Aadhi Raat ka Suraj By Maulana Mufti Muhammad Taqui Uthmani|آدھی رات کا سورج-مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Aadhi Raat ka Suraj By Maulana Mufti Muhammad Taqui Uthmani|آدھی رات کا سورج-مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

 


آدھی رات کا سورج-مولانا مفتی محمد تقی عثمانی


Aadhi Raat ka Suraj By Maulana Mufti Muhammad Taqui Uthmani


آدھی رات کا سورج-مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِؕ

عرض ناشر

الحمد للہ  الزی نزَّل الفرقان وقال فیہ انّ فی خلق السمٰمٰوت ِ والارض وَاختلاف الّیل والنّھا ر لَاٰیٰت لَّاولی الا لباب الذین یذکرون اللہ قیاماً وقعوداً وعلیٰ  جنوبھم ویتفکّرون خلق السمٰوٰت والارض رَبَّنَاما خلقتُ مذابا طلاً سبحانک فَقِنَا عذاب النَّارِ وصلی اللہ علی سیدنا ومولانا  محمد وعلی آلہ وأ صحابہ وبارک وسلم۔

          جس دھرتی  پر ہم سانس لے رہے ہیں اور جس سورج کی کرنوں سے ہم متمتع ہو رہے ہیں،ان  میں کتنے ہی عجائبات ایسے ہیں جو احسن  الخالقین کی قدرت  کا ملہ  اور صنعت  غریبہ کی جانب غمّازی کرنے  والے ہیں۔

            قدرت کی ان  کر شمہ سازیوں میں سے بعض وہ ہیں ، جن سے ہم معتدل   ممالک (جہاں کے  ایام ولیا لی میں اعتدال  ہے) کے باشندے  واقف ہیں؛ اور بعض وہ بھی  ہیں  جن سے یا تو اُن  غیر متعدل  خطّوں کے مقامی  باشندے یا وہاں  کی زیارت کرنے والے معدودے چند  خوش نصیب  سیّا حوں،صحرا نوردوں اور مشتا قانِ  دانش  وبینش ہی خبر ہیں۔

            ہمارے  شکر یوں کے مستحق یہ ہی لوگ  ہیں جو مجھ  جیسے  دواں،کو تاہ  بینوں  اور پست ہمّتو ں کو بھی  گھر بیٹھے  ان سبھی خطّوں  کی سیر  کراتے  ہیں، اور وہ ساری قیمتی معلومات  مفت میں ہم پہنچا تے ہیں جن  کا ان  کے دیدۂ  بینا  اور چشم عبرت نے مشاہدہ  کیا اور ان کے دل ودماغ  نے ادراک  کیا۔

            اس تمہید سے میری  مراد بّر صغیر کے ممتاز  عالمِ دین اور فقیہِ بے  بدل اور مصنفِ با کمال حضرت مولانا''محمد تقی عثمانی مد ظلہ '' کی ذات گرامی  ہے، جو بجا طار پر آج کے ''ابن خلدون'' یا ''ابن بطوطہ '' یا ''ابن جبیر '' کہے جانے کے مستحق  ہیں؛ جنہوں نے دنیا کے اُس  آخری سرے کے ممالک (ناروے،سویڈن،فن لینڈ) کی سیر کی ؛ جن کا تذکرہ ہم فقہ وفتاویٰ  کی کتا بوں میں ''بُلغار اور قطب  شمالی  وجنوبی '' کے نام  سے پڑھتے  آئے  ہیں؛جہاں  کئی کئی  ماہ تک سورج طلوع  نہیں  ہوتا  اور مسلسل  رات  رہتی ہے ،یا پھر ڈوبتا ہی نہیں  ہے اور دن ہی دن  باقی رہتا  ہے۔وہاں  کی نماز  کا کیا حکم  ہوگا ؟ روزوں  کا کیا مسٔلہ  ہوگا؟  یہ سب ہم  طالب  علموں نے پڑھاتو ہے ؛ مگر ان ممالک  اور ان کے مسائل کی  تفصیلات سے نا بلد تھے۔

            ربَّ کا ئنات  جزائے  خیر دے ہمارے ممدوح  مد ظلہ ٗ  کو جنہوں  نے اپنے اس تاریخی  مبارک  سفر کی پُر  کیف ،نشاط انگیز  اور معلومات  افزاروئیداد''آدھی رات کا سورج ''کے نام  سے اپنے دارالعلوم کراچی  کے مؤ قرو علمی  جر یدے''البلاغ'' میں رقم فرمائی ؛ جس میں فقہ  اسلامی  کے ہر طالب علم  اور تاریخی   وجغرافیائی علوم کے ہر رَ سیا اور زبان وادب کے ہر شیدا کے لیے دلچسپی کا بڑا سامان  موجود  ہے۔

            ادھر ہندوستان  میں اس ماہنامے کا دائرۂ کا رنہایت محدود ہونے اور اس سفر  نامے کی افادیت  کے لا محدود ہونے  کے باعث  اور اس  کے مطالعے  کے مشتا قوں کی تعداد  کی کثرت کو  دیکھتے  ہوئے ''مکتبۂ صدیق '' نے یہ مناسب  جانا، کہ اس کی اشاعت  کا نظم  کیا جائے  ،چنانچہ  اللہ  کے نام پر اس  پورے  سفر  نامے کی با قاعدہ  عمدہ اور نفیس  کتا بت کر کے  اشاعت  کی جارہی ہے۔

            دعاء  ہے کہ اللہ  تعالیٰ مکتبہ  کی جملہ  نشریات کو قبول  فرمائے  اور اس کے فیض  کو عام  وتام فرمائے  اور اسے ہمہ  جہت  ترقی نصیب  فرمائے ،آمین۔

 

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِؕ

          الحمد للہ ربَّ العالمین،والصّلاۃ والسّلام علیٰ رسولہ الکریم،وعلیٰ الہ وصحبہ أجمعین۔

          رات کے بارہ بجے تھے،مگر سامنے افق  پر سورج  موجود تھا؛ اور اس کی روشنی نے ماحول پر اپنی  روشنی پوری طرح بکھیری  ہوئی تھی؛ہم شمال میں دنیا کے آخری  کنارے پر  تھے؛ اور سورج کے سامنے  ہوتے کے باوجود دنیا  کے اس آخری سر ےپر،عشاء کی اذان کہ کر نماز با  جماعت  ادا کر رہے تھے۔

            زندگی  کا یہ  انوکھا اور منفر د تجربہ ،میرے'' ناروے'' کے حالیہ  سفر میں پیش آیا ۔یہ یادگار دورہ  جس  میں مَیں  نے''ناروے،سویڈن'' اور فن لینڈ'' کا سفر کیا ؛ بہت  سے نئے  تجربات  اور متعدد نئی معلومات پر مشمتل  تھا؛ اس لیے  دل چاہا  کہ قارئین کو بھی اس سفر کے کچھ  حالات  سے باخبر  کیا جائے ؛ یہ سطور اسی مقصد کے تحت  سپر دقلم  کر رہا ہوں۔

            یورپ کے شمال  میں ایک جز یرہ نماہے، جسے جزیرہ نمائے''اسکینڈی نیویا'' (ScandinauianPeninsula )

کہتے  ہیں ؛ اور قدیم  تاریخ  میں اسے''اسکینڈیا'' کہا جاتا تھا۔یہ جزیرہ  نما ۱۱۵۰/میل  لمبا ہے؛اور اُس کا مجموعی  رقبہ ۲۸۹۵۰۰/مربع میل  ہے؛ اور اُس  کا کچھ  حصہ ''سویڈن'' اور کچھ ''ناروے'' میں ہے ؛اسی جزیرہ نما کی نسبت  سے  یورپ  کے تین شمالی ملکوں ''ناروے ،سویڈن''اور''ڈنمارک''کے مجموعے کو اسکینڈی نیویا  (Scand inavia) کہتے ہیں۔بعض  لوگ''جن لینڈ،آئس لینڈ''اور ''جزائر فیرو''کو بھی  ان کی جغرافیائی  مشابہت کی وجہ سے ،اسکینڈی نیویا میں ڈاخل کرتے ہیں؛لیکن ٹھیٹھ جغرافی نقطۂ  نظر سے اسکینڈی  نیویا میں ؛ناروے ،سویڈن اور ڈنماک ہی داخل  سمجھنے  جاتے ہیں۔البتہ  کچھ  عرصہ  سے ایک  اور اصطلاح شمالی  ممالک(Nordic Countries) استعمال  ہو رہی ہے؛ اس میں اسکینڈی  نیوین  ممالک  کے علاوہ فن لینڈ اور آئس لینڈ بھی شامل ہیں۔

            ان ممالک میں سے ناروے وہ ملک ہے،جو باقی  تمام شمالی ملکوں  کے مقابلے  میں شمال  میں زیادہ  آگے تک  گیا ہے؛ناروے کا جنوبی سر اشمال میں ۵۷/عرض  البلاد پر واقع ہے؛اور اس کا شمالی  سرا ۷۲/درجے عرض البلد پر؛بلکہ اگر''جزیرۂ سوالبرد''کو نظر میں رکھا جائے ،جو انتظاماً  ناروے ہی کے ماتحت ہے؛(اور جس کا ذکر  میں''اِنشاء اللہ'' آگے  کروں گا) تو اس کا انتہائی سرا۸۱/عرض البلد پر واقع  ہے؛یعنی قطب شمالی سے صرف  نَو ڈگر ی دور۔

            ''ناروے ''کا مجموعی رقبہ: ایک لاکھ  ،پچیس ہزار ،ستاون  مربع(۱۵۷۰۰۰) میل ہے؛ اور یہ پورا علاقہ  حسین  قدرتی مناظر ،پہاڑوں،دریاؤں ،آبشاروں اور جھیلوں  سے مالا مال ہے؛''برٹانیکا'' کے مطابق  ناروے  کی  چھوٹی ،بڑی  جھیلوں  کی کل تعداد  ایک لاکھ ،ساٹھ ہزار(۱۶۰۰۰۰) ہے؛قدرت نے اسے بہت سے وسائل عطا فرمائے ہیں: جن میں تیل،گیس ،لکڑی وغیرہ شامل ہیں؛ اتنے وسیع رقبے  اور اتنے وسائل  کے باوجود اس کی کل  آبادی  پانچ ملین (پچاس لاکھ) کے قریب ہے؛اور آبادی کی کثافت(Density) ۱۳/افرادفی  کیلو میٹر ہے؛لہذا جب اُن سہولیات کا ذکر  آتا ہے،جو ناروے نے اپنے باشندوں کو فراہم  کی ہوئی  ہیں؛ مثلاً : مفت علاج ،فیملی الاؤ نس ،بڑھاپے  اور معذوری  کی پنشن وغیرہ ؛تو اس کی وجہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں؛چنانچہ حال ہی میں اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے لحاظ سے،ناروے کو معیا ر زندگی کی بہتر  ی لحاظ سے دنیا کا نمبر ایک ملک قرار دیا گیا ہے۔

            ناروےکے مسلمانوں  کی دعوت پر پچھلے سال(۲۰۰۰ء) اگست کے پہلے ہفتے میں'میں نے اسکینڈی نیو یا کا ایک دورہ کیا تھا۔یہ دورہ دعوتی انداز کا تھا،جس کا بنیادی مقصد وہاں کے  مسلمانوں سے اصلاحی  خطابات،ان کے مسائل جاننا،ان کے حل کے لیے مشورے  پیش کرنا اور ان کے سوالات کے جواب دینا تھا؛ چنانچہ ناروے  کے دار الحکومت ''اوسلو'' میں میرے متعدد خطابات ہوئے؛یہاں کی مختلف مساجد کے علاوہ ۶/اگست ۲۰۰۰ء؁ کو ایک بڑے ہال میں مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع سے بھی خطاب ہوا جس کا  عنوان تھا''غیر مسلم ملکوں میں رہنے  والے  مسلمانوں  کی داریاں''نیز ۸/اگست کو شہر کے ایک  بڑے مرکز میں  ڈاکٹر وں  کے ایک بڑے  اجتماع  سے بھی  خطاب  کا موقع  ملا ، جس  میں مسلمانوں کے  علاوہ  غیر  مسلم مقامی  ڈاکٹر  کی بھی ایک بڑی  تعداد  موجود تھی:یہ خطاب  انگریزی  میں تھا ،اور  اس کا اہتمام مسلمان ڈاکٹر  وں  کی فرمائش  پر اس لیے کیا گیا  تھا، کہ  مسلمانوں  کو ہسپتا لوں  میں ان کی دینی ضروریات سے باخبر کرایا جائے؛غیر مسلم ڈاکٹر وں کو بھی بڑی تعداد  میں  اس  لیے دینی شعائر اور فرائض  کا خیال رکھ سکیں۔اجتماع کا اصل موضوع  اگر چہ اسی حد تک محدود  تھا؛لیکن میں سے اس موقع  کو غنیمت سمجھتے  ہوئے پہلے اسلام  کا مختصر  تعارف اور اس کے بعد بنیادی  عقائد  وتعلیمات   کا ایک خاکہ  بھی پیش کیا؛ اور اس کے بعد  مرض ،مریض اور اس  کے علاج سے متعلق  شریعت  کے احکام  قدرے تفصیل  کے ساتھ بیان  کیے؛ہال ڈاکٹروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،ان میں غیر مسلموں  کی تعداد  زیادہ تھی ؛اور ''اوسلو''شہر کے گورنر  بھی  اجتماع  میں موجود تھے ۔حاضر ین کے سوالات  سے اندزاہ  ہواکہ  انہو ں نے پوری  دلچسپی  اور توجہ سے یہ خطاب سناہے؛ اور غیر مسلم ڈاکٹر اس بات کے مشتاق  نظر آئے،کہ وہ اپنے مسلمان مریضوں  کے علاج  میں ان کے  دینی احکام کی رعایت کر سکیں ۔اجتماع کے خاتمے  پر بھی سوالات  کا سلسلہ  دیر تک جاری  رہا،اور متعدد حاضرین  نے بتا یا کہ اُن کے متعدد شکوک وشبہات کا ازالہ ہواہے۔

            ''ناروے '' کے اسکولوں میں عیسائی  مذہب  کی تعلیم  تمام بچوں کے لیے کچھ  عرصے سے لازمی کر دی گئی ہے،اور مسلمان بچے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں؛ اسی موضوع پر گفتگو  کے لیے یہاں  کے مسلمانوں نے کچھ اعتدال  پسند عیسائی پادریوں سے میری ایک ملاقات کا اہتمام  کیا تھا ۔۸/اگست ۲۰۰۰ء؁ کو ایک  پاکستانی  مسلمان  صدیقی  صاحب  کے ریسٹورنٹ  میں یہ ملاقات  ہوئی ؛اور اس  لحاظ  سے مفید  رہی کہ ان تمام  پادری  صاحبان  نے  اس بات کا اعتراف کیا ،کہ  مسلمانوں  کو عیسائی  مذہب  کی تعلیم  پر مجبور کرنا سراسر  زیادتی  ہے؛اور وہ اس پابندی  کو اٹھوانے میں مسلمانوں  کے ساتھ  تعاون  کریں گے۔

            ''اوسلو'' میں مسلمان بچوں  کی تعلیم  کے لیے ایک مسلم  اسکول  کی بنیا د ڈالی  جارہی  تھی؛میں مغربی ملکوں  کے دورے میں اس قسم کے تعلیمی  اداروں کے قیام پر ہمیشہ زور  دیتا رہا ہوں ؛ اس اسکول  کی انتظامیہ  نے نصاب ونظامِ تعلیم  پر مشورے کے لیے مجھے مدعو کیا تھا؛ وہاں بھی جانا ہوا؛ میں نے نصاب کی ترتیب  میں حسب  استطاعت  ان کی مدد کی؛ اور  پاکستان آنے کے بعد بھی ان حضرات کی طرف سے مشور ے لینے کا سلسلہ خط وکتابت کے ذریعے جاری رہا۔

            ''اوسلو'' کے علاوہ ایک دن  کے لیے میں  ڈنمارک کے دارالحکومت''کوپن ھیگن'' بھی گیا؛ یہاں  مولانا سلطان  فاروق  کے زیر انتظام  اسلامک  کلچر  سنٹرکی  مسجد میں  جمعہ  کے بعد مفصل خطاب ہوا؛ پھر ایک دن کے لیے سویڈن  کے دارالحکومت  ''اسٹاک  ہوم''بھی جانا ہوا؛جہاں چودھری  محمد اخلاق  صاحب  کے زیر انتظام ایک مقامی مسجد  میں ایک  جلسۂ  عام سے خاب اور سوال وجواب  کی مفصل  نشست  ہوئی۔

            پچھلے سال میرے اس تمام  تر دورے کا انتظام  میرے عزیز دوست ڈاکٹر خالد  سعید صاحب  نے کیا  تھا،جو ''اوسلو'' کے مسلمانوں  میں جانی پہچانی شخصیت ہیں؛میں نے  ان میں ہمشہ  جو ش  اور ہوش  کا حسین  امتزاج  محسوس  کیا؛ اور انہیں سنجیدہ  مگر باذوق،بُر دبار  مگر  فعّال پایا ہے ؛دورے کے مصروف  پروگرام کے دوران انہوں نے''اوسلو'' اور اس کے مضافات  کی سیاحت  بھی کرائی ؛اور مجھے ''ناروے'' کی آدب وہوا، گرمیوں  میں یہاں  کا موسم اور یہاں کی پُر سکون  فضا ،مغربی دنیا کے کسی اور ملک سے زیادہ پسند آئی ؛اور یہاں کے قیام کے دور ان مجھے اپنی صحت پر اچھا اثر محسوس  ہوا۔

            چنانچہ امسال جب میرے بعض  معالجین  نے مجھے تاکید کی، کہ میں  اپنی معمول کی مصروفیات سے ہٹ کر کم از کم  دو ہفتے کسی پُر فضا جگہ  پر گزاروں ،تو میں نے اس کام کے  لیے''ناروے'' کو سب سے زیادہ  موزوں  سمجھا ؛میرے دوست ڈاکٹر  خالد سعید  صاحب  پہلے ہی مجھ سے اصرار  کر چکے تھے۔کہ میں گرمیوں  کے کچھ ایام وہاں گزاروں ؛چنانچہ امسال میں نے اللہ تعالیٰ  کے نام  پر ارادہ کرلیا،کہ دارلعلوم  میں امتحان  ششماہی کے دوران ،میں دو ہفتے ''ناروے''اور اس کے قریبی  ملکوں  میں گزاروں  گا؛۱۶/جولائی  اور یکم  اگست کو ''لندن ''میں مجھے دواجلاسات  میں شرکت کرنی تھی؛ ان دونوں اجتماعات کی درمیانی  مدت ''ناروے'' میں گزار نے  کے لیے ملے گئی۔

            ۱۶/جولائی کو لندن میں فرسٹ اسلامک انو یسٹمنٹ  بینک  کے شریعہ  بورڈ  کے اجلاس میں شرکت کے بعد ،میں  ۱۷/جولائی  کی سہ پہر  میں''ناروے'' کے دارالحکومت ''اوسلو'' پہنچ گیا؛ میرے میزبان دوست ڈاکٹر  خالد  سعید  صاحب مدنی مسجد کے امام  وخطیب   جناب مولانا  بشیر صاحب ،اور ''ناروے'' میں پاکستان  کے سفیر  استقبال  کے لیے موجود تھے؛ میرے گھر والے بھی چونکہ اس سفر  میں  ساتھ تھے،اس لیے''اوسلو'' کے ایک مضافاتی علاقے (Mortensrud) میں جہاں  پا کستانیوں  کی ایک  بڑی تعداد  آباد ہے،ایک خالی مکان میں رہنے کا انظام ڈاکٹر خالد  سعید  صاحب نے کر رکھا تھا۔

