Iblees Ki Majlis-e-Shora By Allama Iqbal|ابلیس کی مجلس شوری -علامہ اقبال

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Iblees Ki Majlis-e-Shora By Allama Iqbal|ابلیس کی مجلس شوری -علامہ اقبال

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ -علامہ اقبال
Iblees Ki Majlis-e-Shora By Allama Iqbal

Iblees Ki Majlis-e-Shora By Allama Iqbal


 یہ عناصر کا پرانا کھیل!یہ دنیا ئے  دُوں

سا کنانِ عرشِ اعظم  کی تمناؤں کاخوں

 

اس کی بربای پہ  آج  آمادہ  ہے وہ  کار ساز

جس نے اس کا نام رکھا تھا  جہانِ کاف ونوں

 

میں نے دکھلایا  فرنگی  کو  ملو کیت کا خواب

میں نے توڑا مسجد و دیرو  کلیسا کا فسوں!

 

میں نے  ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر  کا

میں نے  منعم  کو دیا  سر مایہ داری  کا جنوں

 

کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سورُاں کو سرد

جس کے ہنگاموں میں ہوا بلیس کا سوزِ دروں

 

جس کی شا خیں  ہوں ہماری آبیاری سے بلند

کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں؟

 

فر ہنگ

عناصر

مختلف حصے جن سے کوئی  جسم بنتا ہے

سا کنان عرش عظم

فرشتے

جہانِ کاف دنوں 

کن فکاں سے پیدا کیا ہوا جہاں

مسجد و دیر و کلیسا  

عبادت گاہیں

ناداروں

غریبوں

منعم     

امیر

آتشِ سوزاں     

جلانے والی آگ

نخل

پرانادرخت

دُنیائے دوں

نیچ دُنیا

کارساز

خداوند تعالیٰ

ملوکیت

بادشاہت

فسوں   

جادو

سبق تقدیر کا

قسمت کا سبق

سرمایہ داری کا جنوں

سر مایہ جمع کرنے میں  دیوانہ ہوتا

آبیاری 

پانی دینا

سر نگوں

نیچا کرنا، گرانا

 

                                   پہلا مشیر-علا مہ اقبال

 

اس میں  کیا شک  ہے کہ محکم ہےیہ  ابلیسی نظام

پختہ تر  اس سے  ہو ئے خو ئے غلامی  میں عوام

 

ہے ازل سےان گریبوں کے مقدّر میں سجود

ان کی فطرت کا تقا ضا ہے نماز بے قیام

 

آرزو  اول تو پیداہو  نہیں   سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا  تو مر جاتی ہے  یارہتی ہے  خام

 

یہ  ہماری  سعی پیہم  کی  کر امت ہے کہ آج

صوفی و ملا ملوکیت کےے بندے  ہیں تمام

 

طبعِ مشرق کے لیے  موزوں  یہی  افیون تھی

ورنہ ’’قوّالی‘‘ سے کچھ کمتر نہیں’’ علم کلام‘‘

 

ہے طواف و حج کا ہنگا مہ اگر با قی تو کیا

کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام

 

کس کی نو میدی پہ حجت ہے یہ فر مانِ جدید

’ہے جہاد اس دور میں مرد  مسلماں پر حرام‘

 

فرہنگ

 

محکم

مضبوط

فطرت

عادت

نمازِ بے قیام

بغیر کھڑے ہو نے کے نماز

خام

کچی۔کمزور

کرامت

کارنامہ

ملوکیت

بادشاہی

افیون

نشہ آور چیز

تیغِ بے قیام

نیام سے باہر تلوار۔یعنی نقلی  تلوار

فرمان جدید

نیا حکم

سجود

سجدہ۔عاجزی

تقاضا

ضرورت

سعیِ پیہم

لگاتا  ر کوشش

صو فی  وملا

مولوی اور  صو فی

طبع مشرق

مشر قی طبیعت

کند ہو

جوکاٹنے سے عاری ہو

نومیدی

مایوسی

مردمسلمان  پر حرام

مسلمان کے لیے منع ہے

 

دوسرا مشیر-علامہ اقبال

 

