Akhri Gulab By Makhuz|آخری گلاب-ماخوذ

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Akhri Gulab By Makhuz|آخری گلاب-ماخوذ

 

آخری گلاب-ماخوٗذ
Akhri Gulab By Makhuz

یہ سبق  مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کے جماعت ساتو یں اُردو زُبانِ اوّل کے نصاب میں شامل ہے ۔

 

یوں توایازچہرےسےنہایت معصوم نظرآتاتھامگرتھاشرارت کاپُتلا۔کبھی کسی پڑوسی کےدروازےپردستک دےکربھاگ جاتا،کبھی کسی راہ چلتےشخص کوپکارکرچھپ جاتا۔غرض اپنی نئی نئی شرارتوں سےسب کوتنگ کر نااس کامحبوٗب مشغلہ تھا۔خاص طورپرپڑوس میں رہنےوالی نصیبہ دادی کوتووہ اکثرپریشان کرتا۔چھٹّیوں میں کبھی ان کی چھت پرپتنگ بازی کرتاکبھی ان کےآنگن کےدرختوں پرچڑھ کرکیریاں اورامروٗدتوڑتا۔جب نصیبہ دادی ڈنڈالےکربڑبڑاتی لڑکھڑاتی ہوئی پیچھےدوڑتیں توانھیں ٹھینگادِکھاکربھاگ جاتا۔

بوڑھی نصیبہ دادی کواپنےگھرمیں اکیلی تھیں۔ان کےشوہرکاانتقال ہوئےمدّت ہوچکی تھی۔ان کاایک بیٹاتھاجواپنی بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ میں بس گیاتھا۔

ایک دن معموٗل کےمطابق ایازاپنےدوست عرفان کےساتھ نصیبہ دادی مکان کی چھت پرچڑھ کراوٗدھم مچارہاتھالیکن آج دادی کی ڈانٹ سنائی دی اورنہ ڈنڈالےکر آئیں۔اس کےبعدایازنےان کے پیڑپرچڑھ کرکئی کّچےپکّےامرودتوڑڈالے۔تب بھی دادیک کی خبرنہ لی۔اسےبڑی حیرت ہوئی۔اچانک اس کی نظرصدر دروازےکی طرف اُٹھ گئی جہاں صبح کااخبار اور دوٗدھ کی بوتل جوٗں کے توں رکھےہوئےتھے۔اسےخیا ل آیا،دادی کہیں باہرتونہیں گئیں مگرباہرجاتیں توصدردروازےپرقفل پڑاہوتا۔توپھر…..یقیناًکچھ گڑبڑہے۔اس نےانپےدوست عرفان سےکہا،’’آج دادی کی آوازنہیں آئی،شایدوہ گھرمیں نہیں ہیں۔تم یہیں ٹھہرو،میں ابھی معلوم کرکےآتاہوں۔‘‘

’’دادی کےڈنڈےسے بچنا۔‘‘عرفان نےیاددلایا۔

ایازمکان کےپچھواڑے پہنچا۔پچھلادروازاندسےبندتھا۔وہ دیوارپرچڑھ کرصحن میں اُترگیا۔جوٗں ہی گھرمیں داخل ہوااُسےایک کمرےسےکسی کےکراہنےکی آوازآئی۔وہ لپک کراس کمرےمیں گیا۔کیادیکھتاہےکہ نصیبہ دادی پلنگ پرکمبل اوڑھےکراہتی پڑی ہیں۔قریب پہنچ کراس نےآوازدی،’’دادی!‘‘

دادی نےآنکھیں کھول کرایازکوحیرت سےدیکھا۔

’’آپ بیمارہیں ؟‘‘ایازنےنرمی سےپوچھا۔

ایازکی ہمدردی پاکراُنھیں تسلّی ہوئی۔اُنھوں نےکراہتےہوئےکہا،’’ہاں بیٹا!کل شدیدبخارہے۔‘‘

دادی کی یہ حالت دیکھ کرایاز انپی ساری شرارتیں بھول گیااورجلدی سےبولا،’’کوئی بات نہیں۔آپ گھبرائیےنہیں۔میں ابھی ڈاکٹرکولےآتاہوں۔‘‘

اُس نےصدردروازکھولا،عرفان کواندربلایااورکہا،’’تم ذرادادی کودیکھو،میں ڈاکٹرکولےکرآتاہوں۔‘‘

وہ دوڑتاہوااپنےگھرپہنچا۔اپنی مٹّی کی گولک کوتوڑکرپیسے نکالے۔کل تین سوپچیس روپےتھے۔اتنی رقم ڈاکٹرکی فیس اوردوا کے لیےکافی ہے،اس نےسوچااوردوڑتاہواقریب کےڈاکٹرکےپاس گیا۔اسےدادی کی بیماری کاحوال سنایااوراپنےساتھ گھرچلنےکےلیےکہا۔ڈاکٹرراضی ہوگیا۔ڈاکٹرنےدادی کامعائنہ کیا۔ایک نجکشن دیااورکچھ دوائیں لکھ کردیں۔ڈاکٹرنےبتایا،’’دادی کونمونیاہوگیاہے۔ان کاعلاج اوردیکھ بھال ضروری ہے۔‘‘ایازنےڈاکٹرکی فیس اداکی اوربازارسےدوائیں لےآتا۔