            اسی  شام  چھ بجے مولانا بشیر صاحب  نے مدنی  مسجد  میں''اوسلو'' کے علماء  کا ایک  اجتماع بلایا ہوا تھا ؛الحمدللہ  ''اوسلو'' شہر میں اس  وقت پندرہ  بیس مسجد  یں ہیں؛ان میں سے بعض پاکستانی ائمہ  کے زیر  انتظام  ہیں،اور بعض  عرب علماء  کے؛ مولانا  بشیر  بر زنجی  بطور خاص  ایک نمایاں شخصیت  تھے؛ میں پچھلے  سال بھی ان سے مل چکا تھا اور ان کی مسجد میں عربی میں میرا خطاب بھی ہوا تھا؛وہ  ایک  علم  دوست اور مطالعے کے شوقین  بزرگ  ہیں؛ ان کے  علاوہ ''صومالیہ'' کے بعض ائمہ وخطباء بھی اس اجتماع  کا مقصد یہاں  کے بعض فقہی مسائل پر مشورہ کرنا تھا؛ یہ سلسلہ تقریباً  گھنٹہ بھر جاری  رہا؛ جو خواتین  اپنے شوہروں کے ظلم وستم  کا  شکار ہو کر نکاح فسخ  کرانا چاہتی ہیں، اُن کا مسٔلہ  بطور خاص  زیر بحث  آیا؛ اور میں نے یہ تجویز پیش کی، کہ یہاں کے ائمہ  مساجد پر مشتمل  ایک کمیٹی  تشکیل دے دی جائے ،جو ایسی  خواتین کی شکایات سُنے  ؛ اور شرعاً اس بات کی گنجائش  موجود  ہے، کہ جن  ملکوں میں مسلمان قاضی  نہ ہوں ،وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت ایسی شکایات  کے موقع  پر قاضی  کے قائم  مقام  ہوکر،شکایات کا ازالہ  کرے؛ جس کا مفصل  طریقہ  حکیم الامت  حضرت  مولانا اشرف علی صاحب تھا نویؒ  کی کتاب''الحیلۃ الناجزۃ'' میں موجود ہے۔

            میری اس تجویز سے سب  نے اتفاق  کیا؛ اور الحمد للہ اسی مجلس میں ایک کمیٹی تشکیل  دے دی گئی ،جو نہ  صرف اس مسٔلے  کے لیے ؛بلکہ مسلمانوں کے دوسرے  مسائل کے لیے بھی باہمی مشور ے سے کام کرے گی۔

            عصر کی نماز اس وقت وہاں ساڑھے سات بجے شام  ہورہی تھی؛ چنانچہ اجتماع کے بعد  عصر کی نماز ہوئی ؛نماز  کے بعد بھی کچھ دیر تک سوال وجواب  کا سلسلہ جاری رہا؛ اور ساڑھے آٹھ بجے کے قریب  میں وہاں  سے واپس  اپنی  قیام گاہ پر پہنچ سکا؛لیکن غروب  آفتاب  اُن  دنوں  ساڑھے دس  بجے ہو رہا  تھا ؛ اس لیے مغرب کی نماز  میں دو گھٹنے  باقی تھے جو میں نے اپنی  قیام گاہ پر ''معارف القرآن'' کے  ترجمے کے کام  میں استعمال کیے۔

 

اوسلو کی رات

            ساڑھے  دس بجے  سورج غروب ہوا  ،تو ہم نے نماز  مغرب ادا کی؛لیکن ''اوسلو'' کا معاملہ یہ  ہے، کہ گرمیوں کے پورے موسم میں یہاں شفق  ساری رات غائب  نہیں ہوتی؛ بلکہ تقریباً تما م رات اس قسم کا جھٹپٹا رہتا ہے، جیسا ہمارے ملکوں میں مغرب کے آدھے  پون گھنٹے  بعد یا صبح  صادق کے آدھے  گھٹنے  بعد ہوا کرتا ہے؛رات کے جس حصے  میں دیکھتے  آسمان  پر سفیدی نمایاں نظر آتی رہتی  ہے؛اور افق  پر سرخی بھی اکثر غائب نہیں ہوتی 'اس کی وجہ یہ ہے یہاں  سورج  رات  میں کسی  بھی وقت افق سے ۸ادرجے  نیچے  نہیں  جاتا؛ بلکہ  شمال مغرب  میں غروب ہو کر  شمال  مشرق  سے طلوع  ہو جاتا ہے۔

            شرعاً عشاء  کا وقت اُس وقت شروع  ہوتا ہے، جب شفق  کی سفید ی یا کم از کم  سرخی  افق سے غائب ہو جائے ؛چونکہ''اوسلو''میں  ساری گرمیوں  میں شفق  غائب  نہیں ہوتی؛ اس لیے اس کا مطلب  یہ ہے،کہ یہاں عشاء کا معروف  وقت آتا ہی نہیں ؛''ناروے ،سویڈن  اور فن لینڈ'' میں تو یہ صورت گرمی کے پورے  موسم  میں( یعنی ۷/اپریل سے ۳/سمتبر تک) بر قرار رہتی  ہے؛  لیکن  یورپ  کے بعض  دوسرے  ملکوں  میں بھی  گرمی کے موسم  کا کچھ  زمانہ  ایسا آتا ہے؛جب رات  کو شفق  غائب  نہیں ہوتی اور عزاء کا معروف  وقت نہیں آتا؛چنانچہ  ''لندن'' میں ۲۵/مئی  سے ۱۷/جالائی  تک،''ایڈنبرا،اور گلاسگو''میں ۵/مئی سے ۷/اگست تک،اور''پیرس  ''میں ۱۱/جون سے یکم  جولائی  تک  شفق  غائب  نہیں ہوتی۔

            سوال یہ ہے کہ ان مقامات  میں عشاء اور فجر کی نماز یں کس وقت پڑھی جائیں؟ عشاء کا معروف  وقت تو اس لیے نہیں آتا،کہ شفق  ساری رات رہتی  ہے؛ اور فجر  کا مسٔلہ  بھی  اس لیے قابل  غور ہے،کہ  فجر  کا وقت صبح  صادق  طلوع  ہونے  سے ہوتا ہے؛ اور معروف  معنی  میں صبح  صادق کا طلوع اس وقت کہا جائے گا،جب اُس سے پہلے مکمل  تاریکی ہو؛ لیکن  یہاں  مکمل تاریکی تو ساری رات نہیں ہوتی؛اس لیے صبح صادق  کے بارے میں بھی یہ طے  کرنا مشکل ہے،کہ وہ کب سے شروع ہوئی؟۔

            ایک  زمانہ تھا جب ان علاقوں میں مسلمان آباد  نہیں تھے؛اس لیے  اس مسٔلے  کی کوئی  عملی اہمیت نہ تھی؛ لیکن جوں جوں مسلمانوں کی آبادی شمال میں ۴۸عرض البلد سے آگے بڑھتی ،یہ سوال فقہائے  امت کے سامنے  آیا؛ اور اس پر علمائے  امت  نے مفصّل  بحث کی۔

 

بُلغار کا تعارف

          میری معلومات  کی حد  تک یہ مسٔلہ  سب سے پہلے ،عباسی خلافت کے دور میں شمال   کے ایک شہر''بُلغار'' کے سلسلے  میں پیش آیا؛یہ شہر ۵۵ درجہ  عرض  البلد ۶۶ /درجہ طول البلد پر واقع  ہے؛ مقتد رباللہ  کے زمانے  میں ایک مسلمان بزرگ  جن کا نام ''بلار''تھا اس شہر میں پہنچے تو دیکھا ،کہ شہر کا بادشاہ اور ملِکہ دونوں  سخت بیمار ہیں؛ اور زندگی سے مایوس  ہو چکے ہیں؛''بلار'' نے اُن سے کہا کہ : اگر میں آپ کا علاج  کر دوں ،تو کیا آپ  میرے دین (اسلام ) کو قبول کرلیں گے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا؛ اللہ تعالیٰ کا کرنا  ایسا ہوا،کہ اُن  کے علاج  سے بادشاہ  اور ملِکہ  دونوں تندرست  ہو گئے؛اور ''بلار'' کے ہاتھوں  مسلمان  ہوئے؛اُن کے مسلمان  ہونے کے نتیجے  میں شہر کے تمام  لوگوں نے اسلام قبول کر لیا؛اور  مقتدر باللہ کے پاس  پیغام  بھیجا ،کہ ہمارے  پاس کوئی ایسا شخص  بھیجے ،جو ہمیں دین اسلام  کی تعلیم  دے سکے۔

            ''بلغار'' کے قریب''خزر'' کے علاقے کا بادشاہ غیر  مسلم تھا؛ اس نے بُلغار  کے بادشاہ اور باشندوں  کے اسلام  کی خبر سنی،تو  ایک لشکر جرّا رلے کر''بُلغار'' پر حملہ کردیا؛ بلا رنے بُلغار کے  لوگوں سے کہا،کہ ڈرو نہیں ؛اور اللہ  اکبر،اللہ اکبر کہہ کر  دشمن  کا مقابلہ کرو؛ اس طرھ دونوں لشکر وں  میں مقابلہ  ہوا؛ اور''خزر'' کے بادشاہ  کو شکست  ہوئی ؛بعد میں اُس  نے''بُلغار'' کے حکمران سے صلح کر لی ؛اور اس وقت اُس نے بتایا کہ؛ جنگ کے دوران  میں نے آپ کے لشکر میں شہابی  گھوڑوں پر سوار  کچھ  غیر معمولی  بڑے لوگ دیکھے تھے؛  جو میرے ساتھیوں  پر حملہ آور تھے۔بُلا  رنے کہا کہ: یہ اللہ  تعالیٰ  کا بھیجا ہوا لشکر تھا؛……………..چونکہ یہ پورا  شہر’'بُلار'' کی دعوت  پر مسلمان ہوا تھا؛ اس لیے اس شہر کا نام  بھی''بُلار'' رکھ دیا گیا جو  ہوتے ہوتے ''بُلغار ''بن گیا(۱)۔

            (۱) …..یہ واقعہ  علامہ  قزوینیؒ  نے آثار البلادواخبار العباد(ص۶۱۳،۶۱۲) میں بیان  کیا ہے  بلغار کی  مفصل  تاریخ یہیں  کے ایک باشندے  محمود  الرمزی  ۱۲۴۹ صفحات  میں لکھی  ہے جو ۱۳۲۵ھ؁ میں تلفق  الأ خبار تلقیح  الآثار  کے نام  سے شائع  ہوئی ہے۔

            مشہور ادیب اور مؤرخ ''قلقشندیؒ '' نے '' بُلغار'' کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :''بُلغار '' کے اکثر  باشندے حنفی ہیں؛ اس میں سردی کی شدّت  کی وجہ  سے کسی  قسم کے پھل یا پھل  دار درخت نہیں  ہوتے'………سلطان  عمادالدین حمودی  کا کہنا ہے کہ ''بُلغار''کے  بعض  باشندوں  نے مجھے  بتایا کہ:گرمیوں  کے شروع  میں وہاں شفق  غائب  نہیں ہوتی؛ اور وہاں کی رات  بہت چھوٹی ہوتی ہے'…………… کیونکہ ۵ء۴۸عرض  البلد  اور اس  سے آگے  کے علاقوں  میں گرمی کے شروع میں شفق  غائب  نہیں ہوتی(۲)۔

            (۲) .....صبح  الاعشی (ص۴۶۲ج ۴)

            واضح  رہے کہ یہ شہراب بھی اسی نام  سے معروف  ہے؛ اور جمہوریہ تتارستان  کے شہر''قازان'' سے ۲۴۷ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے؛رابطہ العالم الا سلامی  کے نائب  سیکر یٹری شیخ ناصرالعبودی  نے یہاں  کا سفر  کیا ہے؛ اور اس کا سفر  نامہ بھی بلاد التتار والبغار''  کے نام  سے شائع  ہواہے ؛اور بتایا ہے کہ اب بھی سرکاری کا غذات  میں یہ شہر '' بُلغار'' ہی کہلاتا ہے؛ اور یہاں سے بڑے بڑے  علماء  پیدا  ہوئے ہیں۔

            خلاصہ  یہ کہ ''بُلغار'' میں اسلام  پھیلنے  کے نتیجے  میں یہ سوال  فقہائے  امت کے سامنے آیا ۔کہ جن علاقوں  میں رات کو شفق غائب  نہیں  ہوتی ،وہاں  عشاء  اور فجر کی نمازوں  کا  کیا حکم  ہوگا؟ فقہا ء کی ایک جماعت  کا موقف  یہ تھاکہ :نمازوں  کی فرضیت  اُن  کے اوقات  کے ساتھ مربوط ہے؛ لہذا جس جگہ کسی خاص نماز  کا وقت نہیں آتا؛ وہاں وہ نماز بھی  فرض  نہیں  چنانچہ  ان حضرات  کا کہنا یہ تھاکہ: ان علاقوں  میں جب شفق غائب  نہ ہو،  عشا کی نماز فرض ہی نہیں ہوتی(۳) لیکن  فقہائے کرام کی بھاری  جمعیت  کا کہنا  یہ ہے کہ: شفق  کے غائب  نہ ہو  نے سے عشاء  کی نماز ساقط  نہیں ہوتی؛ بلکہ ان مقامات  کے لوگوں کو اوقات   کا حساب  کر کے عشا اور فجر کی نمازادا کرنی چاہیے (۴) علمائے شافعیہ  نے اور محقق  حنفی علمانے بھی اس کو راجح  قرار دیا ہے؛ جن میں البر ھان  الکبیر  ،محقق ابن  ہمام ؒ ،علامہ  ابن  امیر الحاجؒ  اور  علامہ  قاسم  بن  قطو بغاؒوغیرہ داخل ہیں؛ علامہ ابن ہمامؒ نے ''فتح  القدیر '' میں اس قول کی تائید بڑی  قوت کے ساتھ کی ہے ؛علمائے  مالکیہ  میں سے علامہ  قرافیؒ نے بھی  اسی کو ترجیح  دی ہے۔(۵)

            (۳) …….یہ قول شمس  الائمہ  حلوانیؒ اور بقائیؒ کی طرف  منسوب  ہے  اور علامہ شرنبلانیؒ نے بھی اس کو ترجیح دی  ہے ردالمحتار(ص۳۶۲ج۱)

            (۴)…….مغنی المحتاج(ص۱۶۳ج۱)

            (۵)……الصاوی علی الدودیر (ص۲۲۵ج۱)

            متا خرین حنفیہ  میں سے ایک بزرگ علامہ  ہارون بن بہاؤ والدین مرجانی (متوفی ۱۳۰۶ھ؁) گذرے ہیں؛ جس کا نام ہے''ناظور۔ۃ الحق فی فرضیۃ العشاء وان لم یغب الشفق'' اس رسالے کا ایک قلمی  نسخہ ''پیر  جھنڈو'' کے کتب خانہ میں موجود ہے؛ اور وہیں سے تصویرلے کر ایک دوست نے مجھے  بھی بھیج  دیا تھا؛ اس رسالے میں  انہوں نے پوری  شدت کے ساتھ  ان لوگوں کی تروید کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ؛ایسے  علاقوں  میں عشاء کی  نماز فرض  ہی نہیں  ہوتی ،اور  قرآن وسنت  کے بڑے مستحکم  دلائل سے  ثابت کیا ہے ،کہ ان پر نماز عشاء فرض ہے، جو انہیں اوقات  کا حساب  لگا کر ادا کرنی چاہیے؛میں نے اپنی کتاب''تکملۃ فتح  المھلم''کی  چھٹی جلد(س۳۷۶تا ۳۷۸) میں اس رسالے  کے اقتباسات نقل  کیے ہیں ،اور ثابت کیا ہے کہ یہی موقف  صحیح ،اور واجب العمل  ہے؛ اس کی تائید ایک حدیث  سے بھی  ہوتی ہے، جو میں ان شاءاللہ آگے  ذکر کروں گا۔

            بہر صورت ! صحیح موقف یہی ہے، کہ عشاء اور فجر کی نمازیں  ان علاقوں  میں بھی  فرض ہیں؛ البتہ  ان کی ادائیگی  کے لیے  اوقات  کا تعین  حساب  سے کیا جائے گا؛ اب حساب  لگانے  ک مختلف طریقے  فقہائے کرام  ؒ نے بیان  فرمائے ہیں:

            پہلا طریقہ:۔ یہ ہے کہ ان  علاقوں کے قریب جس شہر میں شفق  غائب  ہوتی ہو،جب وہاں عشاء کا وقت  آجائے۔اُس وقت ان علاقوں   میں بھی عشاء پڑھی  جائے ،اور جس وقت وہاں فجر کا وقت  ہو اُس وقت یہاں بھی فجر کی نماز ادا کی جائے۔

            دوسرا طریقہ:۔یہ ہے کہ ان علاقوں میں جس دن آخری بار شفق غائب  ہوئی، اُس دن عشاء کا وقت تھا وہی  وقت اُس موسم میں بھی  عشاء کا  سمجھا جائے ،جب شفق غائب نہیں ہوتی ؛نیز اُس دن فجر  کی نماز کا جو وقت تھا، اُسی وقت اس موسم  میں بھی فجر کا وقت  سمجھا جائے۔

            تیسرا طریقہ:۔ یہ ہے  کہ ان علاقوں میں شفق  اگر چہ ساری  رات موجود رہتی  ہے ؛لیکن اس کی سمت تبدیل ہوتی  رہتی ہے؛ یعنی  : رات کے آغار میں شفق  مغرب میں  ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ شمال  کی طرف منتقل ہوتی  چلی جاتی ہے؛یہاں تک کہ  مشرق تک پہنچ جاتی ہے؛ لہذا  بعض  علماء  نے یہ خیال  ظاہر کیا ہے کہ، جب تک شفق  مغرب  کی طرف مائل رہے ،اُس وقت تک عشاء کا وقت  سمجھاجائے ؛اور جب وہ مشرق  کی طرف  زیادہ جھک جائے اس وقت  سے فجر کا آغاز  سمجھا جائے ؛اس کا آسان  طریقہ  یہ ہے کہ  غروب آفتاب  سے طلوع  آفتاب تک کے وقت کو دوحصوں  میں تقسیم  کر لیا جائے ؛ پہلا  حصہ  مغرب اور عشاء کا مشترک  وقت  ہوگا ،اور دوسرا  حصہ فجر کا ہوگا(۶)

