سید
فخرالدین بلے ۔ ایک آدرش ، ایک انجمن
جمیل الدین عالی
Syed Fakhruddin Balley Eik Aadersh Eik Anjuman
By: Jameeluddin
Aali
اٹھائے
پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ
زمیں مجھ پہ کربلاکی طرح
(سَیّد
فخرَالدین بَلّے)
نام سید فخرالدین بلے
ولادت 6,اپریل1930.میرٹھ ۔ یو۔پی
وفات: 28,جنوری2004،ملتان۔
سید
فخرالدین بلے ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک ادارے، ایک تنظیم، ایک انجمن اور ایک جہان
کا نام ہے۔ وہ ایک گھنا اور سایہ دار پیڑ تھے۔ جس کے سا ئے تلے آ کر بہت سے لوگ
دھوپ سے بچے۔ اور اس پیڑ کے پھل سے لطف اندوز ہوئے۔ اس سے آ کسیجن بھی حاصل کی.
اور اس کی خوش بو سے مشامِ دل و جاں کو معطر بھی کیا۔ انھیں اردو، فارسی، انگریزی،
اور ہندی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ ان زبانوں میں انھوں نے مختلف موضوعات پر ڈیڑھ
سو مطبوعات مرتب کیں۔ جن میں کتا بیں، کتابچے اور بروشرز شامل ہیں۔ اخلاق کا پیکر
تھے۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ اس لیے کہہ سکتا
ہوں کہ میرے ان سے تعلقات دو چار برس کا قصہ نہیں ، نصف صدی سے زیادہ کی بات ہے۔
علی گڑھ میں محبت کا جورشتہ قائم ہوا۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط
تر ہوتا چلا گیا۔ لاہور، بہاولپور، ملتان اور راولپنڈی اسلام آباد سمیت وہ جہاں
جہاں بھی گئے۔ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ بہاولپور میں ان کے ساتھ بڑا اچھاوقت
گزرا۔ خداجانے کتنی محفلوں میں ہم اکٹھے شریک ہوئے۔ ان کی یادوں اور باتوں کو
سمیٹنے کے لیے ایک مضمون ناکافی ہے. البتہ کسی ضخیم کتاب میں انھیں ضرور سمویا
جاسکتا ہے۔ اتنی خوبیوں والے انسان میری نظر سے بہت کم گزرے ہیں۔ انھوں نے اپنے
کردار اور خدمات کی بنیاد پر بہت عزت اور محبت سمیٹی۔ ارباب علم و دانش نے ان کے
حوالے سے بہت کچھ لکھا یا کہا ہے۔ جن سے ان کی فنکارانہ عظمت اور اوصاف و خصوصیات
کا پتہ چلتا ہے۔ جوانی ہی میں اپنے جوہر دکھا کر انھوں نے بڑوں بڑوں سے خود کو
منوالیا تھا۔ میں کیا کہوں ؟ آپ یہ دیکھئے کہ ان کے حوالے سے لوگ کیا کہتے ہیں ؟
بابائے اردو
مولوی عبدالحق کاکہناتھا "سیّد فخر الدین بَلّے کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی
نقص نکالنا محال ہے۔" فراق گورکھپوری کے خیال میں "سیّد فخر الدین بَلّے
رنگوں کے بجائے الفاظ سے تصویریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں. " ڈاکٹر عنوان چشتی
