زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھےگا گفتگو کا
Zamana Dekhega Jab
Mere Dil Se Mehshar Uthega Guftugoo Ka
غزل –علامہ اقبال
Ghazal By Allama Iqbal
زمانہ دیکھے گا جب
مرے دل سے محشر اُٹھےگا گفتگو کا
مری خموشی نہیں
ہے،گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا
جو موجِ دریا لگی یہ
کہنے ،سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا صدف
نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی
قابل ،وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہُوا نہ سرسبز رہ کے
پانی میں عکس سروِ کنارِ جو کو
کوئی دل ایسا نظر نہ
آیا نہ جس میں کوابیدہ ہو تمنّا
الہیٰ تیرا جہان کیا
ہے،نگار خانہ ہے آرزو کا
کھلا یہ مر کر کہ
زندگی اپنی تھی طلسمِ ہَوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی ،غُبار تھا
کُوئے آرزو کا
اگر کوئی شے نہیں ہے
پہناں تو کیوں سراپا
تلاش ہُوں میں
نِگہ کو نظّارے کی
تمنّا ہے،دل کو سودا ہے جستجو کا
چمن میں گُل چیں سے
غنچہ کہتا تھا، اتنا بیدار کیوں ہےانساں
تری نگاہوں میں ہے
تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
ریاض ِ ہستی کے ذرّے
ذرّے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا
حقیقتِ گُل کو
تُو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و
بُو کا
تمام مضموں مرے
پرانے، کلام میرا خطا سراپا
ہُنر کوئی دیکھتا ہے
مجھ میں عیب ہے میرے عیب جُو کا
سپاس شرطِ ادب
ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل دیا
ہے ،وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا
کمالِ و حدت عیاں ہے
ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو
گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہو کا
گیا ہے تقلید کا
زمانہ ،مجاز رختِ سفر اُٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب
نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں ،تو ہوں
نہ مخُروں عزیز میرے
مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا
0 Comments