طلسمِ وصال -نظیر
ؔاکبرآبادی
Tilism-e-Wisaal By Nazeer Akbarabadi
نظر آیا مجھے
اک شوخ ایسا ناز نیں ،چنچل
کہ جس کی دیکھ کر سج
دھج ،مرا دل ہو گیا بے کل
ادا بھی چلبلی
اور آن میں بھی کچھ
عجب چھل بل
فسوں گر انکھڑیاں
ظالم کی اور جس پر لگا کا جل
کبھی نظر یں لڑواے
اور کبھی مکھڑے پہ لے آنچل
پڑادَر کان میں جھلکے
،گلے میں سج رہی ہیکل
نگاری ،گل عذاری ،نو بہاری ،ناز پیرا یی
دلآرامی ،پری شکلی
،بُتی ،شو خی ،دلآرامی
دیہ ،سُمن تیں او
جری ،مکھ تیں چند لجائے
بھو ئیں دھنکیں
تان کیں کملن بان چلائے
مجھے اس شوخ
چنچل نے جب اپنا حسن
دکھلایا
دکھا کر اک نظر چلتا ہوا
اور مجھ کو تڑ پایا
گر امیں ہوکے
بے خو دیوں ،پری کا جیسے
ہو سایا
پھر اس میں ہوش جب آیا تو
دل سینے میں گھبرایا
بہت سا اُس گھڑی
میں نے تو اپنے دل کو سمجھا یا
نہ مانا دل نے ہر
گز ڈھونڈ تاہی اس کا ٹھہرایا
کشید م نالہ واز شوق پیرا ہن قبا کر
دم
براے جُتن
او صبر و تسکین رار ہا کر دم
بھینٹ بھئ جاتیں
کہی نینن انسوالائے
ہے کو ئی ایسا مہنت
جو پتیم مندر بتا ئے
کہوں کیا اُس گھڑی
یارو عجب احوال تھا میرا
ہر اک سے پو چھتا تھا
اُس گھڑی اُس شوخ کا ڈیرا
طلب کی کثرتیں
اور جستجو کا شوق بہتیرا
اِدھر آہوں
کی شورش اور اُدھر اشکوں نے
آگھیرا
کبھی تھی اس طرف
جھانکی کبھی تھا اُس طرف
پھیرا
جوکو ئی پو چھتا تھا کیوں
میاں کیا حال ہے تیرا
ازومی گفتم احوا
لم مپرس
ای یار ِغم خوار م
خرا بم، دل فگا رم ، بے قرارم ،نو گر فتار م
الگن پھندے اُڑ پرے
من پھنس دمینوروئے
دِرگن جا دوڈار
کے سدھ بدھ دینی کھو ئے
ابھی یاں اک پری
رو کر گیا ہے مجھ کو دیوانہ
مراد ل ہو گیا
اس شمع روکو دیکھ پروانہ
بنایا اس کی آنکھوں نےمجھے
اس مے کا پیمانہ
نگہ نے کر دیا اُس کی مجھے اک پل میں مستانہ
میان اک دم تومیں اس
کو سناؤں اپنا ا فسانہ
مکاں اُس کا
تجھے اے یار کچھ معلوم
ہےیا نہ
اگر دانی ،چناں
کن لطف تا
بنیم مکا نش را
نہم سر بر درش ،در شوق بوسم
آستانش را
نیہ گرے کا
ہارہے، ہوں تو رے بلہار
مارت ہے جو برہ ،دکھ لے چل وا کے
دُوار
یہ سُن کر تھا وہ کہتا ،میں تجھے اُس کا پتا دیتا
نہیں میں ساتھ جاکر
تجھ کو اُس کا بتا دیتا
ابھی لے جاکے تجھ کو اُس کی ڈیوڑھی پر بٹھادیتا
جو واں کے بیٹھنے
کے طور ہیں ،وہ سب جتا دیتا