خیر ہے سلطا نیِ جمہور کا غوفا کہ شر؟

تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر؟

 

فر ہنگ

 

خیر

اچھا

غوفا

شور

تازہ فتنوں

نئے فتنے فساد

سلطا نی جمہور

لو گوں کی حکومت

شر

بُرا

با خبر

واقف

 

پہلا مشیر- علا مہ اقبال

 

ہوں‘ مگر یہ جہاں بینی بتا تی ہے مجھے

جو ملو کیّت کا اک پردہ ہو ‘ کیا اس سے خطر

 

ہم نے خود شاہی  کو پہنا یا ہےجمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

 

کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجودِ میرو سلطاں‘ پر نہیں ہے منحصر 

 

مجلسِ ملت ہو یا  پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سلطاں ‘غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

 

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام ؟

چہرہ روشن ‘ اندروں چنگیز  سے تاریک تر!

 

فرہنگ

 

جہاں بینی

دنیا دیکھنے کا تجربہ

جمہوری لباس

لوگوں کی حکومت کا طر یقہ

ملوکیت

باد شا ہت

خود  شناس وخودنگر

خود کو پہچا ننے  اور اپنے ضمیر کی حفاظت کر نے والا

شہر یاری

حکومت

منحصر

تکیہ کرنا

پرویز

شا ہی  دربار

چہرہ  روشن

چہرہ چمکتا ہے

چنگیز

ظالم بادشاہ

وجود میر وسلطاں

بادشاہوں کی موجود گی

مجلسِِ ملت

اسمبلی

جمہوری نٖظام

عوامی  حکومت

اندروں

باطن میں یعنی   اندر سے

تاریک تر

بہت سیاہ –کالا

 

تیسرا مشیر –علا مہ اقبال

 

 روحِ سلطا نی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب

ہے مگرکیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟

 

وہ کلیمِ بے تجلی! وہ مسیحِ بے صلیب

نیست  پیغمبر ولیکن  در  بغل داردکتاب

 

کیا بتاؤں کیا ہے  کافر کی نگاہ پردہ سوز

مشرق و مغرب کی قدموں کے لیےروزِِحساب

 

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد

توڑدی بندوں نےآقا ؤں کے خیموں کی  طناب

 

فرہنگ


اضطراب

پریشانی

کلیم بے تجلی

کلیم ہے مگر رو شنی  نہیں

نیست  پیغمبر ولیکن  دربغل  دار ہ کتاب

پیغمبر  نہیں ہے  بغل میں  کتاب  رکھتا ہے (یعنی اس کی کتاب  ''سرمایہ'')اس سے بڑھ کر  اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں  نےآقاوں  کے خیموں کی طناب اس سے بڑھ کر زمانے میں اور کیا فساد بر پا ہوگا کہ اس نے غلاموں کو جرأت دلائی  اور انھوں نے آقاؤں کے خلاف  بغاوت کردی ۔

یہودی

کارل مارکس  -جس نے  'سرمایہ' نامی کتاب لکھ کر جدید  اشتراکیت  کی بنیاد رکھی

مسیح بے صلیب

مسیح ہے مگر اُسے  پھانسی  نہیں دی گئی

 

چو تھا مشیر -علا مہ اقبال
 

تو ڑ  اس کا  رو متہ الکبر یٰ کے ایوانوں  میں دیکھ

آلِ  سیزرکو دکھا یا  ہم نے پھر  سیز ر  کا خواب

 

کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا  ہوا

گاہ بالد چوں  صنوبر 'گاہ نالد چوں رباب

 

فرہنگ

 

رومتہ  الکبریٰ

اٹلی

بحرِ روم

سمندر

آلِ سیزر

روم کے  بادشاہ سیزر کا شاہی خاندان

موجوں سے ہے لپٹا ہوا

یعنی  سیاسی  مدد جزر  میں اُ لجھا  ہوا

گاہ بالد چوں  صنوبر 'گاہ نالد چوں رباب

کبھی  صنوبر  کی طرح  اونچا کبھی  رباب  (سارنگی ) کی طرح  روتا ہے

 

تیسرا مشیر-علا مہ اقبال

 

