سیرتِ امام مُحمّد بن سیرینؒ
(Rh)Sirat Imam Muhammad bin Sireen
ہم نے متذ کرۂ صدر سطور میں خوا ب کی ماہیت اور اُس کی تعبیر وتاویل کا جو خاکہ کھینچا ،گووہ
مختصر ہے لیکن اس میں سارے ضروری ابحاث آگئے ہیں۔ مگر یہ بیان اُس وقت تک بالکل نا تمام اور تشنۂ تکمیل سمجھا جائے گا جب تک شہسوارِ عرصۂ تعبیر یعنی امام محمد بن سیر ین رحمتہ اللہ علیہ کے ذاتی
حالات بھی روشنی میں نہ آجائیں ۔اس لئے ہم
یہاں مختصرً ا آپ کے وقائع حیات اسماء
الرّجال کی کتابوں سے اخذ کرکے
درج کرتے ہیں ۔تاکہ سماء تعبیر کےجس نیرّاعظم کی چمک
دمک قریباً سوہزار سال سے بڑےبڑے عماید ملّت
سے خراج ِ تحسین وصول کر رہی ہے ۔اس کے زندۂ جاوید عملی کا رناموں کی طرح اس کے عملی کمالا ت بھی بصیرت افرو زناظرین ہو سکیں۔
محمدّابن سیرین معبّر کی حیثیت سے
اُمّتِ مرحومہ میں اس پایہ کے لاکھوں
اولیا ء اللہ گزرے
ہیں جن کو حقائق ِ اشیا ء اور اسرارِ کائنات کا علم دیا گیا تھا۔ ان بر
گزیدہ ہستیوں میں جنہیں مقامِ قُرب میں
جگہ دی گئی ،امام محمد بن سیر ینؒ کی
شخصّیت ایسی زبر دست ہے ۔جس کی ذات میں مقام ولایت کے ساتھ ساتھ تعبیر خواب کا غیر معمولی
جو ہر بھی ودیعت تھا اور یہ
کہنا قطعاً مبالغہ نہیں ہے کہ ابن سیرین
رحمتہ اللہ علیہ کو تعٰبیر دانی میں
جوکمال حاصل تھا اس کی نظیر تا بعین اوراُن
کے زمانہ ما بعد میں تو کُجا صحابۂ کرام
رضون اللہ علیم اجمٰعین میں بھی
بمشکل مل سکتی ہے ۔آپ کے عہدِ حیات میں
اسلامی دُنیا کا یہ علم معمول تھا کہ جب کو ئی شخص ایسا خواب دیکھتا کہ علماء وصلحاء وقت اس کی تعبیر
سے قاصر رہتے تو انجام کا ر
محمد بن سیرینؒ کی طرف رجوع کیا جاتا۔ آپٌ
اس کی تعبیر دیتے وہ ایسی صائب اور
اٹل ہوتی کہ اس کا اثر ظاہر ہو نے پر
بڑے بڑے آئمہ وقت بھی آپ کے نورِ فراست کی داد دیتے تھے۔
بقول سیوطیؒ ،امام ذہبیؒ نے ہر
فن کے منتخب وبر گزیدہ عمائد کے ایک فہرست
مرتب کی ہے ، جس میں امام محمد بن سیرینؒ کو معبّرِ خصوصی سے یاد کیا ہے ۔ اس
فہرست کے چند نام یہ ہے :-
فن |
فن کی عمائدین |
تفیسر |
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ |
شجاعت |
حضرت خالد بن ولیدؓ |
تعبیر خواب |
محمد بن سیرینؒ |
وعظ و تذکیر |
امام حسن بصریؒ |
قرأت |
نافعؒ |
فقہ |
امام اعظم حضرت
ابو حنیفہؒ |
نحو |
سیبویہؒ |
فقہ حدیث |
امام شافعی ؒ |
سُنّت |
امام احمد بن حنبلؒ |
نقدِ حدیث |
امام بخاریؒ |
تصوّف |
جنیدبغداریؒ |
کلام |
امام ابو
الحسن اشعریؒ |
زندگی کا ابتدائی دور
محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ حضور
کون ومکان سیدا لمرسلین صلی اللہ علیہ
وسلم کے خادم جناب انس بن مالک رضی اللہ
تعالےٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔آپ کی دالدہ
صفیہ حضرت امیر المؤمنین ابوبکر