نے اپنے تحقیقی مضمون میں لکھاہے کہ "سیّد فخر الدین بَلّے کے اندر نامعلوم
جہان آباد ہیں۔ جو وقتاً فوقتاً ان کے رویوں اور کردار میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ
خواجہ غریب نوازؒ کی یادگار ہیں۔ اس لیے ان کی زندگی اور شاعری میں چشتیہ مسلک اور
تصوف کا رنگ اور بھی کھِلتا اور کھُلتا ہوا نظر آتا ہے. " جوش ملیح آبادی نے
بھری محفل میں کھل کر اپنے مخصوص انداز میں اعتراف کیا کہ ’سیّد فخر الدین بَلّے
کے کلام میں دریا کی روانی اور جذبوں کی فراوانی ہے۔ تاریخ، ادب اور تصوف کا وسیع
مطالعہ ان کے کلام میں بولتا ہوا اور سوچ کے در کھولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔"
میرزا ادیب نے مانا ” ہر ملاقات میں ان کی شخصیت کا ایک نیا رُخ میرے سامنے آیا‘
میں اس کثیر الجہت شخصیت کو پورے اعتماد کے ساتھ علم و ادب کی آبرو قرار دے سکتا
ہوں. " جگن ناتھ آزاد کہتے تھے” سیّد فخر الدین بَلّے کی خوب صورت شعری
تخلیقات پڑھنے یا سننے کے بعد برسوں تک ان کے سحر سے آزاد ہونا مشکل ہے۔"
ڈاکٹر خواجہ زکریا نے لکھا ہے کہ ”سیّد فخر الدین بَلّے کی ذات میں جتنا تنوع تھا۔
اسی قدر رنگا رنگی ان کی نظم و نثر میں موجود تھی۔ ان کی گفتگو بھی مطالعہ اور
تجربے کا امتزاج ہوتی۔ ان سے ملنے والے ایک خوشگوار شخصیت کا نقش دل پر لیے ہوئے
ان سے رخصت ہوتے. " مدیر نقوش محمد طفیل نے بڑے مختلف انداز میں ان کی کثیر
الجہت شخصیت کو تسلیم کیا اور کہا ” مجھے ان میں بیک وقت بہت سی شخصیات یکجا نظر
آئیں‘ میں نے انھیں کبھی ایک شخصیت نہیں سمجھا‘ البتہ ان کا چہرہ ایک ہی ہے.
" غزالیِ زماں رازیِ دوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی نے اپنے تاثرات قلم بند
کرتے ہوئے لکھا ہے "قولِ سیّد المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم من کُنتُ مولاہ، فھٰذا علی مولاہ“ کی تصریحی و صوتی تہذیب کا جو کام حضرت
نظام الدین اولیاؒ نے امیر خسروؒ کے سپرد فرمایا تھا‘ بَلّے صاحب کی یہ نئی تصریحی
تہذیب اسی کا تکملہ نظر آتی ہے۔ ان کا یہ کارنامہ بلا شبہ قابلِ داد اور موجبِ
ستائش ہے۔" خواجہ نصیرالدین نصیرگولڑہ شریف نے دل کھول کر ان کے تاریخی
کارنامے پر داد دی اور کہا ”سبحان اللہ ! سبحان اللہ۔ سیّد فخر الدین بَلّے کا یہ
قول ترانہ موجبِ تحسین و آفرین اور لائقِ صد ستائش تاریخی کارنامہ ہے اور سات
صدیوں کے بعد دوسری بارقول کی نئی تصریحی تہذیب کا اعزاز ملتان کا مقدر بنا ہے.
