علم تعبیر کی فضیلت کا بیان
Ilme Tabeer ki Fadhilat ka Bayan
اس بات کو یاد رکھّو کہ علم تعبیر نہایت بزرگ اور شریف ہے
اور حق تعالے ٰنے یہ علم حضرت یوسف صدیق علیہالصَّلوٰۃ والسلام کو عنایت فرمایا تھا ۔ چنانچہ قرآن
مجید میں ارشاد ہے :- وَکَذَالِکَ مَکَنَّا لِیُوۡسُفَ فِی الۡاَرضِ ولِنُعَلِّمَہُ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ
الۡاَحَادِیۡثِ ۔ (ترجمہ) اور ہم نے
اسی طرح زمین پر یوسف کو عزّت دی اور خوابوں کی تعبیر سکھائی)۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس
رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سب سے پہلے حق تعالےٰ نے جو کچھ آنحضرت
صلی اللہ علیہ و آلہٖ واصحابہٖ وسلّم کو عنایت فرمایا تھا کہ آپ نے ایک مقرّب
فرشتہ کو خواب میں یہ کہتے ہُوئے دیکھا "اے محمدؐ! آپ کو بشارت ہو کہ حق
تعالےٰ نے آپ کو انبیاء علیہم السلّام کی جماعت میں شامل کیا اور آپ کو برگزیدہ کر
کے خاتم الانبیاء علیہ السّلام کی جماعت میں شامل کیا اور آپ کو برگزیدہ کر کے
خاتم الانبیاء علیہم السّلام کی حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلّم خواب سے بیدار ہُوئے تو اُس کوخوابِ نبوّت
اور خیر و اقبال فرمایا ۔
اور پھر آنحضرت صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے معراج کے بعد دُوسرا خواب دیکھا۔ چنانچہ حق تعالیٰ کا
ارشاد ہے : -
لَقَدۡ صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّؤيَا
بِالحَقِّ لَتَدۡخُلُنَّ المَسَجِدَ الۡحَرامَ اِنۡشَاءَ اللهُ آمِنِيۡنَ
مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَمُقَصِرِّ یۡنَ لاَ تِخِافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ
تَعۡلَمُوۡا فَجَعۡلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحاً قَرِیۡباً
(ترجمہ) البتّہ تحقیق ہی دکھلایا اللہ تعالےٰ نے اپنے رسول کو خواب حق کے ساتھ ۔
البّتہ داخل ہو گئے تم مسجد حرام میں۔اگر چاہا اللہ نے امن سے منڈاتے ہُو ئے سروں
اپنوں کو اور کتراتے ہوتے نہ ڈرتے ہوگے۔ پس جانا اللہ نے جوکچھ کہ نہ جا ناتم نے۔
پس ورے اس کے یہ فتح نزدیک کی)۔
اور حضرت ابراہیم علیہ الصّلواۃ والسّلام کے قصہّ میں ارشاد
فرمایا ہے :-
اِنِّیۡ اَرٰی فیِ الۡمَنَامِ اَنِّیَ
اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَا ذَا تَرٰی ؕ قَالَ یَٰاَبَتِ افۡعِلۡ مَا تُوۡمَرُ
سَتَجِدُنَیۡ اِنۡ شَآءَاللہُ مِنَ
الصَّابِرِیۡنَ ہ فَلَمَّاَ اَسَلۡمَا وَتَلَّہُ لِلۡجَبِیۡنَ ہ وَنَا دَیۡنَہُ
اَنۡ یَّآبِرَاھِیۡمُ قَدۡ صَدَقۡتَ الرُّؤۡیَا (ج)اِنَّا کَذَلِکَ نَجۡزِی
الۡمُحَسَنِیۡنَ ہ (ترجمہ) اسماعيل !