صدیقؓ کی لونڈی تھیں۔ آپ کی کنیت ابوبکر
تھی ۔ مدت سے حضرت انسؓ کےکاتب (پرائیوٹ
سیکرٹری )کی حیثیت سے نہایت دقیع خدمات
انجام دیتے رہے اور جب ہم دیکھتے
ہیں کہ ایک معمولی غلام جس کی
زندگی کا سارا ابتدائی زمانہ خدمت ِ آقا
میں گزرا اور جس کے لئےحصول رفعت وبلندی کے بظاہر کوئی سامان نہ تھے ،آسمانِ علم و
عمل پر عموماً اورتعبیر خواب پر خصوصاً
آفتاب بن کر چمکا تو خدائے ذوالمنن کی
شانِ نوازی پر حیرت ہوتی ہے ۔
آپ کا مولد و منشاء موضع جرجرایا تھا جو بصرہ کے موضافات میں ہے ۔وطنِ
مالوف کو چھوڑ کر بصرہ میں اقامت گزین ہُوئے۔آپ کے برادر خورد انس بن سیرینؒ کا
بیان ہے کہ میرے بھائی محمدبن سیرینؒ کا تو لد امیرالمومنین عثمان ذوالنورین رضی
اللہ عنہ کے حادثۂ شہادت سے دو سال پہلے ہُوا اور میری ولادت ان سے ایک سا ل بعد ہو ئی ۔
تقویٰ وخشیتِ الٰہی
امام محمد بن سیرینؒ بڑے زاہد ،مرتاض
۔ انتہادرجہ کے پر ہیز گار ،مشہور
تابعی اور امام گزرے ہیں۔ ابن عون کا قول ہے کہ میری آنکھوں نے تین حضرات کو بے مثل دیکھا اور کسی چوتھے بزرگ کوان کے برابر نہیں پایا۔"ابن سیرینؒ ،قاسم بن محمّد اور رجاء بن حبوہ۔" خلف بن
ہشام کا بیان ہے کہ محمد بن سیرینؒ کو کار پردازانِ قضا وقدر کی طرف سے حسنِ اخلاق
،خوش معا ملگی اور انکسارو فروتنی کی نعمت بدرجۂ اتم عطا ہوئی تھی اور اخلاقیِ حمیدہ اور خشیتِ الٰہی کی بدولت آ پ پر
یہ حالت طاری تھی کہ آپ کو
دیکھ کر خدا یادآتا تھا۔ اشعت کہتے ہیں کہ
جب ابن اسیرینؒ سے حلال و حرام کے متعلق
کو ئی مسٔلہ دریافت کیا جاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہو جاتا تھا۔ سفیان
ثوریؒ نے زہیرا قطع سے روایت
کی ہے۔کہ جب ابن سیرینؒ کے سامنے
موت کا ذکر آتا تو آپ کے اعضا ء و جوارح
بالکل مردہ وبے حسّ ہو جاتے تھے۔ مہدی
کہتے ہیں کہ ایک دن ہم ابن سیرینؒ کی مجلس
میں بیٹھے تھے۔علمی ندا کرے ہو رہے
تھے ،اتفاق سے کسی شخص نے موت کا ذکر
چھیڑدیا۔ معاً آپ کا چہرہ زرد پڑگیا اور
آپ سکرات کی سی حالت طاری ہو نے لگی
۔آخر جب تک ہم نے
آپ کی طبیعت کو بے تکلّف دوسری طرف متوجہ نہ کردیا۔آپ کی حالت نہ سنبھل سکی ۔ابن
حبانؒ محدّث کا قول ہے کہ آپ بصریوں میں
سب زیادہ متقی تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو امام حسن بصریؒ پر فو قیت دی ہے ۔
کمالِ تقویٰ کی نادر مثال
جس طرح حضرت یوسفِ صدّیق علیہ
والسّلام کو اپنے کمال تقویٰ کا خمیازہ سالہا سال کی اسیری میں
شکل میں بُھگتنا پڑا تھا ۔اسی طرح آپ کو بھی اسی تقویٰ کی بدولت سنتِ یوسفی پر عمل پیرا ہونے کی سعادت نصیب ہو ئی تھی۔ ابن
سعدؓ محدث کا بیان ہے کہ مَیں نے محمد بن عبد اللہ انصاری سے دریافت کیا کہ ابن سیرینؒ کس جرم میں زندانِ
بلا میں محبوس رہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ آپ نے چالیس ہزار درہم (قریباً دس ہزار
