عرضِ نا شر-حیات
الحیوان
Arze Nashir- Hayatul Haiwan
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحیۡمؕ
اللہ تعالیٰ کے حضور تشکّر وامتنا
ن کے جذبا ت کے ساتھ علاّمہ دمیؒری کی شہرۂ آفاق کتاب''حیات الحیوان الکبریٰ ''
کا مکّمل اُردو تر جمہ ،مترجمین اور نا شرین کی سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد
حاضرخدمت ہے۔
علاّمہ کمال الدین محمد الدمیؒری
(۸۰۸ھ) اور''حیات الحیوان الکبری ٰ'' کے بارے میں تفصیلی مقدمات تو آپ اگلے صفحات
میں ملا حظہ فر ما ئیں گے۔ یہاں ان صفحات کے ذریعے کتاب کی اہمیت کے چند گوشوں کی
جانب توجّہ مقصود ہے۔
''عرضِ نا شر''کسی کتاب کے تعارفی مقدمات میں قاری ی نظر سے گُزرنے
والا سب سے پہلا اور درحقیقت لکھا جانے والا سب سے آخر ی مقدمہ ہو تا ہے۔ چنا نچہ
ان صفحا ت میں دیگر مقدما ت سے ہٹ کر کوئی
نئی با ت پیش کرنا کا رے دار ہوتا ہے اور اس فریضہ سے سبکدوش ہونا نہایت مشکل
ہے۔اس کے ساتھ سا تھ یہ بھی ہے کہ عموماً دیبا چوں اور مقدموں کی بھر مار قاری اور
اصل کتاب کے درمیان حائل ہو جا تی ہے اور اگر مضامین کی تکرار بھی ہو تو ان تمام
مقدمات کو پڑھنا صبر آزما کا م ہو کر رَہ جاتا ہے۔اس حقیقت کا پیش ِ نظر رکھنے کے
بادوجود ''حیات الحیوان '' کے سلسلے میں یہ نا گز یر محسوس ہُوا کہ مضامین کی تکرا
رسے بچتے ہُو ئے ان صفحات میں بعض ایسی معلومات شامل کردی جائیں جو اس کتاب پر کام
کے دور ان وقتاً سامنے آتی رہی ہیں اور جو اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اہلِ
علم کے لئے شاید کا ر آمد ہوں گی۔
''حیات الحیوان الکبریٰ '' اپنے
زمانہ تصنیف (۷۷۳ھ) سے اب تک اپنی متنّوع اور گونا گو ں خصوصیات کی بنا پر مقبول
عام رہی ہے اور مختلف زمانوں اور زبانوں
میں اس پر کام کیا جاتا رہا ہے۔چند مثالیں درِج ذیل ہیں:۔
تلخیصات:
کتاب
کی ضخامت کے پیشِ نظر مختلف ادوار میں اس کے انتخاب کئے گئے ۔اکثر تلخیصات کا ذکر
آئندہ صفحات میں مل سکے گا۔ اضافی چیزیں درج ذیل ہیں:
''حاوی الحسان من حیات الحیوان ''
کے نام سے ایک تلخیض حنفی العقیدہ عالم محمد بن عبدالقدیربن محمد الد میری نے کی
جس میں انہوں نے''اُردو'' کے عنوان کے تحت طویل تاریخی تفصیلی حذف کر دی
تھی۔''حاوی الحسان''کا عربی مخطوطہ ،پیرس لا ئبریری کے شعبہ مخطوطات میں موجو د
ہے۔
ایک اور تلخیص''عین الحیواۃ'' کے
نام سے محمد بن ابی بکربن محمد المخنرومی الد ما مینی المالکی نے کی جس کی تکمیل
۱۴/۱ شعبان ۸۲۳ھ کو ہُوئی ۔گو ما یہ تلخیص علامہ دمیرؒی کی
وفات کے محض پندرہ سال کے بعدہوئی ۔جیسا کہ اس تلخیص کے دیبا چے سے ظاہر ہو تا
ہے۔مؤلف علاّ مہ دمیؒری کے شاگردوں ہیں سے ایک تھے اور انہیں حیٰوۃالحیوان کے
مضامین خود علاّمہ دمیؒری سے سُننے کا موقعہ ملا تھا۔
جرمن مستشرق وسٹن فیلڈ (F-WSTENFELD) کے مطابق ایک تلخیص کے مخطوطے برلن اور پیرس وغیرہ میں موجود ہیں
لیکن چونکہ اُس نے اس تلخیص یا اس کے مؤلف کانام نہیں دیا اس لئے یقین سے کہا جا
