی سے معلومات حاصل کی
جاسکتی ہیں !‘‘.
’’صوفیہ سے !‘‘
’’ہاں ! کیا تم ایسا کر سکو گے ؟‘‘
’’بہت چالاک ہے !‘‘
’’تم تو عورتوں کی نبض شناسی کے ماہر ہو!‘‘
’’ لیکن وہ خود کو عورت سمجھتی ہی نہیں
۔ میں نے اب تک اسے غرارے یا ساڑی میں نہیں دیکھا۔ ہر بات میں مردوں کی نقل کرنے کی
کوشش کرتی ہے!‘‘
’’آج شام کو اُسے کہیں باہر لے جاؤ !‘‘
’’یہ آپ کیا فرما ر ہے ہیں ۔ یو ر ہارڈنس …!‘‘
’’میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ آپ اس سے عشق لڑا ئیں! ‘‘فرید
ی بُر اسا منہ بنا کر بولا ۔
’’لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ میرے ساتھ چلی ہی جائے !‘‘
’’کوشش کرو! یہاں تو میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ناصر ہر وقت اس کے
سر پر سوار رہتا ہے!‘‘
’’ میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ ناصر کا برتاؤ اس کے ساتھ اچھا نہیں
!“
پھر وہ دونوں اپنے کمروں میں چلے گئے۔ لیکن حمید زیادہ دیر
تک کمرے میں نہ ٹھہر سکا۔ اس نے صوفیہ کی تلاش شروع کردی۔ بڑی دیر تک کئی راہ داریوں
کی خاک چھانتا رہا لیکن وہ کہیں نہ ملی ۔ ایک جگہ ناصر کی دونوں لڑکیوں سعیدہ اور نکہت
سے مڈ بھیٹر ہوگئی۔ دونوں نے عجیب انداز میں اس کی مزاج پرسی کی ۔ اس سے پہلے حمید
نے ان کی آنکھوں میں صرف نفرت ہی دیکھی تھی مگر اس وقت وہ دونوں ہی اس سے گفتگو
کرنے پر آمادہ نظر آرہی تھیں ۔
’’کیا پہلے آپ فلموں میں کام کرتے تھے !‘‘ سعیدہ نے پوچھا۔
’’فلموں میں !‘‘ حمید نے حیرت سے کہا۔ ’’ نہیں تو ...!‘‘
’’واہ... ہم نے تو آپ کو بیجو باورا میں دیکھا تھا !‘‘ نکہت لچک کر
بولی ۔
’’بیجو باورا!‘‘ حمید نے احمقوں کی طرح پلکیں جھپکائیں۔
’’آپ اپنا تانپورہ کیوں نہیں لائے !‘‘ سعیدہ نے کہا۔
’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے !‘‘ حمید بوکھلا کر بولا ۔
’’ ہم سمجھتے ہیں!‘‘ دونوں بیک وقت ہنسنے لگیں ۔
حمید اور زیادہ بوکھلا گیا… وہ در اصل اب
تک ان کو احمق سمجھ کر نظر انداز کرتا
رہا تھامگر وہ دونوں اچانک اُسے گھسنے پر
آمادہ ہو ئیں اور حملہ کچھ اس بے ساختگی کے ساتھ ہوا تھا کہ حمید کو پگڑی سنبھالنی
دشوار ہوگئی ۔ حالانکہ اگر اس کے سر پرسچ
مچ پگڑی ہوتی تو وہ اسے قابل اعتناہی نہ سمجھتیں۔
’’ گا تا تو آپ کو سنانا ہی پڑے گا !‘‘ نکہت بولی ۔
اور پھر حمید کو سچ مچ ایسا ہی محسوس ہو نے لگا جیسے اس کی
شکل پکا گا نا گا تے وقت بگڑی گئی ہو۔قریب تھا کہ وہ بوکھلا کر ہکلا نا شروع کر دے اس نے خود کو
سنبھال لیا۔
’’کیا سنئے گا!‘‘ اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
’’جئے جئے ونتی !‘‘ نکہت بولی۔
’’نہیں …گو جری ٹوری !‘‘ سعیدہ نے کہا۔
’’فی الحال جھاپ کا خیال سنئے !‘‘ حمید داہنے کان پر ہاتھ
رکھتا ہوا بولا۔’’صوفیہ صاحبہ کو بھی بلا لیجئے !‘‘
’’صوفی صاحب کہئے !‘‘ سعیدہ نے تنفر آمیز لہجے میں کہا ۔’’وہ
کسی درخت پر چڑھی گلہریاں پکڑرہی ہوگی!‘‘
’’تو چلئے اسی درخت کے نیچے سہی!‘‘
’’یہیں سنیں گے !‘‘نکہت نے کہا۔
’’پاگل ہوئی ہے !‘‘ سعیدہ بولی
۔’’ڈیڈی دھرپت الا پنا شروع کر دیں گے !‘‘
وہ وعقبی پارک کے ایک درخت کے سائے
میں آبیٹھے دن ڈھل رہا تھا اور دھوپ میں اب زیادہ تمازت نہیں رہ گئی تھی۔
حمید نے چاروں طرف متجس نظروں سے
دیکھا مگر صوفیہ یہاں بھی کہیں نہ دکھا ئی
دی۔
’’چلئے دیپک !‘‘ حمید مسکرا کر
بولا۔’’آپ میں سے کسی کو میگھ ملہا ر آتی ہے ؟‘‘
’’د یپک !‘‘ حمید مسکرا کر بولا ۔’’ آپ میں سے کسی کو میگھ ملہار
آتی ہے؟‘‘
’’کیا واقعی دیپک راگ سے چراغ جل اٹھتے تھے ؟‘ ‘سعیدہ نے
پوچھا۔
’’بالکل !‘‘ حمید سنجیدگی سے سر ہلا کر بولا ۔ ’’ محض اسی لئے ایک
بارتان سین کو دہلی اسٹیشن میں ملازمت کرنی پڑی تھی !‘‘
’’ کیوں ... دہلی ریڈیو…!‘‘ سعیدہ ہنسنے لگی ۔
’’جی ہاں ! ہوا یہ کہ ایک بار بیربل کی حماقت سے دیا سلائیوں کی
امپورٹ بند ہوگئی ۔ سارے ملک میں اندھیراچھاگیا ۔ تب اکبر بادشاہ نے تان سین کو ریڈیو
اسٹیشن میں ملازمت دلوادی۔ سا نجھ بھئے اور یپک براڈ کاسٹ کرتا تھا اور ملک کے
چراغ روشن ہو جاتے تھے !‘‘
’’تو وہ غریب بھی روز ہی جل بُھن جاتا رہا ہوگا؟‘‘
’’قطعی نہیں ! وہ ایک ریفر یجریٹر میں بیٹھ کر گا یا کرتا
تھا!‘‘
دونوں نے قہقہہ لگا یا۔ پھر نکہت بولی ۔’’آج کل کسی کو
دیپک اور کیوں نہیں آتے؟‘‘
’’بجلی کی بڑھتی ہوئی مقبو لیت کی بنا پر !‘‘ حمید ٹھنڈی
سانس لے کر بولا۔
’’تان سین زندہ ہوتا تو اسے کسی پاور ہاؤز میں قلی گیر ی
کرنی پڑتی ۔رہا ملہار کا قصہ تو وہ صرف مینڈکوں کو پسند آیا تھا۔ مینڈک ہی آج
بھی مہارگا تے ہیں اور جب گاتے ہیں تو پانی ضرور برستا ہے۔اس زمانے میں تان سین کو
محکمہ موسمیات میں ضرور نوکری مل جاتی!‘‘
’’آپ باتوں میں ٹالیں گے سنا ئیں گے نہیں !‘‘ سعیدہ نے کہا۔
’’آؤٹ ہاؤز میں آگ لگی ہوگی تو بڑا زور دار دھما کہ ہوا
ہو گا !‘‘ حمید بولا۔
’’پتہ نہیں!‘‘ سعیدہ دفعتہً مغموم ہو کر بولی۔’’ہم سور ہے
تھے!‘‘
نکہت بھی اُداس نظر آنےلگی۔
’’بڑا عبر تناک منظر ہوگا!‘‘
وہ دونوں خاموش رہیں پھر
نکہت یک بیک اٹھتی ہوئی بولی۔
’’ہم نے ابھی چائے نہیں پی!‘‘
اس کے اٹھتے ہی سعیدہ بھی کھڑی ہوگئی۔
’’ہائیں! تو کیا اب میں ان درختوں کو
سناؤں گا۔ بھائی دانش میرے بڑے قدرداں ہیں۔مگر افسوس کہ وہ موجود نہیں!‘‘
’’کک…کیا آپ انہیں جانتے
ہیں !‘‘ سعیدہ حمید کو گھور کر بولی۔
’’جاننے کی ایک ہی کہی …!ارے ہم دونوں
گہرے دوست ہیں !‘‘
’’تب تو آپ بھی انہیں کی طرح آوارہ
ہو ں گے !‘‘ نکہت ناک پر شکنیں ڈال کر بولی۔
’’آواہ !‘‘ حمید حیرت سے بولا۔
’’جی نہیں بہت شریف!‘‘ نکہت نے طنزاً کہا ۔’’اتنے شریف کہ ایک ماہ
سے گھر والوں کو ان کی شکل نہیں دکھا ئی دی!‘‘
’’حیرت ہے !‘‘ حمید نے کہا ۔’’میرا
خیال ہے کہ وی شہرہی میں ہیں …شاید چودہ پندرہ دن قتل ملا قات بھی ہوئی تھی !‘‘
’’شہرہی میں ہیں !‘‘ سعیدہ نے حیرت سے
کہا۔
’’میں پندرہ دن قتل کی بات کر رہا ہوں
!‘‘
’’وہ ایک ماہ سے گھر نہیں آئے !‘‘
نکہت بولی ۔’’سناہے اب شراب بھی پینے لگے
ہیں !‘‘
’’اب کیا …وہ پہلے بھی پیتے تھے !‘‘ حمید نےکہا۔
’’ہم لوگو ں کو نہیں معلوم تھا !‘‘
’’لیکن میں انہیں راہ راست پر لا سکتا
ہوں !‘‘ حمید نے کہا ۔
’’وہ کس طرح؟‘‘
’’آپ مجھے بتا یئے کہ وہ کہا ں مل
سکیں گے ۔ میں آج ہی انہیں پکڑلاؤں !‘‘
’’یہی معلوم ہوتا تو ڈیڈی ہی نہ پکڑلاتے !‘‘ نکہت بولی ۔’’ آپ تو
ان کے دوست ہی ہیں۔آپ سےکیا پردہ وہ بیس بائیس ہزار روپے کے مقروض ہو گئے
ہیں اور قرض بھی برے آدمیوں کا ہے ۔ آج
ہی شہر کا ایک مشہور بدمعاش صفدر تقا ضے کے لئے آیا تھا۔میرا خیال ہے کہ وہ قرض
خواہوں کی وجہ سے کہیں چھپ گئے ہیں !‘‘
’’اوہ !‘‘ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ
قرض دار بھی ہیں!‘‘حمید نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا یہ
دونوں لڑکیا ں جان بوجھ کر اُسے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔حمید سوچتا رہا
اور وہ دونوں چلی گئیں ۔
دھوپ عمارت کی دیوار وں پر چڑھنے لگی
تھی۔
حمید اٹھ کر آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا
عمارت کے داہنے بازوں کی طرف آیا ۔وہ یو نہی بغیر مقصدادھر نکل آیا تھا اور
بالکل دیوار کے نیچے چل رہا تھا ۔دفعتہً
کوئی چیز اس کے سر پر گری اور پھسلتی ہوئی نیچے چلی آئی ۔حمید اچھل کر پیچھے ہٹ
گیا۔ ایک سفید رنگ کی رسی دیوار کی جڑ میں جھول رہی تھیں ۔حمید کا سر بے ساختہ
اوپر کی طرف اٹھ گیا۔ رسی اوپری منزل کی ایک کھڑکی سے پھینکی گئی تھی۔کھڑکی میں
ایک چہرہ دکھائی دیا۔ وہ صوفیہ تھی جیسے ہی اس کی نظر حمید پر پڑی اس نے رسّی کو
اوپر کھینچ کر کھڑکی بند کر لی۔
حمید پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید صوفیہ
بھی اسے چھیڑرہی ہے لیکن پھر اسے اپنا خیال تبدیل کر دینا پڑا ۔کیونکہ اوپر سے
پھینکی گئی رسی حقیقتاً رسی نہیں تھی بلکہ نواڑ کو بٹ کر اسے رسی کی شکل دی گئی تھی اور پھر ایک دوسرے ہی خیال نے اس کے
ذہن میں سر اُٹھا را۔وہ تیزی سے چلتا ہوا عمارت کے سرے تک آیا اور پھر وہیں
سے مہندی کی باڑھ کی اوٹ پکڑ کر دوبارہ اسی کھڑکی کی طرف چلنے لگا۔ اس طرف
منہدی کی باڑھ شاید عرصہ سے بے مرمت پڑی ہوئی تھی اس لئے حمید کو دیکھ لئے جانے کا خاشہ نہیں تھا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد کھڑکی پھر کھلی۔ صوفیہ
نے آدھے دھڑ سے باہر لٹک کر چاروں طرف
دیکھا اورپھر اس نے رسی نیچے پھینک دی۔
پھر حمید نے جودیکھا وہ اس
کے لئے حیرت انگیز بھی تھا اور
حشت ناک بھی۔ کھڑکی زمین سے پچیس
یا تیس فیٹ بلند تھی لیکن صوفیہ
اس رسی کے سہارے درِدیوار سے دونوں
پیر لٹکائے اتنی بے خوفی سے نیچے اتر رہی تھی جیسے وہ اس کے لئے محض معمولی تفریح
ہو۔اُسے زمین تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
حمید نے ایک بار پھر کھڑکی کی بلند ی کا جائزہ لیا اور سنا
ٹے میں آگیا ۔صوفیہ نے اپنے سینڈل پتلون کی جیب میں ٹھونس رکھے تھے ۔ اس نے انہیں
جلدی سے پیروں میں ڈالا اور قریب قریب دوڑتی ہوتی گیراج کی طرف چلی گئی ۔ حمید چپ چاپ منہدی کی باڑھ کی اوٹ سے نکلا
۔ چند لمحے کھڑا کچھ سوچتا رہا پھر وہ بھی گیراج ہی کی طرف چلنے لگا۔
صوفیہ گیراج سے سرخ رنگ کی ٹوسیٹر نکال چکی تھی ۔ وہ اسے
کافی تیز رفتاری سے چلاتی ہوئی پھاٹک سے گزر گئی ۔
فریدی کی کیڈی دو پہر سے اب تک پورچ ہی میں کھڑی رہی تھی۔
حمید کو اس تک پہنچنے کے لئے کافی تیز دوڑ پڑا۔ اتفاق سے وہاں اور کوئی موجود نہیں
تھا اور نہ وہ اس کی اس حرکت کو پاگل پن پر محمول کرتا ۔
سڑک پر آ کر اس نے
چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن سرخ رنگ کی ٹوسیٹر کا نشان نہ ملا ۔ جس رفتار سے صوفیہ
اسے باہر لائی تھی اگر وہی رفتار سڑک پر بھی برقرار رکھی ہو گی تب بھی وہ نہ جانے