            (۶) ……ناظوتہ الحق ،درق ۸۶

            جب  سے مسلمان ان علاقوں  میں جا کر آباد ہوئے  ہیں،وہاں انہی تین طریقوں  میں سے کسی طریقے  پر عمل  کر رہے  ہیں؛ برطانیہ کے بعض  علاقوں  میں پہلے طریقے  پر ،اور  بعض  میں تیسرے  طریقے پر عمل  ہوتا ہے؛ اوسلو کی بیشتر  مساجد میں عشاء کی نماز ،مغرب  کے سَوا گھٹنے  بعد، اور فجر   کی نماز  طلوع   آفتاب  سے ایک گھنٹہ  ،یا آدھا  گھنٹہ  پہلے ہو رہی  تھی؛ جس روز میں اوسلو پہنچا ،اُس دن میں نے بھی نماز اسی ترتیب  کے مطابق  اداکی ؛لیکن اس طریقے میں عشاء اور فجر  کا درمیانی وقفہ  اتنا کم ہو تا ہے، کہ بیچ  مین سونا  اور پھر فجر کے لیے  اٹھنا  بہت  سے لوگوں کے لیے  نا قابل  عمل ہو جا تا  ہے؛ لہذا  گنجائش اس کی بھی ہے کہ(تیسرے  طریقے  کے مطابق ) جب غروب اور طلوع  کے درمیانی  وقفے  کا نصف  گزرجائے  ،تو اُس  وقت فجر  پڑھ  کر سوجائیں ؛ اوسلو  میں  یہ وقت رات کے تقریباً ڈیڑھ  بجے  ہو رہا تھا؛ چنانچہ بعد میں اس طریقے  پر عمل  کرتے  ہوئے،بار ہا ہم نے بھی  نماز فجر  دو بجے  کے قریب  اُس  وقت اداکی ،جب  شفق کی روشنی  طلوع   آفتاب کی سمت  میں  ظاہر ہو گئی۔

 

اوسلو کا قیام

            ۱۸سے ۲۱ /جولائی  تک  ہم اوسلو ہی میں  مقیم  رہے؛اس موسم  میں یہاں کی فضا  مجھےبہت خوشگوار اور نشاط انگیز محسوس  ہوتی ہے،خاص طور سے رات کے  وقت  فضا پر  چھایا  ہوا مغرب  کا ساجھٹپٹا  ،آسمان  پر پھیلی  ہوئی سفیدی  اور تر وتازہ  ہوا کے جھو نکے ،اور ان کے نتیجے میں چیڑ  کے بلند قامت   درختوں  میں ،پتوں  کی مترنم  سر سراہٹ بڑی سرورانگیز معلوم ہوتی ہے؛ ہمارے  قیام  کا انتظام  جس مکان   میں  تھا وہ بلند ی پر واقع تھا؛ اور اس  کے بر آمدے سے سامنے سر سبزوادیوں کے نیچے  سمندر کی ایک  خلیج  نظر  آتی تھی؛  اور اس کے  پس منظر میں شاداب پہاڑ رات کے وقت جب بیشتر افراد سوئے  ہوتے ،اور ہمیں  نماز کے انتظار میں جاگنا ہوتا ،تو اس  پُر سکون  ماحول  میں چہل  قدمی عجیب  لطف  دیتی  تھی۔

            اوسلو کے اس تین روزہ قیام  کے دور ان  ہمارے  میز بان  ڈاکٹر  خالد  سعید  صاحب نے ،شہر اور اس  کے مضافات  کے متعدد قابل  دید  مقامات  کی سیر بھی کرائی ؛ان  میں سے  ایک جگہ جو''درامن''(Dramen) کے نام  سے مشہور  ہے، بطور خاص  قابل  ذکر ہے؛ یہ اوسلو شہر سے تقریباً ۵۰/۵۵ میل کے فاصلے  پر واقع  ایک  چھوٹا  سا شہر  ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ  نے  اسے قدرتی مناظر کے غیر  معمولی  حسن سے نواز  ہے؛ یہ شہر  آمنے   سامنے  کے دو پہاڑ  وں  پر آباد  ہے، جن کے درمیان  ایک دریابہہ  رہا ہے ؛ اور دریا پر تھوڑے تھوڑے  فاصلے  سے پُل  بنا کر شہر کے دونوں حصوں کو ایک  دوسرے سے ملا  یا گیا ہے؛ ان دو پہاڑ وں میں سے ایک   پہاڑ  کا  پیٹ چاک کر کے،اُس کے بیچ  میں ایک عمودی سُرنگ بنائی  گئی ہے، جو پہاڑ کے اندر  اندر سے ایک زینے  کی شکل میں اوہر چڑھتی ہے،اور پہاڑ کی چوٹی   تک لے جاتی ہے؛ اس سُر نگ  میں داخل  ہونے کے بعد کار کو کسی  جگہ  موڑ نا نہیں پڑتا؛بلکہ اسٹیر نگ کو ذراتر چھا  رکھا جائے  ،تو کار سُرنگ  کے ساتھ  ساتھ  خود مڑتی  رہتی  ہے، یہاں  تک کہ پہاڑ  کے اوپر  نکل  آتی ہے؛پہاڑ  پر پہنچنے کے بعد  خاصی  طویل وعریض  مسطح  زمین ہے، جس کے کنارے سے شہر، دریا،پہاڑ وں ،پُلوں،فواروں اور جنگلوں کا ایک ایسا دلفریب  منظر  سامنے  آتا  ہے، کہ انسان  بے ساختہ  پکار اٹھتا ہے''تبارک اللہ احسن الخالقین''اس چھوٹے  سے شہر  میں بھی مسلمان  آباد  ہیں،اور یہاں انہوں نے دو مسجد یں بنائی  ہوئی ہیں۔

            ''اسلو '' کے مضافات  اس قسم  کے حسین مناظر  سے بھرے  پڑے ہیں؛ یہ پہاڑی علاقہ  ہے، جس پر حد  نظر  تک چیڑ  کے بلند  قامت  درخت  سایہ کیے  ہوئے ہیں؛اور سبز ے  عالم یہ ہے ،کہ غیر  آباد علاقوں  میں ایک  گز جگہ  بھی خشک  نطر نہیں  آتی؛اس پر پہاڑی  ندیوں  نے آبشاروں کی سی  شکل اختیار  کر کے،اور سمندری خلیجوں نے پہاڑوں کے درمیان  اپنی جگہ  بنا  کر ،علاقے کے حسن  کو چار چاند لگادیے ہیں؛ اوسلو کے اس تین روزہ قیام میں ڈاکٹر  خالد  سعید  صوحب  کی معرفت ،ہم  ان خوبصورت مناظر  فطرت سے اچھی  طرح لطف  اندوز ہوئے۔

 

ترمسومیں

          ۲۱/جولائی کی شام کو چھ بجے ہم ہوائی جہاز کے ذریعے  ناروے کے شمالی شہر'' ترمسو'' (Trumso) کے لیے روانہ  ہوئے ؛اور تقریباً  دو گھنٹے کی پر واز کے بعد''تُرمسو'' کے ہوائی  اڈے پر  اُتر ے یہ شہربذاتِ خود اپنے حُسن کی وجہ  سے بھی قابلِ  دید ہے؛لیکن ہم لوگوں کے لیے اس کی خصوصیت  یہ تھی،کہ یہ اسکینڈی نیویا  کے ان چند  بڑے  شہروں میں سے ہے ،جہاں مئی سے لے کر جولائی  کے آخر ی ہفتے  تک سورج  بالکل  غروب  نہیں ہوتا؛بلکہ  تقریباً تین مہینے  تک دن ہی دن رہتا ہے؛ اور سردیوں کے موسم میں تین  ماہ تک سورج  طلوع  نہیں ہوتا؛ اور رات رہتی  ہے؛ جس تاریخ(۲۱/جولائی) کو ہم وہاں پہنچے  وہ شہر میں سورج  غروب  نہ ہونے کا غالباً آخری  دن تھا؛ ہم شام  کے تقریباً  آٹھ  بجے وہاں  کے ہوائی اڈے  پر اُترے  تھے ؛ دن کی روشنی سے ایسا  معلوم  ہوتا تھا جیسے  وہ سہ پہر  کا وقت  ہو؛ چنانچہ  ہم نے عصر کی نماز وہاں  پہنچ کر نو بجے کے قریب  پڑھی ؛اور کھانا کھانے کے بعد  کچھ آرام کر کے جب رات  کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ہوٹل  سے نکلے ،تو اُس وقت  ماحول  پر  ایسی روشنی چھائی تھی جیسی ہمارے  ملکوں  میں عصر کے بعد ہوتی ہے۔

            ''ترمسو'' شہر کا منظر کچھ اس  قسم کا ہے کہ ایک  پہاڑی سلسلہ  اُس کے مشرق میں ہے، اور ایک پہاڑی سلسلہ  مغرب  میں؛ ان دونوں  کے درمیان ایک مستطیل  جزیرہ  ہے؛ جس کے چاروں  طرف سمندر  ی خلیجوں  کا پانی  پھیلا ہواہے ؛تر مسو شہر کی اکثر آبادی تو اس مستطیل جزیرے میں واقع ہے؛ لیکن کچھ آبادی مشرقی پہاڑ   کے دامن تک چلی گئی ہے؛ اور جزیرے کو مشرقی  پہاڑ  سے  ملانے  کے لیے  ایک خوبصورت محرابی پُل  بنا ہوا ہے ؛اس پل  کو پار کر کے مشرقی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائیں ،تو وہاں  سے مغرب کا افق بہت صاف نظر  آتا ہے؛ اور رات کے بارہ بجے لوگ  یہاں آدھی رات کا سورج(Midnight Sun) دیکھنے کے لیے  جاتے ہیں ؛ہم بھی اسی غرض سے اس مشرقی پہاڑ کے دامن میں پہنچے؛اور ایک  کیبل کار کے ذریعے  پہاڑ کی چوٹی  پر پہنچے ،تو رات کے بارہ بج  رہے تھے؛ اس چوٹی  کے کنارے  سے پورے تر مسو شہر کا حسین نظارہ نظر  کے سامنے تھا؛ پہاڑ کے بالکل نیچے  سمندر  اور پُل کے پار دور تک پھیلا ہوا شہر،اس کے پیچھے  پھر سمندری پانی اور اس کے بعد مغرب کا پہاڑی سلسلہ ،جس کے درمان رات کے بارہ بجے  بھی سورج اپنی روشنی بکھیر رہا تھا؛ اگر چہ اُس دن مغرب کا افق قدرے ابر آلود تھا؛ اس لیے سورج  کا اپنا جسم تو نظر نہ آسکا ؛ لیکن اُس سے نکلنے  والی  شعاعوں نے بادلوں کے کنارے سنہر ے بنائے ہوئے تھے؛ اور اُس کی روشنی  سے پورا  ماحول  اتنا منور تھا ، جتنا صبح کو طلوع آفتاب کے بعد ہوتا ہے؛ رات کے بارہ بجے سورج مغربی افق پر جتنا  نیچے آیا تھا،یہ اس موسم میں اُس  کاسب  سے نچلا نقطہ  تھا؛ اور بارہ  بجے کے بعد غروب  ہوئے  بغیر  شمال کی طرف  مائل ہو کر دوبارہ  بلند ہونا شروع کر دیتا ہے۔

            صورت حال  دراصل یہ ہے کہ ''ترمسو''شمال  میں تقریباً ستر درجے عرض البلد پر واقع ہے؛اور قطب شمالی  سے قریب ہونے  کی بنا پر یہاں  سورج  کی گردش  تر چھی (حمائلی) ہے؛ چنانچہ  سورج کبھی  سر پر  نہیں آتا ،بلکہ افق کے کناروں کناروں سے اس طرح  گزر جاتا ہے، کہ رات کو بارہ بجے کے بعد وہ شمال کی طرف چل  کر بلند ہونا  شروع ہوگا؛ اور شمال  سے مشرق  تک  پہنچتے  پہنچتے  کافی  بلند ہو جائے گا، لیکن جب دوپہر کو مشرق کی طرف اپنے بلند ترین نقطے پر پہنچ جائے گا،تو جنوب  کی طرف  مائل ہوتے ہوئے نیچے آنا شروع ہو جائے گا؛ یہاں تک کہ بارہ شمال کی طرف اپنا سفر شروع کردے گا؛تین  مہینے یہاں  اس کی گردش اسی طرح رہتی ہے، جس کا نتیجہ  یہ ہے  کہ یہ علاقہ تین ماہ تک رات کی تاریکی سے نا آشنا رہتا ہے؛ اور رات  کو بارہ بجے دن کی روشنی زیادہ سے زیادہ  اتنی مدّھم ہوتی ہے۔جتنی  ہمارے ملکوں میں غروب سے کچھ پہلے یا طلوع  کے کچھ بعد  ہوا کرتی ہے؛لہٰذاان تین ماہ میں یہاں رات دن کا تعین روشنی اور اندھیر ے  سے نہیں ،بلکہ گھڑی کے گھنٹوں  کے حساب سے ہوتا ہے؛ چنانچہ جس وقت کو میں رات  کے بارہ بجے کہ رہا ہوں،اس کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ عام معمول کے مطابق  رات کے اندھیرے کا وقت ہے،بلکہ مطلب  یہ ہے کہ اس  وقت گھڑیوں میں رات  کے بارہ بج رہے ہوتے ہیں؛اگر چہ دن کی روشنی اس وقت بھی موجود ہوتی ہے اور دور تک کی چیزیں  اسی  طرح صاف نظر آتی ہیں جیسے  ہمارے ملکوں میں مغرب سے آدھے گھنٹے  قبل نظر آتی ہیں۔

            ہم جب ''تر مسو'' کے مشرقی  پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے ،تو اصطلاحی  معنی میں رات کے  بارہ  بجے تھے، اور اُس وقت سورج مغربی افق  پر اپنے سب سے نچلے نقطے پر پہنچ چکا تھا؛ لیکن بارہ بجے کے بعد اُس نے شمال کی طرف مائل ہو کر دوبارہ بلند ہونا شروع کردیا ؛آدھی  رات کے وقت سورج کی یہ کر شمہ  کاریاں اور اس کی پھیلائی  ہوئی روشنی  میں اس حسین  شہر کے گردوپیش منظر اتنا دلفریب تھا، کہ اس پہاڑ کے کنارے پر جو نظارہ گاہ (View Point) بنی ہوئی ہے وہاں  سے ہٹنے کو دل نہ  چاہتا تھا؛  لیکن  شدید  سردی کی برفانی  ہواؤں  نے تھوڑی دیر  بعد ہمیں مجبور کر دیا،کہ ہم شیشے کی دیواروں سے سورج کی اس نقل وحرکت کا نظارہ کریں؛ریسٹورنٹ کے اندر بھی سورج کی پھیلائی ہوئی روشنی  پہنچ رہی تھی، مگر چونکہ اصطلاحی اعتبار سے رات کے ساڑھے بارہ بجے  تھے؛ اس لیے مالکان  نے تکلفا میزوں پر شمعیں روشن  کی ہوئی تھیں؛لیکن ان کی حیثیت سورج کے آگے چراغ  سے زیادہ نہ تھی۔

            رات کے ایک بجے ہم اس پہاڑ کی چوٹی سے اُتر ے اور دوبارہ ہوٹل کی طرف  روانہ ہوئے ،تو سورج چونکہ شمال کی طرف بلند ہو چکا تھا؛ اس لیے اس کی روشنی بھی اُس سے زیادہ  پھیل گئی تھی ،جتنی ہم نے ساڑھے گیارہ بجے یہاں آتے ہوئے دیکھی تھی؛ یہاں ہم چونکہ  نمازیں  اوسلو کے حساب  سے پڑھ  رہے تھے،اس لیے اوسلو کے حساب سے فجر  کا وقت ہونے میں تقریباً آدھا گھنٹہ  باقی تھا؛ میں نے یہ آدھا گھنٹہ اپنی تیز رفتار چہل قدمی کا معمول پورا  کرنے میں  استعمال کیا؛ ہمارا ہوٹل ایک سمندر کے کنارے  کنارے چلتا رہا سمندر  میں  کچھ عجیب قسم  کی مچھلیاں  کھلاریاں  کر رہی  تھیں، وقفے  وقفے  سے وہ اچھل  کر سمندر سے باہر  آتیں  ،اور چند ہی لمحوں  میں دوبارہ سمندر  میں غوطہ  لگا کر سمندر  میں پانی  کا خوبصورت  دائرہ پیدا کر دیتیں؛دور تک پھیلے  ہوئے سمندر  میں ان  کی اچھل  کود کی آواز اور ان کے بنائے ہوئے دائرے مچھلیوں  کی ایک پر یڈکا منظر  پیش کر رہے تھے؛  برسوں  پہلے  اس سے ملتا  جلتا  منظر  میں نے  عمرے کے ایک بحری سفر میں صبح  کے وقت بحیرۂ عرب  میں بھی  دیکھا تھا،کہ ہزاروں  مچھلیاں  بیک وقت سمندر  سے اچھل کر باہر نکلتیں  اور دوسرے  ہی لمحے  ایک ساتھ اندر چلی جاتیں ؛اس وقت  جاننے  والوں نے بتایا تھا کہ یہ مچھلیاں  طلوع آفتاب  کے وقت سورج کی کرن لینے کے لیے یہ عمل  کرتی ہیں،لیکن کیا بعید ہے کہ یہ اس سمندر ی مخلوق کی طرف  سے صبح  کی عبادت  کا کوئی  انداز ہو؛ قرآن  کریم نے فرمایا ہے،وَاِن مَّنۡ شَیءٍ اِلَّایُسبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَلٰکِن لَّا تَفۡقَھُوۡنَ تَسۡبَیۡحَھُمۡ۔

            دو بجے کے قریب ہم نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی اور اس کے بعد سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں  میں پہنچے ،کمرے کی کھڑکی  سمندر  پر کھل  رہی تھی اور وہا ں  سے سورج  کی روشنی  کمرے میں اس  طرح پھیلی  ہوئی تھی،جیسے صبح کے ساتھ آٹھ  بجے کا وقت  ہواور اس روشنی میں ہر لمحہ اضافہ  ہو رہا تھا؛لہٰذا سونے  کے لیے کمرے میں مضموعی  اندھیرا  پیدا کرنے کے لیے کھڑکی  بند کر کے اس پر پردے ڈالے؛لیکن  پر دے  چونکہ ہلکے  رنگ کے تھے اس لیے رات جیسے  اندھیرا پھر بھی  نہ ہو سکا؛ اور اگر جسم  بیس  گھنٹے  جاگنے کے بعد  تھکن  سے چور نہ  ہو چکا ہوتا،تو نیند لا ناسخت  مشکل ہو جاتا ؛قرآن کریم آیت یاد آئی''أَرَأَیۡتُم اِنۡ جَعَلَ اللہُ عَلَیۡکُمۡ النَّھارَسَرۡمَداً اِلیٰ یَوۡمِ الۡقِیامَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُاللہِ یَأۡ تِیۡکُمۡ بِلَیۡلٍ تَسۡکُنُوۡنَ فِیۡہ ''ذرابتاؤ! کہ اگر اللہ تعالیٰ  تم پر ہمیشہ  ہمیشہ  کے لیے قیامت تک دن ہی مسط  رکھے ،تو اللہ  کے سوا کون معبود  ہے جو  تمہارے  لیے وہ  رات لے آے جس میں تم سکون  حاصل کرو۔

