داغؔ-علامہ اقبال
Dagh By Allama
Iqbal
عظمتِ غالبؔ ہے اک مُّدت سے پیونِد
زمیں
مہدیِ مجروح ؔہے شہرِ خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مِینائے امیؔر
چشم ِمحفل میں ہے اب تک کیفِ صہبائے امیؔر
آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے
شمعِ روشن بجھ گئی، بزم ِسخن ماتم میں
ہے
بلبلِ دِلّی نے باندھا اُس چمن میں
آشیاں
ہم نوا ہیں سب عنادِل باغ ِہستی کے جہاں
چل بسا داغؔ ، آہ! مّیت اس کی زیب دوش
ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخیِ طرزِ بیاں
آگ تھی کافور ِپیری میں جوانی کی نہاں
تھی زبانِ داغ ؔپر جو آرزو ہر دل میں
ہے
ليلی ِمعنی وہاں بے پردہ، یاں محمل
میں ہے
اب صبا سے کون پوچھے گا سکُوت ِبُلبل
کا راز
کون سمجھے گا چمن میں
نالۂ بُلبُل کا راز
تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
اور دِکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں
اپنے فکِر نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں
تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کررُلوائیں
گے
یا
تخیل کی نئی دُنیا ہمیں دِکھلائیں گے
اس چمن میں ہوں گے پیدا بُلبلِ شیراز بھی
سیکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحبِ اعجاز
بھی
اُٹّھیں گے آزر ہزاروں شعر کے ُبت خانے سے
مے
پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے
ِ لکھی جائیں گی کتاب ِدل کی تفسیر یں
بہت
ہوں
گی اے خوابِ جوانی ! تیری تعبیر یں بہت
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر
کون؟
اُٹھ گیا ناؤک فگن، مارے گا دل پر تیر
کون؟
اشک کے دانے زمینِ شعر میں ہوتا ہُوں میں
تُو بھی رواے خاکِ دلیّ! داغؔ کو روتا
ہُوں میں
اے جہان
آباد! اے سرمائی بزم ِسخن!
ہو گیا پھر آج پامالِ خزاں تیرا چمن
وہ ُگلِ رنگیں ترا رخصت مثالِ بُو ُہوا
آه !خالی داغ ؔسے کاشانہ اُردو ہُوا
تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک
میں
وہ مہِ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں
اُٹھ گئے ساقی جو تھے، مے خانہ خالی رہ گیا
یادگارِ بزم دہلی ایک حالیؔ رہ گیا
آرزو کو خون رُلواتی ہے بیدادِ اجل
مارتا ہے تیر تاریکی میں صیاّدِ اجل
کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں
ہے خزاں کا رنگ بھی وجہِ قیام ِگُلِستاں
ایک ہی قانونِ عالم گیر کے ہیں سب اثر
بُوئے ُگل کا باغ سے ، گل ِچیں کا دنیا سے سفر
0 Comments