خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
Khird Mandon Se Kyaa Phuchun Ke Meri Ibtida Kyaa Hai
غزل-علامہ اقبال
Ghazal By Allama Iqbal
خرد مندوں سے کیا
پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود
پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
مقامِ گفتگو کیا ہے
اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفیں ہے اور میری کیما کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر
کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اےٰ ہمنشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا
ہے
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھا تا مقامِ کبریا کیا ہے
نواے صبحگاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدا یا جس خطا کی یہ سزاہے
وہ خط کیا ہے
0 Comments