میں توا س  کی عا قبت  بینی کا کچھ  قائل  نہیں

جس نے  افرنگی  سیاست  کو کیا یوں  بےحجاب

 

فرہنگ

 

عا قبت  بینی

آئندہ  ہونےوالے وا قعات پر نظر رکھنا

بےحجاب 

 بے نقاب 'یعنی  ننگا  کر دیا

 

پانچواں مشیر -علامہ اقبال

 

(ابلیس کو مخوطب کرکے )

 

اے ترے  سوزِ نفس  سے کارِ  عالم  استوار

تو نے جب  چاہا  کیا ہر  پر دگی کو آشکار

 

آب و گل  تیری  حرارت  سے جہانِ سوز و ساز

ابلۂ  جنت تری تعلیم  سے دانائے  کار

 

تجھ سے بڑھ  کر فطرتِ آدم کا وہ  محرم نہیں

سادہ دل  بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار

 

کام  تھا جن  کا فقط تقدیس  و تسبیح و طواف

تیری  غیرت سے ابد تک  سر نگون  و شرمسار

 

گر چہ  ہیں تیرے مرید  ' افر نگ کے ساحر تمام

اب مجھے  ان کی فراست پر نہیں  ہے اعتبار

 

وہ یہودی فتنہ گر' وہ روحِ مزدک  کا بروز

ہر قبا  ہو نے کو ہے  اس کے جنوں  سے تار تار

 

زاغِ دشتی  ہو رہا ہے ہمسر  شاہین  و چرغ

کتنی سُر عَت  سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار

 

چھا گئی  آشفتہ ہوکر  وسعتِ افلاک  پر!

جس کو نادانی  سے ہم  سمجھے  تھے اک مُشتِ غبار

 

فتنۂ فردا کی ہیبت  کایہ عالم  ہے کہ  آج

کانپتے  ہیں  کو ہسار و مرغز ار و جوئبار

 

میرے  آقا! وہ جہاں  زیر  و زبر  ہونے کو ہے

جس جہاں کا ہے فقط  تیری  سیادت  پر مدار

 

فرہنگ

 

ترے سوز نفس

سانس کی گرمی  یعنی تری شیطانی  صفت

استوار

پایدار

آشکار

ظاہر کیا

ابلہِ جنت

یعنی حضرت  آدم علیہ السلام

محرم

 واقف -کاننے والا

تقدیس و تسبیح

 عبادت کرنا۔ تسبیح پڑھنا

افرنگ کے ساحر

فرنگی جادوگر

یہودی  فتنہ گر

فساد پھیلانے  والا یعنی  کارل مارکس

رُوح مزدک

مزدک  پانچویں صدی  عیسوی  کا ایرانی  مذہبی  رہنما جس  نے تصور  دیا کہ دولت 'زمین یہاں تک کہ  عورت پر بھی اس کا ایک  جیسا حق ہے  بادشاہ  نو شیرواں  نے اس کو قتل  کر وادیا۔

ہر قبا

قمیص

زاغِ دشتی

 جنگلی کوا

سرعت

تیزی

کارِعالم

دنیا کا کام

پردگی

 چھپی ہو ئی  چیز

آب وگل

پانی اور مٹی

دانائے  کار

کام کرنے والا

پروردگار

خداوند تعالیٰ

سر نگوں

سر جھکا ئے ہوئے  -عاجز

فراست

 دانائی -عقل

بُروز

روح کا دوسرے  جسم میں  حلول کر جانا

اس کا جنو ں

یعنی کارل مارکس کا نظر یہ

تا ر تار

 ٹکڑے ٹکڑے

شاہین و چرغ

 بازاور شکر

روزِ گار

زمانہ

آشفتہ

پھیل کر

وسعت

پھیلا  و خلا

نادانی

کم عقل

فتنۂ فردا

آنے وا لے  کل کا فتنہ

مر غزار

چراگاہیں

زیرو زبر

برباد

مدار

آسرا

مشت غبار

مٹی کی ایک مٹھی

ہیبت

خوف

 جوئبار

ندیاں

سیادت

 سرداری

                                                                       


Post a Comment

0 Comments