روپے)کا اناج بغرض تجارت خریدا تھا۔اس
خریداری کے بعد آپ کو معلموم ہُوا کہ
بائعہ نے اس اناج کی پیداوار بعض ایسے
طریقوں سے کی ہے ۔جو شرعاً مشکوک ہیں ۔آپ نے سارا غلّہ غرباء مساکین میں
تقسیم کردیا اور اس کی قیمت آپ کے ذمّے واجب الادا ہِ گئی اور چونکہ آپ اس قرضہ کو
بروقت ادا نہ کرسکے ۔قرض خواہ عورت نے آپ کےخلاف دعویٰ دائر کر دیا اور آپ کو
قید کر ادیا اور آپ اس وقت تک برابر سیر و
مقیدر ہے جب تک کہ ساری رقم ادا نہ کر دی ۔
ابن سیرینؒ کے اساتذہ و تلامذہ
جن صحابہ اور جلیل القدرتابعین سے آپ
کو نسبتِ تلمنّد حا صل ہے۔ شیخ ابن حجر عسقلانی ؒ نےان کے اسماء گرامی تہذیب
التہذیب میں یہ لکھے ہیں :
"انس بن مالک ،حسن ابن علی ابن
ابی طالب،جندب بن عبداللہ بجلی ،حذیفہ بن یمانی،رافع بن خدیج،سلیمان بن عامر،سمرہ
بن جندب،عبد اللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس ، عثمان بن ابی العاص،عمران بن حصین ،کعب
بن عجرہ،معاویہ بن ابوسفیان ابودردا،ابو سعید، ابوقتادہ،ابو ہریرہ ،ابوبکر ثقفی ،ام المؤمنین عا ئشہ
صدیقہ ،ام عطیہّ،حمید بن ابن عبدالرحمٰن حمیری،عبد اللہ بن شفیق
،عبدالرحمٰن بن بکرہ،عبیدۃ السلمانی ،عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ، عبیدۃ السلمانی
،عبدالرحمٰن بن بشر بن مسعود ، قیس بن عباد،کثیر بن افلح ،عمروبن وہب،مسلم بن
یسار، یونس بن جبیر،ابو مہلب ،جرمی اور ان کے بھائی مہلب اور یحییٰ ،حفصہ ،یحییٰ بن ابی اسحاق حضر
می اور خالد مذاء جو اسحاق حضرمی کے شاگرد تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ان کے
علاوہ بعض کبار تا بعین سے بھی روایت کی۔
تابعین اور تبع تابعین میں سے مندرجہ
ذیل حضرات نے آپ سے شرفِ تلمنّد حاصل کیا:-
شعبی،ثالث ،خالد خدا ،داؤد بن ابی ہند ،ابن عون ،یونس بن عبید،جریر بن حازم،ایوب
،اشعب بن عبد المالک ،حبیب بن شہید ،عاصم احول،عوف اعرابی،قتادہ،سلیمان تیمی،قرہ
بن خالد،مالک بن دینار ،مہدی بن میمون ،اوزاعی،علی بن زید بن جد عان وغیرھم رحمتہ اللہ
علیہم۔
عبداللہ بن احمدؒ نے اپنے والدِ محترم
امام احمد بن حنبلؒ سے روایت کی ہے کہ محمد بن سیرینؒ نے حضرت انسؓ ،عمران ؓ
،ابوہریرہؓ اور عبداللہ بن عمرؓ سے تو روایت کی،لیکن عبد اللہ بن عباسؓ سے کوئی
حدیث روایت نہیں کی ۔خالد خدا کا بیان ہے
کہ ہر وہ روایت جس کی نسبت ابن سیرینؒ نےکہا کہ مجھے ابن عباسؓ سے
پہنچی ،وہ انہوں نے عکرمہؓ سے سُنی تھی، جن سے آپ نے مختار ثقضفی کے ایام میں ملاقات کی تھی ۔امام بخاری ؒ کا
بیان ہے کہ امام محمد بن سیرینؒ نےحضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے عہد حکومت میں حج کیا
اور وہیں ابن زبیرؓ اور زیدبن ثابتؓ سے حدیث کی روایت کی۔
امام ابن سیرینؒ کی مسلّم الثبوت ثقاہت