سکتا کہ یہ مذکورہ بالا دونسخوں میں سے کو ئی ایک ہے یا کوئی علیٰحدہ نسخہ ہے۔
تراجم:
''حیات الحیوان '' کے تراجم دُنیا
کی اکثر بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
فارسی ترجمے کے ساتھ مصوّر ایڈیشن
ایران میں (غالباًتہران سے) طبع ہُوا تھا ۔اس کا ایک نُسخہ پیرس کی آرسینل (ARSENAL) لا ئبریری میں موجود ہے۔
تر کی زبان میں استنبول سے ۱۲۷۲ھ
میں تر جمہ شائع ہُوا ۔اس کی مزید معلومات فراہم نہیں ہو سکیں ۔فرانسیسی زبان میں (PETiT DE LA CROLX) نے اس کا تر جمہ کیا لیکن یہ طبع
نہیں ہو سکا۔
جناب محمد عباس فچّوری صاحب نے
اپنے فا ضلانہ مقدّمے میں اُردو تراجم کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ا س سلسلے میں
ضروری معلومات وہیں ملا حظہ فر ما ئیں
۔البتہ چو نکہ مولانا عبدالقدیر صاحب دیو بندی کا تر جمہ انہیں دستیاب نہیں ہو سکا
تھا اس لئے ا س کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہیں۔
یہ تر جمہ میری نظر سے گزراہے اور
اس کی ایک نقل احقر کے پاس موجود ہے۔مترجم کا مکمل نام محمد بن عبدالقدیر دیو بندی
ہے اور یہ تر جمہ نو لکشو ر،لکھنؤ سے ۱۳۲۴ھ (۱۹۰۶ء) میں طبع ہُوا تھا۔یہ ترجمہ
بھی در حقیقت حیواۃالحیوان کی تلخیص ہے
لغوی مبا حث ، اشعار ،اقوام وغیرہ اکثر وبیشتر محذوف ہیں اور جگہ جگہ عبارات
چھوڑدی گئی ہیں۔ تر جمے کی زبان اور اسلوب قدیم ہے اور زیادہ تر جمہ لفظی ہے۔
۱۹۰۶ء میں بمبئی سے حیات الحیوان
کا ایک انگریزی ترجمہ شائع ہُوا ۔اس تر جمے کی جلد اوّل احقر کی نظر سے گزری ہے
مترجم کا نام آئی جی ایس جیا کار(T-G-S-JAYARAR) تھا۔مترجم کا
تعلق بظاہر انگلستان کے ان فوجی افسران سے
تھا جو انڈین ملٹری سروس کے تحت خدمات انجام دے رہے تھے۔
یہ ترجمہ بھی درحقیقت ''حیات
الحیوان ''کی تلخیص ہے۔مترجم کے اپنے الفاظ میں :
''مَیں نے ترجم میں بیشتر عملیات
حذف کر دیئے ہیں سوائے ان عملیات کے جو قرآن کریم کی آیا ت پر مشتمل ہیں۔''
اسی طرح دمیری رحمتہ اللہ علیہ نے
جہاں کہیں ایسے اشعار نقل کئے ہیں جو زیرِ بحث عنوان سے غیر متعلق تھے ، مترجم نے
انہیں بھی اکثر مقامات پر حذف کردیا ہے ۔نیز ''وفیات الاعیان''(ابن خلکاؒن) کی وہ
عبارات جو علاّمہ دمیؒری نے نقل کی ہیں
اُن کے ترجمے کے بجائے مترجم نے محض وفیات الا عیان انگلش ترجمے (مترجم ڈی۔سلین DE-SLANE) کے حوالے نقل کر دینے پر اکتفا کیا ہے۔
''جیاکار ''نے ترجمے کے ساتھ ساتھ
مختصر حواشی بھی تحریر کئے ہیں جن کی ایک قابِل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ دمؒیری جن
جانوروں کا ذکر کر تے ہیں اُن کے بارے میں مترجم نے تحقیق کی ہے اور اگر کسی جا
نور کا معیّن طور پر علم ہو گیا ہے تو اُس کا موجود ہ سا ئنسی نام حاشیے پر تحریر
کر دیا ہے۔نیز بہت سے مقامات پر موجودہ علم الحیوانات (ZOOLOGY) کی رُوسے اس کی انواع اور مختلف عرف خطوں میں اُس کے موجود ہ نام
بھی دیئے ہیں۔یہ حواشی یقیناً موضوع سے متعلق اہم ہیں اور اسی کے پیشِ نظر احقر نے
ایسے مفید حواشی کو اُردو میں منتقل کر کے موجودہ ایڈیشن میں شامل کر دیا ہے۔ان