کہاں پہنچی ہوگی ۔
حمید نے گیئر بدلے اور کیڈی فراٹے بھرنے لگی ۔ دھند کا
چھلنے لگا تھالیکن ابھی اتنی روشنی باقی تھی کہ وہ سرخ رنگ کی ٹوسیٹر کو دور ہی سے دیکھ سکتا تھا۔ وہ
برابر رفتار تیز کرتا رہا۔
آخر شہر پہنچتے
پہنچتے اس نے سرخ رنگ کی ٹوسیٹر کو جاہی لیا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔
ایک جگہ صوفیہ کی
گاڑی رک گئی ۔ حمید نے صوفیہ کو اتر کر ملبوسات کی ایک بڑی دکان میں گھستے دیکھا۔ وہ اپنی کیڈی کو بیک کر کے ایک گلی میں
لایا اور انجن بند کر کے اس نے اسے وہیں چھوڑ دیا۔
ٹوسیٹر اب بھی وہیں
کھڑی تھی جہاں چھوڑی گئی تھی ۔ حمید سڑک کے دوسرے کنارے سے ملبوسات کی دکان کی نگرانی
کرتا رہا۔ شاید میں منٹ بعد صوفیہ بر آمد ہوئی اور حمید کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ
گئیں۔ اس کے جسم پر اب قمیض اور پتلون کے بجائے ایک نہایت نفیس قسم کی ساڑی تھی
اور اس نے اپنی داہنی بغل میں ایک چھوٹا
سا بنڈل دبارکھا تھا۔ وہ دکان سے نکل کرفٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ حمید کافی فاصلے سے
اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ کچھ دور چل کر صوفیہ پھر ایک دکان میں گھس گئی جہاں چمڑے
کا سامان فروخت ہوتا تھا۔ حمید کو بھی رک جانا پڑا لیکن اس بار بھی وہ دکان کے
اندر نہیں گیا۔
صوفیہ
تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں چمڑے کا ایک سوٹ کیس لٹکائے ہوئے باہر نکلی ۔ لیکن یہ بات
اتنی حیرت انگیز نہیں تھی جتنی کہ اس کی دوسری حرکت ہو سکتی تھی ۔ اس نے ایک گزرتی
ہوئی ٹیکسی کو روکنے کا اشارہ کیا۔
پھر حمید نے بڑی تیزی
سے سڑک پار کی اور اس گلی میں پہنچا جہاں اس نے کیڈی کھڑی کی تھی ۔ دوسرے لمحےکیڈی
بھی سڑک پر تھی۔
حمید سوچ رہا تھا کہ آخر اس نے اپنی کار کی موجودگی میں ٹیکسی
کیوں کی ؟ …کیا وہ سچ مچ فرار
ہورہی ہے۔ آخر کیوں ؟ کیا اس کا بھی اس کیس سے تعلق ہے۔ کوئی ایسا تعلق جس کی بنا
پر اُسے فرار ہونا پڑے۔ پھر اس کے خیالات کی رو فرار کے طریقے کی طرف بہک گئی ۔
آخر اس طرح فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک پچیس فیٹ بلند کھڑکی سے بٹی ہوئی نواڑ
کے ذریعہ چوروں کی طرح اترنا …اور پھر گیراج میں داخل ہو کر علی الا علاج کا ر نکالنا جیسے اس کے بعد اسے دیکھ
لئے جانے کی پروا نہیں تھی …او ر اب وہ اس کار کو بھی سڑک کے کنارے اس طرح چھوڑ کر فرار ہو رہی تھی جیسے
وہ کار
چوری کی رہی ہو۔
تھی
جیسے وہ کار چوری کی رہی ہو۔
صوفیہ کی ٹیکسی شیبان
کی کمپاؤ نڈ میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ متوسط درجے کا ایک اقامتی ہوٹل تھا ۔ پورچ میں کھڑے ہوئے ایک
پورٹر نے صوفیہ کا سوٹ کیس اٹھایا اور اندر جانے کے لئے اس کی رہنمائی کرنے لگا۔
حمید نے بھی
کمپاؤنڈ ی میں کیڈی روک دی تھی۔ لیکن اندری بیٹھا اسے پورٹر کے ساتھ جاتے دیکھتا
رہا۔
یقیناً وہ یہاں قیام ہی کرنے کے لئے آئی تھی۔
کچھ دیر بعد حمید ہوٹل کے منیجر کے کمرے میں تھا۔ اس نے اپنا
ملاقاتی کارڈ نکال کر مینجر کے سامنے رکھ دیا۔
’’ اوہ ! فرمائیے !‘‘ منیجر کچھ مضطرب سا نظر آنے لگا۔
’’تھوڑی سی تکلیف دوں گا!‘‘ حمید بولا ۔’’ پرسوں سے کل تک
کے قیام کرنے والوں کے دستخط دیکھنا چاہتاہو ں!‘‘
’’کوئی خاص بات !‘‘
’’ جی ہاں ! ہمیں ایک مشتبہ آدمی کی تلاش ہے جو شہر کے کسی ہوٹل میں
مقیم ہے!‘‘
منیجر نے رجسٹر اس کی طرف بڑھا دیا۔ رجسڑ کھلا
ہوا تھا۔ شاید وہ صوفیہ کے دستخط کرنے کے بعد سے اب تک بند نہیں کیا گیا تھا۔ حمید
کی نظر سب سے پہلے آج کے آخری نام پر پڑی جو صوفیہ کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو
سکتا تھا کیونکہ اس کے بعد سے اب تک اور کوئی قیام کرنے والا آیا ہی نہیں تھا۔
صوفیہ نے اپنا نام مسز آشاور ما لکھا تھا اور
دستخط بھی اس نام کے کئے تھے ۔ حمید نے جلدی سے وہ صفحہ الٹ کر دو دن قبل کی آمد و
رفت کا صفحہ کھولا۔ اس کا مقصد تو حل ہو ہی چکا تھا اب اُسے صرف مینجر کو دکھانے
کے لئے پچھلے ناموں پر نظر ڈالنی پڑی تھی۔
’’
شکریہ !‘‘ حمید نے تھوڑی دیر بعد رجسٹر بند کرتے ہوئے کہا۔
’’
کیا مل گیا !‘‘ منیجر نے پوچھا۔
’’نہیں
! یہاں نہیں ہے!‘‘
پھر منیجر کے چہرے سے فکر کے بادل چھٹ گئے اور
اس نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اسے رخصت کیا۔
حمید نے باہر آ کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ کا رخ
کیا۔ اسے توقع تھی کہ فریدی سر مخدوم کی کوٹھی ہی میں ہوگا کیونکہ کیڈی لے کر تو
وہ چلا آیا تھا اور اس طرف ٹیکسیاں بھی شاذ و نادر ہی جاتی تھیں ۔ اس نے نمبر ڈائل
کئے … کسی نے دوسری طرف سے کال ریسیو کی۔ اس نے فریدی
کا نام لیا پھر اسے کچھ دیر تک انتظار کرنا پڑا۔
’’ہیلو! کون ہے؟
‘‘دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’میں
حمید بول رہا ہوں لیکن میں فر یدی صاحب سے گفتگو کر نا چاہتا ہوں !‘‘
’’اوہ
معاف کیجئے گا!‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔’’ نوکر کو غلط فہمی ہو ئی تھی …ٹھہریئے !‘‘
حمید کے ہو نٹو ں پر شرارت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ اگر وہ جلدی میں ہوتا اور اس
نے آواز کے فرق کونہ محسوس کیا ہوتا تو
اس کی گفتگو فر یدی کے بجائے کسی اور نے سنی
ہوتی۔
جلدہی
اُسے دوسری طرف سے فریدی کی آواز سنائی دی۔
’’کہاں
ہو تم ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’پبک
ٹیلی فون بوتھ نمبر ستا ئیں میں ۔آپ کے
لئے ایک دلچسپ اطلاع ہے!‘‘
’’میں
فون پر کوئی اطلاع سننا پسند نہیں کروں گا …سمجھے …تم کب واپس آؤ گے!‘‘
’’خیر
نہ سنئے !‘‘ حمید نے کہا ۔’’ لیکن میں اپنے
محکمے کے کسی آدمی سے کوئی مدد لے سکتا ہوں یا نہیں!‘‘
’’کیا
موجود ہ معا ملات کے متعلق!‘‘
’’جی
ہاں…!‘‘
’’کس
سلسلے میں !‘‘
’’محض
نگرانی کے لئے!‘‘
’’اجازت
ہے ۔جلدواپس آنے کی کوشش کرنا!‘‘
دوسری
طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد حمید نے بھی ریسیو رہک سے لگا دیا لیکن وہ بوتھ سے باہر نہیں نکلا۔ وہ چند لمحے
کچھ سوچتا رہا پھر اس نے دوبارہ کسی کے نمبر ڈائل کئے اور اب وہ شاید اپنے محکمے
کے کسی آدمی سے گفتگو کر رہا تھا ۔اس نے اُسے شیبان ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ایک عورت
مسنر آشاور ما کی نگرا نی کرنے کو کہا تھا۔
بوتھ
سے نکل کر وہ کیڈی میں آبیٹھا۔اب وہ صوفیہ کی طرف سے مطمئن ہو چکا تھا۔ اس کی
واپسی بڑی پُر سکون تھی اور وہ راستے میں سوچ
رہا تھا کہ آخر فریدی نے فون پر گفتگو کیوں نہیں کی۔اچانک اُسے یاد آیا
کہ سر مخدوم کی کوٹھی میں دو فون تھے۔ ایک
سر مخدوم کے آفس میں تھا اور دوسرا
لائبریری میں ۔ان میں سے کسی ایک پر دونوں کی گفتگو صاف سنی جا سکتی تھی۔ ہو سکتا
ہے فریدی نے اسی خیال کے تحت فون پر بات
کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔
کو
ٹھی میں فر یدی اس کا منتظر تھا۔ حمید نے
جاتے ہی اپنا کا ر نامہ شروع کر دیا ۔ فریدی اتنی لا پر وائی سے سن رہا تھا جیسے
حمید یو نہی تضیع اوقات کر تا رہا ہو۔
گفتگو کے اختتام پر اس نے مسکرا کر کہا
۔’’ میں سمجھا تھا شاید تم نے اس سے کوئی
کام کی بات معلوم کی ہے !‘‘
’’کیا یہ واقعہ ہی بجائے خود ایک کام کی بات نہیں !‘‘ حمید
نے جھلا کر کہا۔
’’خد ا جانے !‘‘ فریدی نے لاپر وائی سے اپنے شانوں کو جنبش
دی۔ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا ۔’’ یہاں اس
سلسلے میں کافی شور وغل ہو چکا ہے ۔ ناصر اس لڑکی کی حرکت پر بُری طرح
چراغ پا ہو ر ہا تھا ۔کہہ رہا تھا کہ وہ
آئے دن اسی طرح کی حرکتیں کیا کرتی ہے !‘‘
’’تو پھر شاید اس کا بھی دماغ خراب ہے ! ‘‘حمید نے کہا۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ارے اس نے اپنی گاڑی سڑک کے کنارے چھوڑ دی ہے۔ شاید اُسے اب ٹریفک
پولیس کے کسی آدمی نے کوتوالی بھی پہنچا دیا ہو لیکن کیا ہم اسے بھی پاگل پن سمجھیں گے کہ وہ شیبان ہوٹل میں مسنر آشنا ورما کے نام
سے مقیم ہے۔ آخر کیوں ؟‘‘
فریدی کچھ نہ بولا ۔ حمید تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر اس نے
کہا ۔
’’بعض لوگ خود نمائی کے لئے اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ دوسروں کو
حیرت میں ڈالنے کے لئے ۔ اگر صوفیہ کا بھی یہی مقصد ہوتا تو پہلی بار مجھے دیکھ کر
کھڑ کی کیوں بند کر لیتی۔ پھر جب اس نے اطمینان کر لیا کہ میں جاچکا ہوں تو وہ
چوروں کی طرح نیچے اتری …کیوں ؟ کیا جواب ہے آپ کے پاس !‘‘
’’ جواب !‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہو امسکر ایا۔ چند لمحے خاموش
رہا پھر بولا ۔ ’’ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کمرہ با ہر سے مقفل تھا!‘‘
’’کون سا کمر ہ؟‘‘
’’وہی جس کی کھڑکی سے وہ
زمین تک پہنچی تھی !‘‘
’’ آپ کو کیسے علم ہوا؟‘‘
’’ جب وہ لوگ کھڑکی کے نیچے کھڑے شور کر رہے تھے ۔ میں اوپری
منزل پر چلا گیا۔ ناصر کو چاہئے تھا کہ غل مچانے سے پہلے کمرے کا تالا کھول لیتا !‘‘
’’ تو کیا اس نے اُسے قید کر رکھا تھا ؟‘‘
’’اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے !‘‘ فریدی سگار کیس سے سگار
نکالتا ہوا بولا ۔
’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ صوفیہ کوئی اہم بات جانتی ہے !‘‘
’’ہو سکتا ہے!‘‘
’’آخر آپ خلاف معمول اتنے غیر یقینی انداز میں کیوں گفتگو کر رہے
ہیں !‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا۔
’’ بہتیرے معاملات خود میرے ذہن میں ابھی تک صاف نہیں ہیں… اور پھر میں غیب
داں تو ہوں نہیں کہ پیشین گوئیاں شروع کردوں !‘‘
’’کون سے معاملات آپ کے ذہن میں صاف نہیں !‘‘
’’ جتنے بھی ہیں !‘‘
’’شاید پہلی بار آپ کی زبان سے اس قسم کی گفتگوسن رہا ہوں !‘‘
’’کیا پہلے بھی کبھی اس قسم کے کیس سے سابقہ پڑا تھا! ‘‘ فریدی نے
اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
حمید پائپ میں تمبا کو بھرنے لگا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
اچانک اس نے کہا۔
’’رات والے آدمی کے لئے آپ نے کیا کیا!‘‘
’’ وہی تو مجھے الجھن میں ڈالے ہوئے ہے!‘‘
’’الجھن میں کیوں ؟‘‘
’’شاید اس وقت تمہارا ذہن سوچنے کے لئے موزوں نہیں ہے !‘‘ فریدی نے
تلخ لہجے میں کہا۔
’’ وہ کبھی نہیں ہوتا ۔ علاوہ اُن مواقع کے جب معدہ ٹھیک نہ
ہو!‘‘
’’تم اس لڑکی سے ملے کیوں نہیں ؟‘‘ فریدی نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔
’’میں فون پر آپ سے اسی کے متعلق پوچھنا چاہتا تھا !‘‘
’’کب تک انگلی پکڑ کر چلتے رہو گے؟‘‘
’’جب تک جوان نہ ہو جاؤں ! ‘‘حمید جھلّا کر بولا۔
’’ جس دن میرا ہاتھ اٹھ گیا جو ان بھی ہو جاؤ گے!‘‘
’’اور یہ شعر پڑھتا ہوا جوان ہوں گا !‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا۔
انگڑائی لینے پائے نہ تھے وہ اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
’’مت بکواس کرو!‘‘ فریدی دانت پیس کر اُسے مُکّا دکھاتا ہوا بولا ۔
حمید پائپ کو دانتوں میں دبا کر جیب میں دیا سلائی ٹٹولنے
لگا۔
’’تم ابھی جاؤ!‘‘ فریدی نے کہا۔
’’صوفیہ سے معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ اُسے کس نے اور کیوں قید کیا
تھا؟“
’’لیکن واپسی کا ذمہ دار میں نہ ہوں گا !‘‘
’’ کیا مطلب...!‘‘
’’معاف کیجئے گا میں بار برداری کا خچر نہیں ہوں !‘‘
’’پھر کیا ہو؟‘‘
’’بار برداری کا خچر !‘‘ حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
’’چلو وقت ضائع نہ کرو!“
’’لیکن میں اس وقت واپس نہ آسکوں گا !‘‘
’’ضروری نہیں! تم صبح آسکتے ہو !‘‘ فریدی نے کہا ۔ ’’ میں دراصل فی
الحال یہاں سے ہٹنا نہیں چا ہتاورنہ خود ہی
دیکھتا !‘‘
’’اس کے بعد مجھے کیا کرنا ہو گا ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’ لڑکی کی نگرانی اور حفاظت کے لئے کسی کو مقرر کر کے گھر
چلے جانا ! ‘‘
’’ آپ کو اطلاع کس طرح دی جائے ؟‘‘
’’واپسی پر ... اس کی جلدی نہیں ۔ فون پر کسی قسم کی گفتگو نہیں
کرنا چاہتا۔ یہاں دوسیٹ ہیں۔ ایک پردو سرے کی گفتگو بہ آسانی سنی جاسکتی ہے ! ‘‘
’’ میرا خیال ہے کسی نے اس کی کوشش کی تھی !‘‘ حمید بولا ۔
’’ میں آپ کی آواز فون پر بھی پہچان سکتا ہوں ۔ ورنہ پوری
رپورٹ کسی اور تک پہنچ چکی ہوتی! “
’’ آواز کس کی تھی؟‘‘
’’انداز نہیں لگا سکا !‘‘
تھوڑی دیر بعد حمید واپسی کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے کیڈی
نکالی اور شہر کے راستے پر ہولیا۔ مطلع غبار آلود ہونے کی وجہ سے تاریکی گہری ہوگئی
تھی۔
حمید آئندہ کے لئے
پروگرام سوچ رہا تھا۔ صوفیہ ایڈونچر کی شائق تھی اس لئے اس کے ساتھ بہترین وقت گزر
سکتا تھا۔
دفعتًہ اس نے محسوس کیا کہ ایک کار کافی فاصلے سے اس کا
تعاقب کر رہی ہے۔ تعاقب کا خیال اس وقت اور زیادہ پختہ ہو گیا جب حمید نے بھی کیڈی
کی رفتار کم کر دی اور اس کے باوجود دونوں کا روں کے فاصلے میں کوئی فرق نہ آیا۔
دوسری طرف بھی شاید فتار کم کر دی گئی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد بھی حمید کا
تعاقب جاری رہا۔
اور پھر حمید نے
ہوٹل شیبان کے بجائے کیڈی کا رُخ فریدی کی کوٹھی کی طرف کر دیا۔
7
صوفیہ
ہوٹل شیبان کے ایک کمرے میں آرام کرسی پر پڑی کوئی کتاب دیکھ رہی تھی ۔ دفعہ کسی
نے باہر سے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ صوفیہ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور
دستک دینے والے کو ہوٹل کا کوئی ملازم سمجھ کر بولی ’’ آجاؤ۔‘‘
ہینڈل گھوما اور
دروازہ کھل گیا۔ لیکن دستک دینے والا اندر آنے کے بجائے دروازے ہی پر کھڑا رہا۔
صوفیہ نے آرام کرسی کے ہتھے پر جھک کر دروازے کی طرف جھانگا اور پھر بوکھلا کر کھڑی
ہوگئی ۔ آنے والا نہ تو ہوٹل کا کوئی ویٹرمعلوم ہوتا تھا اور نہ اس کا شناسا۔ ہوٹل
کا ویٹر یوں نہیں ہو سکتا تھا کہ اس نے ایک نہایت نفیس قسم کا سوٹ پہن رکھا تھا
اور شنا سا اس لئے نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک کافی معمر آدمی تھا اور اس کے چہرے
پر جی ۔ بی ۔ ایس ٹائپ کی سفیدداڑھی تھی۔
’’ایک مسز آشا ور ما میری شناسا تھیں ! ‘‘ بوڑھا آدمی بڑبڑایا۔ میں
سمجھا تھا شاید وہ رہی ہوں !‘‘
’’ شاید میں بھی آپ کو نہیں جانتی ! ‘‘ صوفیہ نے کہا۔
’’قطعی ! ‘‘ بوڑھے نے ہلکا سا قہقہ لگایا پھر سر ہلا کر بولا ۔ ’’
لیکن میری موجودگی آپ کے لئے تکلیف دہ نہیں ہو سکتی۔ اگر اجازت ہو تو میں دو منٹ بیٹھ
کر دَم لے لوں ۔ مجھے جیسے لوگوں کے لئے تیسری منزل پر پہنچنا آسان کام نہیں!‘‘
’’اوہو!‘‘ صوفیہ جلدی سے بولی اور بڑے تکلف سے آرام کرسی کے سرے پر ٹک گئی۔ بوڑھا بیٹھ کر
تھوڑی دیر ہنپتا رہا پھر صوفیہ کی طرف دیکھ کر مسکرا یا۔
’’اگر آپ میری شناسا ہو تیں تو میری تھکن کے باوجود مجھے پریشان کر
ڈالتیں !‘‘
’’ا وہ…!‘‘ صوفیہ بھی جواباً مسکرائی پھر سنبھل جل
کر بولی ۔ ’’ میں نہیں سمجھی کیا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’میں پامسٹ ہوں ! ‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’ لیکن مجھے پامسٹری سے کوئی دلچسپی نہیں !‘‘ صوفیہ نے
ہلکے سے قہقہے کے ساتھ کہا۔ وہ سوچنے لگی تو یہ حضرت اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے اس طرح تعارف حاصل کرتے ہیں ۔
اس نے اکثر سنا تھا کہ شہر کے بعض ہوٹلوں میں اس قسم کے لوگ قیام کرنے والوں کو
مستقبل کے حالات بتانے کے بہانے ٹھگ لیا کرتے ہیں۔
’’راجہ صاحب چند نگر کا بھی یہی خیال تھا!‘‘ بوڑھے نے سنجیدگی
سے سر ہلا کر کہا۔’’ لیکن پھر نہیں مانناہی پڑا کہ بہت دلچسپ قصہ ہے... یہ تو آپ جانتی ہی ہوں گی کہ راجہ صاحب ریس کے بڑے شوقین ہیں اور
ان کے کئی گھوڑے ریس میں حصہ لیتے ہیں۔ ان میں میچ لیس بڑا مشہور تھا ۔ پچھلے دنوں میں نے انہیں
بتایا کہ اگلی ریس میں میچ لیس کو گولی مار دی جائے گی ۔ انہوں نے میرا مضحکہ اُڑا
دیا۔ میں خاموش رہا لیکن کیا ہوا …میچ لیس دوڑا… سو فیصد ی توقع تھی کہ اول آئے گا اور وہ تھا بھی سب سے
آگے لیکن اچانک ٹھوکر کھائی اور جا کی سمیت منہ کے بل زمین پر رہا۔ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ظاہر ہے اس کے بعد اسے گولی
ماردی گئی ۔ اگر راجہ صاحب میرے کہنے پر عمل کرتے اور اسے اس دن ریس میں شامل نہ
کرتے تو میچ لیس محفوظ ہوتا ...!‘‘
’’ لیکن میرے پاس کوئی گھوڑا نہیں!‘‘ صوفیہ ہنس پڑی۔
’’لڑکی تم اس طرح میرا مضحکہ نہیں اڑ سکتیں ! ‘‘ بوڑھا بگڑ گیا ۔ ’’
میں اپنے وقت کی عظیم ترین ہستی ہوں۔ میں تمہاری پیشانی پر یہ بادیوں کے سائے دیکھ رہا
ہوں ۔ کیا آج تم ایک مصیبت میں نہیں پھنسی تھیں۔ کیا اپنی جان پر کھیل
کر تم اس سے نہیں نکلیں !‘‘
صوفیہ چونک کر بوڑھے کو گھورنے لگی ۔
’’ اچھا اب میں چلا!‘‘ بوڑھا اُٹھتا ہوا بولا۔
’’ٹھہر یئے !‘‘ صوفیہ نے کہا ۔’’تشریف رکھئے!‘‘
’’بوڑھا بیٹھ گیا۔
’’لیکن !‘‘ صوفیہ
بولی ۔’’ آپ نے جو کچھ کہا ہے اس کا پا مسٹری سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ۔ پا مسٹری تو ہا تھ کی لکیروں
پر منحصر ہے!‘‘
’’میں صرف پامسٹ ہی نہیں ہوں !‘‘ بوڑھے نے فخریہ انداز میں
گردن اونچی کر کے کہا۔ ’’مجھ میں روحانی
قو تیں بھی ہیں ۔ میں ایک بے سہا را لڑکی
کو مصائب میں گھر ا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ ایک لڑکی جو صرف مس ہے ۔ مسنر کسی طرح
نہیں ہو سکتی !‘‘
’’آپ بہت کچھ جانتے ہیں !‘‘ صوفیہ نے پرسکون انداز میں کہا۔
’’لوگ مجھے شاہ بلوط کہتے ہیں ! ‘‘ بوڑھے نے فخریہ کہا ۔
’’ شاہ بلوط !‘‘ صوفیہ ہنسنے لگی ۔’’ یہ تو ایک درخت کا نام
ہے !‘‘
’’اونچا اور تناور درخت !‘‘ بوڑھے نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میرے خیال سے اب آپ کی سانس درست ہوگئی ہوگی صوفیہ سرد
لہجے میں بولی۔
’’آں ۔ ہاں ! ‘‘ بوڑھا ہچکچا کر بولا ۔’’ کیا آپ اپنے
مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتیں!‘‘
’’ مجھے افسوس ہے مستقبل سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ویسے
آپ کی فیس کیا ہے؟‘‘
’’فیس !‘‘بوڑھا مسکرا کر بولا۔ ’’ کچھ بھی نہیں… فیس میں اس وقت
لیتا ہوں جب کوئی خود سے خواہش کرتا ہے اور جن کے ہاتھ میں اپنی مرضی سے دیکھتا
ہوں ان سے کوئی فیس نہیں لیتا !‘‘
’’تو آپ یونہی تفریحاً ہاتھ دیکھا کرتے ہیں!‘‘
’’ محض تجربات میں اضافہ کرنے کے لئے !‘‘
صوفیہ نے تمسخر آمیز انداز میں مسکرا کر اپنی ہتھیلی اس کے سامنے کر دی ۔
’’ہاتھ تو بڑا اچھا ہے!‘‘بوڑھے نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے
ہوئے کہا۔ ’’ اچھا میں ماضی سے شروع کرتا ہوں ، تمہارے والدین بچپن ہی میں انتقال
کر گئے تھے کیوں ؟‘‘
’’ٹھیک ہے..!‘‘ صوفیہ سر ہلا کر بولی۔
’’ لیکن پھر بھی تم نے اپنے دن اچھے گزارے۔ اب حال کی طرف
آتا ہوں۔ تم آج کل کئی قسم کی الجھنوں کا شکار ہو۔ تمہارے دل پر کسی بات کا بوجھ
ہے۔ تم اُسے کہہ ڈالنا چاہتی ہو لیکن کوئی ایسا ہمدرد نہیں ملتا… کیوں ؟‘‘
’’ ٹھیک ہے ! میں ایک بات اُگل دینے کے لئے بری طرح بے تاب
ہوں لیکن کس سے کہوں ؟ ‘‘
’’ مجھ سے کہو… ممکن ہے میں تمہاری مدد کر سکوں ! ‘‘ بوڑھے
نے کہا۔
’’ کہہ دوں ! ‘‘ صوفیہ بولی۔
’’ کہہ دو!‘‘
’’تم مجھے اسٹیج کے مسخرے
معلوم ہوتے ہو… کیوں ؟‘‘ صوفیہ نے بوڑھے کے لہجے کی نقل اتاری۔
’’تم فی الحال ایک
بہت بڑی مصیبت میں پڑگئے ہو اور ایک لڑکی تمہاری داڑھی نو چنے کے امکانات پر غور
کر رہی ہے۔ لیکن تم برا نہیں مانو گے۔ یہی
تمہار ا مستقبل ہے!‘‘
پھر صوفیہ نے جھپٹ کر بوڑھے کی داڑھی پکڑ لی جو روئی کے
گالے کی طرح اکھٹرتی چلی آئی۔
بوڑھا اچھل کر کھڑا
ہو گیا۔ لیکن اس کا گریبان صوفیہ کی گرفت میں آچکا تھا۔ صوفیہ نے اُسے آرام کرسی میں
