سما سکتا نہیں پہناے فطرت میں مرا سودا
Sama Sakta Nahi Pehnaay Fitrat Mein Mera Soda
Ghazal By Allama Iqbal
سما سکتا نہیں پہناے
فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازه صحرا
خودی سے اس طلسم رنگ
و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
نگہ پیدا کر اے غافل تجلّی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلّاج کی سولی
کو سمجھا ہے رقیب اپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغا!
نہ کر تقلید راے جبریل میرے جذب و مستی گی
تن آساں عر شیوں کو ذکر وتسبح وطواف ادلیٰ
بہت دیکھے ہیں میں نے
مشرق و مغرب کے میحانے
یہی ساقی نہیں پیداہ وہاں بے ذوق ہےصبہا!
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسرلے
یہی شیخِ حرم ہے جو
چرا کر بیچ کھاتا ہے!
گلیم
بُوذرودیقِ اویس و چادرِ زهرا ؟
حضورِ حق میں اسرافیل
نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و
مکی خفتہ در بطخا
لبا لب شیشہ تہذیبِ
حاضرہے مے لاَسے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں
نہیں پیما نہ إلاّ
دبارکھاہے اس کو زخمہ
در کی تیز دستی نے
بہت نیچے سُروں میں
ہے ابھی یورپ کا واویلا
ِ اسی دریا سے اٹھتی
ہے وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
غلامی کیا ہے ؟ ذوق
حسن و زیبائی سے محرومی!
جے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا !
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں
کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا!
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہّمت سے
زمانے کے سمت رسے نکالا گوہر فردا!
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی !
مری اکیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا !
رہے ہیں اور میں
فرعون میری گھات میں ابتک
مگر کیا غم کہ میری
آستیں میں ہے ید بیضا!
وه چنگاری خس و خاشاک
سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا !
محبت خویشتن بینی،
محبت خویشتن داری!
محبت آستانِ قیصر و کسرلے سے بے پروا !
عجب کیا گرمہ وپر دیں
مرےننچیر ہو جائیں
کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سرخود را!
وہ دانائے سُبل ختم
الرسل مولاےکل جس نے
غبارِ راہِ کو بخشا
فروغِ وادی سینا!
نگاہِ عشق دستی میں
وہی اوّل وہی آخر !
وہی قرآں، وہی فرقاں،
وہی یسٰیںؔ، وہی طاؔہا!
سؔنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی درنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوے لالا
0 Comments