حواشی کی اصل قدروقیمت تو علم الحیوانات سے متعلقہ افرادہئ متعیّن کر سکتے ہیں۔
لیکن بظاہر یہ کتاب کے موضوع پر اہم اضافہ ہے۔
انگریز مترجم نے ترجمے کی شروع میں
ایک مبسوط مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں جہاں روایتی غیر مسلم مستشرقین کے متعّصبا
نہ ذہن کا بھر پورمظاہرہ کیا ہے وہیں بہت
سی مفید معلومات بھی دی ہیں۔ایسی معلومات سے احقر نے عرضِ نا شر کے ان صفحات میں
بہت مددلی ہے۔
مستشرقین نے''حیات الحیوان''کے
موادسے ایسی بے شمار تصانیف میں کام لیا ہے۔انگریز مترجم کے مطابق لین (LANE) نے اپنی عر بی لغت میں بو خارٹ (BOCHART) نے (HEIROFOICON) میں ،ہیزل (WEZEL) نے (CHRESTOM ATHIE
ARABE) میں ،ٹائچسن (TYCHSEN) نے (ELEMENTALE ARAB) میں اور اسی طرح دیگر متشرقین نے اہلِ عرب زبان وادب سے متعلق
موضوعات میں اس سے مدد حاصل کی ہے ۔
طباعت:
''حیات الحیوان ''پہلی بار عربی
زبان میں زیر سر پرستی خدیو سعید پاشا ،بلاق پریس قاہرہ سے ۱۲۷۵ھ(۱۸۵۸ء) میں اور
پھر ۱۲۸۴ھ میں طبع ہو ئی ۔۱۳۰۵ھ(۱۸۱۷ء) میں یہ میمونیہ پریس قاہرہ سے چھپی۔اس
ایڈیشن کے حواشی پر زکر یا بن محمد بن محمود القز وینؒی (۶۸۲ھ) کی کتاب ''عجائب
المخلوقات والحیوانات وغرائب الموجودات'' شامل کی گئی تھی ۔بعد میں ایران سے
''حیات ا لحیوان ''کاایک مصوّر ایڈیشن اور
اسی کا فارسی مصوّر ایڈیشن بھی شائع ہُوا ۔موجودہ زمانے میں مصر ،لبنان اور ایران
سمیت کئی ممالک میں متعد دبار شائع ہو چکی
ہے۔
حاشیہ:۔
۱ انگریز مترجم-جیا کاؔر کے مطابق یہ تلخیص
''نہرواں ''گجرات،پنجاب میں لکھی گئی۔
حیات الحیوان کتاب پر ایک مجمل نظر
''حیات الحیوان ''میں ۱۰۶۹ناموں کے
تحت جانوروں کاذکر کیا گیا ہے ۔اُن میں سے جن جانوروں کے حُلیہ اورتفصیل کا ذکر ہے
اُن کی تعداد ۷۳۱بتلائی جاتی ہے۔لیکن چونکہ بسا اوقات مختلف جانوروں کو ایک ہی نام
دیا گیا ہے اور متعد د جگہوں پر اس کے برعکس ایک ہی جانور مختلف ناموں سے ذکر کیا
گیا ہے اس لئے کتاب میں مذکور حیوانات کی
اصل تعداد متعیّن کرنا خاصا دشوار ہے۔ اس کے علامہ دمیؒری نے خلفاء کی تاریخ کے ذیل میں ۶۹ خلفا ء کا تذکرہ بھی
کیا ہے۔
موجودہ ایڈیشن
چند سال قبل جب مولانا عبدالقدیر صاحب کا تر جمہ (جس
کاذکرتراجم میں آچکا ہے)ہماری نظر سے گُزرا تو''ادارۂ اسلامیات ،لاہور''سے اس کی
جدید طباعت کا ارادہ کیا گیا ۔اصل دشواری ا س تر جمے کی زبان تھی جواکثر وبیشتر
لقطی تر جمے کی صورت میں قدیم اُردو اسلوب
میں لکھی گئی تھی۔ اسے جد ید انداز میں طبع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ زبان کی تسہیل کی جائے اور اسے با محاور ہ اُردو کارنگ
دے کرسلیس زبان میں منتقل کیا جا ئے ۔چنا نچہ احقر نے یہ کام شروع کیا اور بہت حد
تک مکّمل بھی کر لیا۔اسی دوران مولانا عباس صاحب اور مولانا محمد عرفان صاحب کے
جدید تر جمے کی اطلاعات ملتی رہیں۔لیکن اس ترجمہ کے کام کی رفتار اسقدر سُست تھی
کہ تکمیل کے لئے ایک عمر در کار تھی۔