دھکیل دیا۔
’’ تم لوگ مجھے کہیں
بھی چین نہیں لینے دو گے ! ‘‘ صوفیہ ہانپتی ہوئی بولی پھر ہنسنے لگی۔
حمید نے بچے کھچے
بال بھی اپنے گالوں سے نوچ لئے اور شریر نظروں سے صوفیہ کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ تمہاری ہی وجہ
سے وہاں سے بھاگی ہوں !‘‘ صوفیہ نے کہا۔
’’ اب زیادہ اُڑنے کی کوشش نہ کرو ۔ بہت زیادہ چالاک نہیں
ہو!‘‘حمید مسکرا کر بولا ۔
’’ کیا مطلب !‘‘
’’مطلب صاف ہے۔ تم نے پلنگ کی نواڑ کھولی اسے رسی کی طرح بٹ کر
کھڑکی سے نیچے اتریں۔ آخر اس کی کیا ضرورت تھی ۔ دروازے سے نہیں فرار ہو سکتی تھیں
اور پھر تم ہماری وجہ سے بھاگی کیوں .. .کیا آؤٹ ہاؤز میں تم
نے ہی آگ لگائی تھی !‘‘
صوفیہ کے چہرے پر زردی چھا گئی اس نے جلدی سے کہا۔ ’’ ہر گز
نہیں ! یہ تو میں نے تم لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے کیا تھا تا کہ تم لوگ کچھ دیر
بھاگ دوڑ کرو۔ میں نے تمہیں کھڑکی کے نیچے دیکھ کر ہی یہ حرکت کی تھی ۔ میں یہ بھی جانتی تھی کہ تم میرا تعاقب کر رہے ہو ۔ کہی
کیسی رہی ! ‘‘
صوفیہ بے تحاشہ بنے لگی… لیکن حمید یک بیک
سنجیدہ ہو گیا ۔
اس نے کہا ۔ ’’ ناصر صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ تمہارا
ایڈونچر تھا !‘‘
’’ گھر والے مجھے بچپن ہی سے جانتے ہیں!“
’’میں بھی تم سے اچھی طرح واقف ہوں ! ‘‘حمید بولا ۔ ’’ تم ان لوگوں
میں سے ہو جو اپنے دشمنوں کو بھی کسی قسم کا
نقصان نہیں پہنچانا چاہتے !‘‘
’’میں نہیں سمجھی !‘‘
’’اچھی طرح سمجھتی ہو!‘‘حمید
سر ہلا کر بولا ۔’’ کیا اُن لوگوں نے تمہیں کمرے میں قید نہیں کر دیا تھا!‘‘
ایک بار پھر صوفیہ
کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اس نے کچھ کہنا چاہا پھر کسی سے ہونٹ بھینچ لئے۔
’’وہ لوگ نہیں چاہتے کہ تم ہم سے ملو!‘‘ حمید کہتا رہا۔’’ بات حقیقتاً
یہ ہے کہ تم دانش سے متعلق کوئی اہم بات جا نتی ہو !‘‘
’’میرے خدا!‘‘ صوفیہ کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں ۔
’’ ہم دانش کے متعلق بہت سی معلومات فراہم کر چکے ہیں اور ان کی روشنی میں
ہم یہ سمجھنے پرمجبور ہیں کہ یہ فعل دانش کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا !‘‘
’’کیوں …نہیں یہ غلط ہے!‘‘ صوفیہ نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’بالکل درست ہے !‘‘ حمید بولا ۔’’ دانش پچیس تیس ہزار کا قرض دار تھا اور ظاہر ہے کہ اتنی رقم نہ
دانش کے بس کا روگ تھی اور نہ ناصر کے۔ البتہ سر مخدوم کی موت ناصر کو دولت مند
بنا سکتی تھی … پھر ناصر سے یہ کیسے ہوتا کہ دانش کو قرض
خواہوں میں گھرا ہوا دیکھتا !‘‘
صوفیہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر تھوک نگل گئی ۔
’’ہو سکتا ہے کہ تم دانش کی موجودہ قیام گاہ سے واقف ہو!‘‘
’’نہیں ! خدا کی قسم میں نہیں جانتی !‘‘
’’پھر انہوں نے تمہیں کیوں قید کر دیا تھا؟‘‘
صوفیہ کچھ نہ بولی۔ وہ فرش کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’تم سر مخدوم کے قاتل کو بچانے کی کوشش کر رہی ہو!‘‘ حمید نے کہا۔
’’ نہیں یہ غلط ہے ! ‘‘ صوفیہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
’’دانش بھی میرا چچازاد بھائی ہے اور ناصر چچاہیں۔ ان سے بھی وہی
رشتہ ہے جو سر مخدوم سے تھا !‘‘
’’تو تم قانون کی مدد نہیں کرو گی !‘‘
’’مم... میں !‘‘
’’سر مخدوم تمہارے محسن تھے !‘‘
’’تم کیا پوچھنا چاہتے ہو!‘‘
’’یہی کہ انہوں نے تمہیں قید کیوں کر دیا تھا؟“
’’میں نے دانش بھائی کو کمپاؤنڈ میں دیکھا تھا اسی رات کو جب آگ لگی
تھی !‘‘
’’ کیا وقت رہا ہوگا ؟‘‘
’’ شاید ایک بجا تھا!‘‘
’’تم اس وقت کمپاؤنڈ میں کیا کر رہی تھیں ؟‘‘
’’میں کمپاؤنڈ میں نہیں تھی۔ میری خواب گاہ اوپری منزل پر ہے اور
اس کی ایک کھڑ کی کمپاؤنڈ کی طرف ہے۔
مجھے
نیند نہیں آئی تھی۔ میں کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ کمپاؤنڈ میں اندھیرا تھا لیکن تاروں
کی چھاؤں میں مجھے ایک دھندلا سا انسانی سایہ دکھائی دیا۔ میں نے ٹارچ اٹھائی اس کی روشنی میں مجھے دانش بھائی دکھائی
دیتے جو آؤٹ ہا ؤز کی طرف جارہے تھے !‘‘
’’ آگ جب لگی تم جاگ رہی تھیں !‘‘
’’نہیں سو چکی تھی !‘‘
’’آگ لگنے پر آنکھ
کھل گئی ہو گی !‘‘
’’سب ہی جاگ پڑے
تھے !‘‘
’’ تو تمہا را خیال
دانش کی طرف گیا ہو گا ۔ قدرتی بات ہے !‘‘
’’ نہیں میں ایسا سوچ
بھی نہیں سکتی تھی!‘‘
’’پھر گھر والوں کو کیسے
معلوم ہوا کہ تم نے دانش کو
کمپاؤنڈ میں دیکھا تھا !‘‘
’’یہ بات دوسرے دن سب سے پہلے دربان نے بتائی تھی جس پر
ناصر چچا بگڑ گئے تھے۔ کہنے لگے کہ دربان نے خواب دیکھا ہوگا پھر جب میں نے بھی انہیں رات
کا واقعہ بتایا تو خاموش ہو گئے ۔ آخر انہوں نے دربان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ
وہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرے گا پھر انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اس بیان پر پولیس
خواہ مخوا ہ شبہ کرے گی اور سارا خاندان مصیبت میں پھنس جائے گا ! ‘‘
’’ تم نے پوچھا نہیں کہ ایسا کس بنا پر ہو سکتا ہے؟‘‘
’’وجہ میں خود ہی جانتی تھی ۔ دانش بھائی شرابی اور جواری ہیں وہ
کئی بار چچا جان مرحوم سے اس بنا پرلڑچکے تھے کہ وہ ان کا قرض کیوں نہیں ادا کر دیتے
اور اس کی عدم موجودگی میں کئی بار ہمارے سامنے وہ یہ بات کہ چکے تھےکہ وہ چچاجان
کو مار ڈالیں گے …لیکن ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ نشے میں ہوتے تھے۔ ناصر چچا
کا خیال ہے کہ ممکن ہے دانش بھائی نے یہی
جملہ باہر اپنے دوستوں میں بھی دہرا دیا ہو۔ اگر پولیس کو ذرا شبہ بھی ہو گیا تو
پھر دانش بھائی پھنس جائیں گے!‘‘
’’اچھا تو پھر وہ اس طرح غائب کیوں ہو گیا ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں ! ‘‘ صوفیہ بولی ۔’’ یہی تو میں سوچتی ہوں ۔ وہ
اکثر گھر سے کئی کئی دنوں کے لئے غائب ہو جاتے ہیں لیکن وہ آج کل جہاں بھی ہوں گے انہیں اس حادثے
کے متعلق ضرور معلوم ہوا ہوگا۔ کئی دن تک اخبارات میں اس کے متعلق کچھ نہ کچھ آتا ہی رہا ہے۔ انہیں گھر
ضرور آنا چاہئے تھا!‘‘
حمید کچھ دیر تک خاموش رہا پھر بولا ۔
’’ تم اب کیا کرو گی ؟‘‘
’’میں خود بھی نہیں سمجھ سکتی !‘‘
’’گھر کا کوئی آدمی تمہاری تلاش میں ہے۔ اس نے میرا تعاقب کیا تھا
لیکن میں اسے ڈوج دے کر گھر چلا گیا… اور وہاں سے بوڑھے کے میک اپ میں تم تک
پہنچا !‘‘
’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے ایسا کیا ورنہ شاید زندگی بھر تم سے ایسی
مفید معلومات نہ حاصل کی جاسکتیں ! ‘‘
’’ تو آپ نے کیا نتیجہ نکالا ہے؟‘‘
’’ نتیجہ!... ظاہر ہے کہ آگ لگانے والا ودانش ہی ہے اور
نا صر صاحب اُس کی موجود و قیام گاہ سے اچھی طرح واقف ہیں !‘‘
’’خدا جانے ! ‘‘ صوفیہ نے کہا۔ ’’ دانش بھائی اتنے برے بھی
نہیں تھے کہ سچ مچ چچا جان کوختم کر دیتے !‘‘
’’ پھر غائب کیوں ہو گیا۔ اسی بنا پر نا کہ وہ بہتیرے لوگوں
کے سامنے سر مخدوم کوقتل کر دینے کا خیال ظاہر کر چکا تھا۔ اگر اس نے یہ حرکت نہ کی
ہوتی تو ضرور سامنے آجاتا اور اپنے خلاف شہادت رفع کرانے کی کوشش کرتا !‘‘
’’ ممکن ہے ! وہ قرض خواہوں کے ڈر سے روپوش ہو گئے ہوں !‘‘
’’تو پھر ناصر صاحب اس بری طرح پردہ پوشی پر کیوں تھے ہوئے ہیں
ورنہ یہ بات میں بھی سوچتا ہوں کہ بظاہر دانش کے لئے اب کوئی خطرہ نہیں کیونکہ پولیس
اسے اتفاقیہ حادثہ قرار ہی دے چکی ہے اور ہم لوگ تو نجی طور پرتحقیقات کر رہے ہیں !‘‘
’’ناصر چچا کی گھبراہٹ کے لئے یہی کیا کم ہے! ‘‘ صوفیہ بولی۔
’’مجھے تو سر مخدوم کی عقل پر رونا آتا ہے !‘‘ حمید نے کہا ۔’’ جب
وہ حضرت یہ بات جانتے تھے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے تو انہوں نے پولیس کو اطلاع
کیوں نہیں دی۔
8
حمید نے
وہ رات بے چینی میں گزاری۔ اُسے اس کیس کا کوئی پہلونہیں پریشان کر رہا تھا۔ بات
ساری ہونٹوں کی تھی۔ صوفیہ کے ہونٹوں کی۔ دوران گفتگو میں جن کی جنبش بڑی دلآو یز معلوم ہوتی تھی ۔ حمید اس سے رخصت ہوتے
وقت بہت اداس ہو گیا تھا۔
دوسری صبح وہ سر
مخدوم کی کوٹھی کی طرف جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ نوکر نے ایک کارڈ لا کر اسے
دیا۔ کارڈ کے نام پر نظر پڑتے ہی حمید چونک پڑا۔
’’یہ یہاں کیسے ؟‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ پھر نوکر سے پوچھا’’ تنہا
ہے!‘‘
’’جی ہاں !‘‘
’’اچھا میں آرہا ہوں!‘‘
نو کر چلا گیا۔ حمید چند لمحے کھڑا سوچتا رہا پھر وہ ڈرائنگ
روم کی طرف چل پڑا۔ یہاں سر مخدوم کا بھانجا شمشاداس کا انتظار کر رہا تھا۔
شمشاد مضبوط جسم کا ایک لمبا تڑنگا جو ان تھا اور کچھ اس
قسم کی مونچھیں رکھتا جیسے دنیا میں صرف اس کو مو نچھیں رکھنے کا حق ہو ۔ حمید اس
کے متعلق پہلے بھی کئی بار سوچ چکا تھا اور جو کچھ اس نے سوچا تھا اگر اس کا اظہار
کردیتا توکشت وخود تک کی نو بت آجاتی ۔ نہ جانے کیوں بٹی ہوئی مونچھیں دیکھ کر اس
کا خون کھولنے لگتا تھا اس کا خیال تھا کہ اول تو مونچھ رکھنےکی چیز ہی نہیں اور
اگر رکھی بھی جا ئے تو اس کی نوکیں اوپر کی طرف اٹھا کر مسخروں کی سی شکل کیوں بنائی جائے۔
’’صوفیہ کہاں ہے؟‘‘ شمشاد نے حمید کو دیکھتے ہی سوال کیا۔
’’حمید کی مسکراہٹ ہونٹوں کے تنفر آمیز کھنچاؤ میں تبدیل ہوگئی ۔
وہ چند لمحےشمشاد کوگھورتا رہا پھر بولا۔
’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے اسے اغوا کیا ہے؟‘‘
’’ میں کچھ نہیں سمجھتا۔ مجھے اس کا پتہ چاہئے !‘‘
’’اس کے لئے ایک بہترین طریقہ ہے !‘‘ حمید نے نرم لجے میں سنجیدگی
سے کہا۔
’’ کیا؟‘‘
’’اخبارات میں مشتہر کر دو ۔ جہاں ہو گی آجائے گی !‘‘
’’ میرا خیال ہے کہ تم جانتے ہو!‘‘
’’ لیکن اس خیال کی وجہ !‘‘ حمید پھر اُسے گھورنے لگا۔
’’اوہو…بس یونہی !‘‘
