علمِ تعبیر کی
فضیلت صحابۂ کرام اور بزرگانِ دین کے اقوال سے
Ilme Tabeer ki Fazilat Sahaba-e-karam aur Buzrgan-e- Deen
ke Aqwal se
۱۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ سب سے پہلی
نعمت جو اللہ تعالےٰ نے آنحضرتؐ کو عطا فر مائی وہ یہ تھی کہ آپ نے خواب میں ایک مقرب فر شتے
کو دیکھا جو آپ سے اس طرح ہم کلام ہو
اکہ اے محّمد ! صلی اللہ علیہ وسلّم آپ کو
خوشخبری ہو کہ آپ کواللہ تعالےٰنے اپنے انبیاءکے گروہ میں ممتاز فرمایا ہے اور آپ
کو خاتم لانبیاء (آخری نبی) بنا یا ہے اور آپ کے حق میں خدا تعالےٰ نےیہ ارشاد
فرمایا ہے : وَ لٰکِنۡ
رَّسُوۡلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیۡنَ ہؕ یعنی محمد صلی اللہ وسلّم تمہارے مردوں میں سے کسی مر د کے باپ نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ کے رسول اور
آخری نبی ہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلّم بیدار ہوئے تو آپ نے اس کی تعبیر خوابِ نبوّت سے فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالےٰ عنہ کے اس قول سے
ثابت ہُوا کہ خواب ایک ایسی اعلیٰ و افضل
نعمت ہے جس کی بدولت حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کو پیغمبری کی بشارت ملی اور
جس کے ذریعے آپ کو مقرّب فرشتے (جبریل علیہ السّلام) کی زیارت حاصل ہُوئی تو جس علم میں ایسی افضل چیز کا ذکر ہو، لا محالہ وہ بھی افضل ہی ثابت ہُوئی۔ پس اس قولِ صحابی سے بھی علمِ تعبیر کی افضلیّت بخوبی ثابت ہو گئی ۔
۲۔ حضرت ہشام بن عروہؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ
انہوں (عروہؓ) نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جویہ مذکور ہے کہ لَھُمُ الۡبُشۡرَیٰ فِی الۡحَیوٰ ۃِ الدُّنۡیاَ یعنی ان نیک بندوں
کے لیئے اس دنیا کی زندگی میں بھی
بشارت (خو شخبری ) ہو تی رہتی ہے۔
اس آیت میں بشارت سے مراد نیک بندوں کا خواب ہی ہے۔ خواہ نیک بندہ خود کو ئی
نیک خواب دیکھے یا کوئی اور شخص اس کو خواب میں دیکھے۔ اس قولِ صحابی
سے بھی یہ امر بخوبی ثابت ہوگیا کہ خواب ایک ایسی اعلےٰ و افضل
چیز ہے جس کو قرآن میں بُشۡریٰ (خوش خبری ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خواب کی افضلیت سے علمِ تعبیر خواب کی افضلیت سے علمِ تعبیر خواب کی افضلیت بھی
بطریق سابق ثابت ہوگئی۔
۳۔حضرت ابن سیرین
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم تعبیر اور دیگر علوم میں یہ فرق ہے کہ علم کا طالب اس علم کے
اس اصول کے خلاف نہیں کرسکتا اور اس کا قیاس قابِل تعبیر نہیں ہو تا اور اس کو
تعبیر کا طریقہ معلو م نہیں ہو سکتا ۔ مگریہ
علم ایسا نازک ہے کہ اس کے اصول
ایک حالت پر قائم نہیں رہتے ۔ کیو نکہ لوگوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ بموجب ان کی شکل و شبا ہت اور صفت و دیا نیت اور ہمّت واعتقاد کے۔
اوقات کے اختلاف سے بھی
اس علم میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے
۔ کیو نکہ کسی وقت تو تعبیر مثل اور اصل کے ساتھ کرنی پڑتی ہے اور کسی وقت اس کی
ضد اور نقیض کے ساتھ کی جاتی ہے ۔کبھی
خواب درست ہو تا ہے اور کبھی نادرست۔
اس قول سے بھی یہ بات بخوبی ثابت ہو چکی کہ یہ علم بڑا
ہی لطیف اور نازک ہے اور یہ اظہرا من الشمس ہے کہ نازک چیز
اعلےٰ وافضل ہی ہُو ا کرتی ہے ۔
0 Comments