"
ڈاکٹر اسلم
انصاری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’سیّد فخر الدین بلے نے سات صدیوں کے بعد
رنگ لکھ کر نہ صرف رنگ کی روایات کا تحفظ کیا ہے بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا ہے اور
مجھے یقین ہے کہ اسے دوام کی سند حاصل ہو گی“ ۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ قوالی
میں قول اور رنگ دونوں امیر خسرو کے پیش ہوتے ہیں. لیکن سید فخرالدین بلے نے سات
صدیوں بعد نیا قول ترانہ تخلیق کیا۔ جس کی دھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے ترتیب
دیں۔ اور نیارنگ تخلیق کیا۔ یہ کارنامہ بھی سات صدیوں کے بعد انجام پایا۔
معروف
مستشرقہ این میری شمل، اشفاق خان، پیر آف ہالہ شریف مخدوم طالب المولیٰ، مخدوم
سجاد حسین قریشی، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اور پیر حسام الدین راشدی نے سیّد فخر
الدین بَلّے کو تصوف پر اہم اتھارٹی قرار دیا ہے۔ این میری شمل سے تو سید فخرالدین
بلے کی خط و کتابت بھی رہی۔ ان کے کچھ خطوط بلے صاحب نے مجھے بھی دکھائے تھے۔ وہ
بلے صاحب کی علمیت اور ذہانت کی معترف تھیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی سیّد فخر الدین
بَلّے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اپنے مضمون میں یہی لکھا ہے کہ” تصوف پر ان کی
نظر اتنی گہری ہے کہ آپ بلا تکلف انھیں اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے
ہیں. "
سید
فخرالدین بلے نے مولائے کائنات حضرت علی مرتضی ٰ کرم اللہ وجہہ کی سیرت و شخصیت پر
تحقیقی کام کیا۔ اور اس کا مسودہ ڈاکٹر باقر رضوی کو بھی بھجوایا۔ انھوں نے اسے
بلے صاحب کا ایک کارنامہ قراردیا۔ اور حظ لکھ کر ستائشی کلمات پیش کیے۔
سیّد فخر
الدین بَلّے نے ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل کی حیثیت سے 25 روزہ جشنِ تمثیل 82 کا
اہتمام کیا۔ جسے ایک بڑے ثقافتی دھماکے کا نام دیا گیا۔ اس کامیابی پر انھیں
"مین آف دی سٹیج" اور "محسنِ فن" کا خطاب دیا گیا۔ مجھے یاد
ہے کہ انیس سو اکانوے کی بات ہے۔ غلام حیدر وائیں وزیر اعلا پنجاب تھے۔ اور سید
فخرالدین بلے پندرہ روزہ ۔مسلم لیگ نیوز ۔کے چیف ایڈیٹر تھے۔ فلمی دنیا کا ایک وفد
مسلم لیگ ہاؤس میں وزیر اعلا سے ملنے کے لیے آیا۔ میں اور سید فخرالدین بلے وہاں
پہلے سے موجود تھے۔ بلکہ مجھے بلے صاحب نے پیغام بھجوا کر بلایا تھا۔ اس موقع پر
اداکار محمد علی نے وائیں صاحب سے کہا کہ "ہمیں بھی ایک سیّد فخر الدین بَلّے
مل جائے تو فلم انڈسٹری کو زوال سے بچایا جا سکتا ہے. "
پریشان خٹک
نے سیّد فخر الدین بَلّے کو ادب کی دیو قامت شخصیت کا نام دیا اور کہا کہ انھوں نے
ادب اور فنون کی دنیا میں جو کام کیے، وہ بہت سے اداروں کی مجموعی کارکردگی پر
بھاری ہیں۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی نے لکھا ہے کہ ”سیّد فخر الدین بَلّے ایک شخص کا
نہیں، ایک یونیورسٹی اور ایک تہذیبی ادارہ کا نام ہے۔ اس شخص کے زرخیز دماغ میں
