دسویں فصل
جاہلوں کے پاس خواب بیان کرنے میں
Jahilon ke paas
Khwab bayan karne mein
حضرت کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ دانا لوگ کہتے
ہیں کہ جاہل کے پاس خواب نہ بیان کرنا چاہئے اور جاہل سے تعبیر بھی نہ پُوچھی جائے
اور لوگوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اگر جاہل سے تعبیر پوچھی جائے جو کُچھ وہ
کہہ دے گا، اسی طرح ہو جائے گا۔ کیونکہ خواب کا نمائندہ فرشتہ ہے وہ ہر گز خطا
نہیں کرتا ہے اور جو کُچھ کہتا ہے حق ہوتا ہے۔ نادان کے غلط تعبیر دینے سے حق باطل
نہیں ہو سکتا ہے۔ عالم اور جاہل میں بہت فرق ہے۔ حق تعالےٰ کا ارشاد ہے: قَلۡ ھَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ
لاَ یَعۡلَمُوۡنَ ہ(ان سے کہہ دو کہ
عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابٖہ وسلّم
نے ارشاد فرمایا ہے : لاَ یَسۡتَوِیۡ الۡعَالِمُ وَالۡجَا ھِلُ (علم والا اور بے علم برابر نہیں ہے)اور چونکہ خواب کو ظاہر
کرنے والا فرشتہ ہے جو لوحِ محفوظ سے بتاتا ہے، خبر پہنچے گی یاشرّ پہنچے گی۔ اگر
عالم یا جاہل اُس کو پھیرنا چاہیں تو ہونے والی چیز ضرور ہو کر رہے گی۔ کسی سے
سوائے قضا کے معلّق کے جو صدقات اور دُعا سے ٹل جاتی ہے، ہر گز پھر نہ سکے گی۔
جب ملک ریّان (شاہ مصر) نے وہ خواب دیکھا جیسا کہ حق تعالےٰ
نے فرمایا ہے : قَالُوۡا صۡغَا
ثُ اَحۡلاَمٍ وَمَا نَحۡنُ بِتَاۡوِیۡلِ اَلۡاَ حۡلّامِ بِحَا لِمِیۡنَ )انہوں نے جواب دیا کہ یہ پریشان خواب ہے اور ہم پریشان خوابوں کی تاویل نہیں
جانتے ہیں(بادشاہ نے اپنی قوم کو بُلایا اور اپنے خواب کا حال پُوچھا
۔ اَٰیُّھَا
الۡمَلَؤُ اَفۡتُوۡ نِیۡ فِے رُؤۡیَا یَ اِنۡ کُنۡتُمۡ لِلۡرُّؤۡیَا تَعۡبُرُوۡنَ
ہ (سردارو! میرے خواب بابت فتو ےٰ
دو۔ اگر تم خواب کی تعبیر بیان کرسکتے ہو) پھر حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے
تعبیر بیان کی اور سات سالہ قحط کا بیان دیا۔ یہاں سے معلوم ہُوا کہ جاہلوں کی
تعبیر سے خواب کا حق باطل نہیں ہو سکتا :-
کتا ب کا نام
تعبیرالرؤیاء
مصنف
علا مہ ابن سیرین
اُردو ترجمہ
ابو القاسم دلاوری
ناشر
فرید بُکڈپو (پرائیویٹ ) لمٹیڈ
0 Comments