شمشاد نے کہا اور چڑھی مونچھوں کے باوجود بھی اس کے چہرے پر نرمی کے آثار نظر آنے
لگے ۔ حمید اس تغیر کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔
شمشاد چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’ میں نے سوچا ممکن
ہے آپ کو علم ہو!‘‘
’’ میں پھر آپ سے ایسا سوچنے کی وجہ دریافت کروں گا !‘‘ حمید
نے کہا۔
’’قدرتی بات ہے!‘‘ شمشاد نے کھنکار کر کہا۔ ’’ آپ لوگ تو ہمارے
خاندان والوں پر کڑی نظریں رکھتے ہوں گے !‘‘
’’ابھی تک تو کوئی ایسی بات نہیں ہوئی !‘‘ حمید بولا ۔
’’میں اسے قطعی فضول سمجھتا ہوں کہ یہ بات بار بار دہرائی جائے ۔
ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ماموں جان کی وصیت پاگل پن کا نتیجہ نہیں تھی ، انہیں گھر ہی کے کسی
فرد پر شبہ تھا !“
’’اوہ! تو آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں ! ‘‘حمید اُسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے
لگا۔
’’ دیکھئے! باتوں کا ڈھکا چھپا انداز مجھے پسند نہیں!‘‘
شمشاد نے حمید کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں نہیں سمجھا !‘‘
’’آپ لوگ دانش کے پیچھے ہیں !‘‘
’’اور شاید آپ مجھے اس کا موجودہ پتہ ضرور بتائیں گے !‘‘حمید مسکر
اکر بولا ۔
’’ مجھے معلوم ہوتا تو میں اتنی دیر خاموش نہ رہتا !‘‘
شمشاد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ناصر ماموں بہر حال باپ ہیں اور ان کی پریشانی یا
احتیاط قدرتی چیز ہے چین مجرم کو قانون کےحوالے کر دینا ہر ایک کافرض ہونا چا ہئے
!‘‘
’’میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں !‘‘
’’ صوفیہ محض ناصر ماموں کی عاقبت نا اندیشی کی بناپر کہیں
فرار ہوگئی ۔ میں اس کے لئے بہت پریشان ہوں ۔
بے
چاری یتیم بچی !‘‘
’’تو کیا ناصری نے اُسے قید کیا تھا ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’ اوہ!‘‘شمشاد ہنسنے لگا
۔ ’’ تو آپ اس کا پتہ جانتے ہیں !‘‘
’’ ضروری نہیں ... اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ میں نے یہ
بات صوفیہ سے معلوم کی ہے !‘‘
’’قیاس ... جس کمرے کی کھڑکی سے وہ فرار ہوئی تھی اس کا دروازہ
باہر سے مقفل تھا !‘‘
شمشاد کچھ نہ بولا
۔ وہ چند لمحے سر جھکائے بیٹھا رہا پھر اُس نے آہستہ سے کہا۔
’’ اگر آپ ناصر ماموں کی جگہ ہوتے !‘‘
’’ کیا صوفیہ کو دانش کا پتہ معلوم ہے؟‘‘ حمید نے جلدی سے پوچھا۔
’’ نہیں … شاید اس نے واردات کی رات دانش کو کمپاؤنڈ میں
دیکھا تھا اور پھر وہ پُر اسرار طریقے پر غائب ہو گیا اور محض اس طرح غائب ہو جانے
ہی کی بنا پر ناصر ماموں نہیں چاہتے کہ کا تذکرہ کیا جائے !‘‘
’’ہوں ! ‘‘ حمید نے کرسی کا ہتھا انگلیوں سے کھٹکھٹاتے ہوئے سر ہلایا۔
’’ کیا ناصر ماموں کی یہ حرکت قدرتی امر نہیں ؟“
’’ قطعی ہے… لیکن آپ تو
دانش کے باپ نہیں تھے !‘‘ حمید نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’ آپ کو قانون کی مدد کرنی چاہئے تھی !‘‘
’’مجھے اس کا علم نہیں تھا !‘‘ شمشاد نے کہا۔ ’’مجھے تو کل رات معلوم
ہوا۔ صوفیہ کے غائب ہو جانے کے بعد ناصر ماموں کو اپنی اس حرکت پر بڑا افسوس ہے۔
انہوں نے سارا واقعہ مجھے بتایا ۔ وہ کل رات سے لڑکی کے لئے رو رہے ہیں !‘‘
حمید سوچ میں پڑ گیا۔
حقیقتاًنا صر کی حرکت بالکل قدرتی تھی۔ دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد کے عیوب کی پردہ
پوشی کرنا چاہتا ہے اور پھر دانش پر تو قتل کا شبہ کیا جارہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا
کہ کیا شمشاد کوصوفہ کو پتہ ہی دے۔
’’سچ پوچھئے تو مجھے دانش کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں !‘‘
شمشاد نے کہا۔ ’’مگر صوفیہ !ا وہ مفت میں
مصائب برداشت کر رہی ہے اور دانش اپنی سزا کو پہنچے ہی گا !‘‘
’’تو کیا آپ کو یقین ہے کہ دانش ہی نے آگ لگائی ہوگی ؟‘‘ حمید
نے پوچھا۔
’’ اگر حالات ایسے نہ ہوتے تو ناصر ماموں کے لئے پریشانی کی
کوئی بات نہ تھی !‘‘ شمشاد نے سگریٹ سلگاتےہوئے کہا۔
’’ کیا ناصر صاحب کو بھی اس کا یقین ہے؟‘‘
’’ نہیں ! بظاہر تو نہیں ... وہ اس کی بے
گناہی کے سلسلے میں سینکڑوں دلائل پیش کرتے ہیں !‘‘
’’ دلائل! ... بھلا کس قسم کے ؟ ‘‘ حمید نے اپنے پائپ میں
تمبا کو بھرتے ہوئے پوچھا۔ ” سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ دانش نیم فاتر العقل قسم
کا آدمی ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی شراب نوشی نے اس کے دماغ کی چولیں ہلادی ہیں ۔ ہو
سکتا ہے کہ نشے کی لہر اُسے اس رات کو بھی تک لائی ہو اور پھر وہ تھوڑی دیر وہاں ٹہل
کر واپس چلا گیا ہو۔ اگر اس نے آگ لگائی
بھی ہوتی تو اس طرح غائب نہ ہو جاتا۔ دوسرے یا تیسرے دن ضرور واپس آتا کیونکہ پولیس
اسے اتفاقی حادثہ قرار ہی دے چکی تھی !‘‘
’’لیکن اب کیا وجہ ہے کہ آپ اسے اتفاقی حادثہ نہیں سمجھتے؟‘‘
حمید نے سوال کیا۔
’’ صوفیہ نے ہمیں آؤٹ ہاؤز کے بیرونی دروازوں کے متعلق بتایا
تھا۔ ہم نے بھی انہیں دیکھا۔ حقیقتاً وہ باہر کی طرف سے بھی بولٹ کر دیئے گئے تھے
اور پھر کوٹھی میں اس پُر اسرار آدمی کی موجودگی۔ آخر وہ کون تھا اور وہاں کیاکر
رہا تھا !‘‘
’’کیا دانش بہت تیز دوڑ سکتا ہے؟‘‘حمید نے پوچھا۔’’ اور اتنا پھر تیلا
بھی ہے کہ دوڑتے دوڑتے دیواروں چڑھ سکے!‘‘
’’ممکن ہے !‘‘شمشاد کچھ سوچنا ہوا بولا ۔ ’’ دانش کبھی ایک اچھا
اسپورٹس مین تھا لیکن شراب نے اُسے بر بادکر
دیا!‘‘
’’کچھ دیر خاموشی رہی پھر حمید نے پوچھا۔ ’’ اچھا وہ حالات کون سے ہو سکتے ہیں
جن کی بنا پر دانش ہی پر شبہ کیاجا سکے!“
شمشاد نے فوراًہی جواب نہیں دیا۔ اس کے انداز سے ہچکچاہٹ
ظاہر ہورہی تھی ۔ اس نے کھنکار کر کہا۔
’’ دانش قریب قریب میں ہزار کا قرض دار ہے غالباً جوئے میں
ہارا ہوگا۔ اُسے جوئے کی بھی لت ہے!‘‘
’’ سر مخدوم نے قرض ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا !‘‘ حمید
نے کہا۔
’’جی ہاں …لیکن شاید وہ ادا ہی کر دیتے۔ دانش نے جلد بازی سے کام لیا
!‘‘
’’کیا اس سے پہلے بھی وہ اس کا قرض ادا کر چکے تھے !‘‘
کئی بار…!‘‘
’’اچھا جناب !‘‘حمید اُٹھتا ہوا بولا ۔’’ اب آپ کہاں جائیں گے۔ میں تو آپ ہی
کی طرف جارہا ہوں !‘‘
’’میں بھی گھر ہی جاؤں گا لیکن آپ نے صوفیہ کے متعلق کچھ نہیں بتایا!‘‘
’’ یہ حقیقت ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا !‘‘حمید نے سنجیدگی
سے کہا۔
’’کیا چھلی رات آپ ہی نے میرا تعاقب کیا تھا !‘‘
’’شمشاد ہنسنے لگا۔
’’میں ہی تھا؟‘‘
وہ دونوں باہر آئے۔ شمشاد کی کار کمپاؤنڈ میں کھڑی ہوئی تھی
۔ حمید نے گیراج سے کیڈی نکالی ۔
سر مخدوم کی کوٹھی
میں فریدی حمید کا منظر تھا ۔ دونوں عقبی پارک کی ایک کنج میں آبیٹھے۔ حمید نے
محسوس کیا فریدی
آج
پہلے سے بھی زیادہ محتاط نظر آرہا ہے۔
حمید نے پچھلی رات کی رپورٹ پیش کی پھر اپنی اور شمشاد کی
گفتگو کے متعلق بتا کر اونگھنے لگا۔
’’ تم نے بقیہ رات کہاں گزاری تھی ؟ ‘‘فریدی اُسے گھور کر
بولا ۔
’’ گھر پر !‘‘ حمید نے چونک کر کہا۔
’’ تنہا تھے!‘‘
’’ کیوں …!نہیں برخوردار بغرا خاں سرہانے موجود تھا !‘‘
’’اونگھ کیوں رہے ہو؟‘‘
رات بھر اس کیس کی کڑیاں ملاتا رہا۔ آخر اس نتیجے پر
پہنچا...!‘‘
’’کس نتیجے پر !‘‘
’’ یہی کہ کیسوں سے قبر ہی میں نجات ملے گی۔ ویسے صوفیہ کے بارے میں
آپ کیا کہتے ہیں!‘‘
’’ کیا کہوں؟‘‘فریدی اسے تیز نظروں سے دیکھ کر بولا ۔
’’یہی کہ وہ کب تک
وہاں اس ہوٹل میں رہے گی !‘‘
’’بھلا میں کیا بتا سکتا ہوں۔ جب تک اس کا دل چاہے گا !‘‘
’’ میں نے رمیش کو اس کی نگرانی کے لئے کہ دیا ہے !‘‘ حمید نے کہا۔
’’میرے خیال میں اب اس کی ضرورت نہیں !‘‘
’’ کیوں ؟‘‘
’’یونہی ... اب اس کیس نے دوسری شکل اختیار کرلی ہے!‘‘
کچھ دیر بعد تیسری اختیار کرے گا !‘‘حمید برا سا منہ بنا کر
بولا۔’’پھر چوتھی… معاملہ اسی طرح آگے بڑھتاجائے گا… اور ہو سکتا ہے
کہ پھر کوئی ہماری ہی شکلیں نہ پہچان سکے !‘‘
فریدی کچھ نہ بولا ۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ حمید پھر اُو نگھنے
لگا۔ اس کے نیم غنودہ ذہن میں ٹھنڈے اور چمکیلے
بادل پھسل رہے تھے اور وہ اوس سے بھیگی
ہوئی گھاس پر گال رکھ کر سو جانا چاہتا تھا۔ اس وقت اس کے ذہن میں نہ تو اس کیس کی
کوئی گتھی تھی اور نہ صوفیہ کے ہونٹوں کی دلآویز جنبشوں کا تصور ۔
’’ پچھلی رات آپ کیا کرتے رہے ؟‘‘ اس نے آگے پیچھے ب جھولتے
ہوئے فریدی سے پوچھا۔
’’میں …! قبر کھو دتا رہا !‘‘
’’کیا ؟‘‘ حمیدن
چونک کر بولا ۔وہ پھٹی پھٹی
آنکھوں سے فریدی کو گھو ررہا تھا اور اس کی نیند غائب ہو گئی تھی۔
’’کیا سر مخدوم کی
!‘‘ اس نے کچھ دیر بعد کہا۔
’’ نہیں… لاش اس میں بند ہے!‘‘فریدی نے مسکرا کر ایک
چھوٹے سے اٹیچی کیس کی طرف اشارہ کر کے کہا جسے وہ آج صبح ہی سے سا تھ لئے پھر رہا
تھا۔
’’مرغی کے بچے کی لاش ! ‘‘حمید نے تمسخر آمیز انداز میں ایک
ٹھنڈی سانس لی۔
فریدی نے ادھر ادھر
دیکھ کر اٹیچی کیس کھولا... اور حمید نے
اتنے زور سے قہقہ لگایا کہ بعد میں اسے کھانسی آنے لگی۔
اٹیچی کیس میں ایک اَدھ جلا جو تا رکھا ہوا تھا۔
حمید کھانسیوں کے
باوجود بھی ہنستا رہا لیکن فریدی کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے اٹیچی کیس کو بند کر کے دوبارہ مقفل کرتے ہوئے کہا۔ ”
کیا میں پاگل ہوں !‘‘
حمید کی ہنسی رک
گئی ۔فریدی کے تیو ر مار بیٹھنے والے تھے۔ حمید نے سنجیدگی ہی اختیار کر
نے میں عافیت سمجھی اور وہ معاملے کو
برابر کرنے لگا۔
’’بھئی آپ تو خواہ خواہ ناراض ہو گئے.. . ہر ایک کوہنسی
آئے گی اس بات پر ۔ کیا آپ نے اسے سر مخدوم کی قبر سے نکالا ہے!‘‘
’’ نہیں !‘‘
حمید سمجھا تھا کہ فریدی کچھ اور بھی کہے گا لیکن وہ خاموش
ہی رہا۔
’’ آخر یہ ہے کیا بلا ؟ ‘‘حمید نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
’’میں خود بھی اس پر غور کر رہا ہوں !‘‘