ایک کمپیوٹر نصب ہے، جس میں حکمتِ الٰہی نے اَن گنت اور بے حد و شمار علوم فیڈ کر
دیے ہیں، جن کا ظہور حسبِ ضرورت ہوتا رہتا ہے۔ ہم ان مظاہر کو دیکھتے ہیں اور حیرت
زدہ رہ جاتے ہیں، وہ بے کراں علوم و فنون کے حامل ہیں. "
بھائی جون
ایلیا سید فخرالدین بلے کو اکثر جانِ جاناں کہا کرتے تھے۔ میری موجودگی میں انھوں
نے ڈاکٹر اجمل نیازی، حسن رضوی سمیت کئی بار اخباری انٹرویو دیے۔ یا اسے اتفاق
سمجھئے کہ میں ان کے انٹرویو کے وقت پہنچ جاتاتھا۔ جون ایلیا نے ایک سے زیادہ
مواقع پر بلے صاحب کو جانِ جاناں قراردیا اور کہا کہ ان کی شخصیت اور شاعری دونوں
خوب صورت ہیں۔ شاعری میں ان کی شخصیت بولتی ہے۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا ایک ایسا
جیون بندھن ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان دونوں میں تعمق
ہے۔ حسن ہے۔ اور ایک ایسامخفی جمال ہے، جو خبر اور نظر کا مقتضی ہے۔
اسلام آباد
میں کچھ ادب دوست جوش ملیح آبادی کے صاحب زادے خروش صاحب کے گھر جمع تھے۔ یہ ستر
کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ چائے کے ساتھ شاعری کا دور بھی چلا۔ فخرالدین بلے کی
غزل کو حاصلِ محفل قرار دیا گیا۔ ضمیرجعفری نے اپنے مخصو ص انداز میں داد دی۔ اور
بلے صاحب کی طرف تحسین بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا:
جے میں ویکھاں اوندے ولے،بلے، بلے ،بلے
اس سے خوبصورت داد اور کیا دی جاسکتی ہے؟
بھارت کے
نامور ادیب رام لعل پاکستان آئے تولاہور میں مدیر نقوش محترم محمد طفیل کے صاحب
زادے اور ادب دوست جاوید طفیل نے ادیبوں اور شاعروں کو اپنے گھر مدعو کیا۔ اس
تقریب بہر ملاقات میں ادب کے بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ سید فخرالدین بلے سے
گلے ملتے ہوئے رام لعل نے کہا بہت سے اہلِ علم و ادب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ چند
روز پہلے بھی دلی میں کچھ احباب سے ملاقات ہوئی۔ اور میں نے انھیں بتایا کہ میں
پاکستان جارہاہوں تو آپ کا ذکر چھڑ گیا۔ ان میں آپ کے علی گڑھ یونی ورسٹی کے ساتھی
بھی تھے۔ آپ کی ذہانت کے نقوش ان کے دل و دماغ پر آج بھی موجود ہیں۔ اس پر شریکِ
محفل ڈاکٹر آغا سہیل نے برجستہ کہا کہ فخرالدین بلے ایک شخصیت نہیں، ایک قافلہ
ہیں۔جہاں پڑاؤ ڈال دیں، محفل سج جاتی ہے۔ اگر انھیں بھارت کے ادیب اور شاعر یاد
کرتے ہیں تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں، یہ ادب کی آبرو اور صحافت کا وقار
ہیں۔ کسی کے دل میں گھر بنانا تو کوئی ان سے سیکھے۔ اسی دوران جاوید طفیل صاحب سے
گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ فخرالدین بلے کے ان کے والد بزرگوار محمد طفیل سے بڑے
گہرے مراسم تھے۔
دو دہائی
پہلے کی بات ہے۔ میں نے اپنے غریب خانے پر نعت کی ایک محفل کا اہتمام کیا۔ خوب
صورت نعتیں سننے کوملیں۔ ایمان تازہ ہوگیا۔ حفیظ تائب صاحب نے تو کمال کر دیا۔
سبحان اللہ۔ یقین کیجئے۔ آنکھیں باوضو ہوگئیں۔ ایسا لگا جیسے وہ ہمیں مدینہ منورہ
