Nafs Aur Rooh Ke Yad Karne Ke Bayan Mein|نفس اور روح کے یاد کرنے کے بیان میں

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Nafs Aur Rooh Ke Yad Karne Ke Bayan Mein|نفس اور روح کے یاد کرنے کے بیان میں

تیسری فصل
نفس اور روح کے یاد کرنے کے بیان میں
Nafs Aur Rooh Ke Yad Karne Ke Bayan Mein
 

قرآن مجید میں حق تعالےٰ کا ارشاد ہسے، اَللہُ یَتَوَ نِیّ الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِھَا وَالَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِھَا فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضَیٰ عَلَیۡھَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡریٰ اِلٰی اَجۡلً مُّسَمّٰی ہؕ (ترجمہ) اللہ تعالےٰ موت کے وقت جانوں کو بھر پور  کر دیتا ہے اور اس کو جو اپنی نیند میں نہیں مرا ہے جس پر موت کا حکم ہے اس کو روک لیتا ہے اور دوسرے کو وقت ِمقررّ تک  چھوڑ دیتا ہے:-

 علماء اور حکماء کے درمیان نفس اور رُوح کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دونوں ایک ہی چیز ہے۔ نفس اور روح کے معنے جان ہیں ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ کلامِ عرب مین نفس کے آٹھ معنے ہیں ۔ جانؔ ۔خُونؔ ۔آبؔ۔منیؔ۔براؔز ہِمّتؔ جسم  ۔ہا ؔتھ اور رُوح  کے بارہ  معنے ہیں۔ جانؔ۔ بادؔ۔ کلامؔ ۔ رُوحؔ القدس ۔ بارانؔ۔ وحیؔ ۔ افسونؔ۔ مسیحؔ ۔ مریمؔ۔ زندگانیؔ۔ فرشتہؔ۔ رحمتِ حق تعالےٰ۔

اور حکما ء  کی دوسری  جماعت کہتی ہے کہ خواب دیکھنے والے کی جان جسم سے نکلتی ہے اور آسمان پر جاتی ہے اور دیکھے سُنے کو یاد رکھی ہے اور بیداری کے وقت پھر جان جسم میں آتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ و سلّم  نے فرمایا ہے جو شخص طہارت سے ہوتا ہے اور ذکرِ حق زبان پر جاری رکھتا ہے۔ اس کی جان کو آسمان پر لے جاتے ہیں ۔

بعض تعبیر بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ واصحابٖہ وسلّم کا فرمان نہیں ہے۔ اگر سوئے ہُوئےآدمی کی جان جسم سے جاتی تو سانس لینے کی حرکات باقی نہ رہتیں ۔ چونکہ سونے والا سانس لیتا ہے اس سے معلوم ہُوا کہ جان جسم میں رہتی ہے۔

بعض لوگ جان اور روان میں فرق کرتے ہیں کہ سوتے وقت روان جسم سے نکلتی ہے اور جہان کے گرد گُھوم کر پھر جسم میں واپس آجاتی ہے اور دیکھی ہوئی چیز کی جان کو خبر دیتی ہے۔

 اس کی یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ جان قُرصِ آفتاب کے مشابہ ہے اور روان آفتاب کی روشنی کے مشا رہے۔ جیسے آفتاب کا قُرص چوتھے آسمان پر ہے اور اس کی روشنی سارے جہان میں ہے۔

 اور حکماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جاؔن اور روؔان ایک ہی چیز ہے۔ دونوں میں فرق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی صفتِ قیاس عقلی کے مطابق ایسی ہے جیسے برف پانی اور پانی برف سے ہے۔

اور حکیم ارسطاطالیس کے نزدیک نفس مبدار اوّل ہے اور روح سے زیادہ شریف اور بزرگ ہے۔ لیکن نفس اور رُوح کی حقیقت ہم نے اپنی کتاب سماز المسائل میں بیان کر دی ہے اور حکماء کے اقوال اس میں درج کر دیئے ہیں۔

 اہل ِسنت والجماعت کے نزدیک رُوح امرِربّ ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَیَسۡئَلُوۡ نَکَ عَنِ الرُّوۡحِ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَ بِّیۡ۔ (ترجمہ) جو لوگ آپ سے رُوح کی بابت سوال کرتے ہیں، اُن سے کہہ دو کہ رُوح میرےرب کا امر ہے ۔

ہمارا اعتماد حق تعالےٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابٖہ وسلّم کے فرمان پر ہے اور حکماء کے اقوال بیان کرنے  کا یہ منشاء ہے کہ یہ کتاب اُن کے ذکر سے بھی خالی نہ رہے۔ حق تعالےٰ ہم کو دین ِالٰہی اور سُنّت ِپیغمبرصلی اللہ علیہ وسلّم پرقائم  رکھے اور توفیق و کرامت عنایت فرمائے۔

 

حاشیہ

ا؎             بیداری :جاگنا 

۲؎          طہارت سے مرادوضو ہے پاکیزگی

۳؎          قرصِ آفتاب:آفتاب کی ٹِکیہ

۴؎          مبدار:جائے آغاز شدن:

۵؎          اعتماد : بھروسہ ،اعتبار

کتا ب کا نام

تعبیرالرؤیاء

مصنف

علا مہ ابن سیرین

اُردو ترجمہ

ابو القاسم دلاوری

 ناشر

فرید بُکڈپو (پرائیویٹ ) لمٹیڈ

 


Post a Comment

0 Comments