            اُس وقت احساس  ہواکہ  رات کا اندھیرا  بھی  اللہ تعالی  کی کتنی بڑی نعمت ہے ،جو ہمیں روزانہ  حاصل  ہوتی ہے مگر اس نعمت کا نہ احساس ہوتا ہے نہ شکر ادا کرنے کی توفیق ؛جس علاقے میں اس  وقت ہم تھے وہ تو مجموعی دنیا کے لحاظ  سے ایک شاذا استثناء  کی حیثیت  رکھتا ہے؛ جہاں  انسانوں  کی آبادی  بھی بہت کم ہے لیکن پوری دنیا میں اللہ تعالی  نے دن  اور رات میں  سونے جاگنے کا ایسا  نظام  بنا دیاہے، کہ سونے  کا وقت  آتا ہے تو ماحول پر تاریکی  مسط  کردی  جاتی ہے،اور تمام انسانوں کو بیک وقت نیند  کی طرف مائل  کر دیا جاتا ہے ؛میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  صاحبؒ کے بقول :کیا تمام دنیا کے انسانوں  نے کسی عالمی  کا نفرنس  کے ذریعے  یہ فیصلہ کیا تھا، کہ سب لوگ رات  کے وقت  سویا  کریں؟ یہ کیوں  ممکن  نہیں تھا کہ  ایک شخص  سونا چاہے اور دوسرا  شخص اُس وقت اپنی  نیند پوری  کر کے وہ کام  کرنا چاہے، جس کے شور سے پہلے  شخص  کے لیے سونا ممکن  نہ ہو؟ وہ کون ہے جس نے ایک خطے پر سب انسانوں کو ایک ہی  وقت میں سونے پر آمادہ کر دیا''فَتَبَکَ اللہُ أَحۡسَنُ الۡخَالِقِیۡنَ''۔

          بہر کیف !کمرے میں  مصنوعی  رات کر کے ہم سوگئے  چونکہ نماز فجر پڑھ  کر سوئے تھے، اس لیے صبح  آٹھ  بجے تک سوتے رہنے کا جواز پیدا ہو گیا تھا اور اس طرح دو بجے تک  جاگنے کے باوجود چھ گھنٹے کی نیند پوری ہو گئی۔

            ہمارے میزبان اور اس سفر  میں ہمارے  رہنما ''ڈاکٹر  خالد  سعید  صاحب  '' کمسٹری  میں پی  ایچ ڈی ہیں  اور اسلو کے ایک ایسے  ادرے کے قابل افسر ہیں ، جو مختلف لیبارٹریوں  کے معیار صحت کا جائزہ لیتا رہتا ہے؛ اس کام کے لیے  انہیں  ناروے ہی نہیں  یورپ  کے ددسرے ملکوں  کی لیباٹریوں  کا جائزہ لینے  اور ان کی تحقیق  کرنے کے لیے بکثرت سفر  کرنے پڑتے  ہیں؛ اسی مقصد  کے لیے وہ ہر سال کئی بار''ترمسو''آتے رہتے  ہیں، اور یہاں  کے حالات  سے بخوبی  واقف ہیں، انہوں نے بتایا کہ ''ترمسو''میں  ایک عجائب گھر(میوزیم) ہے جو قطب شمالی  اور اس کے آس پاس  کے علاقوں  کے عجائب  وغرائب گھر''کے نام سے مشہور ہے،اور قابل  دید ہے۔

            یہ میوزیم ہماری  قیام گاہ سے زیادہ  دور نہیں تھا، اس لیے ہم پیدل ہی اس کی طرف  چلے ؛بتایا گیا تھاکہ ''ترمسو'' میں مسلمان بھی آباد ہیں،اور میری خواہش  تھی کہ یہاں کے کسی مسلمان سے ملاقات ہو،اور اس سے یہاں کے مسلمانوں کے بارے میں کچھ معلومات ہوں، کہ وہ یہاں  کس طرح  رہتے ہیں؟ کوئی مسجد  ہے یا نہیں ؟ غیر معتدل  ایام میں وہ نمازیں  کس طرح پڑھتے  ہیں؟ وغیرہ  اور خیال یہ تھا  کہ میوزیم  دیکھنے  کے بعد کسی مسلمان سے مسجد  کا سراغ  لگائیں گے؛لیکن میوزیم  جاتے ہوئے جب ہم ایک سڑک  سے گزرے جس پر دورُویہ  دکانیں  تھیں،اور  ایک پنساری  کی دکان (Grossery) کے دروازے  پر لگے ہوئے بورڈ میں کچھ  عربی الفاظ  کا شبہ ہوا، ابھی ہم وہ بورڈ دیکھ ہی رہے تھے کہ اندر سے دوکان دارے''السلام علیکم'' کہا ہم نے چونک کر دیکھا کہ''اِنَّی بِأَرۡضِکَ السّلام ''تو دکان کے کاؤنٹر پر ایک عرب نو جوان کھڑا نظر آیا جو ''الجزائر'' سے تعلق  رکھتا تھا؛ ہم بے ساختہ دوکان میں داخل ہوگئے ؛اس نے بتایا کہ یہاں  مسلمانوں  کی خاصی  تعداد آباد  ہے، جس میں زیادہ  تر''صومالیہ'' کے عرب ہیں اور بعض  دوسرے ملکوں کے حضرات بھی ہیں؛ اسی نے بتایاکہ ''ترمسو'' میں ایک مسجد بھی ہے؛اور جن ایام میں یہاں مسلسل دن یا مسلسل رات رہتی ہے، ان ایام  میں نمازیں  اوسلو کے اوقات نماز کے حساب سے پڑھی جاتی ہیں؛ اور ابھی ایک تبلیغی جماعت بھی یہاں  کا دورہ کر کے گئی ہے،اس مسلمان سے مل کر ایک روحانی  مسرت حاصل ہوئی۔

 

قطب شمالی کا عجائب گھر

          اس کے بعد ہم پولر میوزیم میں داخل ہوئے ،اس کا پس منظر یہ ہے کہ پندرہویں  اور سولھویں صدی عیسوی سے قطب شمالی  کی طرف  سائنسی  اور جغرافیائی  تحقیق اور سیاحت کی غرض سے جو مہمات جاتی رہی ہیں، ترمسو کا شہر ان تمام مہمات کا نقطۂ آغاز رہا ہے یعنی یہ تمام مہمات ترمسو کی بندرگاہ  سے روانہ ہوتی تھیں ؛یہیں  سے اس مقصد  کے لیے جہاز خرید ے یا کرائے  پر لیے  جاتے تھے، اور ان  مقاصد  کے لیے مزدور اور کارکن بھی ترمسوہی سے حاصل کیے جاتے تھے؛ قدرتی طور پر جب یہ مہمات قطب شمالی کا دورہ کرنے کے بعد واپس لوٹتیں ،تو سب سے پہلے ترمسو ہی کی بندرگاہ پر آکر اترتی تھیں؛لہٰذا مہمات کے نتائج  سب سے پہلے اسی شہر میں پہنچتے تھے؛ چنانچہ کسٹم کے ایک گودام کو جو ۱۸۳۰ء؁ میں تعمیر ہوا تھا،۱۹۷۶ء؁سے ان نتائج کے مُتحف (میوزیم) کی شکل دے دی گئی ہے جو ان مہمات کی یادگاروں اور ان کے دوران حاصل شدہ عجائب پر مشتمل ہے؛ قطب  شمالی سے قریب ترین جزیرہ''سوالبرڈ'' (Svalbard) ہے،اور اس میں بعض  پڑے خوفناک درندے مثلاً :برفانی ریچھ پائے جوتے ہیں  جو انسان کو زندہ نہیں چھوڑتے،لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ِانسان کو دماغ ایک ایسی نعمت عطافرمائی ہے، کہ وہ اس سے کام لے کر اپنے سے کئی کئی گُنا مضبوط  جانوروں کو  مسخر کر لیتا ہے؛ چنانچہ جو مہم جُو قطب شمالی کی طرف گئے ،انہوں نے برفانی  ریچھ  کو شکار کرنے کے طریقے بھی ایجاد کر لیے؛ اسی پولرمیوزیم میں ایک شخص کی یادگاریں محفوظ ہیں جس کا نام ہنری روڈی(Henry rudy)  تھا اور جسے برفانی ریچھوں  کے بادشاہ کا خطاب دیا گیا تھا؛اس کا محبوب ترین مشغلہ برفانی ریچھو ں کا شکارتھا،اور اس نے ۱۹۰۸ء؁سے ۱۹۴۸ء؁ تک کے درمیانی عرصے میں سات سوتیرہ برفانی ریچھ شکار کیے تھے۔

            میں اس قسم کے مہم جُو انسانوں کو کارناموں سے یہ سبق لیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے عزم وہمت کو غیر معمولی طاقت عطافرمائی ہے؛ انسان کی ہمت ایک ایسی ربر ہے جسے انسان جتنا چاہے پھیلا سکتا ہے؛ قطب شمالی اور اس کے آس پاس کے علاقوں  کا سفر بذات خود انتہائی دشوار تھا؛ اول تو وہاں  کی شدید سردی کا عالم یہ ہے کہ سمندر  تک منجمد ہے اور اس کا تھوڑا سا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ترمسو اور  نارتھ کیپ میں (ہماری موجودگی کے دوران) اس گرمی کے موسم میں بھی درجہ ٔ حرارت  نقطۂ  انجماد کے قریب قریب پہنچا ہوا تھا؛ جبکہ یہ علاقے اصل قطب شمالی سے تقریباً ےتیس  ڈگری پہلے ہیں،خود قطب پر یا جزیرۂ  سوالبر د پر سردی کا عالم کیا ہوگا ،پھر جس برفانی  ریچھ کو دنیا کے خطر ناک ترین درندوں  میں شمار کیا جاتا ہے،ایک گرم علاقے کے رہنے والے والے انسان کے لیے اس کا مقابلہ موت سے لڑنے کے مرادف ہے؛ لیکن جب انسان نے اس کام کا ارادہ کرلیا اور اس کے لیے کمر ہمت باندھ لی، تو اللہ تعالیٰ  نے اس کی ہمت کو یہ طاقت دے دی کہ ایک انسان اس مہلک سردی اور ایسے  ویران علاقے میں سات سو سے زائد ایسے خوفناک ریچھو ں کو شکار کرنے میں کامیاب ہو گیا،حالانکہ ریچھوں کا شکار کوئی ایسا بلند مقصد نہیں تھا ،جس کے لیے جان جوکھوں میں  ڈالی جائے ؛ اور اس کا نتیجہ صرف اتنا ہے کہ اس شخص  کا نام صر اس حد تک روشن ہو گیا، کہ جو  لوگ ترمسو کے پولر میوزیم میں جا کر اس کے حالات دیکھیں  ،تو چند لمحوں کے لیے اس کی ہمت وشجاعت کو آفرین  کہدیں اور بس!

            سبق لینے کی بات یہ ہے کہ انسان کا یہ عزم وہمت جس میں اتنی ان دیکھی طاقتیں پوشیدہ  ہیں، اگر کسی بلند مقصد کے لیے استعمال ہوں تو وہ کیا کچھ  معجزے دکھا سکتی ہیں؛ لوگ  کہتے ہیں کہ ہم سے شرعی   فرائض وواجبات بن نہیں پڑتے،یا گناہوں سے بچنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے،لیکن وہ انسان ہمت جس نے فولاد کو موم بنا کر رکھ دیا، جس نے من مانے  راستے بنائے ،جس نے جنگلی درندوں اور برفانی ریچھوں کو رام کیا، کیا وہ انسانی  ہمت اپنے خالق و مالک کی اطاعت کے بلند ترین مقصد کو حاصل کرنے میں اتنی کمزور ہو گئی ہے؟ کہ اُس کے لیے پانچ وقت کی نماز ایک ماہ کے روزے اور چند بُری  عادتوں کو چھوڑنا ناممکن ہو گیا ہے؟ لہٰذا جب بزرگ یہ کہتے ہیں کہ ہمت  کو استعمال کر کے اپنے فرائض بجالاؤ،اور گناہوں سے بچو،تو وہ انسان کی اسی خفیہ طاقت کی طرف اشارہ  کرتے ہیں ،جو عزم صمیم مشق اور استقامت کے ساتھ استعمال کی جائے، تو لامحدود امکانات(Potentials) رکھتی ہے؛ اور انسان اس کے ذریعے مشکل سے مشکل کام کو آسان بنا سکتا ہے۔

            اسی میوزیم میں بحر منجمد شمالی میں پائی  جانے والی  بحری مخلوقات کے نمونے بھی شیشے  کے شو کیسوں میں رکھے ہوئے ہیں، جن میں عجیب وغریب صورت رکھنے والی مچھلیاں اور پانی کے دوسرے جانور مثلاً : سِیل  وغیرہ موجود  ہیں برفانی  لومڑیوں اور شمالی  علاقے کے بارہ سنگھوں کے نمو نے بھی نمائش  کے لیے رکھے ہوئے ہیں؛سمندر میں بالخصوص  شمالی سمندر میں آنے والے  مختلف موسموں کی نمائش  بھی کی گئی ہے؛ ایک جگہ یہ بھی دکھا یا جاتا ہے کہ سمندر میں بھنور کس طرح پیدا  ہوتے ہیں اور ان کے کیا نتائج  ہوتے ہیں ؛ایک جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ شمالی سمندر کا ایک  حصہ  اپنے اصلی درجۂ حرارت کے لحاظ سے تو ایسا ہے، کہ وہ سردی سے منجمد ہو جائے ؛لیکن سمندر کی اوپری تہہ  کے نیچے ایک گرم پانی کی لہر چلتی ہے،جو اس علاقے میں امریکہ کے کسی سمندر سے آرہی ہے؛ گرم پانی کی اس لہر کے نتیجے میں اوپر کا سمندر جمنے سے محفوظ  رہتا ہے؛ اور اس جگہ جہاز رانی ممکن  ہو جاتی ہے''تَبَارَکَ اللہُ أَحۡسَنُ الۡخَالِقُیۡنَ''۔

            میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ قطب شمالی سے قریب ترین جزیرہ سوالبرد (Svalbard) ہے، جو ترمسو سے ۹۳۰کیلو میٹر دور ہے؛ تقریباً ۸۱ درجے عرض البلد پر واقع ہے یعنی عین قطب شمالی سے صرف نوڈ گری کے فاصلے پر یہ جزیرہ قطعی طور پر غیر آباد  ہے،البتہ جزیرے کے جنوب میں جو علاقے ۷۲عرض البلد کے قریب ہیں، وہاں کچھ آبادی ہے؛ سائنس دانوں نے قطب شمالی کے حالات کی تحقیق کے لیے یہاں ایک اسٹیشن بھی بنایا ہوا ہے، جہاں تحقیقاتی ٹیمیں  جاتی رہتی ہیں؛ کیونکہ قطب شمالی سے قریب ترین خشکی یہی ہے؛انتظامی طور پر یہ جزیرہ ''ناروے'' کی حکومت کے ماتحت ہے؛ البتہ ایک معاہدے  کے تحت ترمسو کے پولر میوزیم میں اس جزیرے کی سیر کرانے کا بھی بڑا دلچسپ انتظام ہے؛ کسی نے ہیلی کاپٹر  کے ذریعے اس جزیرے کے طول وعرض  کا دورہ کر کے اس کے مناظر کی ایک وڈیو فلم بنائی ہے؛ اس میوزیم کے ایک ہال میں یہ مناظر دکھانے کے لیے ایک پنور املک اسکرین بنائی ہوئی ہے، جو ہال کے سامنے کی دیوار پر محیط ہے اور یہ فلم جب اس اسکرین پر سہ ابعادی(Three dimensional) تصویروں کی شکل میں دکھائی جاتی ہے،تو انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خود  ہیلی کا پٹر  کے ذریعے اس جزیرے کی سیر کررہا ہے؛چونکہ جزیرہ مکمل طور پر غیر آباد ہے اس  لیے اس میں کسی انسان کی تصویر کا سوال ہی نہیں ،لیکن جزیرے کے دلفریب مناظر جو پہاڑوں ،برفانی تودوں،(Glaciers) منجمد سمندری خلیجوں ،کہیں  کہیں بہتے ہوئے آبشاروں  اور نہ جانے اللہ تعالیٰ کی ضاعی کے کیسے کیسے شاہکاروں  پر مشتمل ہیں؛ اس طرح آنکھوں  کے سامنے آتے ہیں، کہ اگر دیدۂ بینا ہوتو انسان بے ساختہ پکاراٹھے کہ'' رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ھٰذَا بَاطِلاً''۔

 

نارتھ کیپ کا بحری سفر

          میوزیم سے فارغ ہوتے ہوتے دو بجنے لگے تھے،اور ہمیں تین بجے کے بعد  آگے  ''نارتھ کیپ'' (North Cape) جانے کے لیے بحری جہاز میں سوار  ہونا تھا؛لہٰذا  ہم نماز ظہر اور دوپہر کے کھانے کے بعد بندرگاہ طرف چل دیے،جو ہوٹل کے بالکل قریب تھی؛اور یہاں سے ویسٹرولین (Vesteralin) نام کے ایک بحری جہاز میں سوار ہوئے ،یہ ایک متوسط سائز کا چھ منزلہ جہاز تھا، جس میں مسافروں کی سہولت اور آسائش کے ضروری انتظامات موجود تھے؛ شام پانچ بجے جہاز نے ترمسو کی بندگاہ سے سر کنا شروع  کیا، اور تھوڑی دیر میں ترمسو کی خلیج  سے نکل کر بڑے سمندر میں داخل  ہو گیا؛ یہ سمندر جس میں ہم سفر کر رہے تھے، دراصل بحیرۂ اوقیانوس(Atlantic) سے شمال کی طرف آیا ہے؛ شروع میں اسے بحر شمال (North sea) کہا جاتا ہے؛ ناروے کی حدود میں آکر اس کا نام بحیرۂ  ناروے (Norwegian Sea) ہو جاتا ہے؛ اور جب یہ سمندر شمال میں ۶۶ عرض البلد  پر پہنچ کر منطقۂ باردہ(Arctic Zone) میں داخل ہوتا ہے، تو اسے بحر منجمد شمالی(Arctic Ocean) کہتے ہیں؛ ترمسو چونکہ منطقۂ باردہ میں داخل ہے،اس لیے یہاں سے قطب شمالی تک پورا سمندر بحر منجمد شمالی ہی کہلاتا ہے؛یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت جزیروں  سے بھرا ہوا ہے؛ چنانچہ کئی گھنٹے تک یہ بحری سفر اس طرح جاری رہا،کہ جہاز کے دائیں  اور بائیں دونوں  طرف سر سبز وشاداب پہاڑ ،اور ان کے  درمیان بہتی  ہوئی ندیاں ،اور اوپر سے گر تے ہوئے آبشار بڑا دلفریب منظر پیش کر رہے تھے؛ ہم نے عصر کی نماز اوسلو کے وقت  کے مطابق تقریباً آٹھ  بجے جہاز کے عرشے پر اذان دے کر با جماعت ادا کی؛ جہاز کی چھٹی  منزل پر ایک شیشہ بند ہال تھا،جس میں مسافروں کے بیٹھنے کے لیے کر سیاں اور میزیں لگی ہوئی تھیں؛ عصر  کے بعد ہم اس ہال میں بیٹھ کر دونوں  طرف کے شفاف شیشوں سے سمندر کے مناظرِ قدرت کا نظارہ کرتے رہے؛ سورج کو تو غروب ہونا ہی نہیں تھا،لیکن جب رات کے ساڑھے دس بج گئے،تو ہم نے اوسلو کے وقت کے مطابق مغرب کی نمازادا کی؛ سورج اُس وقت کافی  بلند تھا، لیکن بادلوں میں چھپا ہوا تھا،اور اس کی بکھیری ہوئی کرنیں  بادلوں میں نظر آرہی تھیں،عرشے پر سخت سردی تھی،اور  برفانی ہوائیں چل رہی تھیں، اس لیے ہم شیشہ بند لاؤنج سے لطف اندوز ہوتے رہے ؛اور جب رات کے بارہ بجے تو سورج کا نظارہ  کرنے کی کوشش کی ،لیکن اس وقت  بادل اور زیادہ گہرے ہو گئے تھے؛ جہاز چھوٹی چھوٹی خلیجوں  سے نکل کر بحر منجمد شمالی کے کھلے علاقے میں داخل  ہو چکا تھا ،اور سمندر  کے تلا طم  کی وجہ  سے  ہچکو لے لے رہا تھا، مگر گہرے بادلوں  کے باوجود پورے ماحول  پر سورج کی اتنی  روشنی موجود تھی،جتنی ہمارے علاقوں  میں مغرب سے ذرا پہلے ہوا کرتی ہے؛ معمول کے مطابق ۱۲ بجے کے بعد سورج نے شمال کی طرف  مائل ہو کر بلند  ہونا شروع کیا، اور رفتہ رفتہ  ماحول میں روشنی بڑھنے لگی؛ چونکہ  ہمیں نماز  فجر کا انتظار تھا،جو ہمیں اوسلو کے حساب سے پڑھنی تھی، اس لیے ہم دو بجے تک جاگتے رہے؛اس دور ان سمندر پر پھیلی ہوئی  سورج کی روشنی بتدریج بڑھتی چلی گئی ؛اگر بادل آسمان پر نہ ہوتے ،تو یقیناً دھوپ نظر آتی؛ ٹھیک دو بجے جہاز کھلے سمندر سےدو جزیروں کے درمیان ایک خلیج میں داخل  ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک  چھوٹی سی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گیا؛یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا،جس کا نام ناروے کی زبان میں(Oksf Jord) لکھا ہوا تھا ،جس کا صحیح  تلفّظ  میں نہ کر سکا؛ یہ کائی ماہی گیروں کی بستی تھی، جو تین طرف سے پہاڑوں اور ایک طرف سے سمندر میں گھر ی ہوئی تھی؛ رات کے دو بجے تھے، مگر حدِ نظر تک سورج کا اجالا پھیلا ہوا تھا؛ یہاں جہاز صرف پندرہ منٹ رکا،اور دوبارہ بحر منجمد شمالی کی طرف  روانہ ہو گیا ؛ہم فجر کی نماز پڑھ کر اپنے  کیبن میں آگئے؛کیبن کی کھڑکی سے سمندر اور پس منظر میں سر سبز پہاڑ یہاں  بھی سامنے تھے، اور دن کی روشنی کھڑکی  کے ذریعے کیبن میں آرہی تھی؛لیکن چونکہ سونا تھا،اس لیے کھڑکی پر ممکن حد تک پر دے ڈال کر مصنوعی جھٹپٹا پیدا کرنے کی کوشش کی؛اور دن بھرکی تھکن کی وجہ سے جلد ہی نیند آگئی۔