لے گئے ہیں۔ اسی محفل میں سید فخرالدین بلے نے جب نعت کا نذرانہ پیش کیا تو حفیظ
تائب کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں ہوگیا۔ ان کے لب جنبش کرتے رہے۔ اور محفل
ختم ہونے کے بعد بھی وہ بلے صاحب کا ایک نعتیہ شعر بار بار پڑھتے رہے۔ وہ شعر میرے
حافظے میں آج بھی محفوظ ہے۔ شعر یہ ہے۔
ہے خوفِ خدا
ان کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر
اس کے سواکہہ نہیں سکتے
یہ غالباً
پچاس کی دہائی کی بات ہے۔ کراچی سے ایک اخبار نکلتا تھا۔نوروز۔ فخرالدین بلے اس کے
جوائنٹ ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے ایک بڑا تیکھا مضمون لکھا۔ یہ بتاتا چلوں کہ بلے صاحب
کے دل میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مسلم لیگ کی محبت تو انھیں ورثے
میں ملی تھی۔ ان کی تقریروں اور تحریروں میں نظریہ پاکستان دھڑکتا اور سانس لیتا
ہوا محسو س ہوتا تھا۔ البتہ مسلم لیگی قیادت کی غلط سوچ کی حمایت نہیں کرتے تھے۔
اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلم لیگ کو کسی اور نے نہیں، موسم لیگیوں نے نقصان پہنچایا
ہے۔ وہ علی گڑھ میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکرٹری بھی رہے۔ جس مضمون کا
میں نے ذکر کیا۔ یہ مخدوم حسن محمود کے خلاف تھا۔ لیکن مسلم لیگ کی کھلی حمایت کے
ساتھ۔ مخدوم حسن محمود نے رئیس امروہوی سے پوچھا کہ یہ مضمون نگار کہاں مل سکتے
ہیں؟ انھوں نے کہا شام کو میرے گھر پر مدعو ہیں۔ چنانچہ مخدوم صاحب بھی وہاں آ
گئے۔ انھوں نے بلے صاحب سے کہا کہ آپ نے مضمون بڑا تیکھا لکھا ہے، مجھ پر تنقید
بھی کی ہے اور مجھے سوچنے پر مجبورکردیا ہے۔ آپ کا یہ تنقیدی انداز میرے دل میں
گھر کر گیا ہے۔ بہت سی باتیں ہوئیں. رئیس امروہوی نے کہا بلے صاحب عالم فاضل شخص
ہیں۔ ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں ۔دیکھیے، یہ کہاں تک
پہنچتے ہیں۔ یہ واقعہ مدتوں پہلے خود رئیس امروہوی نے مجھے سنایا۔
جگن ناتھ
آزاد پاکستا ن آئے تو انھوں نے کسی کو کانوں کان خبرنہ ہونے دی۔ ایک دن بلے صاحب
کے گھر قیام کیا. تاکہ کھل کر باتیں کرسکیں۔ بلے صاحب نے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کو
بھی خبر کردی۔ کیونکہ وہ ان کے علاقے کے تھے۔ وہ بھی آ گئے۔ بلکہ ظفر معین بلے
انھیں خود جاکر لائے۔ میں بھی شامل باجہ تھا۔ ادبی موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔
پتہ نہیں کب کب کی باتیں ان لوگوں کو یاد آ نے لگیں۔ مزہ آ گیا۔ جگن ناتھ آزاد نے
کہا کہ لاہور والوں کو میری آمد کا کل پتہ چلے گا۔ دراصل بلے صاحب کی تخلیقات نے
مجھے ان کا گرویدہ بنادیا ہے۔ ان کا فکری کینوس بڑا وسیع ہے۔خیالات کے ترفع پر
انھیں سلام پیش کرتاہوں. ان کا کہنا تھا بلے صاحب کی تخلیقات کے سحر سے برسوں میں
بھی آ زاد ہونا مشکل ہے۔ آزاد واقعی بلے صاحب کے قدردان تھے۔ اس کے بعد موضوعات
بدلتے رہے. چا ئے کے دور چلتے رہے۔ اور میں وہاں سے اپنے دامن میں بہت کچھ سمیٹ کر