شیخ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام ربانی محمد بن سیرین کامل العلم،ثقہ، پہاڑکی چٹان سے زیادہ
مضبوط ،علامۂ تعبیر،مملکت ورع وتقویٰ کے
سر تاج اورامام حسن بصریؓ سے بھی
زیادہ ثابت قدم اور مستقل
مزاج تھے ۔مورقؔ عجلی کا بیان ہےکہ مَیں نے کسی شخص کو محمد بن سیرینؒ سے بڑھ کر ورع میں افقہ اور فقہ میں محتاط نہیں دیکھا۔ابو قلاؔ نہ کہا
کرتے تھے کہ بھلا کس شخص کو اس کام
کی صلاحیّت ہے جو ابن سیرینؒ میں مودّع
ہے۔ وہ تو تلوار کی دھار پر قدم رکھ دینے والے بزرگ ہیں۔ شعبی کہا کرتے تھے کہ تم لوگ محمد بن سیرینؒ کی صحبت اختیار
کرو۔ابن عون کا بیان ہے کہ ابن سیرینؒ
حدیث کی روایت بالمعنی نہیں کرتے تھے۔بلکہ حرف بحرف ضبط کرنے کا اہتمام کرتے
تھے اور جب ہشّام بن حسانؒ آپ سےکوئی حدیث نقل کرتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ مُجھ سے ایسے بزرگ نے اس حدیث کی روایت کی ہے جسے مَیں نے اپنی عمر میں سب سے زیادہ
صادق البیان پایاہے۔
عجلی کا بیان ہے کہ محمّد بن سیرینؒ
تابعی ثقہ ہیں۔ آپ نے شریح اور عبیدہؓ کی سب سے زیادہ روایتیں نقل کی ہیں اور اُن
کو فیوں میں تربیت پائی ہے
جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شا گر د تھے۔ابن سعد نے لکھا ہے کہ محمد بن سیرینؒ ثقہ ،عالی قدر رفیع المنزلت
اور جلیل القدرا مام تھے۔ ابن المدینی کا قول ہے کہ ابو ہریرہؓ کے شاگرد چھ ہیں
۔ابن المسیبؒ،اعرجؓ ابوصالحہ،ابن سیرینؒ اور
طاؤسؒ،ابوقلاؔنہ کا قول ہے کہ محمد بن سیرینؒ کو جس حیثیت سے بھی جانچو
انہیں ہر حالت میں سب سے سے زیادہ مستقیم الاحوال،متقی اور نفس پر قابو
رکھنے والا پاؤگے۔" اور ابن عون کا
بیان ہے کہ مَیں نے ان حضرات کی مانند دُنیا میں کسی کو نہیں پایا۔عراق میں
ابن سیرینؒ ،حجاز میں قاسم بن محمد ؒ اور
شام میں رجا ء بن حبوہؒ او رپھر ان تینوں میں ابن سیرینؒ بالکل بے عدیل تھے۔ عثمان
تیمی کا قول ہے کہ بصرہ میں محمد بن
سیرینؒ سے بڑھ کر اعلم بالقضاء
کوئی نہیں گزرا۔
علم حدیث میں امام ابن سیرینؒ کا بلند
پایہ مقام
روایت حدیث کا مقدّس ترین اصول یہ ہے
کہ جو واقعہ بیان کیا جائے اُس شخص
کی زبان سے مذکورہو جو خود شریک واقعہ بیان کیا جائے یہ نفس نفیس حضرت فخرالمرسلین
صلی اللہ علیہ وسلّم کو کوئی کام کرتے یا ارشاد فرماتے دیکھا اور اگر بذاتِ خود بابر کت حضرت خواجۂ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلّم کو
کچھ فرماتے یا کرتے نہیں دیکھا ۔یا کسی
واقعہ میں خود موجود نہیں تھا تو تمام
راویوں کے اسماء گرامی بہ ترتیب بیان کئے
جائیں ۔اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا جائے
کہ یہ روات کیسے لوگ تھے؟ اُن کے دینی و دُنیا دی مشغلے کیا کیا تھے؟ تقویٰ وطہارت میں اُن
کا کیا رتبہ تھا؟ ذہن ،حافظہ، معاملہ فہمی