حمید کے ذہن میں پھر ایک چبھتا ہوا جملہ کلبلا یا لیکن فریدی کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ
کر بک دینے کی ہمت نہیں پڑی۔ آج نہ جانے کیوں فریدی بہت زیادہ چڑ چڑا نظر آرہا تھا۔
’’ کیا آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے؟‘‘
’’نہیں !‘‘ فریدی اسے خونخوار نظروں سے گھورنے لگا۔
’’تو کیا میں چلا جاؤں؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔
’’ چلے جاؤ… میں اس وقت خاموش رہنا چاہتا ہوں !‘‘
’’حمید کھڑا ہو گیا۔
’’ٹھہرو!‘‘ فریدی بولا ۔’’
بے کار نہیں بیٹھو گے !‘‘
’’ہر گز نہیں ۔ میں جاتے ہی سو جاؤں گا !‘‘ حمید نے بڑے
خلوص سے کہا اور فرید کی بے اختیار مسکرا پڑا۔
’’ لیکن تم آج نہیں سو سکو گے ! ‘‘اس نے کہا ۔ ’’ ہوسکتا ہے
کہ ہم آج ہی کا میاب ہو جائیں ۔ اس کے بعد پھر نہیں کم از کم ایک ہفتے تک سوتے
رہنے کی اجازت ہوگی !‘‘
’’اچھا جناب !‘‘ حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔’’ کام بتا یئے !‘‘
’’ بہت معمولی سا ہے ۔ تمہیں یہاں کے ایک نوکر کی نگرانی
کرنی ہے !‘‘
’’کس نوکر کی !‘‘
’’سردار!‘‘
’’اوہ... وہ بوڑھا جو ہر وقت کچھ نہ کچھ بڑ بڑاتا ہی رہتا ہے!‘‘
’’ وہی… بس یہ سمجھ لو کہ اگر وہ جہنم میں بھی جائے
تو اس کا پیچھا نہ چھوڑ نا !‘‘
’’ بہتر ہے !لیکن اگر وہاں قلوپطرہ سے ملاقات ہو گئی تو میری
واپسی ناممکن ہو جائے گی !‘‘
’’بس چلے جاؤ !‘‘ فریدی اُسے دھکا دیتا ہوا بولا ۔
حمید کو اس نوکر کو
تلاش کر لینے میں دشواری نہ ہوئی۔ وہ اصطبل کے قریب زمین پر بیٹھا بڑبڑا رہا تھا۔
بڑبڑاہٹ کے دوران میں وہ کبھی کبھی گھوڑوں کو گھونسہ دکھانے لگتا تھا۔ حمید کو اس
پرہنسی آئی اور فریدی پر غصہ ۔ آخراس خبطی
کے پیچھے لگانے کی کیا ضرورت تھی۔
9
بوڑھا ملازم
پاگل نہیں تھا۔ عادات و اطوار بالکل صحیح الدماغ آدمیوں کے سے تھے اور وہ کسی سے
گفتگو کرتے وقت بہکتا بھی نہیں تھا لیکن تنہائی میں اس کی ذہنی رو بہک جاتی تھی
اور وہ در و دیوار سے باتیں کرنے لگتاتھا… اور اگر ایسے میں
کوئی اسے چھیڑ دیتا تو وہ چونک کر چھینی بھینی ہنسی کے ساتھ یا تو اِدھر اُدھر کی با تیں شروع کر دیتا
یا وہا ں سے کھسک جا تا تھا ۔
حمید اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑا اُسے گھورتا رہا۔ نوکر کی
پشت حمید کی طرف تھی اور وہ اس طرح اپنےخیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اُسے حمید کی
موجودگی کا علم نہ ہوا۔ وہ بدستور بڑ بڑاتا رہا۔
’’ سالو… تھان پر بندھے بندھے جگالی کرتے رہو! ‘‘وہ
غالباً گھوڑوں سے کہہ رہا تھا۔’’ آدمی ہوتے تو پتہ چلتا ۔شادی کرنی پڑتی ۔بچے ہو
تے …اور وہ سالی دن بھر بچے کو گود میں لئے چلا یا کر تی …معنی کے ابا آجا…ابا ڈبا کے آجا۔ ڈبا کے ڈبا آجا …دھت تمہاری کی ۔‘‘
اس نے پھر گھوڑی کو گھونسہ دکھایا اور زمین سے گھاس کے بہت
سے تنکے اکھاڑ کر چبانے لگا۔ حمید کا دل
چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے ۔ کیا فریدی نے اسے سزا دی تھی۔ آخر اس بے دال کے بودم کی
نگرانی کا کیا مقصد ہو سکتا ہے لیکن حکم حاکم مرِگ مفاجات ... شام تک اسے اس کے پیچھے
لگا رہنا پڑا ۔ اس دوران میں اُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جو معمول کے
خلاف ہوتی۔ اگر اسے کوئی کام کرنے کو کہا جاتا تو وہ بے چوں و چرا تعمیل کرتا اور
اسے خوش اسلوبی سے انجام دیتا ۔ کسی سے گفتگو کرتا تو پاگل پن کا شبہ تک نہ ہوتا لیکن
تنہائی نصیب ہوتے ہی پھر بے تکی بڑبڑا ہت
کا سلسلہ جاری ہو جاتا۔ حمید بری طرح تنگ آ گیا تھا۔ مگر فریدی کا موڈ دیکھتے ہوئے
حکم سے سرتابی کی ہمت نہیں پڑی۔ اگر وہ فریدی کو ایک بار بھی مسکراتے دیکھ لیتا تو
پھرکی نہ کسی طرح اس بور کرنے والی ڈیوٹی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا۔
رات کا کھانا دونوں نے الگ الگ کھایا۔ جب حمید کھانے کے لئے
گیا تو فریدی اس نوکر کی نگرانی کرتا رہا۔ حمید کی الجھن بڑھتی گئی ۔ آخر فریدی
گھر کے دوسرے افراد کو چھوڑ کر اس نوکر سے کیوں چمٹ گیا ہے ۔ اُسے وہ ادھ جلا جو
تا بھی یاد آرہا تھا ۔آخر وہ کس قسم کا کلیو (clue) تھا۔
وہ کھانا ختم کر کے فریدی کی تلاش میں نکلا ہی تھا کہ سعیدہ
اور نکہت سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔
’’ بڑی خوشگوار رات ہے!‘‘ سعیدہ بولی۔
’’ہائے کتنی ٹھنڈک ہے!‘‘نکہت نے ٹکڑالگایا ۔ ’’ آج تو آپ گانا سنائیں گے!‘‘
’’ اور اگر آپ کے ڈیڈی نے بھی ایک آدھ بول سن لئے تو ! ‘‘
حمید نے کہا۔
’’ ہم پارک میں چل
کر بیٹھیں گے ۔ ڈیڈی ذراسی دیر میں سو جائیں گے !‘‘
’’ اپنے آفیسر کو بھی بلالوں !‘‘
’’اررر…نہیں ۔وہ تو بہت
زیا دہ نکچڑ ھے معلوم ہو تے ہیں !‘‘
’’بہترین گاتے ہیں
!‘‘ حمید نے کہا ۔
’’چھوٹ!‘‘ نکہت ہا تھ اٹھا کر بولی ۔
’’نا ئیں …اَلاّ قسم !‘‘ حمید جھنجھلا ہٹ میں لچک کر بولا ۔ اور وہ
دونوں ہنسنے لگیں ۔
اس وقت حمید سچ مچ اس
سے پیچھا چھڑا نا چا ہتا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ فریدی بری طرح جھلا رہا
ہوگا ۔اس نے حمید کو جلد کھا نا ختم کر لینے کی تا کید کی تھی۔
’’ارے تو آپ ناراض
کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ سعیدہ بولی۔
’’آپ لوگ عجیب ہیں !‘‘ حمید نے کہا ۔
’’ کیوں ؟‘‘ دونوں بیک وقت بولیں۔
’’آپ کے بھائی پر قتل کا الزام ہےاور اس پر بھی آپ زندہ ولی کا
ثبوت دے رہی ہیں !‘‘
’’ کیا ؟‘‘ سعیدہ سہمی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’کس ہے؟‘‘
’’ بکواس ہے !‘‘ نکہت گرم
ہو گئی ۔’’ تم لوگوں کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔ دانش بھائی صرف قرض خواہوں سےبچنے
کے لئے چُھپ گئے ہیں !‘‘
’’ کہاں چھپے ہوئے ہیں ؟‘‘
’’ ہم کیا جانیں ۔ لیکن یہ بکواس ہے!‘‘
’’ہم بہت جلد اسے قانون کے حوالے کر دیں گے !‘‘ حمید نے کہا۔
دونوں حمید پر بُری طرح برس پڑیں اور اسے جان چھڑانی مشکل
ہوگئی۔ پھر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا کہ حمید انہیں اور زیادہ قصہ
دلائے ۔ وہ جلتی پر تیل چھڑ کتارہا اور وہ دونوں بھڑکتی رہیں ۔ آخر جب وہ رو دینے کے
قریب پہنچ گئیں تو حمید یکلخت وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
وہ پوری عمارت کا
چکر لگا کر اصطبل کی طرف پہنچا لیکن فریدی وہاں بھی نہ ملا۔ پھر وہ نوکروں کے
کوارٹروں کی سُن گُن لیتا ہو آگے بڑھنے
لگا۔
حمید کو ہنسی آگئی ۔ کوئی فوجی پہرہ داروں کی نقل کر رہا
تھا۔ وہ تیزی سے آواز کی جانب بڑھا اور پھر اس نے ایسا منظر دیکھا جس کی اسے توقع
نہ تھی۔ شمشاد شراب کے نشے میں کھڑا جھوم رہا تھا۔ وہ شمشاد جو آج ہی صبح دانش کی شراب نوشی کا تذکرہ بہت بُرے لہجے میں کر چکا
تھا۔
’’توم کا ؤن ہو!‘‘ وہ حمید کے سینے پر انگلی مار کر بولا ۔
’’مائیں اولو کا پاٹھا ہوں!‘‘ حمید اسی کی طرح الفاظ کو کھینچ کر
بولا۔
شمشاد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’الگ ہٹو!‘‘ حمید نے اسے دھکا دیا۔
’’توم خود الاگ ہاٹو!‘‘ شمشاد اس سے لپٹ پڑا۔
حمید نے اس کے منہ پر گھونسہ جڑ دیا۔ شمشاد نے گندی سی گالی
دی اور کسی پاگل کتے کی طرح حمید کا باز جھنجھوڑ ڈالا ۔ حمید نے بائیں ہاتھ سے اس
کی ناک مروڑ دی اور وہ چیخ کر پیچھے ہٹ گیا۔
’’ سالے .. پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں گا! ‘‘شمشاد پھر اس کی
طرف جھپٹا۔ اب اسے کچھ ہوش آ گیا تھا۔اس بار حمید کا مکّااس کی ٹھوڑی کے نیچے بیٹھا۔
شمشاد پہلے تو لڑ کھڑا کر پیچھے ہٹاپھر اچانک اُچھل کر حمید کی گردن دبوچ لی۔ حملہ
قطعی غیر متوقع تھا۔ حمید سنبھل نہ سکا اور دو دونوں گھتے ہوئے زمین پر آگرے ۔
’’مجھے یقین ہے کہ میں کامیابی سے قریب ہوں!‘‘
حمید نے اپنا داہنا
بازو سہلا کر سسکی لی اور منہ بنا کر بولا ۔’’ کس زور سے کاٹا ہے سالے نے
!‘‘
’’سالے کا کا ٹا
لہر نہیں لیتا !‘‘ فرید ی نے ہنس کر کہا ۔’’ تم بہر حال خوش قسمت ہو۔ اچھا مذاق
ختم کرو۔مجھے دوسرا کام سنبھا لنا ہے !‘‘
پھر فریدی کچھ دور چل کر تاریکی میں
غائب ہو گیا ۔
حمید اپنا بازو سہلا تا ہوا اپھا ٹک
کی طرف بڑھا۔
بوڑھا خبطی دربان سے کسی مسئلے پر
الجھا ہوا تھا۔
’’ابے ہاں ہاں …!‘‘ وہ دربان سے
کہہ رہا تھا ۔’’ ہما رے حضورنے انگلی کے ایک اشارے سے چاند کے ٹکڑے کر دیئے تھے…اور چاند کا دھبہ اِن ٹکڑوں کا جوڑ ہے !‘‘
دربان نے آہستہ سے کچھ کہا جسے حمید نہ سن سکا۔ وہ کافی دیر
تک باتیں کرتے رہے اور حمید دیوار سے چپکا کھڑااونگھتا رہا۔ پھر دور کے کسی گھڑیال
نے گیارہ بجائے ۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف ان دونوں کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں
۔ کمپاؤنڈ میں کتے بھی نہیں بھونک رہے تھے ۔ شاید فریدی نے آج پھر ان کے لئے کوئی
انتظام کر لیا تھا ... اور ساڑھے گیارہ بجے عمارت کی کھڑکیوں میں نظر آنے والی
روشنیاں بھی غائب ہو گئیں۔
’’ابے تو اُلّو ہے !‘‘ بوڑھے خبطی نے اونچی آواز میں دربان
سے کہا ۔’’ بیٹا عشق ہے ، دل لگی نہیں
۔مرد ہونا چاہئے ۔آگ میں کود پڑنے کی ہمت ہونی چاہئے!‘‘
حمید اپنا سر سہلانے لگا۔ اب اسے فریدی پر بڑے خلوص نیت سے
غصہ آنے لگا تھا لیکن وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ بوڑھے نے اپنی جوانی کی داستان چھیڑ دی
تھی۔
’’ مجھے دیکھ ... ایک لونڈ یا تھی شکریا۔ بھگا لے گیا اُسے ۔
کچھ دن رکھا۔ پھر ڈھائی سو میں اُسے بیچ کر اس کی چچی کو بھگا لے گیا جو اسی کی
عمروں کی تھی۔ پھر وہ سالی کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ۔ پھر میں نے شکریا کی چھوٹی
بہن پرڈور ے ڈالے لیکن اس سے پہلے ہی اس کا بیاہ ہو گیا ۔‘‘
حمید کا دل چاہا کہ بوڑھے کو پکڑ کر اس کی خاصی مر مت کر دے
لیکن پھر خاموش رہا ۔اُدھر گھڑیال نے بارہ بجائے اور اِدھر در بان کی چار پائی چڑ چڑائی۔ بوڑھا