مَیں نے تجھے خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں تجھے ذبح کر رہا
ہوں۔ تُو اپنی رائے بتا ۔جواب دیا۔ اے میرے باپ ! جو آپ کو حکم ہُوا ہے، بجالائیں،
آپ مجھے انشاء اللہ صابروں میں پائیں گے ۔ جب دونوں اللہ کے
حکم کے مطیع ہوئے اور حضرت ابراہیمؑ نے
حضرت اسماعیلؑ کو ماتھے کے بَل پچھاڑا تو خدا تعالےٰ نے ابراہیم
علیہ السّلام کو پکارا اور کہا اے ابرا ہیم ! تُو نے خواب سچ کرد کھلایا ۔ تحقیق ہم محسنین کو اسی طرح جزا
دیتے ہیں) ۔
اور حدیث شریف میں اس طرح آیا ہے کہ یہ علم حضرت یوسفلیہ
السّلام کا معجزہ تھا اور جو علم پیغمبری
کا مُعجزہ ہو وہ یقیناً بزرگ اور شریف علم
ہوتا ہے اور بعض انبیاء علیہم السّلام جو پیغمبر مُرسل نہ تھے ،اُن کو خواب کر امت
ہو تی تھی۔
اور ہشام بن عروہ
رضی اللہ عنہا اپنے باپ عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت
کی تعبیر میں ارشاد فرمایا ہے لَھُمُ الۡبُشۡرَیٰ فِی الۡحَیٰوۃِ الّدُّنۡیَا (اُن کے لئیے دنیا
کی زندگی میں خوش خبری ہے) اس بشارت سے مُراد تعالے ٰکی مراد نیک لوگوں کا خواب ہے
کہ نیک مرد خود خواب دیکھتا ہے یا کوئی اس کے لیے خواب دیکھتا ہے۔ خواب کی تصدیق
میں بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں اگر سب کو ذکر کیا جائے تو کتاب بہت بڑی ہو
جائیگی۔
اور حضرت انس رضی
اللہ تعالےٰعنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اَلرُّؤۡیَا جُزۡءٌ مِنۡ سِتَّۃَ وَ اَرۡ
بَعِیۡنَ جُزۡ ءً ا مِنَ الَّنَّبَوۃِ (سچّا خواب دیکھنا بنوّت کا چھیا لیسواں حصّہ ہے)۔
یہ حدیث شریف اس
لئے ارشاد فرمائی ہے کہ آپؐ چالیس سال کے تھے کہ جب آپؐ پر وحی ربّانی آئی۔ اور
تریسٹھ سال کے تھے کہ جب دُنیا سے سفر کیا۔ وحی اور دُنیا سے سفر کے درمیان تئیس
سال کا عرصہ ہے اور جو کچھ چاہتے تھے خواب میں چھ ماہ کے عرصے میں دیکھتے تھے۔ چھ
ماہ کو تئیس سال کے ساتھ وہی نسبت ہے جو ایک پہر کو چھیالیس پہر کے ساتھ نسبت ہے۔
اس لیے آپؐ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ سچّا خواب نبوّت کا چھیالیسواں حصّہ ہے۔
دوسرے پیغمبروں کا
بھی یہی حال تھا کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے اللہ تعالےٰ اُن کو خواب میں دیکھاتا تھا
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالےٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سچاّ خواب وحی ہے تاکہ دیکھنے والا نیک و بد سے
مطلع ہو جائے تاکہ دُنیا میں مغرور نہ ہو اور امرِ حق سے غافل نہ رہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور روایت کی ہے کہ
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم بیمار ہوئے آپ کے سامنے آپ ؐکے اصحاب غمناک
آئے اور عرض کی کہ آپؐ ہم کو بہتری کی خبر
دیتے تھے۔ اگر خدا نخواستہ آپ فوت ہو گئے تو ہم کو کارِ دین کے اختیار کرنے کی کون
ترغیب دے گا؟ اور اس کی تدبیر کی خبر کیسے جانیں گے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ
ٖواصحابہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ بَعۡدَ وَفَاتِىۡ يَنَقَطِعُ الۡوَحۡیُ وَلاَ يَنۡقَطِعُ الۡمُبَّشَراتُ (میری وفات کے بعد وحی منقطع ہو جائے گی۔ لیکن سچّی خوا بیں منقطع نہ ہوں گی )۔
اصحابِ کرام نے عرض کیا کہ یا حضرت مبشّرات کیا چیز ہے ؟ آپؐ نے فرمایا : الرُّؤُیَا الصَّالِحَۃُ الَّتِیۡ یَرَاھَالَہُ