            صبح آنکھ کھلی تو تقریباً سات بجے تھے اور  جہاز کھلے سمندر میں ۱۸بحری میل فی گھنٹہ  کی رفتار سے رواں دواں تھا؛ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے مزید سفر کرنے کے بعد ہماری منزل افق پر نظر آنے لگی،یہ شمال کے اس حصے  میں دنیا کا آخری آباد شہر ھوننس ووگ (Honninsvog) تھا۔

            (۷)……….جغرافیہ کی اصطلاح میں منطقۂ  باردہ (Arctic Circle) زمین کے اس حصے کو کہتے ہیں جو شمال میں ۲۶ درجے ۳۰ دقیقے  عرض البلد سے ۹۰ درجے (قطب شمالی) تک  پھیلا ہوا  ہے یہی  وہ  علاقہ ہے جہاں  سال  کے کچھ دن ایسے  آتے  ہیں جن  میں گرمی  میں سورج  غروب  نہیں  ہوتا اور سردی  میں طلوع نہیں  ہوتا ۳۰ء۶۶ درجے  سے عرض البلد  جتنا زیادہ ہوتا جائے گا گرمیوں  میں دن اور سردیوں  میں رات  اتنی  ہی طویل  ہوتی جائے  گی یہاں  تک کہ ۹۰ عرض البلد (قطب شمالی) پر چھ ماہ دن اور  چھ رات  رہتی ہے جنوب میں اسی  کے بالمقابل ۶۶سے ۹۰ تک  عرض البلد تک کا علاقہ  دائرہ قطب جنوبی  (Antarctic Circle) کہلاتا ہے اور وہاں  بھی دن اور رات  کی یہی حالت ہوتی ہے لیکن وہاں کوئی آباد حلقہ اس دائرے میں نہیں آتا۔

 

ھوننس ووگ میں سایۂ اصلی

            دن کے گیارہ بجے کے قریب ہم اس شہر کی بندرگاہ پر اُترے، تو آسمان بالکل صاف تھا، اور دھوپ خوب پھیلی ہوئی تھی؛ اگر چہ ہم پچھلے دوروزسے دن کی روشنی ہی میں تھے،اور رات کا اندھیرا دیکھے ہوئے تقریباً بہتّر (۷۲) گھنٹے ہونے والے تھے؛ لیکن اس پورے عرصے میں آسمان زیادہ تر ابر آلود رہاتھا؛ لیکن ھوننس ووگ میں چونکہ دھوپ مکمل پھیلی ہوئی تھی،تو یہاں یہ بات واضح طور پر  نظر آئی ،کہ سورج کے خط نصف النہار سے گزرتے وقت ہر چیز کا سایہ اُس کے اپنے حجم سے زیادہ تھا؛ہمارے معتدل علاقوں میں جب آفتاب نصف النہار کے خط  پر پہنچتا ہے، تو ہر چیز کا سایہ بہت چھوٹا ہو جاتا ہے؛ اسے فقہاء کی اصطلاح میں سایہ ٔ اصلی کہتے ہیں ؛کسی خطے کا عرض البلد جتنا کم ہوگا وہاں  سایۂ  اصلی اتنا ہی چھوٹا  ہوگا؛ یہاں تک کہ جو ممالک خط استواء کے نیچے (یعنی صفر عرض البلد پر) رہتے ہیں ،وہاں  یہ سایہ بالکل نہیں ہوتا ؛یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرامؒ نے فرمایا ہے کہ  عصر کا وقت  اس وقت  شروع ہوتا ہے،جب ہر چیز کا سایہ اس کے سائز  سے دوگناہو جائے؛ لیکن یہ دوگناہونا سایۂ  اصلی  کے علا وہ ہونا چاہیے ؛بعض اہل ظاہر نے فقہاء کی اس بات پر یہ اعتراض کیا ہے، کہ حدیث  میں سایہ کے ایک  مثل یا دومثل ہونے کا توذکر ہے۔لیکن سایۂ  اصلی کا استثناء حدیث سے ثابت نہیں؛ اور فقہائے کرام نے اپنی طرف سے اس استثناء کا اضافہ  کر دیا ہے ؛لیکن یہاں پہنچ کر ان فقہائے کرام کی بات بداھتہ ظاہر ہو جاتی ہے؛اس لیے کہ اگر سایۂ اصلی کا استثناء نہ کیا جائے ،تو ان شمالی  علاقوں میں توعین نصف  النہار کے وقت ہی سایہ ایک مثل سے زیادہ  ہوتا ہے؛لہٰذا فقہائے کرام کی یہ بات عقل  عام(Common Sense) کی بات ہے؛ جس کے لیے کسی نص کی ضرورت  نہیں؛ یہ اور بات ہے کہ ایک حدیث  میں بھی اس کی طرف اشارہ  موجود ہے۔

            ''ھوننس ووگ'' ایک چھوٹا  ساسا حلی شہر ہے ،اور اس کے بعد قطب شمالی تک کوئی  اور آبادی نہیں ہے،لہٰذا  یہ اس سمت میں دنیا  کا آخری  شہر ہے؛ یہاں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں کئی گھنٹے  اپنے معارف  القرآن کے کام  میں مشغول  رہا، پھر شام کو ۶/چھ بجے کے قریب ہم چہل قدمی کے لیے ساحل  کی طرف نکلے ،تو راستے میں چند صومالی مسلمان مل گئے؛انہوں نے بتایا کہ اس چھوٹے سے شہر میں بھی سات آٹھ صومالی اور چار پانچ عراقی مسلمان رہتے ہیں؛مسجد تو کوئی نہیں،لیکن کسی گھر میں کبھی کبھی نماز جماعت سے  پڑھ لیتے ہیں؛ ہم نے ان سے کچھ گذار شات کیں ،خدا کرے اُن کا کچھ اثر ظاہر ہو، اور دنیا کے اس آخری سِر ے پر بھی اللہ تعالیٰ  کا نام مستقل طور  پر بلند ہونے لگے۔

            ساحل سمندر کے ساتھ سیاحتی یادگاروں  کی ایک دوکان تھی، اس دوکان میں منطقہ (Arctic Region) کے مشہور برفانی ریچھ کا ایک حقیقی خول رکھا ہوا تھا؛یعنی کسی نے  برفانی ریچھ کو مار  کر اس کی آلائشیں  نکال کر اس کی کھال اس طرح بنا کر رکھی تھی، کہ وہ بالکل زندہ ریچھ معلوم ہوتاتھا؛ہم  نے اس کے سفید براق  بالوں  کو ہاتھ  لگایا ،تو وہ اتنے ملائم  اور خوشگوار  تھے،کہ باربار ہاتھ پھیر نے کو دل چاہتا تھا؛ ان خوبصورت اور ملائم بالوں کے نیچے بڑی دبیز جلد تھی؛ اللہ تعالیٰ  کی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغلہ کا یہ کر شمہ ہے، کہ اتنے خوفناک  درندے کو اتنا  حسین اور اتنا ملائم لباس  عطافرمایا؛ ذہن  اس طرف منتقل ہو ا کہ  یہ گناہوں کی لذت اور رنگینی  کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے؛ اُن کے ظاہر میں حسن اور لذت  ہے،لیکن انجام  کے اعتبار سے وہ ایک خوفناک درندے سے کم نہیں، جو انسان کی ہلاکت  کے لیے کافی ہے؛ ہاں اگر کوئی شخص اس درندے کو شکار کر کے  اس میں سے گناہ کا عنصر نکال پھینکے ،تو وہ اس  کے حسن اور لذت سے دنیا میں بھی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

            اسی دوکان میں اس علاقے میں سورج کی گردش کا نظارہ کرانیوالی ایک تصویر بھی ملی،جس میں کسی شخص  نے رات کے آٹھ بجے سے صبح  کے چار  بجے تک ہر گھنٹے  پر سورج کی مختلف پوزیشنوں کی تصویریں  لے کر ان  تمام  تصویروں  کو ایک ساتھ جوڑدیا تھا؛اس تصویر سے واضح  ہوتا ہے کہ رات آٹھ بجے کے بعد بارہ بجے تک سورج کس طرح بتدریج  مغرب کی سمت نیچے آتا ہے، لیکن بارہ بجے افق کے بالکل قریب پہنچنے  کے بعد  دوبارہ شمال کی طرف  بلند ہونا شروع  ہو جاتا ہے؛ یہاں تک کہ رات کے چار بجے وہ شمال  میں اتنا  ہی بلند  ہو جاتا ہے جتنا آٹھ بجے وہ جنوب  میں بلند  تھا؛ ان ساری تصویروں کو ملا نے سے ایک  سنہر ے گلو بند کا سا  منظر سامنے آتا ہے؛ اور اندازہ ہوتا ہے کہ جنوب اور شمال میں اس کی اونچائی میں کہیں  بال برابر بھی فرق  نہیں آتا''فتبارک اللہ أحسن الخالقین''۔     

          سورج کو غروب تو ہونا ہی نہیں  تھا؛ اس لیے ہم نے مغرب کی نماز ساڑھے دس  بجے ایسے وقت اداکی ،جب سامنے دھوپ  خوب  پھیلی ہوئی تھی۔ ھوننس  ووگ  کے شہر سے تقریباً  تیس کیلو میٹر  کے فاصلے  پر وہ مشہور  جگہ ہے، جو نارتھ کیپ(North Cape) کے نام سے معروف  ہے؛ یہ کوئی بستی نہیں بلکہ شمال میں دنیا کی خشکی کا  آخری کنارہ ہے، جس کے بعد قطب  شمالی  تک اس سمندر کے سوا کچھ نہیں ہے جو آگے جاکر سردی سے منجمد ہو گیا ہے؛ اور اسے بحر منجمد شمالی کہا جاتا ہے؛ ہم چاہتے تھے کہ دنیا  کے اس  آخری سرے پر ہم  آدھی رات(۱۲بجے شب)کے وقت پہنچیں  ،اور نماز عشاء بھی وہیں  ادا کریں؛چنانچہ تقریباً گیارہ بجے رات ہم ایک کوچ میں سوار  ہو کر نارتھ کیپ کی طرف  روانہ ہوئے؛شہر سے نکلنے  کے بعد پہاڑوں ،وادیوں  اور سمندری خلیجوں  کا ایک خوبصورت سلسلہ شروع  ہو گیا ؛اور ایک بات میں نے یہ نوٹ کی کہ کئی سال پہلے میں جنوبی  افریقہ کے جنوبی سرے(South Cape) تک بھی گیاہوں  ،جسے جنوب کی طرف  دنیا کا آخری کنارہ کہنا چاہیے؛وہاں کی زمین کا اتار چڑھاؤ اور عمومی منظر بھی اس شمالی سرے سے کافی ملتا جلتا ہے؛ فرق یہ ہے کہ یہاں کے پہاڑوں پر جگہ جگہ برف پڑی ہوئی نظر آرہی تھی، اور سردی نقطۂ انجماد کے قریب  قریب تھی؛ لیکن ساؤتھ کیپ کا عرض البلد  چونکہ اتنا زیادہ نہیں ہے؛(وہ تقریباً ۴۵درجے عرض البلد پر واقع ہے) اس لیے وہاں سردی اور برف  کا یہ منظر نہیں  آتا؛ لیکن زمین کا عمومی منظر خاصاملتا جلتا ہے؛ جس خالق  کائنات نے یہ زمین اور اس کے مختلف علاقےپیدا  فرمائے ہیں،وہی اپنی تخلیق کے راز  جانتا ہے؛انسان کے پاس ان عجائب  قدرت پر حیرت کرنے کے سوااور کیاہے؟۔

 

نارتھ کیپ

          پونے گیارہ بجے کے قریب ہم نارتھ کیپ پر جا کت اُتر ے؛ یہ ۷۱درجے ۱۰دقیقے  اور ۲۱ ثانیے کا عرض البلد پر واقع ایک سطح  مرتفع  کا کنارہ ہے ،جو بحر منجمد شمالی پر جھانکتا محسوس  ہوتا ہے؛ اس کنارے پر شمال میں دنیا ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد قطب  شمالی تک اس رُخ  پر کوئی خشکی نہیں ہے؛ ہم یہاں پہنچے تو دنیا  بھر سے آئے ہوئے سیاحوں  کو ہجوم تھا،جو دنیا کے  آخری  سرے سے آدھی  رات کا سورج دیکھنے کے لیے یہاں جمع تھے؛ سردی اس قدر شدید اور برفانی ہوائیں  اتنی تیز تھیں، کہ پہنے  ہوئے  تمام کپڑے نا کافی  معلوم ہو رہے تھے؛ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گرمی کے موسم میں(جب کہ مہینوں سے یہاں  رات نہیں آئی اور افق  پر سورج مسلسل  موجود ہے) سردی کا یہ عالم ہے، تو سردی کے موسم میں جب کہ مہینوں سورج  کی شکل نظر نہیں آتی ٹھنڈک کا یہاں  کیا عالم ہوگا؛ تھوڑی دیر اس ٹیلے سے سامنے کے سمندر  اور سورج کی کرنوں کا منظر دیکھنے  کے بعد زیادہ  دیر کھلے  آسمان کے نیچے کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوئی ،تو قریب بنے ہوئے ایک شیشہ بند ہال  میں  چلے گئے ؛اور جب رات کے سوابارہ بجے ،تو دوبارہ باہر نکل کر'' نارتھ کیپ'' کے آخری سرے پر بنے ہوئے ایک چبوترے پر پہنچے ؛سورج اپنے آخری نقطے تک پہنچنے کے بعد بلند  ہونا شروع  ہو گیا تھا ؛اس وقت افق  پر کچھ مہین بادل آگئے تھے مگر سورج کی کرنیں بادلوں  کے کناروں  سے آسمان کی طرف اٹھ رہی تھیں ؛اور انہوں نے ماحول کو منور کیا ہواتھا؛اس چبوترے پر کھڑے ہو کر ہم نے بلند  آواز  سے اذان دی اور اس  کے بعد عشاء کی نماز جماعت اداکی۔

            رات کے ایک بجے ہم یہاں  سے شہر کی طرف واپس ہوئے ،تو سورج کی روشنی پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی؛راستے میں جگہ  جگہ قطب شمالی کی طرف  منسوب بارہ سنگھے (Reindeers) چرتے ہوئے نظر آئے ؛اور ان دل  نواز مناظر سے لطف اندوز ہو کر رات کو تقریباً دو بجے ہم دوبارہ قیام گاہ پر پہنچے ؛یہ ہماری تیسری رات تھی جس میں سورج غروب نہیں ہواتھا؛اور دو بجے کے بعد فجر پڑھ کر سونے کے لیے ہمیں  کمرے میں مصنوعی اندھیرا پیدا کرنا پڑاتھا۔

 

ان مقامات پر نمازوں کا حکم

          آگے بڑھنے سے پہلے  میں اسی  مرحلے پر اس  سوال کا جواب دے دوں، کہ ان  جسے مقامات  پر جہاں  مہینوں سورج غروب یا طلوع نہیں ہوتا، نمازوں  کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہے؟۔

            صورت حال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ سوال تو سامنے  نہیں آیاتھا،کہ جن خطوں  میں دن ہی دن یا رات ہی رات رہتی ہے وہاں نماز کیسے پڑھی جائے گی؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک اور واقعے  کے ضمن  میں اس  سلسلے کی ایک اصولی  ہدایت  عطا فرما دی تھی: صحیح  مسلم  میں حضرت نو اس  بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے، کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ  علیہ وسلم نے دجال کا ذکر  کر تے ہوئے فرمایا  کہ وہ دنیا میں چالیس دن رہے گا، ان چالیس  دنوں میں سے ایک دن ایک سال کے برابر،ایک دن ایک مہینے کے برابر اور ایک دن ایک ہفتے  کے برابر  ہوگا؛ اور باقی  دن تمہارے  عام دنوں  جیسے ہوں گےَاس موقع  پر  صحابۂ کرامؓ نے پوچھ لیا کہ  جو دن ایک سال  کے برابر  ہوگا کیا ہمارے  لیے اس دن  میں صرف  ایک ہی  دن کی نمازیں  کافی ہوں گی؟ آنحضرت  صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا'' لا اقدروالہ قدرہ''یعنی: نہیں ،اس کے لیے  انداز ے  سے وقت مقرر کرنا۔

            میں پیچھے لکھ چکا ہوں  کہ بُلغار جیسے علاقے جن میں عشاء کا وقت نہیں آتا ،اُن  میں  راجح  قول  کی بنیاد  پر عشا کی نماز حساب  لگا  کر پڑھنے  کا جو اختیار  کیا گیا ہے، اس کی بنیاد  یہی حدیث ہے۔