شاید جانے کے لئے کھڑا ہو گیا تھا۔
حمید نے اطمینان کا
سانس لیا۔ لیکن اُسے یہ سوچ کر اختلاج ہونے لگا کہ اب اگر اس شیطان کے خالو نے کسی
جھولدار پلنگڑی میں لیٹ کر خراٹے لینے شروع کر دیئے تو وہ کیا کرے گا۔ کیا اس حالت
میں بھی اسے اس کی نگرا نی کرنا پڑے گی ۔
ایک بار پھر اسے فریدی پر غصہ آگیا…اگر وہ اسے اس نگرانی کا مقصد بتا دیتا تو وہ مختلف حالات میں
کوئی مناسب طریق کار اختیار کر سکتا تھا۔ اس طرح جھک مارنے سے کیا فائدہ۔
بوڑھا اصطبل کی طرف
جارہا تھا۔ وہ کچھ اونچا بھی سنتا تھا اس لئے حمید کو تعاقب جاری رکھنے میں کوئی
دشواری نہ ہوئی ورنہ اس کے جوتوں کے نیچے بجریاں کڑ کڑا رہی تھیں ۔ بوڑھا اصطبل کے
قریب پہنچ کر رک گیا۔ اگر حمید فوراً ہی دیوار کی اوٹ میں نہ ہو جاتا تو اس نے اسے
دیکھ ہی لیا تھا ... کیونکہ اصطبل کے دروازے پر پہنچ کر وہ اِدھر اُدھردیکھنے لگا تھا۔
پھر وہ اصطبل کے
اندر چلا گیا۔ حمید نے دو تین منٹ تک انتظار کیا۔ پھر وہ بھی اصطیل کے دروازے کی
طرف بڑھا۔ گھوڑوں کی لید کی بدبو سے اس کا دماغ پھٹنے لگا تھا۔ اصطبل میں اندھیرا
ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ وہ بالکل دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر اندھیرے
میں آنکھیں پھاڑنے لگا۔
کیا مصیبت ہے۔ وہ جھنجلاہٹ میں سوچنے لگا۔ کیا جہنم کا
راستہ اصطبل ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ آخر یہ الو کا پٹھا اصطبل میں کیوں گھسا ہے ؟ اس
طرح کب تک یہاں کھڑا رہنا پڑے گا۔ حمید نے ٹارچ روشن کر لی ۔ گھوڑوں نےچونک کر
اپنے پیر زمین پر مارے اور پلٹ کر روشنی کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن بوڑھا اصطبل میں
نہیں تھا…حمید بوکھلا گیا۔ روشنی کا دائرہ جلدی جلدی ایک جگہ سے دوسری
جگہ رینگتا رہا تھا۔ اصطبل میں گھس کر اس نے اونچی اونچی آخوروں میں بھی روشنی ڈالی۔
بات سمجھ میں آگئی
لیکن ذرا دیر میں۔ حمید نے ابھی تک اس چھوٹے دروازے کی طرف دھیان نہیں دیا تھا جو
چھیول کے جنگل کی طرف کُھلتاتھا۔
وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازه دوسری طرف
سے بند نہیں تھا۔ صرف اس کے پاٹ بھیٹر دیئے گئے تھے۔ حمید دوسری طرف نکل گیا۔
چھیوں کی گھنی جھاڑیوں
میں جھینگر’’ جھائیں جھائیں‘‘ کر رہے تھے اور جب ان کی آواز یں اچانک بند ہو جا تیں تو ایسا معلوم ہوتا جیسے
سناٹے میں ایک نظر نہ آنے والی لکیر دوڑتی چلی گئی ہو ۔ پھر یک بیک کہیں ایک جھینگر’’ٹچکا‘‘
دیتا اور نہ ختم ہونے والی جھائیں جھائیں
کا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا۔
حمید ٹارچ روشن کر
کے آگے بڑھا۔ اس نے قدموں کے نشانات کے لئے زمین پر روشنی ڈالنی شروع کی لیکن اسے
کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ زمین سخت تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس طویل
و عریض جنگل میں کہاں سر مارتا پھرے۔ قریب تھا کہ اسے پھر فریدی پر غصہ آجاتا،
ٹارچ اس کے ہاتھ میں کانپ کر بجھ گئی اور خود وہ لڑکھڑا کر ایک طرف لڑھک گیا ۔
نشانہ باز اچھا نہیں تھا۔ ورنہ اس کا وہ ہاتھ تو ضرور ہی زخمی ہو جاتا جس میں اس
نے ٹارچ پکڑ رکھی تھی۔ گولی پشت کی دیوار
سے ٹکرائی۔
ایک فائر پھر ہوا لیکن حمید نے اٹھنے کی ہمت نہ کی کیونکہ
وہ نہتّا تھا ۔ قریب ہی کہیں زور سے جھاڑیاں کھڑ کھڑا ئیں... پھر فائر ہوا. .. حمید دروازہ
کے قریب سے ہٹ کر دیوار سے لگا ہوا رینگنے لگا۔
اب کی فائر کے ساتھ کسی کی چیخ بھی سنائی دی۔ آواز جانی
پہچانی سی معلوم ہوئی لیکن حمید اس کا فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ کس کی ہو سکتی تھی۔
کوئی بڑی تیزی سے دوڑتا
ہوا اس کے قریب سے گزر گیا۔ حمید نے اس پر جھپٹنا چاہا لیکن ایک دہکتا ہوا انگارہ ’’شائیں ‘‘ سے اس کے سر پر سے گز ر گیا
۔اسے پھر اوندھے منہ گر جانا پڑا۔ اس بار بھی وہ بال بال بچا تھا۔ اس نے اصطبل کا
دروازہ بند ہونے کی آواز سنی ۔
حمید دو منٹ تک دَم سادھے پڑا رہا ۔ اب پھر پہلے کی طرح سناٹا
تھا ۔ وہ اٹھنے کا ارادہ کر رہی رہا تھا کر کسی جاگتے ہوئے آدمی کے قدموں کی آواز
سنائی دی جو آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی گئی۔ کوئی دیوار کے دوسرے سرے کی طرف بھاگتا
ہوا چلا گیا تھا ۔
حمید مڑکر دروازے کی طرف رینگنے لگا۔ اسے اگر اس قسم کے
واقعات کی توقع ہوتی تو وہ خالی ہاتھ بالکل نہ آتا۔ اس نے اس میں عافیت کبھی کہ چپ
چاپ واپس جا کر فریدی کو تلاش کرے۔
تھوڑی دیر قبل کا ہنگامہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے عجیب و غریب
تھا۔ حمید نے محسوس کیا تھا کہ اس میں ایک سے زیادہ آدمیوں کا ہاتھ تھا …مگر وہ کون تھے ؟ نو کر کہاں غائب ہو گیا تھا… وہ بھاگتا ہوا
آدمی کون تھا جو اس کے قریب سے گزر کر
اصطبل میں جا گھسا تھا ؟ غالباً اسی پر کسی نے فائر کیا تھا ۔ کیا وہ بوڑھا نوکر
تھا ؟… مگر نہیں! اور اتنی تیزی سے نہیں دوڑ سکتا
تھا … پھر؟ کیا وہ دانش تھا؟… اگر وہ دانش
تھا تو فائر کر نے والا خریدی ہی ہوسکتا تھا؟ مگر وہ چیخ ؟ وہ تو صریحاً کسی زخمی ہی کی شیخ ہوسکتی تھی ؟
حمید بڑی احتیاط سے دروازے کی طرف رینگتا رہا۔ نیند کے خمار
سے اس کا ذہن بو جھل ہو رہا تھا اور سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں جواب دے چکی تھیں۔
اس وقت محض اتفاقات ہی نے اس کا ساتھ دیا تھا ورنہ دو میں سےایک گولی ضرور اسے
دوسری دنیا کی سیر کرا دیتی۔
وہ دروازے کے قریب
پہنچ چکا تھا… اور پھر جیسے ہی اس نے زمین سے اٹھنے کی
کوشش کی کسی نے پیچھے سے اس پر حملہ کر دیا۔
’’ارے خدا تمہیں غارت کرے ! ‘‘حمید دانت کا کچکچا کر پلٹا۔
’’ لا حول ولا قو ۃ! ‘‘حملہ آور بڑ بڑا کر الگ ہٹ گیا۔
’’نہیں ... مار ڈالئے !‘‘ حمید جھلا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے فریدی کی
آواز پہچان لی۔
’’ خاموش رہو! ‘‘فریدی نے آہستہ سے کہا۔ ’’ کیا ادھر سے کوئی
گزرا تھا ؟‘‘
’’ اصطبل میں گھس گیا!‘‘
حمید ہانپتا ہوا بولا۔
فریدی نے دروازے کو دھکا دیا۔ وہ دوسری طرف سے بند تھا۔ وہ
تین چار قدم پیچھے ہٹا اور اچھل کر بائیں شانے سے دروازے میں ٹکر ماری۔ اندر گھوڑے
بدک کر ہنہنانے لگے۔ اب کمپاؤنڈ سے بھی متعدد آدمیوں کی آوازیں آنے لگی تھیں ۔
تیسری فکر لگتے ہی دروازہ چڑ چڑا کر دوسری طرف گر گیا۔
’’سڑی ہوئی لکڑی کا تھا !‘‘ حمید نے کہا۔
’’کام چور… بھسڈی !‘‘ فریدی غرا کر حمید کی طرف پلٹا ۔
’’شیشم… شیشم… دیوار… کی لکڑی!‘‘ حمید
بوکھلا کر ہکلانے لگا۔
فریدی نے اس کی گردن و بوچی اور دروازے میں دھکا دے دیا۔
وہ دونوں کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے۔ گیراج کے سامنے کئی آدمی
کھڑے تھے۔ حمید کی ٹارچ کی روشنی دیکھ کر
وہ خاموش ہو گئے۔
وہ دونوں تیز قدموں سے چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچ گئے ۔ یہ
کوارٹروں میں رہنے والے ملازمین تھے۔
فریدی
اور حمید کو دیکھ کر اُن میں سے ایک نے کہا۔
’’صاحب !یہاں گیراج میں کوئی گھسا ہوا ہے!‘‘
فریدی نے آگے بڑھ کر گیراج کے دروازے کو دھکا دیا۔ وہ اندر
سے بند تھا۔ فریدی نوکروں کی طرف مُڑا ۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ کسی نے عمارت کی طرف سے پکار کر کہا ۔ آواز ناصر
کی تھی۔
فریدی نے ایک طویل سانس لی اور مسکرانے لگا۔ نوکروں کی لالٹینوں
کی مدھم روشنی اس کے چہرے پر پڑرہی تھی۔
حمید کو اس کی مسکراہٹ بڑی بھیا نک معلوم ہوئی۔ اس کا چہرہ
ستا ہوا تھا اور وہ لالٹینوں کی زرو زرد روشنی میں گوشت پوست کے بجائے تانبے کا ایک
طویل القامت مجسمہ معلوم ہورہا تھا۔
کئی قدموں کی آہٹیں
گیراج کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ فریدی خاموش کھڑا اندھیرے میں گھورتا رہا۔ آنے والے
ناصر، شمشاد اور فرحان تھے ۔ انہوں نے شب خوابی کے لبادے پہن رکھے تھے اور ایسا
معلوم ہو رہا تھا جیسےسوتے سے اٹھے ہوں۔
’’ صاحب میں کہتا ہوں!‘‘ ایک نو کر دفعتہ بولا ۔’’ گیراج میں کوئی
ہے۔ میں نے اُسے گھستے دیکھا تھا!‘‘
’’کون ہے ! ‘‘ ناصر کپکپائی ہوئی آواز میں بولا ۔
’’وہی جسے ہونا چاہئے ! ‘‘ فریدی کی آواز سنائے میں گونجی۔
’’ دانش !‘‘ شمشاد نے آگے بڑھ کر کہا۔
’’دانش!‘‘ فریدی تمسخر آمیز انداز میں ہنسا۔
’’اگر دانش ہی ہے تو میں پولیس کو فون کرتا ہوں !‘‘ ناصر عمارت کی
طرف جانے کے لئے مُڑا۔
’’ٹھہر و !‘‘ فریدی
نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’ پہلے اس لاش کو اٹھواؤ جو وہاں جنگل میں پڑی ہے!‘‘
فریدی نے ریوالور نکال لیا تھا اور اس کا رُخ ناصر کی طرف
تھا۔
’’ کس کی لاش ؟‘‘ شمشاد چیخا۔
’’ بوڑھے نو کر سردار کی… ناصر چپ چاپ
کھڑے رہو ورنہ ایسی جگہ گولی ماروں گا کہ بقیہ زندگی جہنم بن جائےگی !‘‘
’’کیا بے ہودگی ہے ؟‘‘ ناصر سہمی ہوئی آواز میں چیخا ۔
’’ حمید !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ میری جیب سے ہتھکڑیاں
نکال کرنا صر کے لگا دو !‘‘
’’ کیا بکواس ہے؟ ‘‘شمشاد حلق پھاڑ کر چیخا ۔
’’اگر کسی نے مداخلت کی تو بے دریغ گولی ماردوں گا۔ مجھے سب جانتے
ہیں !‘‘
حمید نے فریدی کی جیب
سے ہتھکڑیاں نکالیں اور ناصر کی طرف بڑھا۔ ناصر اچھل کر بھاگا لیکن شب خوابی کے
لبادے نے اُسے زیادہ دور نہیں جانے دیا ۔ بھاگتے ہی وہ اس سے الجھ کر گرا، حمید نے
اُسے دبوچ لیا۔
ناصر کے ہتھکڑیاں
لگا دی گئیں ۔ وہ کسی تھکے ہوئے خچر کی طرح ہانپ رہا تھا۔
’’ باہر آؤ!‘‘ فریدی نے گیراج کے دروازے پر ہاتھ مار کر
کہا۔ ’’تم نے مجھے بہت پریشان کیا ہے سر مخدوم !‘‘
’’سر مخدوم !‘‘ حمید تحیر آمیز آواز میں چیخا۔
’’سر مخدوم ! ‘‘
فریدی کے ہونٹ بھنچ گئے ۔ ’’ سر مخدوم
جنہوں نے قانون سے مذاق فرمایا ہے!‘‘
گیراج کا دروازہ کھڑ کھڑاہٹ کے ساتھ کھلا ۔ لالٹینیں اوپر اٹھیں