ادب سے جاکے اس کے
حلقہ در کو ہلا دیتا
نکلتا جب ،تو خوبی سے تجھے اس سے ملا دیتا
ولیکن آن بتِ
سر کش زعا شق عا رمی
دارد
رسید ن تادرش آسان
نہ باشند،کارمی وارد
پلک کٹا ری
مار کے ،ہر دے
رکت بہائے
کہ کی آہ سا مرت
جو وا کے دوارے جائے
یہ باتیں کہ کے
تھا میرے بہت وہ دل
کو بہلاتا
جو الفت میں جتا تے ہیں ،وہی تھا
مجھ کو بتلا تا
کبھی دیو انہ
بن کر، سو ے صحرا
تھا نکل جاتا
دلِ شیدا کواپنے
تھا کبھی اس طرح سمجھا تا
جوروتا
میں تو مجھ کو اس طرح کر وہ سمجھا تا
ترا دل بر ہے وہ ،تو دیکھنے کو کیوں
نہیں جا تا
بہ بنیم آخرش
اور زامن تاکی نہان
باشد
اسیران محبت
را کجا پروای جان باشد
نیہ نگر کی
ریت ہے تن من دینوں کھو ئے
پیت ڈگر جب پگ
رکھا ہو نی ہو ئے سو ہوئے
وہ تھا یہ بات
سنتا جب ،مرا مُنہ دیکھ رہتا تھا
جو چلتا تھاتو وہ
اپنی طرف کو ہاتھ
گہتا تھا
مرا دل آتشِ
فرتت میں اس دل بر کی دہتا تھا
نہ تھا کچھ بَن جو
آتا، اس سے دردرنج سہتا تھا
گریباں تک پڑا اشک
اس گھڑی آنکھوں سے بہتا تھا
وہ کہتا تھا ارے پھر جا
تو میں
یوں اس سے کہتا تھا
کشم آہ و نما
یم گر یہ و شام و سحر گردم
نہ بینم تارخش
از جستجو ہر گز نہ بر
گردم
پتیم یامن
موہ کے ، کینھو مان گمان
بن دیکھے
واروپ کے ،میرے کلپت
پران
چلاواں سے میں اس غم
خوار کی باتوں سے گھبرا کر
یہی تھا آرزو
دل میں کو ئی مبتلا ئے اس کا گھبر
پر یشاں حال پھرتا تھا کبھی
ایدھر کبھی اودھر
نہ پایا جب مکاں اس کا تو بیٹھا
ایک رستے پر
یکا یک دیکھتا کیا
ہوں کہ آپہنچا وہی دل بر
اٹھا میں اور کہا
یوں رکھ
کے سر کو اُس کے قدموں
پر
مرا مجروح کردی وز نگاہ
ہم رخ بہ پو شیدی
چہ تقصیرم
کہ دل بردی وحالِ من
نہ پر سیدی
من مورا بس کرلیو ، کاہے
کینی اوٹ
ایسی موتیں
من ہرن ،کیا بن آئی
کھو ٹ
کہی یہ بات
جب اس شوخ سے میں نے بہ چشم
نم
تو پہلے ناز میں
وہ نازنیں مجھ سے ہوا بر ہم
لگا مجھ کو جھڑکنے
اس گھڑی تیو ری چڑھا پہیم
پھر اس میں رحم
جب آیا توہنس کر یوں کہا اس دم
تجھے زخمی
جو کر آئے تھے اب تیغِ نگہ سے ہم
لگا ویں گے تر ے ہم
زخم پر اب لطف
کامرہم
نظیرؔ ایں حرف
چون گفت آں نگارِدل ستانِ من
غم ازدل رفت
وآمد شاد مانیہا
بہ جانِ من
من میرو یابات تیں ،نپٹ بھیو پر
سند
نکسو دکھ من
بیچ تیں ،آن بھری
آنند
0 Comments