ایازاورعرفان اسکول سےچھوٹ کرروزانہ دادی کےپاس جاتے۔انھیں دواپلاتےاوراِدھراُدھرکی باتیں کرکےدادی کاجی بہلاتے۔اس دوران ایازنےدیکھاکہ دادی کی نظریں باربارکھڑکی کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ کھڑکی سے آنگن میں کھڑےگلاب کےپودے اور ان پرکھلےہوئےسرخ گلاب کےپھول صاف نظرآتےتھے۔انھیں دیکھ کرنصیبہ دادی بڑبڑانےلگتیں،’’یہ موسم کےآخری گلاب ہیں۔‘‘

ایک دن ایازنےپوچھا،’’کیابڑبڑارہی ہودادی؟‘‘

’’آں ‏‏‍‍‍‍……‘‘وہ چونک پڑیں پھربولیں،’’بیٹا،وہ گلاب دیکھ رہےہونا!یہ اس موسم کےآخری گلاب ہیں۔ایک ایک کرکےسب جھڑرہےہیں،جانےکیوں مجھےمحسوس ہوتاہے،جب سارےپھول جھڑجائیں گےتومیری زندگی کاچراغ بھی گل ہوجائےگا۔‘‘

’’ایسامت کہیےدادی۔آپ اچھّی ہو جا ئیں گی۔‘‘ایازنےتسلی دی۔

’’آپ کووہم ہوگیاہےدادی آپ ایساکیوں سوچتی ہیں؟‘‘عرفان نےلُقمہ دیا۔

ایازاورعرفان اگرچہ دادی کی دل جوئی میں لگےہوئےتھےلیکن ایازکچھ اورسوچ رہاتھا۔اس کی نظریں بھی بارباران سرخ گلابوں کی طرف اُٹھ جاتیں۔واقعی ایک ایک کرکےپھول جھڑتےجارہےتھے۔نصیبہ دادی روزانہ گلاب کےپھولوں کوحسرت سےدیکھتی رہتیں۔دونوں بّچے اپنی معصوم باتوں سےان کے وہم کودورکرنےکی کوشش کرتےمگر دادی  کی مایوسی بڑھتی جارہی تھی۔آخرایک پودےپرجب آخری گلاب رہ گیاتب ایازنےکہا،’’دیکھیے دادی !اس پھول کےجھڑنے تک آپ ٹھیک ہوجائیں گی۔ہم نےاللہ میاں سےخوب دعا مانگی ہے۔آپ اپنےدل سےوہ وہم نکال دیجیے۔‘‘

بچّوں کی مجت بھری باتیں سن کردادی کادل بھرآیا۔’’بچّو!.....‘‘جذبات کےمارےوہ آگےکچھ نہ کہہ سکیں۔

روزانہ صبح دادی کھڑکی پرنظرڈالتیں تواس آخری گلاب کومسکراتاہو اپاتیں۔اس مسکراتےہوئےپھول کودیکھ کردادی کےبُجھےہو ئےدل میں جینےکی اُمنگ جاگنےلگی۔دھیرے دھیرےاُن کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی وہ سرخ گلاب مسکراکران کاحوصلہ بڑھاتااور دونوں بچوں کی پیاربھری باتیں ان کادل بہلاتیں۔دادی جلدہی صحت یاب ہوگئیں۔

ایک دن صبح نصیبہ دادی اُٹھ کرلکڑی ٹیکتی ہوئی باغ میں گئیں تاکہ اُس گلاب کاشکریہ اداکرسکیں جس نےانھیں جینےکاحوصلہ دیاتھا۔مگریہ کیا……!

اُنھوں نےقریب پہنچ کردیکھاکہ دوتو پلاسٹک کانقلی گلاب تھاجسےبڑی صفائی کےساتھ شاخ پراس طرح باندھ دیاگیاتھاکہ دورسےبالکل اصلی لگتاتھا۔دادی سمجھ گئیں کہ یہ ایازکی شرارت ہے ،مگرکیسی انوکھی اور پیاری شرارت!

ان کادل جذبات سےبھرگیا۔آنکھوں میں تشکُّرکےآنسواُمنڈآئےاورہونٹوں پرایک شفیق مسکراہٹ کھیلنےلگی ۔ان کی زبان سےبےساختہ نکلا’’شیطان کہیں کا۔‘‘

کوئی نہیں جانتاکہ اس چھوٹے سے فقرےمیں ایازکےلیےدادی کتنی دعائیں پوشیدہ تھیں۔

 

Post a Comment

0 Comments