بلالؓ-علامہ اقبال
Bilal By Allama Iqbal
چمک اُٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حَبش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
وہ آستاں نہ چھُٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تُو نے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورت ِسلماںؓ ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
تجھے نظارے کا مثلِ کلیمؑ سودا تھا
اویسؓ طاقتِ دیدار کو ترستا تھا
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طُور تھا گویا
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت ِدید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر
کہ خنده زن تری ظُلمت تھی دست مویؑ پر
تپش ز شعلہ گرفتند و بر دلِ تو زدند
چہ برقِ جلوہ بخاشاکِ حاصل تو زدند!
اداےدید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
خوشا وہ وقت کہ یثرِب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
0 Comments