، ان کے سامنے ایک دبلا پتلا اگر مضبوط جسم کا بوڑھا کھڑا تھا۔
’’ ماموں جان !‘‘ شمشاد چیخا۔
’’ بڑے سرکا ر!‘‘ نو کر چلائے۔
اور حمید اپنی کھوپڑی اس طرح سہلانے لگا جیسے گرمی چڑھ گئی
ہو۔
تھوڑی دیر بعد وہ ہال میں بیٹھے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ
رہے تھے ۔ ان میں ناصر بھی تھا لیکن اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بڑی ہوئی تھیں اور
اس نے اپنا سر میز پر اوندھا رکھا تھا۔
’’ میں چُھپ کر تم لوگوں کی گفتگو سنا کرتا تھا !‘‘ سر
مخدوم نے فریدی سے کہا۔ ’’ تم دونوں ہمیشہ دانش ہی کے بارے میں باتیں کرتے تھے !‘‘
’’کل رات سے میں نے اپنا پچھلا نظریہ ترک کر دیا تھا!‘‘ فریدی
مسکرا کر بولا۔’’ کل رات گئے میں نے ناصر کو کوئی چیز عقبی پارک میں دفن کرتے دیکھا اور جب یہ حضرت وہاں سے
چلے گئے تو میں نے اسے دوبارہ کھول کرنکال لیا۔ وہ ایک ادھ جلا ہوتا تھا۔ یہیں سے
میرے خیالات نے پلٹا کھایا پھر گل ہی رات کو میں نے بوڑھے نوکر کو جنگل میں گھستے
دیکھا تھا وہ اپنے بغل میں ایک پو ٹلی دبائے ہوئے تھا… کیا اس میں
تمہارے لئے کھانا نہیں تھا!‘‘
’’ٹھیک ہے ! وہ بے چارہ اس راز سے واقف تھا… اور اسی کی
بدولت میں اب بھی زندہ ہوں ور نہ ...!‘‘ سر مخدوم نے ناصر پر قہر آلود نظر ڈالی
اور خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ ’’یہ میر اظرف تھا کہ میں نے اس مردود
کو خود ہی پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ یہ پہلے بھی کئی بار میری جان لینے کی کوشش کر
چکا تھا۔ جب… میں نے دیکھا کہ یہ کی طرح باز نہ آئے گا تو
میں نے وصیت مرتب کی ۔ میں نے سوچا کہ اگر کبھی غفلت میں ماراہی جاؤں تو کم از کم
میری موت کو اتفاقیہ نہ سمجھا جائے ۔ اس کے لئے میں نے تمہیں منتخب کیا۔ اس لئے کہ
تم اس صدی کا بہترین دماغ ہو۔ جو نکوں والا معاملہ در اصل انہیں کم بختوں کے لئے ایک
قسم کا استعارہ تھا۔ یہ جو جونکوں کی طرح مجھے چوستے رہتے ہیں… اور آخر انہوں
نے میرا خاتمہ ہی کر دینے کی اسکیم بنائی ۔‘‘
’’ آپ سب کو نہ کہئے !‘‘ شمشاد دبی ہوئی آواز میں بولا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تمہیں …کتنا رنج تھا میری
موت پر !‘‘ سر مخدوم نے طنر آمیز لہجے میں کہا۔ پھر فریدی سے بولا ۔ ’’ میں آؤٹ
ہاؤز میں محض اس لئے سوتا تھا کہ اپنی حفاظت کر سکوں اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ
اسی رات کو میرے دل میں آگ کا خیال پیدا ہوا۔ میں نے سوچا کہیں یہ کمبخت آگ نہ لگا
دے اور میں سوتا ہی رہ جاؤں ۔ اس قدر الجھن ہوئی کہ میں گیراج میں جا کر سو گیا۔
پھر شاید ڈھائی یا تین بجے شور وغل کی وجہ سے آنکھ کھل گئی۔ باہر نکلا تو سچ مچ آؤٹ ہاؤز جل رہا تھا۔ پھر میں غائب ہو گیا۔ میں
نے سوچا وصیت محفوظ ہے تم خود ہی پتہ لگاؤ گے ۔ ہاں اس وقت تک مجھے یہ نہیں معلوم
تھا کہ وہاں سے ایک جلی بھنی لاش بھی برآمد ہوگی !‘‘
’’ بے چارہ دانش !‘‘ فریدی آہستہ سے بولا ۔ ’’ دانش کا معاملہ پہلے
ہی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ دربان کے خیال کے مطابق دانش حادثے والی رات کو آیا
تھا۔ اگر وہ جرم ہی کرنے کی نیت سے آتا تو نہ تو وہ اتنے زیادہ نشے میں ہوتا کہ
خود سے چل نہ سکتا اور نہ دربان کو چھرا دکھاتا۔ ظاہر ہے کہ اسے چلنا دو بھر ہورہا
تھا۔ اسی لئے دربان اسے سہارا دے کر کوٹھی میں پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس پر دانش
نے بگڑ کر چھرا نکال لیا۔ پھر صوفیہ نے اسے آؤٹ ہاؤز کی طرف جاتے دیکھا۔“
’’صوفیہ کہاں ہے؟ ‘‘سر مخدوم نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ وہ محفوظ ہے! آپ مطمئن رہئے!‘‘ فریدی نے بیان جاری رکھتے
ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ دانش آپ کے جانے کے بعد آؤٹ ہاؤز کی طرف گیا۔ دروازہ
کھلا ہی ہوا تھا۔ وہ بے دھڑک اندر چلا گیا اور وہیں پڑ کر سورہا۔ حقیقت تو یہ ہے
کہ اس کی موت ہی اسے اس طرف لے گئی تھی اور نہ وہ کوٹھی میں جاسکتا تھا۔ یہ ساری
باتیں پچھلی رات کو میری سمجھ میں آئیں… اور مجھے آپ کی موت میں تو شروع ہی سے شبہ
تھا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی وصیت کرنے والا جان بوجھ کر تو موت کے منہ میں نہیں کو
دسکتا اور آؤٹ ہاؤز کے ملبے سے جو لاش برآمد ہوئی تھی وہ نا قابل شناحت حد تک جل
چکی تھی ۔ محض اس بنیاد پر اسے آپ کی لاش قرار دیا جا سکتا تھا کہ آپ آؤٹ ہاؤز میں
سوئے ہوئے تھے … ہاں تو جب میں نے پچھلی رات کو وہ دفن کیا
ہوا جوتا نکالا تو حقیقت مجھ پر روشن ہوگئی۔ آخر نا صر نے وہ جوتا چھپانے کی کوشش کیوں کی …اور ایک ہی کیوں۔
دوسرا جوتا کہاں تھا؟ ظاہر ہے کہ اسے لاش ہی کے پیر سے اتارا گیا ہوگا۔ اگر سر مخدوم
کا جو تا تھا تو اسے چھپانے کی کیا ضرورت تھی …کیا سر مخدوم جوتے
پہن کر سوئے تھے۔ یہ چیز ناممکن تھی۔ سر مخدوم نشے میں تو تھے نہیں کہ جوتوں سمیت
سو جاتے ۔ جب لاش نکالی گئی تو اس کے پیر میں یا تو ایک ہی جو تا تھا یا ان میں ایک
بالکل میں گیا تھا۔ اَدھ جلے جوتے کو ناصر پہچان گیا اور اس نے اسے چپ چاپ اتار لیا
اور پھر دوسرے دن اس نے دانش کے متعلق تحقیقات شروع کیں۔ اُسے دربان اور صوفیہ سے
دانش کی آمد کا علم ہوا۔ یہیں سے ناصر نے دوسرا کھیل شروع کر دیا۔ لاش تو آپ کی
ثابت ہو چکی تھی۔ اب ناصر نے ڈھکے چھپے انداز میں یہ بات ظاہر کرنی شروع کی کہ
دانش ہی نے آگ لگائی ہوگی کیونکہ آگ لگنے کے دوسرے ہی دن جعفری کے ذریعہ اسے وصیت
کا علم ہو چکا تھا۔ جب تین چار دن تک آپ واپس نہ ہوئے تو اس نے اس معاملے میں
بالکل ہی خاموشی اختیار کرلی…ہمارے پہنچے پر اس نے کچھ اس سم کی حرکتیں شروع کیں جیسے وہ
دانش کو اس الزام سے بچانا چاہتا ہو۔ اس نے صوفیہ کو قید کر دیا اور پھر اسے نکل
بھی جانے دیا تا کہ ہم اس سے دانش کے متعلق معلومات حاصل کر لیں اور یہ سمجھیں کہ ناصر
ایک باپ کی حیثیت سے اپنے بیٹے کو قانون کی زد سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے ہمیں
غلط راستے پر ڈالنے کے لئے بہت بڑی بڑی چالیں چلیں …لیکن ایک حماقت کی
بنا پر پکڑا گیا۔ اگر وہ اُس جوتے کو پہلے ہی تلف کردیتا یا میری نادانستگی میں اسے دفن کرتا تو شاید یہ
اس وقت بھی چین کی نیند سو رہا ہوتا… ہاں تو اسے بہر حال آپ کی فکر لگی ہوئی تھی
۔ جس رات اُسے یہ معلوم ہوا کہ کوئی آدمی ملبے کے ڈھیر کے قریب ہماری گفتگو سننے کی
کوشش کر رہا تھا اور پھر دو جنگل کی طرف بھاگ گیا تھا تو اسے یقین ہو گیا کہ آپ
جنگل ہی میں کہیں پوشید ہ ہیں ۔ اس نے کل رات سے جنگل کی خاک چھاننی شروع کر دی تا
کہ آپ کو ٹھکانے لگا کر کہیں دفن کر دے اور پولیس دانش کی تلاش میں سرمارا کرے۔ کل
رات شاید اس نے بھی بوڑھے ملازم کو جنگل میں جاتے دیکھ لیا تھا اور آج یہ محسوس کر
لیا تھا کہ میں بھی نوکر کی نگرانی کر رہا ہوں ۔ لہذا آج وہ نوکر کے جانے کے بعد ہی
جنگل میں جا کر چھپ رہا لیکن اس سے بے خبر تھا کہ میں اس کا تعاقب کر رہا ہوں ۔ بے
چارہ نوکر محض میری غفلت کی وجہ سے مارا گیا۔ میں یہ سمجھا تھا کہ دو نوکر کے ذریعے
آپ تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن اس نے نوکر کو دیکھتے ہی اس پر فائر کر دیا۔ نوکر چیخ
کر گر گیا۔ میں نے ناصر پر فائر کیا مگر وہ بچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر ایک
فائر کیا۔ غالباً اس نے یہ فائر آپ پر کیا تھا ۔‘‘
سر مخدوم اثبات میں
سر بلا کر ناصر کی لڑکیوں کی طرف دیکھنے لگا جو ایک کونے میں بیٹھی ہوئی بری طرح
رورہی تھیں۔
’’لیکن سر مخدوم ! آپ اپنے لئے کیا کیجئے گا !‘‘فریدی نے کہا۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’آپ نے پولیس کو اب تک دھو کے میں رکھا ہے اور یہ قا نو نًا جرم
ہے۔ آپ کو حادثے کے بعدہی ظاہر ہو کر غلط فہمی رفع کرنی چاہئے تھی۔ آپ پر قریب دہی کا مقدمہ تو
ضروری چلے گا!‘‘
’’دیکھا جائے گا! مجھے اس حال میں بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ میں
خود اپنے ہاتھوں سے اسے قانون کے حوالے کرتا اور اس وقت بھی میرا دل دکھ رہا ہے!‘‘
’’ حرام خوری آدمی کو سنگ دل بنا دیتی ہے !‘‘ فریدی نے کہا۔
’’اگر ناصر اپنی روزی خود کما تا ہوتا تو اس سے یہ حرکت کبھی سرزد نہ ہوتی ۔ قصور
سراسر آپ کا ہے۔ آپ کو اسے اپاہج نہ بنانا
چاہئے تھا ۔ اگر یہ ایک ایماندار آدمی کی طرح اپنی روزی خود کما تا ہوتا تو اس کے
بچے شرابی اور جواری نہیں ہو سکتے تھے ۔ بے مشقت ہاتھ آئے ہوئے پیسے آدمی کو شیطنت
کی طرف لے جاتے ہیں۔ ناصر محض اس لئے آپ کی جان لینا چاہتا تھا کہ وہ جائیداد کا
مالک بننے کے بعد دانش کا قرض ادا کر سکے! ‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو!‘‘ سر مخدوم نے طویل سانس لے کر کہا۔ وہ کچھ
دیر خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’ صوفیہ کا کیا قصہ ہے۔ وہ کہاں ہے۔ پورے خاندان میں
صرف وہی ایک ایسی ہے جسے میری دولت سے نہیں بلکہ مجھ سے محبت ہے!‘‘
فریدی نے اسے صوفیہ کے متعلق بتاتے ہوئے اطمینان دلایا کہ
وہ محفوظ ہے۔
دوسری شام حمید اور
صوفیہ آرلکچنو میں چائے پی رہے تھے۔
’’ تم بڑے اچھے دوست ثابت ہو سکتے ہو! ‘‘ صوفیہ نے حمید سے
کہا۔
’’ تم بہت ذہین اور اسمارٹ لڑکی ہو... میں کچھ اور سوچ رہا
تھا !‘‘
صوفیہ قہقہہ لگا کر
بولی ۔ ’’ میں بتاؤں تم کیا سوچ رہے تھے!“
’’بتاؤ!‘‘ حمید بڑے رومانٹک انداز میں بولا۔
’’ تم سوچ رہے تھے کہ اگر میں تم پر عاشق ہو گئی ہوتی تو تم
شادی کی تجویز پیش کرتے !‘‘
حمید احمقوں کی طرح
اسے گھورنے لگا۔ صوفیہ پھر ہنس پڑی۔
’’ذہین سے ذہین مرد بھی جنسیت کے معاملے میں معمولی آدمیوں سے
مختلف نہیں ہوتا ! ‘‘ صوفیہ نے کہا۔
اور حمید نے اُس
وقت اُس سے عشق کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
0 Comments