غزل –علامہ اقبال
Ghazal By
Allama Iqbal
Ya Rab Ye Jahan
Guzra Khoob Hai Lekin
يا رب یہ جہان گذراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار میں مردان صفا کیش و ہنر مند؟
گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خدا وند
تو برگ گیا ہے نہ دہی
اہل خرد را!
او کشت گل و لالہ بہ
بخشد بہ خرے چند
حاضر میں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں!
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پسند
احکام ترے حق ہیں مگر
اپنے مفسر!
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ سے
فردوس کی مانند
مّدت سے ہے آوارہ افلاک مرا فکر
کردے اسے اب چاند کی غاروں میں نظر بند
فطرت نے مجھے بخشےہیں جوھر ملکوتی !
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیونید
درویش خدا مست نہ شرقی ہے ، نہ غربی
گھر میرا نہ دلی ، نہ صفا ہاں ، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق !
نے ابلہ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زھر ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے
کہ اک بندۂ حق بین وحق اندیش
خاشک کے تو دے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں خاموش
میں بندہ مومن ہوں،
نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظر بازوں کو بیں وکم آزار !
آزاد و گرفتار دوستی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل
بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچےسے
کوئی ذوق شکر خند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند!
0 Comments