ہو نہار بیٹا-اکبر ؔالہٰ آبادی
Honahar Beta By
Akbar Allahabadi
یہ نظم مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کے جماعت ششم اُردو زُبانِ اوّل کے نصاب میں شامل ہے ۔
بیٹے کو لوگ کہتے ہیں
آنکھوں کانوُر ہے
ہے زِندگی کا لطف تو
دِل کا سر وُر ہے
گھر میں اُسی کے دم
سے ہے ہر سمت روشنی
نازاں ہے اس پہ باپ
تو ماں کو غر وُر ہے
خوش قسمتی کی اُس کو
نشانی سمجھتے ہیں
کہتے ہیں یہ خدا کے کرم کا ظہوُ ر ہے
اکّبر بھی اِس خیال
سے کرتا ہے اتّفا ق
اُس کا بھی ہے یہ قو
ل کہ ایسا ضروُر ہے
البتہ شرط یہ ہو کہ
بیٹا ہے ہو نہار
مائل ہے نیکیوں پہ
بُرائی سے دوُر ہے
سنتا ہے دل لگا کے بز
رگوں کے پَند کو
و قتِ کلام لب پہ
جناب و حضوُر ہے
بر تاؤ اس کا صِد ق
و محّبت سے ہے بھرا
اس میں نہ ہے فریب نہ
کچھ مکر و زوُر ہے
رکھتا ہے خاندان کی
عزّت کا وہ خیال
نیکوں کا دوست،صحبتِ
بد سے نفوُر ہے
کسبِ کمال کی ہے شب و
روز اُس کو دُھن
عِلم و ہُنر کے شوق
کا دل میں و فوُر ہے
لیکن جو اِن صِفات کا مُطلق نہیں پتا
اور پھر بھی ہے خوشی
تو خوشی کا قصوُر ہے
0 Comments