تمہید -علامہ اقبال
Tamheed By Allama Iqbal
(1)
نہ دَیر میں نہ حرم میں خوری کی
بیداری
کہ خاوراں میں
ہے قو موں کی رُوح تر یا کی
اگر نہ سہل ہوں تجھ
پر زمیں کے ہنگامے
بُری ہے مستیِ اندیشہ
ہائے اَفلاکی
تری نجات غمِ مرگ
سے نہیں ممکن
کہ تُو خو دی کو سمجھتا ہے پیکرِ خاکی
زمانہ اپنے
حو ادِث چُھپا نہیں سکتا
ترا حِجاب ہے
قلب و نظر کی ناپا کی
عطا ہُوا خس و خا شاکِ ایشیا مجھ کو
کہ میرے شعلے
میں ہے سَر کشی و بے باکی !
(۲)
ترا گناہ ہے اقبالؔ! مجلس آرائی
اگر چہ تُو ہے مثالِ
زمانہ کم پیو ند
جوکو کنار کے خُو گر
تھے، اُن غریبوں کو
تری نَوا نے دیا ذوقِ جذبہ ہائے
بلند
تڑپ رہے ہیں فضا ہائے نیلگوں کےلیے
وہ پَر شکستہ
کہ صحنِ سرامیں تھے خورسند
تری سزا ہے نو
ائے سحر
سے محرومی
مقامِ شوق و سُرور و
نظر سے محرومی
0 Comments