تندرستی-نظیرؔاکبر
آبادی
Tandrusti By Nazeer Akbarabadi
ہیں مرداب وہی کہ جنھوں کا ہے فن درست
حُرمت اُنھوں کے وا سطے ،جن کا چلن درست
رہتا نہیں کسی کا سدا مال ،دھن درست
دولت رہی کسی کی ،نہ
باغ وچمن درست
جتنے سخن
ہیں ، سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
دنیا میں اب اُنھوں کے
تئیں کہیے بادشاہ
جن کے بدن درست ہیں
،دن رات ،سال وماہ
جس پاس تندرستی و
حرمت کی ہو سپاہ
ایسی پھر اور کون سی
دولت ہے،واہ واہ
جتنے سخن ہیں ،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
جو گھر میں اپنے
مِیری و حشمت پنا ہی ہے
بِن تندرستی ،سب وہ
خرابی ،تباہی ہے
یہ تندرستی ،یارو،بڑ ی
بادشاہی ہے
سچ پو چھیے
تو عین یہ فضلِ الہٰی ہے
جتنے سخن ہیں،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
گر دو لتوں سے اُس کا
بھرا ہے تمام گھر
بیمارہے، تو خاک سے بدتر
ہے سب وہ زر
ہو تندرست ،گر چہ یہ
مفلس ہے سر بہ سر
پھر نہ کسی کا خوف ،نہ
ہر گز کسی کا ڈر
جتنے سخن ہیں ،سب میں یہی ہے سخن درت
اللہ آبرو سےرکھے ،اور
تندرست
عاجز ہو یا حقیر ہو،پر تندرست ہو
بے زرہو یا امیر ہو ، پرتندرست ہو
قیدی ہو یا اسیر
ہو ،پر تندرست ہو
مفلس ہو یا فقیر ہو،پر
تندرست ہو
جتنے سخن ہیں،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
اس میں تمام ختم ہیں
عالم کی خوبیاں
ہو تندرستی اور ملے
حُرمت سے آب وناں
قسمت سے جب یہ دونوں میسّر ہوں،پھر تو وہاں
پھر ایسی اور کون سی
نعمت ہے میری جاں
جتنے سخن ہیں،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے ،اور تندرست
پروا نہیں ،ا گر چہ لکھایا پڑھا نہ ہو
محتاج حق سوا
،یہ کسی اور کا نہ ہو
حُسن و جمال وعلم و
ہُنر گو ملا نہ ہو
اک تندرستی چاہیے،کچھ
ہووے یا نہ ہو
جتنے سخن ہیں،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
بیمار اگر چہ لاکھ طرح
سے ہو بادشاہ
تو اُس کو جانیے کہ گد ا سے بھی ہے تباہ
ہم تواُسی کو شاہ کہیں ،اور جہاں پناہ
اب جس کا تن ،درست ہو،
حرمت سے ہو نباہ
جتنے سخن ہیں ،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
ہوں گر چہ لاکھ دولتیں
بیمار کے کنے
اور نعمتوں کے ڈھیر
لگے ہوں ینے ٹھنے
بہتر ہیں مفلسی کے میاں
چا بنے چنے
جو تندرست ہیں
،وہی دو لھائیں ،اور بنے
جتنے سخن ہیں ،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے ،اور تندرست
جب تندرستیوں کی رہیں
دل میں بستیاں
پھر سو طرح کے
عیش ہیں اور مے پر ستیاں
کھا نے کو نعمتیں
ہوں،ویا فاقہ مستیاں
سب عیش اور مزے ہیں
،جو ہوں تندرستیاں
جتنے سخن ہیں،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے،اور
تندرست
چا ہا جو دل نشے کو، تودوں ہی منگا لیا
محبوب دل بروں کو
گلے سے لگالیا
آیا جو عیش دل میں ،خو شی سے اُڑالیا
جومل گیا سو پی لیا،
چاہا سو کھا لیا
جتنے سخن ہیں ،سب میں
یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
آیا جو دل میں ، سیرِچمن کو چلے گئے
بازار چوک ،سیر تما شے
میں خوش ہو ئے
بیٹھے ،آٹھے ،خو
شی سے ہر اک جا چلے
پھرے
جا گے مزے میں
رات کو ،یا خوش ہو سو رہے
جتنے سخن ہیں ،سب میں
یہی ہےسخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
قدرت سے یہ جو تن کی بنی
ہے ہر ایک کل
جب تک یہ کل
بنی ہے،تو ہے آدمی کو کل
گر ہو خدا نہ خوا ستہ
ا ک کل بھی چل بچل
پھر نہ خو شی
،نہ عیش ، نہ زندگی کا پھل
جتنے سخن ہیں ،سب میں
یہی ہیں سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
ادنا ہو یا غریب ،تو
نگر ہو یا فقیر
یابادشاہ شہر کا ،یا ملک کا وزیر
ہے سب کو تندرستی و حرمت ہی دل
پذیر
جو تو نے اب کہا،سو
یہی سچ ہے اے نظیرؔ
جتنے سخن ہیں،سب میں
یہی ہیں سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے
،اور تندرست
2 Comments
دولت بھی عبث ھے جو بشر نہ ھو تندرست
ReplyDeleteبے شک نظیر کا ھے یہ سارا سخن .درست
ماشاء اللہ بہت عمدہ شعر ہے
Delete