اور عقل وخرد کی کیا کیفیت تھی؟ ثقہ اور راست گو تھے۔یا غیر ثقہ ،دقیقہ بین تھے یا
بادی الرائے وسطی الذہن،عالم تھے یا جاہل؟
گوانِ جزئی حالات کا پتہ لگانا سخت مشکل بلکہ
نا ممکن کے قریب تھا۔لیکن ہزار یا محّدث کرام نے اپنی ساری عمریں اسی ایک
کا م میں صَرف کرکے اس ناممکن کام کو ممکن اور پیش پا افتاد ہ بنایا ۔یہ نفوس
قدرسیہ ایک ایک شہر اور قریہ میں
گئے۔روایوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے متعلق ابنائے
زمان سے ہر قسم کے معلومات بہم
پہنچا نے میں کسی شخص کے مرتبہ اور حیثیت کی کوئی پرواہ نہ کی۔والیانِ مُلک سے لے
کر مقدّس مقتداؤں تک کی اخلاقی سرا غرسانیاں کیں اور تنقیح حدیث کی خاطر ایک ایک
شخص کی پردہ دری ضروری خیال کی۔
امام محمد بن سیرینؒ محّد ثین کرام کی
اولو العزم جماعت میں صدر کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ نے خود روایت کی اور تحقیق و
تینقح میں خاص حصّہ لیا۔آپ نے ان خود
روایت کی کے علاوہ جو روایت حدیث میں عام طور پر
دیکھے جاتے تھے ۔ثقاہت کا ایک اور معیار بھی قائم کیا اور وہ یہ تھا
کہ صرف
فرقۂ حقہّ اہل سنّت والجماعت ہی
سے روایت لی جائے ۔روافض ،خوارج، معتزلہ اور دوسرے مبتدع فرقوں کے مرویات سے کوئی سروکار نہ رکھا
جائے۔
امام شمس الدین ذہنیؒ میزان الاعتدال
فی نقدالرجال کے مقدّمہ میں اُن ثقات کا ذکر
کرتے ہُوئے جن کی حدیثیں قابلِ استناد نہیں سمجھی گئیں لکھتے ہیں
کہ بروایت عاصم احوال امام محّمد بن سیرینؒ نے فرمایا ہے کہ اوائل میں حدیث کی
روایت میں اسناد کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ انجام کا رجب فتنے اُٹھے اور صالحین اُمت کی طرح اہلِ بدعت و
ہوانے بھی روایت حدیث شروع کردی،تو ہم نے حق وباطل میں امتیاز کرنے کےلئے یہ معیار
مقرر کیا کہ صرف اہل سنّت و جماعت کی حدیث
لی جائے اور اہلِ بدعت کے بیان کو قابِل تو جہّ نہ سمجھا جائے۔
واقعی تنقیح روایت
کا یہ ایک بڑا ضروری اصول تھا جو اختیار کیا گیا۔اگر اُس وقت یہ التزام نہ کیا
جاتا تو آج اصل و نقل ،صحیح وموضوع میں تمیز کر نا نا ممکن ہو جاتا۔
امام ابن سیرینؒ کی وفات
جن ایا م میں آپ کا آفتاب حیات لبِ بام تھا ۔آپ کائنات کی ہر چیز سے منقطع ہو کر ہمہ تن ذکر و عبادت
،تلاوتِ قرآن ،ریاضت و مجاہد ہ میں مستغرق
ہو گئے ۔اسی عزلت گزینی کے ایاّم میں
ایک مرتبہ آپ کا مزاج اعتدال سے بہت
زیادہ مخرف ہُوا۔ آخر ۹/شوال ۱۱۰ھ کے دن یہ آفتابِ علم و عمل دنیا کے اُفق سے غروب
ہو گیا۔اور تمام عالم میں تاریکی چھاگئی ۔حمادؔ بن زید کا بیان ہے ۔کہ امام حسن بصری نے یکم رجب ۱۱۰ھ کے روز رحلت
فرمائی مِیں اُن کی نماز جنازہ میں شریک تھا۔ اس حادثہ فُا جعہ کے پُورے سودن بعد ابن سیرین رحمتہ اللہ تعالےٰ علیہ نے
۷۷ سال کی عمر میں قضا کی۔
0 Comments