کٹھن مرحلہ اس وقت پیش آیا جب یہ
علم ہُوا کہ جدید تر جمے کی اقساط اگر چہ کم طبع ہو ئی ہیں اور درمیان میں بہت
وفعہ کام بند بھی ہُوا ۔لیکن بہر حال مترجمین تر جمہ مکّمل کر چکے ہیں اور وہ غیر
مطبوعہ مسوّدے کی صورت میں محفوظ ہے۔یہ فیصلہ بہت دشوار تھا کہ آیا اپنا دو سالہ
محنت کا
کام ایک طرف رکھ کر جدید متر جمین کا وہ تر جمہ اختیار کر لیا جائے جو
مکّمل بھی ہے اور جس پر جدید حواشی بھی تحریر کئے گئے ہیں یا اپنی
محنت بردئے کار لاتے ہُوئے وہ تر طبع کیا جائے جو بہر حال تلخیص کہلا ئیگا۔
بالآخر جدید تر جمے کے حق میں فیصلہ
کرتے ہُوئے غیر مطبوعہ مسوّدہ منگوا کر مکّمل تر جمے کے خصوصی حقوقِ اشاعت حاصل کئے گئے اور ترتیب جدید کے
ساتھ اس کی از سرِ نو کتابت کرائی گئی۔اسی کے ساتھ احقر نے انگریز مترجم کے حواشی
کو بھی اُردو میں منتقل کر کے حواشی میں شامل
کر دیا۔ ایسے حواشی کے آخر میں انگریز متر جم کار(AJYAKAR) کا علامتی لفظ ''ج''درج ہے۔ یہ فٹ نوٹ علم الحیوانات (ZOOLOGY) کی رُو سے بہت سے حیوانات کے جدید سائنسی قانون ،اُ ن کی انواع اور مختلف عرب خطّوں میں
ان کے مختلف ناموں پر مشتمل ہیں۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
چنا نچہ اب موجودہ ایڈیشن آپ کے
ہاتھوں میں ہے اور اس کے مختلف مدارج میں درجِ ذیل اصحاب کی کاوشوں کا حصّہ رہا
ہے:۔
مترجمین:
مولانا محمد عباس فچّوری صاحب
۔مولانا محمد عرفان سرد ھنوی صاحب۔مولانا نثارا حمد گونڈوی صاحب
حواشی :
مولانا محمد عباس فتچوری صاحب ۔سعوداشرف عثمانی۔
''حیات الحیوان''کے سلسلہ میں ایک دوباتیں پیشِ نظر رہنا ضروری ہیں۔
اوّل۱؎
تو یہ کہ ''حیات الحیوان ''کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس پر حدیث،فقہ یادیگر بنیادی
اسلامی علوم میں سے کسی کا مدار ہو۔اور نہ یہ علوم ''حیات الحیوان ''سے مستنبط کئے
جاتے ہیں۔لہٰذا روایات ومسائل وغیرہ کے
ضمن میں مستند وغیرہ مستند کی بحث غیرضروری ہوگی۔
دوّم۲؎
یہ کہ ''حیات الحیوان ''اس اسلوب تصنیف کی نمائندگی کرتی ہے جس میں مصنّف کی ذمّہ
داری موضوع سے متعلق تمام دستیاب شُدہ مواد خواہ اس کی نوعیت کسی قسم کی ہو،یکجا
کر دیتے تک محدود ہوتی ہے اور وہ جانچ پڑتال اور چھان پھٹک کا کام آئندہ کام کرنے
والوں پر چھوڑ دیتا ہے۔چنانچہ اس نوعیت کی تصنیفات کی ہر روایت پر نہ مکّمل طور پر
اعتماد کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے مکّمل طور پر نا قابلِ اعتماد قرار دینا
چاہیے۔بلکہ اس کا مطالعہ اسی تناظر میں کرنا چاہیئے جس میں اس کے مصنّف نے اسے
تحریر کیا ہے۔
ان باتوں
کو پیشِ نظر رکھتے ہُوئے اُمید ہے کہ یہ کیا کتاب اپنے قاری کو بیش بہا معلومات
فراہم کر سکے گی ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ نا فع بنا ئیں اور مصنف
، متر جمین اور ناشرین کو اپنی رحمتو ں اور بر کتو ں سے مالا مال فر ما ئیں۔
سعود اشرف عثمان (اشرف برادران)
ادارۂ اسلا میات'انار کلی 'لاہور۲
ناشر:فرید بک ڈیپو، دریا گنج، دہلی،
بھارت
0 Comments