بچہّ اور شمع-علامہ
اقبال
Baccha Aur
Shama By Allama Iqbal
کیسی حیرانی ہے یہ اے
طِفلکِ پروانہ خُو!
شمع کے شعلوں کو
گھڑیوں دکھتا رہتا ہے تُو
یہ مری آغوش میں
بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا
روشنی سے کیا بغل
گیری ہے تیرا مّدیا؟
اس نظارے سے ترا
ننھا سا دل حیران ہے
یہ کسی دیکھی
ہوئی شے کی مگر پہچان ہے
شمع اک شعلہ ہے لیکن
تُو سراپا نور ہے
آہ ! اس محفل میں یہ
عُریاں ہے تُو مستور ہے
دستِ قُدرت نے اسے
کیا جانے کیوں عُریا کیا !
تجھ کو خاکِ تیرہ کے
فانوس میں پہناں کیا
نور تیرا چھُپ گیا
زیرِ نقاب ِ آگہی
ہے غبارِ دیدہ بینا
حجاب آگہی
زندگانی جس کو
کہتے ہیں فراموشی ہے یہ
خواب ہے، غفلت
ہے سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ
محفلِ قُدرت ہے اک
دریائے بے پایانِ حُسن
آنکھ اگر دیکھے تو ہر
قطرے میں ہے طوفانِ حُسن
حُسن،کوہستاں کی ہیت
ناک خاموشی میں ہے
مِہر کی ضو گستری ،شب
کی سِیہ پوشی میں ہے
آسمانِ صبح کی آئینہ
پوشی میں ہے یہ
شام کی ظُلمت،شفق کی
گُل فروشی میں ہے یہ
عظمتِ ویرینہ کے مِٹتے ہوئے آثار میں
طفلکِ نا آشنا کی
کوششِ گفتا میں
ساکنانِ صحنِ گُلشن
کی ہم آوازی میں ہے
ننھے ننھے طائروں کی
آشیاں سازی میں ہے
چشمہ کُہسار میں،دریا
کی آزادی میں حُسن
شہر میں ،صحرا میں
ویرانے میں ،آبادی میں حُسن
رُوح کو لیکن کسی گُم
گشتہ شے کی ہے ہَوس
ورنہ اس صحرا میں
کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرَس!
حُسن کے اس عام
جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے
زندگی اس کی
مثال ِ ماہیِ بے آب ہے
0 Comments