دو زخی کی مناجات-
علامہ اقبال
Dozakhi Ki Munaajaat By Allama Iqbal
اس دیرٖ کہن میں
ہیں غر ض مند بچاری!
رنجیدہ بتوں سے
ہوں تو کرتے ہیں خدایاد!
پو جا بھی ہے بے
سود 'نمازیں بھی ہیں بے سود
قسمت ہے غریبو ں کی
وہی نالہ و فریاد
ہیں گرچہ بلند ی می ں عماراتِ فلک بوس!
ہر شہر حقیقت میں ہے
ویرانۂ آباد
تیشے کی کوئی گردشِ تقدیر
تو دیکھے!
سیراب ہے پرویز 'جگر
تشنہ ہے فرہاد
یہ علم 'یہ حکمت'یہ
سیاست' یہ تجارت
جو کچھ ہے' وہ ہے
فکرِ ملو کا نہ کی ایجاد
اللہ ! ترا شکر کہ یہ
خطہ ٔ پُرسوز!
سوداگرِ یورپ کی
غلامی سے ہے آزاد
فر ہنگ
دیر کہن |
پرانا بت کدہ یعنی دُنیا |
رنجیدہ |
ناراض |
بے سود |
بے فائدہ |
ویرانۂ آباد |
آباد کیا گیا ویرانہ |
سیراب ہے پرویز |
یعنی پرویز کو شیریں مل گئی |
خطۂ پُر سوز |
جلتا ہو ا علاقہ-یعنی جہنم |
غرض مند |
لالچی |
پوجا |
عبادت |
فلک بوس |
آسمان کو چھونے والی -بہت بلند |
تیشہ |
ہتھیار جس سے فرہاد نے پہاڑ کھو د
نا چاہا |
جگر تشنہ ہے فریاد |
فرہاد (شیریں کا عاشق)ناکام رہا |
یہ علم 'یہ حکمت'یہ سیاست 'یہ تجارت جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ
کی ایجاد |
علم و حکومت 'سیاست اور تجارت'یہ سب
بادشاہوں کی فکر کا نتیجہ ہیں۔
یعنی یہ ان کو اہنے مقصد کےلیے استعمال
کر تاہے |
سودا گر یورپ |
یورپ کا تاجر جو دھوکے باز ہے |
0 Comments