            قدیم فقہائے کرامؓ  کے زمانے میں مسلمانوں  کی آبادی  ایسے علاقوں ہی تک پہنچی  تھی، جہاں  شفق  غائب نہیں ہوتی؛مگر ۲۴گھنٹے میں دن اور رات دونوں آجاتے ہیں؛رہے قطبین  کے قریب  کے وہ علاقے جہاں  ۲۴گھنٹے میں دن  اور رات کا دورہ مکمل نہیں ہوتا،اُن میں مسلمانوں  کی آبادی  نہیں پہنچی تھی؛ اس لیے ان علاقوں  کے حکم  سے قدیم فقہانے بحث  نہیں فرمائی  ؛لیکن جب سے ان علاقوں  میں بھی مسلمان پہنچ  گئے ہیں اُس وقت سے فقہائے عصر نے ان علاقوں کے احکام پر بھی بحث  کی ہے؛ اور بحث  کا مرکزی  نقطہ وہی ہے جو بُلغار  کے سلسلے میں پیش آیا؛ یعنی :نماز  کے وقت  کی معروف  علامتوں  کے نہ  آنے کی صورت میں نماز  فرض بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ جو لوگ بُلغار جیسے شہر میں نماز عشا کو فرض نہیں مانتے ۔ان کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں کئی مہینے تک دن رہتا ہے اُن  میں اس  پورے عرصے میں پانچ نمازیں  ہی فرض ہوں گی؛ لیکن میں پیچھے عرض کر چکا ہوں کہ دلائل کے نقطۂ  نظر سے یہ قول کمزور  اور مرجوح  ہے؛ اور دجال کے بارے میں جو حدیث  اوپر لکھی گئی ہے اس  سے یہ اصول واضح  طور پر بر آمد ہوتا ہے، کہ جب دن اتنا لمبا ہو جائے کہ ۲۴گھنٹے میں شب وروزکا دورہ مکمل نہ ہو، تو اوقات  نماز کی معروف علامتوں  کا اعتبار نہیں رہتا؛ بلکہ  ایسے موقع پر حساب لگا کر نمازیں ادا کرنی چاہیے؛ اب ان علاقوں میں حساب لگانے کا طریقہ کیا ہو؟ اس کے بارے میں مختلف تجویزیں  پیش کی گئی ہیں؛ لیکن  ان میں سب سے راحج  ،بہتر  اور قابل عمل تجویزیہ ہے ان علاقوں  سے وریب تروہ علاقہ  جہاں چوبیس گھٹنے  میں  دن رات پورے ہو جاتے ہیں ،اُس میں جس نماز کا جو وقت ہو ان علاقوں  میں بھی اس وقت وہ نماز پڑھی جائے؛ مثلاً :اگر قریب ترین معتدل علاقے  میں  نماز مغرب نو بجے ہوتی ہے اور عشا ساڑھے دس بجے ،تو یہاں بھی مغرب اور عشا  بالترتیب ۹ بجے اور ساڑھے  دس  بجے پڑھی جائے ؛خواہ اس وقت سورج افق  پر موجود ہو۔

            پھر اس تجویز پر عمل کرنے کے بھی دو طریقے ممکن  ہیں ایک یہ کہ معیار کسی ایسے قریبی شہر کو بنا یا جائے ،جس میں پانچوں  نمازوں  کے اوقات اپنی  معروف علامتوں کے ساتھ آتے ہوں؛ چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کی ایک قرارداد میں تجویز دی گئی ہے، کہ جو علاقے ۴۵درجے عرض البلد پر واقع ہیں، ان کو معیار قراردے کر غیر معتدل علاقوں  میں  تمام نمازوں  کا وقت ۴۵ درجے کے اوقات کے مطابق متعین کیا جائے۔

            دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسے شہر کو معیار بنایا جائے ،جو ان غیر معتدیل علاقوں کے قریب ہو؛ اور اس میں نمازوں کے اکثر اوقات  آتے ہوں؛خواہ وہاں شفق غائب نہ ہوتی ہو؛ اس طریقے کے مطابق ترمسو وغیرہ میں جب دن ہی دن رہتا ہے،اس  وقت نمازیں  اوسلو کے اوقاتِ نماز کے مطابق پڑھی جا سکتی ہیں۔

            ان دو طریقوں میں سے  پہلا طریقہ احتیاط  کے زیادہ مطابق ہے؛ لیکن عملی آسانی  دوسرے طریقے میں ہے؛ خاص طور پر ایسے شہروں میں جہاں  مسلمان اِکادُ کا آباد ہیں اور انہیں ۴۵درجے عرض البلد کے اوقات کا پتہ لگانا آسان نہیں؛ لہٰذا  ترمسو اور اس سے اوپر کے شہروں میں اگر اوسلو کے اوقاتِ  نماز کی  پیروی کی جائے ،تو یہ جائز اور درست ہے؛ حضور اقدس صلی اللہ  علیہ وسلم نے حدیث دجال میں یہ اصول تو بیان فرمادیا،کہ نمازیں  اندازہ  کر کے پڑھی جائیں ؛لیکن اندازہ کرنے کا مفصل طریقہ بیان نہیں فرمایا ؛شاید اس  میں حکمت یہ ہی ہو کہ اندازے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں ،اور جس  جگہ جو طریقہ زیادہ قابل عمل ہو کہ  اس میں  زیادہ تنگی لازم  نہ آئے ،وہاں وہ طریقہ اختیار کر لیا جائے ؛ترمسو میں  جس مسلمان سے ملا قات کا ذکر میں نے اوپر  کیا ہے اُس نے یہ بتایا،کہ یہاں کی مسجد میں اوسلو کے حساب  سے نمازیں پڑھنے کا معمول ہے۔

            ترمسو اور نارتھ کیپ میں سورج کی گردش کا حال دیکھنے کے بعد ایک بات کا مزید اندازہ  یقین کے قریب قریب ہو گیا؛ اور وہ یہ کہ جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ جن علاقوں  میں کئی  ماہ تک سورج غروب نہیں  ہوتا۔وہاں ان کئی  مہینوں میں  مجموعی طور پر صرف پانچ نمازیں  ہی فرض  ہیں؛ اُن کا یہ فرمانا ان علاقوں  کا مشاہدہ نہ کرنے پر مبنی ہے؛ اسی لیے انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ ان کئی ماہ میں  مغرب کی طرح ظہر کا وقت صرف ایک مرتبہ اور عصر کا وقت صرف ایک مرتبہ آئے گا؛ حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ یہاں  سورج خط نصف النہار سے ہر روزگزرتا ہے؛ لہٰذا ہر ۲۴ گھنٹے  میں سورج کا سایہ (سایۂ اصلی کو چھوڑ کر) ایک مثل اور دو مثل ہوتا ہے ؛گویا ہر ۲۴ گھنٹے میں یہاں  ایک ایک  مرتبہ ظہر اور عصر  کا وقت ضرور آتا ہے؛ اور یہ کہنا درست نہیں  کہ تین ماہ کے دور ان ظہر اور عصر کا وقت صرف ایک بار آتا ہے؛لہٰذا  روزانہ  ظہر اور عصر کی فرضیت اُن حضرت کے قول پر بھی ہوتی ہے،جو نماز کی فرضیت کے لیے علامات وقت کو علت  تامہّ  مانتے ہیں؛ اور یہ  کہنا کسی طرح  درست نہیں کہ یہ تین ماہ  پورے  کے پورے  ایک دن  کے حکم  میں ہیں ،اور ان تین ماہ میں صرف پانچ نمازیں  ہی  فرض ہوں گی؛ کیونکہ جب ہر ۲۴ گھنٹے  میں ایک ایک مرتبہ  ظہر اور عصر  کی نمازوں  کا وقت آتا ہے، اور یہ نمازیں اپنے اوقات کے ساتھ فرض ہوتی ہیں ،تو معلوم ہواکہ ۲۴ گھنٹے میں ایک دن  پورا ہو جاتا ہے اور پورے تین ماہ کو ایک دن قرار دینا درست نہیں۔

            ہاں! البتہ قطب شمالی  یعنی ٹھیک ۹۰ عرض البلد پر ظاہر یہ ہے کہ سورج کی گردش مکمل طور پر رحوی  ہوتی  ہوگی ،اور اس میں اشیاء کا سایہ چوبیس گھنٹے ایک ہی سائز کا رہتا ہوگا؛ اس لیے ٹھیک اس جگہ  یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظہر اور عصر  کا تعین سائے سے کرنا مشکل ہوگا؛ اگر چہ بعض علما کی رائے یہ ہے کہ وہاں بھی جب سورج خط  نصف النہار سے  گذر جائے ،تو اسے ظہر کا وقت سمجھنا چاہیے۔(احسن الفتاوی ص۱۲۶ج۲)

                بہر صورت!ٹھیک ۹۰ عرض البلد  پر تو کسی انسان کا پہنچ  کر نماز پڑھنا ابھی تک ایک موہوم مفروضہ ہے؛ لیکن شمالی  منطقہ ٔ باردہ(Arctic Zone) کے بیشتر علاقے ایسے ہیں، جن میں ظہر اور عصر دونوں کی علامتیں کسی شبہے کے بغیر پائی جاتی ہیں؛لہٰذا  چوبیس گھنٹے میں اُن کا ایک دن پورا ہو جاتا ہے خواہ سورج غروب نہ ہو؛ لہٰذا  اگر تین مہینے تک وہاں سورج غروب  نہیں ہوا تو اس  کا یہ مطلب نہیں ہے،کہ یہ تین مہینے  ایک دن ہیں؛ بلکہ یہ واقعۃ  تین مہینے  ہی ہیں، جن میں ہر روز ظہر اور عصر  کا وقت آتا رہا ہے؛ لہٰذا  باقی نمازیں  بھی ۲۴ گھنٹے کے اندر ہی ادا کرنی ضروری ہو ں گی؛ اور پورے  تین  ماہ میں صرف  پانچ نمازیں پڑھنے کا تصور ان مقامات  پر بدھۃً غلط ہے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ ان مقامات پر بھی چوبیس گھنٹے  میں پانچ  نمازیں  ہی پڑھنی ضروری ہیں؛ البتہ مغرب،عشااور فجر کے اوقات کی تعین  میں اس منطقۂ  بار دہ(Arctic region) کے جو لوگ ۳۰ء۶۶عرض البلد سے اوپر رہتے ہیں، غیر معتدل ایام میں یا تو اوسلو کے اوقات کو معیار بنا سکتے ہیں، یا ۴۵عرض البلد کے کسی شہر کو؛ اور اوسلو میں عشا کے وقت کی تفصیل مَیں پیچھے ذکر کر چکا ہوں۔

            اب میں دوبارہ سفر  کے حالات کی طرف لوٹتا ہوں۔

 

اوسلو میں واپسی

          ۲۴/جولائی  کی صبح  ہمیں ھوننس ووگ سے بذریعہ ہوائی جہاز  ترمسو اور وہاں سے اوسلو جانا تھا، ھوننس ووگ سے جو جہاز ملا وہ پہلے ایک اور شہر ھیمر  فیسٹ(Hammerfest) میں رُکا پھر ہمیں ترمسو لے گیا؛ جب جہاز ترمسو میں اتر نے لگا تو میں نے دیکھا، کہ  میرا گشتی (موبائل) فون جو میں نے سیف پر رکھا ہوا تھا غائب ہے؛ میرایہ فون  صرف ایک گشتی فون ہی نہیں ہے بلکہ یہ میری ڈائری  بھی ہے؛جس میں ساری دنیا کے اہل تعلق کے پتے ،فون نمبر اور میرا سال بھر کا پروگرام بھی اسی میں ہے؛لہٰذا  وہ میری ناگزیر ضرورت  بن چکی ہے؛ تمام  ممکنہ  جگہوں  پر تلاش  کے باوجود وہ نہ ملا ،تو جہاز کے عملے سے پوچھا ؛انہوں نے بتایا کہ ایک موبائل فون ہمیں  ایک ایسی سیٹ پر ملا تھا؛ جس کا مسافر ھیمر فیسٹ میں اتر گیا تھا؛ اس لیے ہم یہ سمجھے کہ یہ فون اس اتر نے والے مسافرکا ہوگا؛چنانچہ ہم نے وہ فون اپنے ھیمر فیسٹ کے زمینی عملے کے حوالے  کر دیا تھا؛ ان اندازہ ہو اکہ کوئی بچہ وہ فون  میری سیٹ سے اٹھا کر دوسری سیٹ پر لے گیا؛ اور اس طرح جہاز  کا عملہ اُسے ھیمر فیسٹ چھوڑ آیا؛ لیکن جہاز کے عملے نے ہمیں اطمینان  دلایا کہ اُسے جلد ازجلد اوسلو پہنچا نے کا انتظام کر دیا جائے گا؛ پھر جب عملے کو یہ معلوم ہوا کہ ہمیں اوسلو رونہ  ہونے سے پہلے تقریباً ڈھائی  گھنٹے ترمسوایئر پورٹ پر ٹھہر ناہے، تو انہوں  نے کہا: کہ آپ لوگوں  کو ترمسو میں اتارنے  کے بعد  یہ جہاز دوبارہ ھیمر فیسٹ  جا کر تر مسو واپس  آئے گا، اور ہم کوشش کریں گے کہ یہ ترمسو سے آپ کی روانگی سے پہلے ہی ترمسو  میں آپ  کو مل جائے۔

            ہم ترمسو ایئر پورٹ پر اتر گئے؛ جہاں اوسلو جہاز میں سوا ر ہونے کے لیے ہمیں  تقریباً ڈھائی گھنٹے انتظار  کرنا تھا؛اسی دور ان  ظہر کا وقت ہو گیا اور ہم نے ظہر کی نمازادا کی ؛ ہم نے پروازوں  کا نظام الاوقات دیکھا،تو پتہ چلا کہ جس جہاز سے ہمیں  روانہ ہونا تھا اس کی پرواز کا وقت تین بج کر ۴۰منٹ تھا؛ اور ھیمر فیسٹ سے آنے والا جہاز ساڑھے تین بجےپہنچنے  والا تھا؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ درمیان میں صرف  دس منٹ کا وقفہ تھا؛ اور اگر ھیمر فیسٹ سے آنے والا جہاز میرا موبائل فون لے بھی آئے،تو وہ  اس وقت زمین پر اتر ے گا جب ہم جہاز میں بیٹھ چکے ہوں گے؛ اور فون کو ہم تک پہنچانے کے لیے یہ وقفہ  نا کافی ہے؛ تاہم جب ہم اپنے جہاز پر سوار ہونے کے لیے جہاز کے گیٹ پر پہنچے ،اور گیٹ پر اپنا بورڈنگ کا رڈدکھا یا،تو کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کمپیوٹر دیکھ کر بتایا کہ آپ کے لیے ایک پیکٹ  ھیمر فیسٹ سے روانہ ہوا ہے،جو جہاز کی روانگی سے پہلے  ترمسو پہنچنے  کی امید  ہے؛ لیکن ہم اس کے انتظار میں جہاز کو لیٹ  نہیں کر سکتے ،لہٰذا  اگر وہ پہنچ گیا تو خیر ؛ ورنہ ہم وہ آپ  کو اوسلو میں پہنچائیں  گے؛بالآخر ہم جہاز میں سوار ہو گئے اور کھڑکی سے ہراتر تے ہوئے جہاز کو دیکھتے رہے، تھوڑی دیر میں ہمارے سامنے وہی جہاز زمین  پر اُتر ا جس سے ہم ترمسو آئے تھے؛ اس وقت جہاز کی روانگی میں ۱۰ منٹ باقی تھے؛ لیکن جہاز کو اترنے کے بعد ٹیکسی  کرنے اور اپنی جگہ تک پہنچنے  میں چار پانچ  منٹ  لگ گئے؛جوں ہی جہاز اپنی جگہ پہنچ کر کھڑا  ہوا اور اس پر سیڑھی لگی، ہم نے دیکھا کہ نیلی وردی میں ملبوس ایک شخص  سب سے پہلے جہاز سے نکلا اور تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا ائیر پورٹ کی عمارت کی طرف لپکا؛اس کے ہاتھ میں کوئی چیز بھی دور  سے نظر آرہی تھی؛ ہمارا غالب گمان یہ ہی تھا کہ یہ شخص میراموبائل  لے کر آیا ہے؛لیکن جس جگہ وہ اتر اتھا وہ ہمارے جہاز کی جگہ سے کافی فاصلے پر تھی، وہ شخص ایئر پورٹ کی عمارت میں  داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا؛یہاں تک کہ ہمارے جہاز کے دروازے بند ہو گئے اور روانگی کا وقت ہو جانے پر جہاز نے رینگنا شروع  کر دیا؛  اب ہمیں حسرت ہوئی کہ چند لمحوں  کے فرق سے فون ہم تک نہ پہنچ سکا؛چونکہ اوسلو کا ائیر پورٹ شہر سے ۶۰/۷۰ کیلو میٹر دور ہے؛ اس لیے اوسلو ائیر پورٹ سے اس کو وصول کرنا ایک مستقل کام بن جائے گا،جس کے لیے کئی  گھنٹے درکارہوں  گے؛ لیکن ابھی ہم اس پر حسات کر ہی رہے تھے اتنے میں ایکائیر ہوسٹس  آئی ،اور میری سیٹ کے پاس آکر اس نے ایک پیکٹ میرے حوالے کیا اور کہا:کہ یہ پیکٹ  آپ کے لیے ہیمر فیسٹ سے آیا ہے؛ میں نے مسرت اور تعجب کے ساتھ اس سے پوچھا کہ:جہاز کے دروازے تو بند ہو چکے تھے؛ یہ آپ تک کیسے پہنچا؟ ہوسٹس نے جواب دیا کہ :لانے والے نے بڑی تیزی سے لاکر یہ پیکٹ باہر سے جہاز کے کپتان کے حوالے کر دیا تھا؛ پیکٹ کھولا تو اس میں میرا فون صحیح  سالم حالت میں میرے ہاتھ میں تھا۔

            واقعہ یہ ہے کہ جس احساس  ذمہ داری ،چابکدستی اور ہمدردی کے ساتھ ائیرلائنز کے لوگوں نے یہ فون مجھ تک پہنچا نے کا اہتمام کیا، اس کی دل میں بڑی قدر ہوئی ؛واضح  رہے کہ ھیمر فیسٹ سے لانے والی اور ہمیں اوسلو لے جانے والی ائیرلائن ایک نہیں تھی؛ دونوں الگ الگ کمپنیاں  تھیں؛ نیز اس فون کو ہم تک پہنچانے کی قانونی ذمہ داری ان پر نہیں تھی؛ کیونکہ وہ بُک کرائے ہوئے سامان کا حصہ نہیں تھا،اس کے باوجود اتنے اہتمام اور ذمہ داری کے ساتھ امانت کو اس کے حق دار تک پہنچانا یقیناً قابل تعریف تھا۔

            بہر کیف!شام چھ بجے کے قریب ہم دوبارہ اوسلو پہنچ گئے؛ رات کا کھانا ہمارے دوست صدیقی صاحب کے مکان پر تھا؛یہ  اوسلو کی ہر دل عزیز شخصیت  ہیں اور اوسلو میں حلال  گوشت اور دوسری اشیا کی تجارت کرتے ہیں؛  یہاں انہوں  نے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ بھی کھولا ہوا ہے،جس محلے میں ان کا مکان اور دوکان ہے وہ پاکستانی باشندوں کی کثرت کی وجہ سے پاکستان ہی کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے ؛یہاں  تک کہ دکانوں  پر لگے ہوئے بورڈبھی اردو میں لکھے ہوئے ہیں۔ آج اوسلو میں غروب آفتاب کا وقت دس بجے تھا؛ اور نوے گھنٹے (تقریباً ساڑھے تین دن) اس حالت میں گزار نے کے بعد کہ ہمارے  سامنے سورج  غروب  نہیں ہوا؛ یہاں غروبِ آفتاب کا نظارہ کیا۔

