مچھلیوں کا شکار –شفیق الرحمنMachhliyon Ka Shikar By Shafiqur Rehman
ہم ہر اتوار
جھیل کے کنارے گزارتے ۔بڑے
اہتمام سے مچھلیاں پکڑنے کا پرو
گرام بنتا ۔مچھلیاں بھوٗننے کا سامان بھی ساتھ ہوتا ۔ہمارے مچھلیاں
پکڑنے کے طریقے بھی صحیح تھے لیکن ہم نے کبھی
وہاں ایک بھی مچھلی نہیں پکڑی۔انجینٔر صاحب اور ڈاکڑ صاحب کا خیال تھا کہ اس جھیل میں
مچھلیاں با لکل نہیں ہیں ۔جھیل کے پانی میں کو ئی
خرابی تھی ۔اس میں معدنیات کے کچھ
ایسے اجزا شامل تھے جن کی وجہ سے مچھلیاں
زندہ نہیں رہ سکتی تھیں لیکن ہمیں اس پر
بالکل یقین نہ آتا ۔ایسی خو شنما جھیل میں تو مچھلیاں دوٗر دوٗر سے آکر رہیں گی۔
ہم اُداس ہوتےیاہمیں دھمکایاجاتاہم سیدھےجھیل کارُخ
کرتے۔گھاس پربیٹھ جاتے۔بادشاہوں،پریوں اوربحری ڈاکوؤں کی کہانیاں پڑھتے۔ذراسی
دیرمیں ہم بھول جاتےکہ اس خوبصورت گوشےکےعلاوہ دنیاکےاورحصّےبھی ہیں جہاں اسکول
ہیں۔اسکول کاکام ہے،ماسڑصاحب کی ڈانٹ ہے،گھروالوں کی گھڑکیاں ہیں۔
ہم دوسرےکنارےکی باتیں کرتےجسےدیکھنےکاہمیں بےحدشوق تھا۔ہم
دقیاس آرائیاں کرتےکہ وہاں کیاکچھ ہوگا،شایدوہاں کسی قسم کی دنیاہوگی۔ہم نے کئی
مر تبہ ارادہ کیاکہ جھیل کوعبورکرکے دوسری طرف جاپہنچیں لیکن ہمیں کشتی نہ مل
سکی،نہ ہمیں تیرناآتاتھا۔
ہم چاندنی رات میں جھیل کےکنارےبیٹھ کرایک دوسرےکوپر یوں کی
کہانیاں سناتےجیسےسارےکردارہماری آنکھوں کےسامنےچلنےپھرنےلگتے۔چاندنی کچھ یوں بدل
جاتی اوردوسراکنارہ ایساپُرسحرخطّہ معلوم ہونےلگتاکہ ہم سچ مچ پریوں کےملک میں
پہنچ جاتے۔
اگر وہ جھیل وہاں نہ ہو تی تو نہ جانے ہمارے دن کیو نکر گزرتے ۔کیونکہ گھر میں ہرایک دونوں کادشمن تھااورڈانٹ پلانےپرتلاہواتھا۔اُن
کارویّہ یہ تھاکہ اگرکچھ کِیاہےتو کیوں کِیاہےاوراگرنہیں کیاہےتوکیونہیں کِیا؟ان دنوں
سب کے دلوں میں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ ہم دونوں نہایت نلائق ہیں اور بالکل نہیں
پڑھتے۔ابّا کا تبادلہ حسب معمول آبادی سے دور کسی ویرانے میں ہوا اور مجھے روفی
کے یہاں بھیج دیا گیا۔ گھر سے ہر خط میں تاکید آتی کہ لڑکے کی پرھائی کا خاص خیال
رکھا جائے۔چناں چہ خاص سے بھی زیادہ خیال رکھاجاتا۔گیہوں کےساتھ گھن باقاعدہ
پستااور ننھےمیاں کی خوب تواضع ہوتی۔ننھےمیاں سونےسےپہلےبڑےخشوع وخضوع سےدعامانگتےکہ
ربّ العا لمین !ہمارےکنبےوالوں کونیک ہدایت دےاوربتاکہ چھوٹےبچوں کےساتھ کیساسلوک
کیاجاتاہےکیونکہ اب تک یہ لوگ اس سےبے بہرہ ہیں۔
ایک دن گھرمیں سب بیٹھےباتیں کررہےتھے۔جھیل کی باتیں شروع
ہو گئیں۔مچھلیوں کے متعلق ان کےشبہات بدستورتھے۔ہم نےبڑےوثوق سےکہاکہ وہاں بڑی بڑی
مچھلیاں میں۔ہم اکثرپکڑتےرہتے۔ہیں ہم نےکئی مرتبہ انھیں بھوٗنابھی ہے۔بو لےاچھا،اس
مرتبہ پکڑوتوگھرلانا۔ہم بھی چکھیں گے۔
اگلے اتو ارکو ہم صج سےشام تک چھڑیاں پانی میں ڈالےبیٹھے
رہے لیکن کچھ نہ ملا۔واپسی پربازارمیں مچھلی والےسے بڑی بڑی مچھلیاں خریدی گئیں
اورباورچی کےحوالےکی گئیں۔اتّفاق سےاس شام کوسب کہیں باہرمدعوتھے۔گھرمیں صرف میں
اورروفی تھےاورایک بزرگ جوننّھے میاں کوساتھ بٹھاکرکھاناکھایا کرتے تھے۔رات
کوانھیں اچھی طرح دِکھائی نہیں دیتاتھا۔ننّھے میاں پہلے تو د
ستر خوان پر بیٹھتے تھے ؛پھر چپکے سے اُٹھ
جاتے ۔ ادھر بلّیاں قطار
باندھے منتظر ہوتیں اور بڑے
اطمینان کے سا تھ آبیٹھیں ۔ وہ یہی سمجھتے کہ ننّھے
میاں سا تھ بیٹھے
ہیں ۔چناں چہ بار بار بلّیوں سےکہتے،"برخوردار ! بھوٗکے مت رہنا۔"چیزیں اُٹھا اُٹھا کر ان کے
سا منے رکھتے ۔"یہ چکھّو بر خوردار ….یہ بھی کھاؤ برخوردار !" ادھر بلّیاں بڑے سکون سے کھاتیں۔
چناں چہ ہماری خریدی ہوئی مچھلیاں اس روز بلّیوں نےکھائیں
۔اگلی مرتبہ ہم جھیل پر گئے اور مچھلیاں خرید لائے تو نہ
جا نے کس کے مشورے سے مچھلیاں ڈاکڑ صا حب
کے ہاں بھیج دی گئیں۔ اس سے اگلی مرتبہ
انجینٔرصا حب کے ہاں۔ پھر ایک روز کیا
ہوا کہ سب کے سامنے
مچھلی والا حساب لے آکر
آگیا۔دراصل ہما را جیب
خرچ ختم ہو چکا تھا اور مچھلیاں اُدھار
آرہی تھی۔ سب کوپتا چل گیا۔ ہمارا خوب مذاق اُڑا یا گیا۔
0 Comments