اٹھا۔
ڈاکٹر فوق
کریمی انڈیا سے لاہور آئے، وہ علی گڑھ میں بلے صاحب کے کلاس فیلو تھے۔ انھوں نے
بھی یادوں کے دریچے کھول دیے۔ بلے صاحب کے گھر ادبی تنظیم قافلہ کے پڑاو بڑی
باقاعدگی کے ساتھ برسوں ہوتے رہے۔ جن میں، میں بھی جاتا رہا۔ ادیبوں سے ملاقاتوں
کا ایک ایسا پلیٹ فارم تھا، جسے اب آنکھیں ڈھونڈتی ہیں۔ قافلہ پڑاو میں بڑے بڑے
ادیب آیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر فوق کریمی سے یہیں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے انڈیا کے کچھ
ادیبوں کا بلے صاحب کو سلام پہنچایا اور بتایا کہ بھائی قمر رئیس تو آپ کو بہت یاد
کرتے ہیں. ان کا کہنا تھا بلے کو گلے لگا کر آنا۔ مگر میری طرف سے۔ اس کی محبت کا
مجھ پر بڑا قرض ہے۔ کہنا کہ سود معاف کردیجیے گا۔ اور قرضہ میں چکا نہیں سکوں گا۔
رازداری کے ساتھ ڈاکٹر فوق کریمی نے یہ بھی بتایا کہ بھائی قمر رئیس نے بلے صاحب
پر بڑی خاموشی کے ساتھ کچھ لکھنے پڑھنے کا کام شروع کررکھا ہے، اس لیے آپ سمجھ
جائیں کہ میں نے آپ کو یہ کیا؟ کچھ نہیں بتایا۔
سید قاسم
محمود کو شکوہ کرتے میں نے دیکھا. وہ بار بار اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہے کہ
انھوں نے انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا مرتب کی اور اصرار اور مسلسل یاد دہانی
کاسلسلہ جاری رکھنے کے باوجود بلے صاحب نے انھیں اپنے کوائف نہیں بھجوائے۔
منصورعاقل اور
فخرالدین بلے میں بہت سی باتیں مجھے مشترک نظرآتی ہیں۔ دونوں شاعر، ادیب، دانشور،
محبت کرنے اور محبت بانٹنے والی شخصیات اور دونوں کا تعلق انفارمیشن سروس سے رہا۔
دونوں نے صحافت میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ ان دونوں کا حلقہ بڑا وسیع نظر آیا۔ ان
دونوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں میرے دوست ہیں۔ اور مجھے ان کی دوستی
پر فخرہے۔ان کی یادیں میری زندگی کا گراں قدر اور خوب صورت سرمایہ ہیں۔ کتنا اچھا
وقت گزرا ہے میرا، ان دونوں کے ساتھ۔ سوچتاہوں تو دل کرتاہے، وقت پلٹ آئے۔ پھر وہی
محفلیں ہوں، وہی بلے صاحب اور وہی منصور عاقل۔ اور میں انھیں دیکھوں، سنوں اور ان
کی علمی اور ادبی باتوں سے محظوظ ہوسکوں. مگر گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ یہ میں
جانتاہوں مگر دل کو کیسے سمجھوں، وہ یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ۔
بہاولپور سے
میری اور فخرالدین بلے کی بہت سی یادیں جُڑی ہوئی ہیں۔ حیات میرٹھی مرحوم نے ماجد
قریشی ایم اے کو ” دبستانِ بہاولپور “ لکھنے کی ترغیب دی۔جسے بہاولپور کی مستند
ادبی تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں منصور عاقل اور سید فخرالدین بلے دونوں
پر الگ الگ مضمون ہیں۔ اُس وقت بہاولپور کے آسمانِ ادب پر جو ادبی ستارے روشن تھے،
اور جن کی روشنی ملک کے کونے کونے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ان سب کا اس کتاب میں بڑی
محبت کے ساتھ ذکرکیا گیا ہے۔ اس کتاب کاخیال ذہن میں آتے ہی یادوں کے دریچے کھل