 

سویڈن میں

          اگلے دن سہ پہر ساڑھے تین بجے ہم ٹرین کے ذریعے ''سویڈن'' کے دارالحکومت ''اسٹاک ہوم'' کے لیے روانہ ہوئے'یہ چھ گھنٹے کا سفر  تھا،ٹرین بڑی صاف ستھری اور آرام دہ تھی؛تقریباً ایک گھنٹہ ناروے میں چلنے کے بعد ہم سویڈن کی حدود میں داخل ہو گئے تھے،اور ٹرین نے زیادہ مسافت سویڈن میں طے سے آراستہ تھا؛ رات کے ساڑھے نو بجے ٹرین  اسٹاک ہوم  پہنچ گئی:اسٹیشن پر ہمارے دوست''چودھری محمد اخلاق  صاحب'' استقبال کے لیے موجود تھے؛ یہ اسٹاک ہوم کے بااثر  تاجر ہیں اور ان کی کرسٹل کی متعدددکانیں  سویڈن اور ناروے میں موجود ہیں؛ اس کے علاوہ یہاں  کی ایک خوب صورت مسجد کی کمیٹی کے صدر بھی ہیں،اور مسلمانوں کی دینی سرگرمیوں  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہتے ہیں۔

            ریلوے اسٹیشن اسٹاک ہوم کے مرکزی علاقے کے بالکل وسط  میں واقع ہے،اور اسی کے قریب ہوٹل  شیراٹن ہے جہاں ہمارا قیام ہوا؛ یہاں غروبِ آفتاب دس بجے سے چند منٹ پہلے ہورہا تھا؛ چنانچہ ہوٹل پہنچ کر ہم نمازِ  مغرب ادا کی؛ اخلاق  صاحب ہمیں ایک لبنانی  ریسٹورنٹ  میں لے گئے؛ جہاں حلال گوشت کا انتظام ہے؛ رات کا کھانا لبنانی انداز کے بھنے ہوئے گوشت کی صورت میں بڑالذیذ ثابت ہوا۔

            اگلے دن اسٹاک ہوم میں کوئی خاص مصروفیت نہ تھی؛دن کے پہلے نصف حصے میں اخلاق صاحب نے شہرکی سیر کرائی؛یہ اسکینڈی نیویا کا سب سے بڑا  اور بارونق شہر ہے؛ تمدنی حسن کے اعتبار سے بھی یہ تمام شمالی ممالک پر فوقیت رکھتا ہے، اور اسے شمالی یورپ کاوینس کہا جاتا ہے؛ سویڈن کا رقبہ ۱۷۳۷۳۲مربع میل ہے؛ جو شمال میں ۵۵ سے لے کر ۷۰ عرض البلد تک پھیلا ہوا ہے ؛لیکن اس کی آبادی نوملین (نوے لاکھ) سے زیادہ نہیں؛ اگر چہ قدرتی حسن کے لحاظ  سے یہ  علاقہ ناروے کی ہمسری تو نہیں کرتا۔لیکن نوے ہزار جھیلوں(۸) پر مشتمل  یہ ملک بھی اپنے طبعی مناظر کے لحاظ  سے دنیا کے حسین ملکوں  میں شمار ہوتا ہے؛ اور سیاسی اعتبار سے اسے اسکینڈی نیویا کا نمبر ایک ملک سمجھا جاتا رہا ہے؛ کیونکہ عرصۂ دراز تک ناروے پر بھی اسی کی حکومت رہی ہے۔

            ہوٹل شیر اٹن جس میں ہم مقیم تھے، وسط شہر میں ایک سمندری خلیج کے سامنے واقع  تھا؛ اور اس کے دائیں جانب اسٹاک ہوم کے سٹی ہال کا فلک بوس ٹا ورواقع  ہے، جو''نوبل ٹاور'' بھی کہلاتا ہے ؛اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا  کا مشہور نوبل انعام اسی جگہ دیا جاتا ہے؛ الفریڈ برنارڈ نوبیل(Alfred Bernard Nobel) دراصل اسٹاک ہوم کا سائنس دان تھا؛ جس نے ڈائنامائٹ  ایجاد کیا ؛کیمسٹری اور انجینئر  نگ میں اس نے  کمال حاصل کیا تھا ،اور اس کے ذریعے بہت دولت کما؛ ئی  بالآخر اس نے اپنے انتّقال(۱۸۹۶ء) سے پہلے اس  دولت سے ایک ٹرسٹ قائم  کر کے یہ وصیت کر دی تھی، کہ ہر سال کسی ایسے شخص  کو اس ٹرسٹ سے عالمی انعام دیا جائے جس نے سائنس ،ادب اور معاشیات میں یا قیامِ امن کے لیے کوئی نمایاں خدمت عالمی  سطح  پر انجام دی ہو؛ چنانچہ ہر سال نوبل پرائز کے نام سے چھ انعامات چھ افراد کو دے جاتے ہیں؛ جن کا فیصلہ تین سویڈن کے ادارے اور ایک ناروے کا ادارہ مل کر کرتے ہیں؛ یہ انعامات ہر سال ۱۰/دسمبرکو(جو نوبل کی تاریخ وفات ہے) اسٹاک  ہوم کے اسی سٹی  ہال میں دیے  جاتے ہیں ،اور اسی کے نام پر یہ ٹا ور نوبل کہلاتا ہے؛جس پر لوگ سیڑھیوں  سے چڑھ کر جاتے ہیں اور شہر کا نظارہ  کرتے ہیں۔

            اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد بھی ہمارے ہوٹل کے قریب  واقع تھی؛ یہ بڑی  پُر شِکوہ خوبصورت اور عالی شان مسجد  ہے؛ سویڈن  میں اس  وقت مسلمانوں  کی آبادی کا اندازہ چار لاکھ کے قریب ہے؛ یہاں کے عرب مسلمانوں نے ''لاربطۃ الاِ سلامیۃ'' کے نام سے ایک تنظیم قائم کی،اور اسی  کی کوششوں  سے  گنبد اور مینار والی یہ شاندار مسجد تعمیر ہوئی؛ وسط  شہر میں بنی ہوئی  ایسی  وسیع  عریض مسجدیں بہت  سے اسلامی ملکوں میں بھی کم دیکھنے میں  آتی ہیں؛ اس میں صفائی ستھرائی اور وضو خانوں کا انتظام بھی  قابل رشک حد تک مثالی ہے؛ مسجد کے ساتھ ایک اسلامی  مرکز  بھی ہے، جس میں ہر روز دینی معلومات فراہم کرنے کے لیے مختلف دروس کا انتظام  ہے، اور مسلمانوں  کی دینی رہنمائی کے مختلف کام کیے جاتے ہیں۔

            چودھری اخلاق صاحب  نے بتایا کہ اسٹاک ہوم میں چھوٹی بڑی  مسجدوں کی کل تعداد تقریباً پینتالیس ہے۔

            یہ جمعرات کا دن تھا اور دن کا دوسرا  نصف حصہ  میں نے ہوٹل ہی میں گزارا ،جس میں معارف القرآن  کا جو کال میرے ساتھ تھا وہ کرتا رہا۔

            اگلے دن جمعہ تھا اور مجھے جمعہ  کا خطاب اُسی مسجد  میں کرنا تھا، جو پاکستانی مسلمانوں نے تعمیر کی ہے،اور جب میں پچھلے سال یہاں  آیا تھا تو اس میں تعمیری کام چل رہا تھا؛اب ماشاءاللہ اس کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے؛ چودھری اخلاق  صاحب اسی مسجد کے صدر ہیں؛ یہاں جمعہ سے پہلے میرا خطاب ہوا، جمعہ  کی نماز کے بعد اسٹاک ہوم کے بہت سے احباب سے ملا قات ہوئی؛ سویڈن  میں پاکستان  کے سفیر جناب '' شاہد کمال صاحب'' جو ابھی چند ماہ پہلے  ہی یہاں سفیر بن کر آئے  ہیں جمعہ  میں موجود تھے؛ اُن سے اور سفارت خانے کے دوسرے عملے سے بھی  ملاقات ہوئی۔

 

فن لینڈ کا سفر

          اسی روز شام پانچ بجے ہمیں  بحری جہاز  سے فن لینڈ  کے دارالحکومت ''ھلسنکی '' جانا تھا؛ چنانچہ جمعہ کے کچھ دیر بعد اخلاق صاحب ہمیں اسٹاک ہوم کی بندرگاہ  پر لے گئے؛ یہاں مختلف جہازراں کمپنیوں نے اپنی اپنی  گودیاں الگ  بنائی  ہوئی ہیں؛ ہمیں  جس جہاز  سے سفر کرنا تھا وہ سیلیالائن(Silija line) تھی؛ چنانچہ ہم اس کے ٹرمینل پر پہنچے ،یہ ٹرمینل  ایئرپورٹ ٹرمینل کی طرح صاف ستھرااور منظّم تھا؛ یہ جہاز اُس جہاز کے مقابلے میں بہت بڑا تھا جس میں ہم نے نارتھ کیپ  کا سفر کیا تھا؛ یہ تیزہ منزلہ  جہاز تھا اور گودی سے بنے ہوئے پُل کے ذریعے  جب جہاز میں داخل ہوں ،تویہ جہاز کی ساتویں  منزل تھی؛ اور یہ جہاز کی منزل کیا تھی؟ ایک بارونق بازار تھا،جس میں دورویہ دکانیں اور ریسٹورنٹ بنے ہوئے تھے؛ جگہ جگہ کیپسول لفٹیں مسافروں کو ایک منزل سے دوسری منزل تک لے جانے کے لیے موجود تھیں؛ غرض پورا جہاز ایک چھوٹا سا منظّم شہر تھا، جس میں تمام  شہری سہولیات مہیا تھیں۔

            جہاز پانچ بجے اسٹاک ہوم سے روانہ ہو اور اس نے بحیرۂ بالٹک میں سفر شروع کر دیا؛ یہ سفر اپنے مناظر کے لحاظ  سے بڑا  پر لطف رہا، دس بجے سورج غروب ہوا ،سمندر سے شفق کی سُرخی اور سفید ی کی حدود زیادہ بہتر طریقے پر دیکھی جا سکتی تھیں؛ چنانچہ میں  جہاز  کے عرشے سے رات ڈھائی بجے تک افق پر شفق کا سفر دیکھتا رہا،اور یہ بات واضح طور پر مشاہدہ میں آئی کہ شفق ابتدامیں جنوب کی طرف مائل تھی، پھر رفتہ رفتہ وہ شمال کی طرف بڑھتی گئی یہاں  تک کہ مشرق  کی طرف مائل ہونے  لگی؛شفق  کے اسی سفر کے دوران شمال  مشرق سے سورج کو نکل آنا تھا؛ اس لیے اُن حضرات کی بات کی تائید ہوئی جو یہ کہتے ہیں کہ ؛جن مقامات پر شفق  غائب نہیں ہوتی ،وہاں جب شفق مشرق کی طرف مائل ہو جائے تو فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔

            صبح ہم بیدار ہوئے تو جہاز فن لینڈ کی حدود میں داخل ہو چکا تھا؛ پھر جب ہماری گھڑیوں میں نوبج رہے تھے اور فن لینڈ کے وقت  کے مطابق دس بج چکے تھے، ہمارا جہاز ھلسنکی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا؛محترم ''نسیم صاحب'' جو سالہا سال سے ھلسنکی میں مقیم ہیں اور یہاں کے بااثر پاکستانی نژاد تاجر ہیں ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے؛جہاز راں کمپنی ہی کی طرف سے یہاں کے ہوٹل''رمادہ'' میں قیام کا انتظام تھا،جو شہر کے بالکل وسط میں واقع تھا؛ فن لینڈ شمالی یورپ کا خاصا اہم ملک ہے،اور اب تو موبائل فون کی کمپنی''نوکیا'' کی وجہ سے اس کی یہ پیداوار دنیا بھر میں استعمال ہو رہی  ہے؛ تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار مربع میل کا یہ ملک شمال میں ۶۰ سے ۷۰ عرض البلد تک پھیلا ہوا ہے ،اور اس کی سر حد یں ناروے ،سویڈن اور روس سے ملتی ہیں؛ روس کا مشہور شہر سینٹ پیٹر زبرگ (جس کا نام  سویت اقتدار کے زمانے میں لینن گراڈتھا) ھلسنکی سے کار کے ذریعے صرف دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے؛ ملک کا تقریباً دس فیصد حصہ پانی ہے؛ دس ہزار جھیلیں ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن آبادی صرف ساڑھے پانچ ملین (پچپن لاکھ) ہے؛ یعنی: کراچی شہر کے آدھے سے بھی کم ؛صنعتی ترقی میں یہ ملک یورپ کے دوسرے ملکوں کی پوری طرح برابری کر رہا ہے؛ یہاں  مخلوط معیشت پر عمل ہو رہا ہے اور باشندوں کے لیے سہولیات بہت زیادہ ہیں؛ تعلیم تقریباً مکمل طور پر مفت ہے صحت اور علاج کا نظام  بھی آسان ہے؛ باشندوں  کو حکومت کی طرف  سے سستے داموں گھر خرید نے کا انتظام ہے؛ ایک عرصے تک فن لینڈ روس کے زیر تسلط رہا لیکن اب  مکمل طور پر آزاد ہے۔

            ھلسنکی  فن لینڈ کا دارالحکومت ہے اور چھوٹا مگر خوبصورت اور تمام جدید شہری سہولیات  سے آراستہ شہر ہے؛جس روز ہم اس شہر میں رہے اس دن ہر شخص کو یہ کہتے پایا کہ؛ آج موسم کا گرم ترین دن  ہے؛ حالانکہ  درجۂ حرارت اس دن صرف ۲۸ڈگری تک پہنچا تھا؛ اور ہمیں  وہ بڑا  معتدل اور خوشگوار محسوس  ہو رہا تھا؛فن لینڈ میں تقریباً بارہ ہزار مسلمان آباد ہیں، جن میں سے صومالیوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی ۵۳۷۱ ہے؛ عراق کے ۲۶۷۰، تر کی کے ۱۷۳۷،ایران کے ۱۷۰۶،بوسنیا کے ۱۴۹۶،یوگوسلاویہ کے ۲۵۱۸،پاکستان کے ۲۰۰،ہندوستان  کے پانچ  اور بنگلہ دیش کے چالیس پچاس مسلمان بھی یہاں آباد  ہیں؛ ھلسنکی میں چھ سات مسجدیں  ہیں؛ اس لیے اسے مصلّی کہنا چاہیے،اس کے امام''مولانا اشرف صاحب'' سے ملاقات ہوئی ،وہ لاہور کے''جامعہ نعیمیہ'' کے فاضل ہیں، اور انگریزی اور فنش زبانوں سے اچھی طرح واقف ہیں؛ میں اس مسجد میں گیا  تو انہوں  نے بتایا  کہ یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں تو باقاعدگی سے جماعت ہوتی ہیں؛ لیکن چونکہ  دوسری نمازوں  کے وقت لوگ دور چلے جاتے ہیں اس لیے ان  میں باقاعد گی نہیں  ہے؛ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اُن کے گھر پر فون کر دیتا ہے، کہ مغرب کی نماز میں  آنا چاہتا ہوں، تو ہو جا کر مسجد کھول دیتے ہیں اور جماعت ہو جاتی ہے؛ حکومت کی طرف سے جیل کے مسلمان قید  یوں کو ہفتے  میں ایک بار درس کا انتظام ہے؛ مولانا اشرف صاحب یہ ہفتہ وار درس دیتے ہیں؛ اس کے علاوہ عام اسکولوں میں بھی ہفتے میں ایک پیر یڈ مذہب کے عنوان کے تحت اسلام  کے بارے میں بچوں  کو معلومات فراہم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے؛ اکثر صومالی اساتذہ اس پیریڈ  میں بچوں  کو  دین کے بارے میں بتاتے ہیں۔

            ھلسنکی میں ایک اور مسجد ''مرکز الدّعوۃالاِسلامیۃ''کے نام سے قائم ہے، اور عموماً''مسجد الاِیمان''کہلاتی ہے؛ یہ مسجد '' گھانا'' کے ایک مسلمان ''محمد شریف صاحب'' نے کویت کے تعاون سے بنائی  ہے؛  ایک اور مسجد ''الرّابطۃ الاِسلامیۃ''کے نام سے استاذ ''خصر شہاب'' کے زیر نگرانی قائم ہے، مجھے اس میں بھی جانے کا موقع  ملا؛ یہاں  اتوار  کو بجوں کی دیننی تعلیم کا انتظام  ہے اور کچھ بچے روزانہ بھی پڑھنے آتے ہیں؛ اس کے ساتھ ایک دارالمطالعہ اور دینی کتابوں کی فروخت  کے لیے دکان بھی ہے،نیز حلال گوشت پر مشتمل  ایک ریسٹورنٹ بھی۔

            ھلسنکی میں ایک دن قیام  کے  بعد ہم اسی بحری جہاز سے واپس اسٹاک  ہوم گئے، اور اسٹاک ہوم گئے، اور اسٹاک ہوم سے پھر ٹرین کے ذریعے اوسلو پہنچے ؛ اوسلو میں دوددن  مکمل آرام بھی کیا اور اس سفر  نامے کا آغاز بھی۔

            یکم جولائی کو میں لندن پہنچا ؛ وہاں  میرے  دوست ظفر سرلٹن والا صاحب کچھ مشورہ کرنا چاہتے تھے؛ یہ مشورہ تو چند گھنٹے  میں ختم ہو گیا،اگلا سارادن میرے  پاس لندن  میں خالی تھا؛ کیونکہ مجھے شام ۶ بجے  واپس  کراچی  کے لیے روانہ ہونا تھا ؛اس دن کو میں نے برٹش لائبریری میں استعمال کیا، لندن میں پہلے متعددکتب خانے مختلف جگہوں پر واقع تھے؛ اب برٹش میوزیم انڈ یا آفس لائبریری وغیرہ سب کو یکجا کر کے '' کنگ کر اس '' ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک بڑی عمارت  میں برٹش لائبریری قائم کر دی گئی ہے؛ میں نے اس کاممبر شپ  پاس بنوایا ہوا ہے اور جب کبھی لندن میں فرصت ملتی ہے، تو اس پاس سے فائدہ اٹھا کر لائبریری کی سیر کرتا ہوں۔

            اس مرتبہ میرے پیش نظر یہ تھا، کہ حضرت  مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی کتاب '' اظہار الحق'' میں (جس کا اردو  ترجمہ میں نے اپنی تحقیق کے ساتھ''بائبل سے قرآن تک'' کے نام سے شائع  کیاہے) جتنے انگریزی کتابوں کے حوالے  آئے ہیں، وہ بہت پرانے ہو گئے ہیں اور اُن کا اصل انگریزی متن دستیاب نہیں؛ یہاں تک کہ جب اظہار الحق  کا انگریزی ترجمہ ہوا ،تو اس  میں بھی ان حوالوں  کو عربی سے ترجمہ کر کے پیش کیا گیا؛حوالوں کے  اصل متن نہیں دیے جا سکے؛یہ قدیم کتابیں  کسی قدیم کتب خانے  ہی میں مل سکتی ہیں؛ اس مرتبہ میرا مقصد  یہ تھا کہ بر ٹش  لائبریری میں یہ کتابیں تلاش  کروں ،اور اگر مل جائیں  تو لندن میں کسی صاحب کو اس کام پر مادہ کروں،کہ ان حوالوں کے اصل انگریری متن جمع کریں۔

