طفلی-نظیرؔ اکبر آبادی
Tiflii By Nazeer Akbarabadi
نکلے تھی دائی لے کر ،پھِر تی کبھی
دَ دَالے
چو ٹی کو ئی دکھا لے
،بّدھی کوئی پنھالے
ہنسی گلے میں ڈا لے ،مَنّت کوئی بڑھا لے
مو ٹے ہوں یاکہ
دُبلے ،گورے ہوں یا کہ کالے
کیا عیش لو
ٹتے ہیں معصوم بھو لے بھالے
دل میں کسی کے ہر گز ،نے شرم ،نے حیا ہے
آگا بھی کُھل
رہا ہے ، پیچھا بھی کُھل رہا ہے
پہنے پھرے تو
کیا ہے، ننگے پھرے تو کیا ہے
یاں یوں بھی واہ واہے ،اورووں بھی واہ واہے
کچھ کھالے اِس
طرح سے، کچھ اُس طرح سے کھالے
کیا عیش لو
ٹتے ہیں معصوم بھو لے بھا لے
جو کو ئی چیز دیوے ،نت ہاتھ اُوٹتے ہیں
گُڑ ،بیر، مولی،
گاجر، لے مُنہ میں گھو ٹتے ہیں
بابا کی مو نچھ ،ماں کی چوٹی کھسو ٹتے ہیں
گَردوں میں اَٹ رہے
ہیں ،خا کوں میں لُو ٹتے ہیں
کچھ مل گیا سو
پی لے ،کچھ بن گیا سو کھالے
کیا عیش لو ٹتے ہیں معصوم بھو لے بھا لے
جواِن کو دو ،سو کھا لیں ،پھیکا ہو یا
سلونا
ہیں بادشہ سے بہتر ،جب مل گیا کھلونا
جس جا پہ نیند آئی
،پھرواں ہی اُن کو سونا
پروانہ کچھ پلنگ
کی ،نے چا ہیے بچھونا
بھو نپو کوئی
بجا لے، پھر کی کوئی پھرا لے
کیا عیش لو ٹتے
ہیں معصوم بھو لے بھا لے
یہ با لے پن کا ،یارو،عالم عجب بنا ہے
یہ عمروہ ہے، اس میں
جو ہے ،سو بادشا ہے
اور سچ اکر یہ پو چھو
تو باد شہ بھی
کیا ہے
اب تو نظیرؔ ،میری سب
کو یہی دعا ہے
جیتے رہیں سبھوں
کے آس و مرادوالے
کیا عیش لو ٹتے
ہیں معصوم بھو لے بھالے
0 Comments