گئے ہیں۔ شہاب دہلوی، علی احمد رفعت، ظہور نظر، علامہ رحمت اللہ ارشد، مجید تمنا،
سہیل اختر، ادیب واثقی، تابش الوری، منصورعاقل، سید فخرالدین بلے کس کس کا نام
لوں۔ ان ادبی ستاروں سے ایسی ایسی یادگار محفلیں سجیں، ن میں ایسی ایسی خوب صورت
باتیں ہوئیں کہ آج بھی سوچوں تو روح کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ اُن دنوں طرحی
مشاعروں کابڑارواج تھا۔ یہ پچاس کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔ طرحی مشاعرے میں
فخرالدین بلے نے جو غزل پیش کی، اس کا ایک شعر مجھے ابھی تک یاد ہے۔
پینے والے
تو ہمہ وقت پیاکرتے ہیں
رندِ بدمست
کو پابندیِ اوقات سے کیا
ملتان میں
بلے صاحب نے اپنی زندگی گزاردی۔ کشفی الاسدی اور حکیم عبدالمجید راحی، کیف انصاری،
ڈاکٹر عرش صدیقی، ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر اسلم انصاری، مسعود اشعر، شمس ملک،
ڈاکٹربیدل حیدری، سید سلطان احمد اورسردار رشید قیصرانی کو میں نے سید فخرالدین
بلے کا قدردان پایا۔ ڈاکٹر خیال امروہوی ایران سے واپس آئے توانھوں نے سیدفخرالدین
بلے کی بیٹھک میں اپنے قیامِ ایران کے دفتر کھول دیے۔ انھیں فارسی پر دسترس تھی.
سید فخرالدین بلے سے گفتگو کے بعد انھوں نے کہا کہ آپ یہاں رہتے ہوئے بھی جدید
فارسی پریدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ میں پاکستان میں واپس
آگیا ہوں۔ یہ جدید فارسی کہاں سے سیکھی؟ بلے صاحب مسکرائے اور کہا کہ میں تو ادب
کا ایک ادنا ساطالبِ علم ہوں. البتہ اساتذہ کی جوتیاں سیدھی ضرورکی ہیں۔ ان کا یہ
انکسار ہی ان کے پھل دار شجر ہونے کا غماز ہے۔ انہی کا ایک شعر ہے۔
پیڑ نعمت
بدست و سرخم ہے
ہے تفاخر
بھی انکسار کے ساتھ
صہبا اختر
میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان کے بیان میں اتنی توانائی اور لہجے میں اتنی تاثیر ہے
کہ یہ زور بہت کم شاعروں کو نصیب ہواہے۔ خیالات کا ایسا بہاو ہے جو رکنے کانام
نہیں لیتا۔ وہ نظم کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ میں ان کی شاعری کا مداح ہوں۔ ایک محفل
میں یہ دونوں شریک تھے۔ بلے صاحب نے اپنی نظم بارانِ کرم سنائی۔ جو کوئٹہ میں برف
باری سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔ اس نظم میں تشبیہات اور استعارات کی برسات دکھائی
دی۔ انھوں نے لفظوں سے ایسی تصویر کشی کی کہ مجھے ان کے بارے میں فراق گورکھپوری
کے یہ ریمارکس یاد آئے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بلے صاحب رنگوں کے بجائے الفاظ
سے تصویریں بنانے کا ہنرجانتے ہیں۔ انھوں نے بھی ان کا یقینا ایساہی کوئی کلام سنا
ہوگا۔ اسی لیے تو دوٹوک رائے دے دی۔ صہبا اختر نے دل کھول کرداد دی۔ جون ایلیا نے
کئی شعر بلے صاحب سے بار بار سنے۔ مجھے اتنی خوشی ہوئی جیسے یہ نظم بارانِ کرم بلے
صاحب نے نہیں، میں نے کہی ہو۔اور جیسے یہ داد انھیں نہیں، مجھے ملی ہو۔
سید
فخرالدین بلے محض ایک شخصیت نہیں ایک ادارہ، ایک آدرش، اور ایک انجمن بلکہ ایک