            میرے دوست'' مولانا اسماعیل گنگات'' اور بالہم'' مسجد کے امام '' مولانا سکندر صاحب '' میری درخواست پر میرے ساتھ ہو گئے ،اور ہم نے اس غرض سے کئی گھنٹے برٹش لابئریری میں گذارے؛ اب بیشتر لائبریریاں کمپیوٹرائز ڈہوگئی ہیں؛ اور ان میں کتابوں کی تلاش کمپیو ٹر کی مدد سے کرنی پڑتی ہے؛ لیکن یہ بات  کمپیوٹر کا پروگرام بنانے والے پر منحصر  ہے کہ کس لابئریری میں اس نے کتنا آسان پروگرام  بنایا ہے؛ برٹس لائبریری میں کمپیوٹر کا یہ پروگرام کا فی  پیچیدہ بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے کتابوں کی تلاش  اتنی آسان نہیں رہی جتنی کمپیوٹر سے تو قع  ہوتی ہے، پھر بھی بحمد اللہ مجھے مطلب کی متعدد کتا بیں مل گئیں ،جن کے حوالے میں نے نوٹ  کر لیے ؛اس کے علاوہ'' اظہارالحق'' کا ایک فرانسیسی ترجمہ بھی یہاں مل گیا؛ تقریباً دس پندرہ  سال۔ پہلے مجھے ''ڈاکٹر حمید اللہ صاحب'' نے لکھا تھا کہ ''پیرس  '' کے ایک کتب خانے میں انہوں  نے اظہارالحق  کا فرانسیسی تر جمہ دیکھا ہے، جو ناقص ہے؛ مگر میں نے اب  تک خودیہ کتاب نہیں دیکھی تھی؛ آج مجھے براہ راست اسے دیکھنے کا موقع  مل گیا جس کا نام ہے:

            (Idhharuihaqq ou manifestation de la verite) اس کے مترجم کا نام ہے P.V carletti۔ دو جلدوں میں بظاہر یہ مکمل نسخہ ہے؛ اور ۱۸۸۰ء؁ میں Paris ernest lerouxسے شائع ہوا ہے برٹش  لائبریری میں اس کا shelfmark نمبر 14505d2ہے۔ میں نے لائبریری سے اس نسخے  کی ایک مائیکروفلم  کاپی کرانے کا آرڈر بھی دے دیا ،اور انہوں نے ۲۵ دن کے اندر  اس کی مائیکرو فلم کا پی  میرے کراچی کے پتے پر بھیجنے کا وعدہ کیا۔

            اس طرح برٹش لائبریری کا یہ دورہ مفید رہا؛ اب میں لندن میں  رہنے والے کسی ایسے صاحب ذوق  کی تلاش  میں ہوں ،جو اظہارالحق  کے حوالوں کا یہ کام برٹش  لائبریری کی مدد سے مکمل کر سکیں؛اس کے لئے  وہاں اپنے بعض دوستوں سے کہا ،اور اگر کوئی ایسے  صاحب میرا یہ  مضمون پڑھ رہے ہوں جو یہ کام کر سکتے  ہوں ،تو وہ مجھ سے رابطہ قائم کریں اِن شاءاللہ انہیں اس کام کا مناسب حق الخدمت بھی پیش کرنے کا انتظام کیا جائے گا۔

تأثرات

          اس سفر میں میرے تین ہفتے متواتر یورپ کے چار ملکوں  میں گزرے؛ اس مرتبہ میرے سفر  کا بیشتر حصہ تفریحی  نوعیت کا تھا اور اس کامقصد  ہی یہ تھا،کہ کچھ عرصہ معمول  کی مصروفیات سے ذہن  کو آزاد  کر کے گزار  جائے ؛لیکن ساتھ ہی کچھ اجلاسات  میں شرکت ہو گئی ،اور الحمدللہ معارف  القرآن کے لیے قرآن کریم کی سورۃ الحج کے نصف  حصے  اور سورۃ  المؤ منون کے نصف  سے زائد  حصہ  کا انگریزی تر جمہ بھی اسی سفر  کے دوران کرنے کی  سعادت حاصل ہوئی ؛ تاہم چونکہ سفر کا اکثر  حصہ تفریحی انداز کا تھا، اس لیے یورپ کے ان ممالک کو خاصے  قریب سے اور دیر تک دیکھنے کا موقع ملا۔

            ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی یورپ کی  متضاد نوعیت کی خصوصیات  سامنے آئیں ؛ بعض حیثیتوں سے ان کی بے ساختہ  تعریف  کرنے کو دل چاہتا ہے؛ انہوں  نے اپنے اپنے  ملکوں میں جن اخلاقی قدروں کو فروغ دیا ہے اور محنت  وکاوش اور قومی ہمدردی  کے تحت  باشندوں  کو جو سہولیات  مہیا کی ہیں، انسان کی قدرافزائی  اور اس کی انسانی عظمت کے تحفظ  کے لیے  جو مجموعی طرز عمل اختیار  کیا ہے، وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے؛ وہاں  حکام اور عوام کے درمیان غیر معمولی  فاصلے  بھی نہیں ہیں؛پچھلے سال اوسلو میں میں نے جس ڈاکٹر وں کے اجتماع  سے خطاب کیا تھا،اس میں گورنر ایک عام آدمی کی طرح شریک تھا ؛کھانے کا وقت آیا تو وہ بے تکلفی سے مجھ سے بات کرنے کے لیے میری میز پر اپنی کار میں بیٹھ ؛ گیا پروٹوکول کے جو ٹھاٹ باٹ  ہمارے یہاں رواج  پاگئے ہیں، وہ ہاں نہ ہونے کے برابر ہیں؛ ھلسنکی(فن لینڈ) میں شام  کے وقت ہم چہل  قدمی کے لیے  اس کے پارلیمنٹ  اسکوائر والی سڑک  پر نکلے ،تو تھوڑی دیر میں دیکھا کہ ایک جھنڈے والی کار سگنل کے سامنے  آکر رُک  گئی ،اور عام کاروں  کے ساتھ آگے بڑھی  ؛بعد میں پتہ چلا کہ یہ یہاں کی پرائم منسٹر کی کار تھی، اور وہ اس میں موجود  تھی؛ اس کے آگے  پیچھے  نہ کوئی  پائلٹ  نظر آیا، نہ پولیس کی گاڑیاں دکھائی دیں؛ یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ پچھلے دنوں یہ پرائم منسٹر (جو ایک خاتون ہیں) ایک سپر مارکیٹ  میں خریداری  کے لیے گئیں ،تو عام آدمیوں کے ساتھ لائن میں لگی رہیں،اور جب ان کا نمبر آیا تب خریداری کی۔

            غرض سادگی ،صفائی ستھرائی ،حسن انتظام ،معاملات کی صفائی اور امانت اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ ہمیں تقریباً روزانہ  ہی نظر  آتا رہا، اور محسوس ہواکہ یہ صفات معاشرے میں اچھی طرح رچا بسادی گئی ہیں، اور واقعہ  یہ ہے کہ یہ  ہی صفات  ہیں جنہوں  نے ان اقوام  کو دنیا  میں عروج  دیا ہے؛ میرے والد ماجد حضرت مولانا  مفتی  محمد شفیع صاحب  قدس  سرہ بڑی  زریں  بات ارشاد فرمایا  کرتے تھے کہ؛ باطل  میں بذات خود ابھر نے کی طاقت  نہیں  ہے؛ کیونکہ  قرآن کریم کا ارشاد ہے''اِنَّ الۡبَاطِلِ  کَانَ زَھُوۡقًا '' لہٰذا اگر کسی باطل قوم کو ابھر تے ہوئے دیکھو ،تو سمجھ لو کہ کوئی حق  چیز  اس کے ساتھ لگی ہے جس نے اُسے اُبھارا؛لہٰذا جو مغربی  اقوام دنیا میں ترقی کرتی نظر آرہی ہیں،وہ اپنے باطل عقائد ونظریات یا فسق  وفجور کی وجہ  سے نہیں ؛بلکہ ان صفات کی وجہ سے ترقی  کر رہی ہیں جو حق  ہیں،اور جن کا نتیجہ کم ازکم دنیا میں مل کر رہتا  ہے؛ حقیقت میں یہ تمام صفات  اسلامی  تعلیمات کا حصہ ہیں؛ لیکن افسوس  ہے کہ ہم نے انہیں چھوڑدیا؛ اور ان اقوام نے ان پر عمل کر کے عروج حاصل کیا۔

            لیکن دوسری طرف ان ہی اقوام کی بعض صفات ایسی ہیں، کہ انہیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ نہ صرف عملاًپستی  میں جانوروں کی سطح سے بھی نیچے پہنچ گئے ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے معتقدات کے لحاظ سے حماقت اور نادانی کی انتہا کر رکھی ہے؛ سائنس  اور ٹیکنالوجی میں کائنات  کی بال کی کھال نکالنے کے باوجود ابھی تک وہ اس ایمان واعتراف کی دولت سے محروم ہیں، کہ کائنات کا یہ محیرالعقول نظام کسی بنانے والے  کا یہ حق  ہے کہ وہ انسان کو دنیا میں زندگی  گزارنے کا طریقہ بتایئے ؛یہ سامنے کی بد یہی بات ابھی تک سائنس اور حرفت کے ان سورماؤں کی سمجھ میں نہیں آسکی ،اور یہاں پہنچ کر ان کی ساری حکمت ودانائی  ہوا ہو جاتی ہے۔

            دوسری طرف اپنے اپنے ملکوں  میں راحت وآسائش کے تمام اسباب جمع کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کو جس بُری  طرح  تباہ کیا ہے، وہ ہر چشم  بینا کے  لیےایک  درس عبرت  ہے؛ میں نے کہیں پڑھاتھا کہ ناروے کی آبادی کا مختصر حصہ شادی شدہ ہے؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کی اکثر یت شادی دی بغیر ،مادر پدر آزاد زندگی کزار رہی ہے، خاندان کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے، ماں باپ اور بھائی بہن  کے رشتے اپنی مٹھاس کھو چکے ہیں ہر شخص پیسے کی دوڑ میں مبتلا ہے اور اس کی جدوجہد اپنی ذات کی حد  تک محدود  ہے؛ مہمان اور مہمان نوازی کا معاشرتی زندگی میں کوئی تصور نہیں، برسرعام فحاشی  کوئی عیب کی بات نہیں، ہم جنس پرستی  کی لعنت نے انسانی  فطرت مسخ  کر کے رکھ دی ہے، ساری دنیا میں تمبا کو نوشی  کے خلاف مہم چلانے والے اور نشہ آوراشیا کو جرم قرار دینے والے جب چھٹی کی رات میں شراب کے جام کے جام لڈھانے پر آتے ہیں، اور بد حواس  ہوکر جو حرکتیں کرتے ہیں تو اُن میں اور جانوروں میں تمیز  نہیں کی جاسکتی ؛ھلسنکی جاتے ہوئے جس جہاز  کے خوبصورت سفر کا میں نے ذکر کیا اس کا وحشتناک پہلو یہ تھا،کہ رات کے وقت  تقریباً  سب افراد  نشے میں مدہوش ہوکر وہ طوفان بدتمیزی مچائے ہوئے تھے ،کہ ہمارا کیبن سے باہر نکلنا  مشکل ہو گیا؛ اور بے ساختہ زبان پر یہ کلمات آئے کہ''الحمدللہ الذی عافانا ممّا ابتلاھم بہ''۔

          اس لحاظ  سے ان لوگوں کی زندگی دونوں لحاظ سے عیرت کا سامان ہے؛ ان کی زندگی کا اول الذکر پہلو قابل تعریف  وتقلید ہے اور وہی پہلو ہے جس سے اُن کو ترقی نصیب ہوئی ہے؛ لیکن دوسرا پہلو انتہائی گھناؤ نا،قابلِ  نفرت  اور قابلِ اجتناب ہے؛ اس نے انہیں  ترقی نہیں دی بلکہ تباہی کے کنارے پہنچا یا ہے؛ اقبال رحول نے درست کہا تھا کہ؂

قوتِ مغرب نہ از چنگ ورباب

نے زرقص دخترانِ بے حجاب

نے زسحر ساحران لالہ رُوست

نے زعریاں ساق ونے ازقطع موست

قوت افرنگ ازعلم وفن است

ازہمیں  آتش چراغش روشن است

اور؂

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتارکیا

زندگی کی شب تاریک سحر کرنہ سکا

            اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں بالخصوص اور اکثر اسلامی ملکوں میں بالعمول ایک بڑھتا ہوار جحان یہ ہے، کہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر مغربی ملکوں  میں  آباد ہونا  چاہتے ہیں؛ اور اس  میں شک نہیں کہ ہمارے  ان ملکوں  کے حالات  ایسے ناگفتہ بہ ہیں،کہ نہ امن وامان  ہے، نہ باعزت روزگار منہ قابلیت اور محنت کی کما حقہٗ قدر، انصاف مفقود ہے اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے؛ لوگ ان چیز وں سے گھبرا کر باہر نکلنا چاہتے ہیں۔

            لیکن میں مغربی ملکوں کا ہر ساک کئی بار سفر کرتا ہوں ،اور ہاں  کے حالات سے بفضلہٖ  تعالیٰ  اچھی طرح باخبر  ہوں؛ میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ، ممالک ایک مسلمان کے مستقل  قیام کے لائق  ہر گز نہیں ہیں؛ کوئی مجبوری  یا کوئی  بلند  مقصد  سامنے آجائے ،تو بات اور ہے؛لیکن  عام حالات میں یہاں کا مستقل  قیام ایسی  چیز  نہیں ہے جس کے لیے  تگ ودو کی جائے ،اور ہمارے ملک اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود ایک مسلمان کے لیے بسا غنیمت ہیں۔

            پہلی بات یہ ہے کہ ان ملکوں میں بیشک شہری سہولتیں  یہاں سے کہیں  زیادہ میسر  آجاتی ہیں؛(وہ بھی سب کو نہیں) لیکن انسان آخری عمر تک دوسرے تیسرے  درجے کا شہری رہتا  ہے،اور اُسے زندگی بھر وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا  جو یہاں کے اصل باشندوں  کو حاصل ہے؛ دوسری بات یہ ہے  کہ یہ شہری سہولتیں  انسان کو عموماً اپنے دین ،اپنی اقدار  اور اپنی بچوں کے روحانی مستقبل  کی قیمت پر ملتی ہیں؛ بچوں اور خاص طور سے بچیوں  کی تربیت ان ممالک کے رہنے والے مسلمانوں کا سب سے  بڑا  مسٔلہ ہے، جو مجموعی طور پر ابھی تک لایخل ہے؛ والدین بچوں کو عام تعلیمی اداروں  میں پڑھانے پر مجبور  ہیں؛ جہاں کا نصاب ، نظام اور ماحول ایک غیرت مند مسلمان کے لیے تقریباً  نا قابل برداشت ہے، اور جہاں تعلیم  پانے کے بعد بچوں کی ایک بہت  بڑی تعداد  ماں باپ کے ہاتھوں سے تقریباً نکل جاتی ہے؛ ذرائع  ابلاغ  کا حال  یہ  ہے کہ وہ بچوں  کو ابتدائے  عمر ہی سے اپنی روایات سے بغاوت سکھاتے ہیں۔

            تیسری بات یہ ہے کہ بہت سے مغربی شہروں میں مساجد اور اسلامی مراکز  کے قیام کے باوجود، ان ملکوں  کے بیشتر باشندے اذان کی آواز  تک سے محروم ہیں؛ مسجد کے قریب گھر نہ ہو،تو  بہت سے لوگ نماز با جماعت بلکہ جمعہ تک سے محروم رہ جاتے ہیں؛ انسان کے دل سے خدانخواستہ حلال وحرام کی فکر مٹ جائے ،تو بات دوسری ہے؛لیکن اگر کسی کے دل  میں اس فکر کی کوئی رمق ہے ،تو اس کے لیے قدم قدم  پر مشکلات ہیں؛سفر کے  دوران حلال غذا  کا حصول ایک مشکل مسٔلہ ہے؛ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اہل  مغرب کی زندگی کے وہ منفی پہلو جن کا میں نے ابھی ذکر کیا، ان کو دن رات دیکھتے دیکھتے  نگاہیں ان سے مانوس  ہو جاتی ہیں؛ اور ان کی قباحت وشناعت کا احساس کم ہونے لگتا ہے اور بعض  اوقات بالکل مٹ جاتا ہے۔

            اس میں کوئی شک  نہیں کہ جو مسلمان وہاں جاکر آباد ہوگئے ہیں، ان میں بیشمار ایسے غیور مسلمان ہیں  جنہوں نے ان حالات کا ڈٹ  کر مقابلہ کر کے اپنے اسلامی  تشخص  کو  بر قرار رکھا ہے؛ بلکہ  بعض مرتبہ  ان مسلمانوں کے دینی حالات اسلامی ملکوں  کے مسلمان باشندوں سے بدر جہا بہتر ہیں؛لیکن اگر مسلمان آبادی کے مجموعی حالات  کو مد نظر رکھا جائے تو اس صورت حال کو  آبادی کی اکثر یت کی طرف  منسوب نہیں کیا جاسکتا ؛ اور جو لوگ وہاں  آباد ہو ہی گئے ،اُن  کے تحفظ  کے لیے یہ کوشش جاری رہنی ہی چاہئیں اور بفضلہٖ  تعالیٰ اُن میں اضافہ ہو رہا  ہے؛ لیکن میری گزارش  کا مقصد  یہ ہے کہ جو لوگ ابھی ان ممالک میں نہیں پہنچے ،اُن کے لیے وہاں جاکر مستقل قیام کوئی ایسی پرکشش چیز نہیں ہے جس کے لیے بھاگ دوڑ کی جائے۔

            آخری بات یہ ہے کہ مثلاً پاکستان  کی تیزہ کروڑ کی پوری آبادی کے لیے یہ ممکن  نہیں ہے، کہ وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور آباد  ہو جائے ؛اور اگر اچھی صلاحیت  کے لوگوں کا  انخلااسی رفتار سے جاری رہا،جس رفتار سے اس وقت جاری ہے تو اس ملک کی تعمیر کون کرے گا؟ ملک کے حالات بیشک  اچھے  نہیں  ہیں؛ لیکن قوموں پر ایسے وقت آیا ہی کرتے  ہیں؛ اُن کاحل  میدان چھوڑ  کر بھا گنا نہیں بلکہ حالات کی اصلاح  کی کوشش بنائے ؛لیکن یہ ہم میں سے  ہر شخص  کا اپنا  فریضہ  بھی ہے،کہ  وہ اپنے  اپنے دائرہ  اختیار  میں حق  کا چراغ  روشن  کرے ؛اللہ تعالیٰ  کی سنت یہ ہے کہ اخلاص  کے ساتھ جو چراغ جلایا جاتا ہے اُس سے اور چراغ  جلتے ہیں؛ یہاں تک کہ بالآخر اندھیرا دور ہو جا تا ہے۔

            اللہ تعالی ہمیں اس بات کی سمجھ، اس پر عمل کی توفیق اور استقامت عطا فرماے آمین ثم آمین۔

 

 

ناشر                   مکتبہ صدیق

                        جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل سملک ضلع نوساری گجرات

 

Post a Comment

0 Comments