جاوید سے –علا مہ اقبال
Javed Se Allama Iqbal
غارت گرِ
دِیں ہے یہ زما نہ
ہے اس کی نہاد کا فرانہ
دربارِ شہنشہی سے خُو
شتر
مردانِ خدا کا آستا
نہ
لیکن یہ دُورِِ ساحری
ہے
انداز ہیں سب کے
جادُوانہ
سر چشمۂ زندگی ہُوا
خشک
باقی ہے کہاں
مَے شبا نہ !
خالی اُن سے ہُوا د بستاں
تھی جن کی نگاہ تازیا
نہ
جس گھر کا مگر چراغ ہے تُو
ہے اُس کامذاق عارفا نہ
جو ہر میں ہو ’لا اِلہ ‘تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فر نگیا نہ
شاخِ گُل پر چہک و
لیکن
کر اپنی خودی میں
آشیا نہ !
وہ بحر ہے آدمی کہ جس
کا
ہر قطرہ ہے بحرِ
بیکرا نہ
دہقان اگر نہ ہو تن آساں
ہر دا نہ ہے صد ہزار
دانہ
’’غا فل مَنشیِں نہ
وقتِ بازی ست
وقتِ ہُنر است وکار
سازی ست‘‘
(۲)
سینے میں اگر نہ ہو دِل گرم
رہ جا تی ہے ز ندگی
میں خامی
نخچیراگر ہو زِیرک و
چست
آتی نہیں کام کُہنہ
دا می
ہے آبِ حیات اسی جہاں
میں
شرط اس کے لیے ہے
تَشنہ کا می
غیرت ہے طریقتِ حقیقی
غیرت سے ہے فقر
کی تمامی
اے جانِ پدر
!نہیں ہے ممکن
شا ہیں سے تدَرو کی غلا می
نا یاب نہیں متاعِ گفتار
صدانورؔی و ہزارجا
میؔ!
ہے میری بساط کیا
جہاں میں
بس ایک فغانِ
زیر با می
اک صدقِ مقال ہے کہ
جس سے
مَیں چشمِ جہاں میں
ہُوں گرامی
اللہ کی دین ہے،
جسے دے
مِیراث نہیں بلند نا
می
اپنے نورِ نظر سے کیا
خوب
فر ماتے ہیں حضرتِ
نظا میؔ
’’جا ے کہ بزرگ با یدت بود
فرزندیِ من ندارت
سود‘‘
مو من پہ گراں
ہیں یہ شب و روز
دِین و دو لت
،قِمار بازی!
نا پید ہے بندۂ عمل
مست
باقی ہے فقط نفَس
درازی
ہمّت ہو اگر
توڈُھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل
ہے حجازی
اُس فقر سے آدمی
میں پیدا
اللہ کی شانِ بے
نیازی
حاصل اُس کا
شکوہِ محمود
فطرت میں اگر نہ ہو ایا زی
تیری دُنیا کا یہ سرا
فیل
رکھتا نہیں ذوقِ
نَے نوازی
ہے اس کی نگاہِ عالم آشوب
د ر پر دہ تمام کار
سازی
یہ فقرِغیور جس
نےپایا
بے تیغ وسناں ہے
مردِ غازی
مومن کی اسی میں ہے
امیری
اللہ سے مانگ
یہ فقیری
0 Comments