جہان تھے۔ محبتیں بانٹیں، محبتیں سمیٹیں، محبتیں لٹائیں۔ علی گڑھ سے جوتربیت ملی،
وہ ان کی شخصیت میں بولتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ طفیل ہوشیارپوری نے لکھاہے کہ سید
فخرالدین بلے نے چَھپنے کے بجائے ساری عمر چُھپنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے باوجود
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ان کے اندر جو روشنی تھی، اسے وہ اپنے اندرسمیٹ کر نہیں
رکھ سکے۔ وہ روشنی پھیلی اور اتنی پھیلی کہ کوئی نہیں کہہ سکتاکہ فخرالدین بلے
زندہ نہیں ہیں۔ ان کا نام زندہ ہے. ان کا کام زندہ ہے. اور انھوں نے کیونکہ ہمیشہ
چھوٹوں بڑوں کوعزت دی. اس لیے ان سے وابستہ لوگوں نے انھیں اپنے دلوں میں زندہ
رکھا ہے۔ سید فخرالدین بلے کے کچھ زندہ اشعار لوحِ دل پر ابھر آئے ہیں۔
اٹھائے
پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ
زمیں مجھ پہ کربلاکی طرح
ہم نے اے
دوست خودکشی کے لیے
آستینوں میں
سانپ پالے ہیں
اپنے احساس
کو معکوس نہ ہونے دوں گا
فکر کو شعر
میں ملبوس نہ ہونے دوں گا
مجھ پہ جو
کچھ بھی گزرتی ہے مری جانِ وفا
انتقاماً
تجھے محسوس نہ ہونے دوں گا
اب کچھ تذکرہ ان جرائد کا جو
فخرالدین بلے کے زیر ادارت مختلف وقتوں میں شائع ہوئے۔ یہ تمام جرائد اپنے موضوع،
مزاج، اورمندرجات کے اعتبار سے بڑے مختلف ہیں. اس لیے انھیں دیکھ کر بلے صاحب کی
پیشہ ورانہ مہارت اور کثیر الجہتی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ادب کے ساتھ ساتھ ان
کی صحافتی زندگی کا سفر بھی علی گڑھ سے شروع ہوگیا تھا۔ اوربانی ایڈیٹر ” جھلک
“علی گڑھ کی حیثیت سے انھوں نے اپنے فنکارانہ جواہر کی جھلک دکھادی تھی۔ بانی چیف
ایڈیٹر، چیف ایڈیٹر، ایڈیٹر، ایڈیٹر پندرہ روزہ دی یونین علی گڑھ، بانی ایڈیٹر
ماہنامہ جھلک علی گڑھ، جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ نو روز‘ کراچی، جوائنٹ ایڈیٹر
بہاولپور ریویو، بہاولپور، ایڈیٹر ماہنامہ لاہور افیئرز، لاہور، ایڈیٹر ہفت روزہ
استقلال، لاہور، ایڈیٹر ماہنامہ ویسٹ پاکستان، لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ
فلاح لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ اوقاف اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ
ہم وطن اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ یارانِ وطن، اسلام آباد، بانی چیف
ایڈیٹر ہفت روزہ آوازِ جرس، لاہور، بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ مسلم لیگ نیوز،
لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نوائے بلدیات لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ
ہمارا ملتان، ملتان۔
اٹھائے
پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ
زمیں مجھ پہ کربلاکی طرح
(سَیّد
فخرَالدین بَلّے)
سید فخرالدین بلے ۔ ایک آدرش ۔ ایک انجمن / جمیل الدین عالی
Syed
Fakhruddin Balley Eik Aadersh Eik Anjuman
By : Jameeluddin Aali
0 Comments