الۡمَرۡء الصَّالِحُ اَوۡ یُرَے لَہُ (نیک خواب جس کو نیک مرد خود دیکھے۔ یا اُس کے لیئے
کوئی اور دیکھے)۔
اور حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ اُنہوں نے کہا ہے کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم سے سنُا ہے
کہ اپنے اصحاب کو فرماتے تھے کہ اگر کوئی تم سے اچھا اور نیک خواب دیکھے تواللہ
تعالیٰ کا شکر بجالائےاور وہ خواب اپنے برادر اور دوستوں کو بھی بتائے اور اگر نیک
آدمی بُرا خواب دیکھے تواَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیۡطاَنِ الرَّجِیۡمِ ؕ (مَیں اللہ تعالےٰ کے ساتھ رانِدۂ درگاہ شیطان سے پناہ
مانگتا ہوں)پڑھے اور شیطان کی شرارت سے اللہ تعالےٰ کی پناہ میں جائے اور وہ خواب
کسی کو نہ سُنائے تاکہ اُس کونقصان اور تکلیف نہ پہنچے
اور حضرت امیر المومنین علی بن ابو طالب کرم اللہ وجہہٗ سے
روایت ہے کہ اُنہوں نے فرمایا ہے کہ جب مومن کوئی خواب دیکھے یا اُس کو خواب میں
دیکھیں تو اُس خواب کی تعبیر جاننی واجب ہے۔ تاکہ نیک خواب سے خوشی کا حصّہ پائے
اور بُرے خواب سے بچے یعنی دُعا اور عبادت اور صدقات میں مشغول ہو جائے۔
حضرت ابن سیرین
رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو کوئی شخص علم کو طلب کرتا ہے۔ اُس کی اصل
سے نہیں پھرتاہے اور اس کا قیاس تعبیر کونہیں چاہتا ہے اور اس طریق کو معلوم کرتا
ہے۔ لیکن یہ علم اصل سے لوگوں کے احوال کے
ساتھ صورت اور صفت۔ قدر اور دیانت - ہمت اور ارادت اور اوقات کے اختلاف سے بدل
جاتا ہے۔ کیونکہ گاہے تعبیر مِثل اور اصل سے ہوتی ہے اور گاہے ضد کے ساتھ ہوتی ہے
۔ گا ہے واقفیّت ہوتی ہے اور پریشان خواب بے اصل ہوتے ہیں ۔
اوؔر جان رکھو کہ ہر ایک علم کا عالم دُوسرے
علم سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ لیکن تعبیر بیان کرنے والے کے لئیے علمِ
تفسیرِ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی احادیث کا علم اور امثالِ
عرب و عجم اور نوادر۔ اوز اشتقاق ِلُغت اور الفاظِ متداولہ جو ایک دُوسرے سے نکلتے
ہیں۔ ان سب کا جاننا ضروری ہے اور تعبیر بیان کرنے والے کے لئیے بزرگ اور لطیف اور ادیب ہونا بھی ضروری ہے اور
تعبیر بیان کرنے والے کے حالات اور خصائل اچھی طرح جانتا ہو۔اور ہر وقت حقانی
توفیق کا طالب رہے تاکہ حق تعالےٰ اپنے کرم کے ساتھ اُس کی راہنمائی کرے اور اُس
کی زبان صالح اور نیک ہو اور یہ باتیں خدائے تعالےٰ کی طرف سے ایسے آدمی کو عنایت
ہوتی ہیں کہ اُس کی طبیعت سب باتوں سے پاک ہو اور لقمۂ حرام کھانے اور بے ہودہ
باتوں سے بچنے والا ہو اور گناہوں سے محتر ز ہو تا کہ سررشتۂ علماء اور انبیاء
علیہم السلّام کے وارثوں میں شمار کیا جائے۔ لہٰذا عقلمندوں پر علم ِتعبیر کا
جاننا اور اور اس کے قواعد کا پہچاننا واجب ہے۔ کیونکہ اس علم کی طرف ہر ایک شخص
عام اور خاص ، جاہل اور عالم کو محتاجی ہے۔ لیکن وہ لوگ کہ جن کی شان میں حق
تعالےٰ نے ارشاد فرمایا ہے :۔ اُوْلٰٓئِکَ کَا لْاَ نْعَام ؕ بَلْ ھُمَ اَضَلُّ اُوْلِئٓکَ ھُمُ الْغَا فِلُوْنَ ہ (ترجمہ) کہ وہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں۔ بلکہ اُن سے بھی زیادہ
گمراہ ہیں ، وہی لوگ غافل ہیں ) ایسے لوگوں کو ضرورت نہیں ہے ۔ اور اللہ تعالے بہتری
کو خوب جانتا ہے۔
تعبیرالرؤیاء
مصنف
علا مہ ابن سیرین
اُردو ترجمہ
ابو القاسم دلاوری
ناشر
فرید بُکڈپو (پرائیویٹ ) لمٹیڈ
0 Comments