Na Ho Tughyan-E-Mushtaqi To Main Rehta Nahi Baqi|ہ ہوطغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Na Ho Tughyan-E-Mushtaqi To Main Rehta Nahi Baqi|ہ ہوطغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

 

ہوطغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

Na Ho Tughyan-E-Mushtaqi To Main Rehta Nahi Baqi

 غزل علامہ اقبال

Ghazal By Allama Iqbal



Na Ho Tughyan-E-Mushtaqi To Main Rehta Nahi Baqi



ہوطغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

 کہ میری زندگی کیا ہے ؟ یہیں طُغیانِ  مُثتاقی

 

 مُجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے

 ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی

 

وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے

طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا  شکواہ بساقی

 

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابنا کی سے

کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی!

 

 دلوں میں دلوے آفاق گیری کے نہیں اُٹھتے

 نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی !

 

 خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا   میں صّیادکی زدمیں

 مری غمناز تھی  شاحِ نشیمن کی کم اور اقی

 

اُلٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں

حقیقت ہے ، انہیں میرے تخّیل کی یہ خلاقی

Post a Comment

2 Comments