ہوطغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
Ghazal By
Allama Iqbal
ہوطغیان مشتاقی
تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے ؟ یہیں طُغیانِ مُثتاقی
مُجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تیرا
نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری
تو پھر کیا شکواہ بساقی
نہ کر افرنگ کا اندازہ
اس کی تابنا کی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے
ہے اس جوہر کی براقی!
دلوں میں دلوے آفاق گیری کے نہیں اُٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی !
خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں
صّیادکی زدمیں
مری غمناز تھی
شاحِ نشیمن کی کم اور اقی
اُلٹ جائیں گی تدبیریں،
بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے ، انہیں میرے
تخّیل کی یہ خلاقی
2 Comments
best work hai dost plz koi tips dy sakty ho
ReplyDeleteکس طرح کی تفصیلی بتایئے
Delete